• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-نَوْعٌ آخَرُ مِنْ صَلاةِ الْكُسُوفِ
۱۰-باب: سورج گرہن کی صلاۃ کی ایک اور قسم کا بیان​


1471- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يُحَدِّثُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ أُصَدِّقُ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا شَدِيدًا يَقُومُ بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ثَلاثَ رَكَعَاتٍ، رَكَعَ الثَّالِثَةَ، ثُمَّ سَجَدَ حَتَّى إِنَّ رِجَالا يَوْمَئِذٍ يُغْشَى عَلَيْهِمْ، حَتَّى إِنَّ سِجَالَ الْمَائِ لَتُصَبُّ عَلَيْهِمْ مِمَّا قَامَ بِهِمْ، يَقُولُ إِذَا رَكَعَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ "، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، فَلَمْ يَنْصَرِفْ حَتَّى تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُكُمْ بِهِمَا، فَإِذَا كَسَفَا فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ -عَزَّوَجَلَّ - حَتَّى يَنْجَلِيَا "۔
* تخريج: م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، د/ال صلاۃ ۲۶۱ (۱۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۲۳)، حم۶/۷۶ (شاذ)
(تین رکوع کا تذکرہ شاذ ہے، محفوظ بات دو رکوع کی ہے، خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں دو رکوع کا تذکرہ ہے، دیکھئے حدیث رقم: ۱۴۷۳)۔
۱۴۷۱- عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا ہے جسے میں سچا سمجھتا ہوں، میرا گمان ہے کہ ان کی مراد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے لوگوں کے ساتھ بڑی دیر تک صلاۃ میں قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر قیام کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر قیام کرتے پھر رکوع کرتے، اس طرح آپ نے دو رکعت پڑھی، ہر رکعت میں آپ نے تین رکوع کیا، تیسرے رکوع سے اٹھنے کے بعد آپ نے سجدہ کیا یہاں تک کہ اس دن آدمیوں پر غشی طاری ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کے اوپر پانی کے ڈول انڈیلنے پڑ گئے تھے، آپ جب رکوع کرتے تو ''اللہ اکبر'' کہتے، اور جب سر اٹھاتے تو ''سمع الله لمن حمده'' کہتے، آپ فارغ نہیں ہوئے جب تک کہ سورج صاف نہیں ہو گیا، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور آپ نے اللہ کی حمدوثنا بیان کی، اور فرمایا: ''سورج اور چاند کو نہ تو کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، لیکن یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ تمہیں ڈراتا ہے، تو جب ان میں گرہن لگے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، اور ذکر الٰہی میں لگے رہو جب تک کہ وہ صاف نہ ہو جائیں''۔


1472- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ - فِي صَلاةِ الآيَاتِ - عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، قُلْتُ: لِمُعَاذٍ: عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: لاَ شَكَّ وَلا مِرْيَةَ۔
* تخريج: م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۲۵) (شاذ)
(دیکھئے سابقہ روایت)
۱۴۷۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چار سجدوں میں چھ رکوع کئے۔
اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے معاذ بن ہشام سے پوچھا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے نا، انہوں نے کہا: اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-نَوْعٌ آخَرُ مِنْهُ عَنْ عَائِشَةَ
۱۱-باب: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی سورج گرہن کی صلاۃ کی ایک اور قسم کا بیان​


1473- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ، فَكَبَّرَ، وَصَفَّ النَّاسُ وَرَائَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَائَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلاً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ قَامَ، فَاقْتَرَأَ قِرَائَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَائَةِ الأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا هُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ تَعَالَى، لاَيَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَصَلُّوا حَتَّى يُفْرَجَ عَنْكُمْ "، وَقَالَ رَسُولُ اللَّه رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " رَأَيْتُ فِي مَقَامِي هَذَا كُلَّ شَيْئٍ وُعِدْتُمْ، لَقَدْ رَأَيْتُمُونِي أَرَدْتُ أَنْ آخُذَ قِطْفًا مِنْ الْجَنَّةِ حِينَ رَأَيْتُمُونِي جَعَلْتُ أَتَقَدَّمُ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ، وَرَأَيْتُ فِيهَا ابْنَ لُحَيٍّ، وَهُوَ الَّذِي سَيَّبَ السَّوَائِبَ "۔
* تخريج: خ/الکسوف ۴ (۱۰۴۶)، ۵ (۱۰۴۷)، ۱۳ (۱۰۵۸)، العمل فی ال صلاۃ ۱۱ (۱۲۱۲)، بدء الخلق ۴ (۳۲۰۳)، م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، د/ال صلاۃ ۲۶۲ (۱۱۸۰) مختصراً، ق/الإقامۃ ۱۵۲ (۱۲۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۲) (صحیح)
۱۴۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ (صلاۃ کے لیے) کھڑے ہوئے، اور تکبیر کہی، اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بڑی لمبی قرأت کی، پھر اللہ اکبر کہا، اور ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، تو ''سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد'' کہا، پھر آپ کھڑے رہے، اور ایک لمبی قرأت کی مگر پہلی قرأت سے کم، پھر تکبیر کہی، اور ایک لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے چھوٹا، پھر آپ نے ''سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد'' کہا، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدے پورے کیے، آپ کے صلاۃ سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہو گیا، پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کیا، تو اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی جواس کے شایان شان تھی، پھر فرمایا: بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے، نہ کسی کے پیدا ہونے سے، جب تم انہیں دیکھو تو صلاۃ پڑھو، جب تک کہ وہ تم سے چھٹ نہ جائے، نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں نے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ میں ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا، میں نے چاہا کہ جنت کے پھلوں میں سے ایک گچھا توڑ لوں، جب تم نے مجھے دیکھا میں آگے بڑھا تھا، اور میں نے جہنم کو دیکھا، اس حال میں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو توڑ رہا تھا جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا، اور میں نے اس میں ابن لحی ۱ ؎ کو دیکھا، یہی ہے جس نے سب سے پہلے سائبہ ۲؎ چھوڑا ''۔
وضاحت ۱؎: اس کا نام عمرو ہے اور باپ کا نام عامرہے اور لقب لحی ہے۔
وضاحت ۲؎: سائبہ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جسے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیا گیا ہو، اور اس سے سواری اور بار برداری کا کوئی کام نہ لیا جاتا ہو۔


1474- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنُودِيَ: الصَّلاةُ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ .
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۶۶ (صحیح)
۱۴۷۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو ''الصلاة جامعة'' (صلاۃ با جماعت ہوگی) کی منادی کرائی گئی، چنانچہ لوگ اکٹھا ہوئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو رکعت میں چار رکوع اور چار سجد ے کئے۔


1475- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَسَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ -، وَكَبِّرُوا وَتَصَدَّقُوا "، ثُمَّ قَالَ: " يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ! مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ! وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "۔
* تخريج: خ/الکسوف ۲ (۱۰۴۴)، م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، وقد أخرجہ: د/ال صلاۃ ۲۶۵ (۱۱۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۴۸)، ط/الکسوف ۱ (۱)، دي/ال صلاۃ ۱۸۷ (۱۵۷۰) (صحیح)
۱۴۷۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگاتو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، آپ نے لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا، اور سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا، پھر آپ فارغ ہوئے اس حال میں کہ سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ نے لوگوں کو خطاب کیا، پہلے آپ نے اللہ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ''سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لکتا ہے، اور نہ ہی کسی کے جینے سے، تو جب تم اسے دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، اور اس کی بڑائی بیان کرو، اور صدقہ کرو''، پھر آپ نے فرمایا: ''اے امت محمد! اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی اس بات پر غیرت کرنے والا نہیں کہ اس کا غلام یا لونڈی زنا کرے، اے امت محمد! قسم اللہ کی، اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ''۔


1476- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ عَمْرَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتْهَا، فَقَالَتْ: أَجَارَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ النَّاسَ لَيُعَذَّبُونَ فِي الْقُبُورِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "عَائِذًا بِاللَّهِ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مَخْرَجًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَخَرَجْنَا إِلَى الْحُجْرَةِ، فَاجْتَمَعَ إِلَيْنَا نِسَائٌ، وَأَقْبَلَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ ضَحْوَةً، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلاً، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلاً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ دُونَ رُكُوعِهِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِيَةَ، فَصَنَعَ مِثْلَ ذَلِكَ إِلاَّ أَنَّ رُكُوعَهُ وَقِيَامَهُ دُونَ الرَّكْعَةِ الأُولَى، ثُمَّ سَجَدَ وَتَجَلَّتْ الشَّمْسُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ فِيمَا يَقُولُ: " إِنَّ النَّاسَ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ "، قَالَتْ عَائِشَةُ: كُنَّا نَسْمَعُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۷ (۱۰۴۹)، ۱۲ (۱۰۵۵)، م/الکسوف ۲ (۹۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳۶)، ط/الکسوف ۱ (۳)، حم۶/۳۵، دي/ال صلاۃ ۱۸۷ (۱۵۶۸، ۱۵۷۳)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۴۷۷، ۱۵۰۰ (صحیح)
۱۴۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے، یہ سنا تو عائشہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں کو قبر میں بھی عذاب دیا جائے گا؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ کی پناہ''۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کہیں جانے کے لیے نکلے اتنے میں سورج گرہن لگ گیا، توہم حجرہ میں چلے گئے، یہ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی ہمارے پاس جمع ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور یہ چاشت کا وقت تھا، آپ صلاۃ کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے صلاۃ میں لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، تو قیام کیا پہلے قیام سے کم، پھر آپ نے رکوع کیا، اپنے پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا، پھر آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے، تو اسی طرح کیا مگر دوسری رکعت میں آپ کا رکوع اور قیام پہلی رکعت سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سورج صاف ہو گیا، تو جب آپ فارغ ہوئے، تو منبر پر بیٹھے، اور جو باتیں کہنی تھیں کہیں، اس میں ایک بات یہ بھی تھی: '' کہ لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جائیں گے، جیسے دجال کے فتنے میں آزمائے جائیں گے''، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس کے بعد سے برابر ہم آپ کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-نَوْعٌ آخَرُ
۱۲-باب: سورج گرہن کی صلاۃ کے ایک اور طریقہ کا بیان​


1477- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ - هُوَ الأَنْصَارِيُّ - قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: جَائَتْنِي يَهُودِيَّةٌ تَسْأَلُنِي، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا جَائَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُعَذَّبُ النَّاسُ فِي الْقُبُورِ؟ فَقَالَ: " عَائِذًا بِاللَّهِ "، فَرَكِبَ مَرْكَبًا، - يَعْنِي -، وَانْخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَكُنْتُ بَيْنَ الْحُجَرِ مَعَ نِسْوَةٍ، فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَرْكَبِهِ، فَأَتَى مُصَلاَّهُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الأَوَّلِ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ "، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۴۷۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت مجھ سے کچھ پوچھنے آئی تو اس نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے، تو جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آئے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا لوگ قبروں میں بھی عذاب دیئے جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: '' اللہ کی پناہ''، پھر آپ (کہیں جانے کے لیے) سواری پر سوار ہوئے کہ ادھر سورج گرہن لگ گیا، اور میں دوسری عورتوں کے ساتھ حجروں کے درمیان بیٹھی تھی کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر کر آئے، اور اپنے مصلی کی طرف بڑھے، آپ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی تو لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر آپ (سجدہ سے کھڑے ہوئے) اور آپ نے قیام کیا، مگر اپنے پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا، اپنے پہلے رکوع سے کم، پھر اپنا سر اٹھایا تو قیام کیا اپنے پہلے قیام سے کم، تو یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، اور سورج صاف ہو گیا، تو آپ نے فرمایا: '' تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے اسی طرح جس طرح دجال کے فتنے سے آزمائے جاؤ گے''۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس کے بعد سے میں نے برابر آپ کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔


1478- أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي كُسُوفٍ فِي صُفَّةِ زَمْزَمَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وقد أخرجہ: خ/الکسوف ۱۸ (۱۰۶۴) بلفظ ''أربع رکعات فی سجدتین''بدون ذکر الصفۃ (شاذ)
(آپ صلی الله علیہ وسلم نے زندگی میں صرف ایک بار وہ بھی مدینہ میں سورج گرہن کی صلاۃ پڑھی ہے، یہ روایت شاذ ہے، کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے)۔
۱۴۷۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کسوف کی صلاۃ میں زمزم کے چبوترے پر چار چار رکوع اور چار چار سجدے کئے۔


1479- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ - صَاحِبُ الدَّسْتَوَائِيِّ -، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ، وَجَعَلَ يَتَقَدَّمُ، ثُمَّ جَعَلَ يَتَأَخَّرُ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَخْسِفَانِ إِلاَّ لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ عُظَمَائِهِمْ، وَإِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُرِيكُمُوهُمَا، فَإِذَا انْخَسَفَتْ، فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ۔
* تخريج: م/الکسوف ۳ (۹۰۴)، د/ال صلاۃ ۲۶۲ (۱۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۶)، حم۳/۳۷۴، ۳۸۲ (صحیح)
۱۴۷۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو صلاۃ پڑھائی، اور لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ (بے ہوش ہو ہو کر) گرنے لگے، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو آپ نے لمبا قیام کیا، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو لمبا قیام کیا، پھر دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو آپ نے پھر اسی طرح کیا، نیز آپ آگے بڑھے پھر پیچھے ہٹنے لگے، تو یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن ان کے بڑے آدمیوں میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، حالانکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تمہیں دکھاتا ہے، تو جب گرہن لگے تو صلاۃ پڑھو جب تک کہ وہ چھٹ نہ جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-نَوْعٌ آخَرُ
۱۳-باب: گرہن کی صلاۃ کے ایک اور طریقہ کا بیان​


1480- أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مَرْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلاَّمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَرَ فَنُودِيَ: الصَّلاةُ جَامِعَةٌ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ وَسَجْدَةً، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَسَجْدَةً، قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا رَكَعْتُ رُكُوعًا قَطُّ وَلا سَجَدْتُ سُجُودًا قَطُّ كَانَ أَطْوَلَ مِنْهُ خَالَفَهُ مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۳ (۱۰۴۵)، ۸ (۱۰۵۱)، م/الکسوف ۵ (۹۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۶۳)، حم۲/۱۷۵، ۲۲۰ (صحیح)
۱۴۸۰- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے (صلاۃ کا) حکم دیا تو ''الصلاة جامعة'' (صلاۃ با جماعت پڑھی جائے گی) کی منادی کرائی گئی، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی (پہلی رکعت میں) آپ نے دو رکوع اور ایک سجدہ کیا ۱؎، پھر آپ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے (دوسری رکعت میں بھی) دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کبھی اتنا لمبا رکوع نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی اتنا لمبا سجدہ کیا۔
محمد بن حمیر نے مروان کی مخالفت کی ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یہاں سجدہ سے مراد مکمل ایک رکعت ہے، کیونکہ کسی بھی صلاۃ میں ایک سجدہ کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ ایک رکعت دو رکوع کے ساتھ پڑھی۔
وضاحت ۲؎: یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں ہے، سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں یحیی بن ابی کثیر اور عبداللہ بن عمرو کے درمیان ابو سلمہ بن عبد الرحمن کا واسطہ ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی جگہ ابو طعمہ کا واسطہ ہے، اور متن میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں سجدہ کا لفظ آیا ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں اس کی جگہ سجدتین کا لفظ آیا ہے۔


1481- أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ حِمْيَرَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلاَّمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي طُعْمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، وَسَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ وَسَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ جُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: مَا سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُجُودًا، وَلا رَكَعَ رُكُوعًا، أَطْوَلَ مِنْهُ. خَالَفَهُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۶۵) (صحیح)
۱۴۸۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے دو رکوع کیے، اور دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر سورج سے گرہن چھٹ گیا۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی سجدہ اور کوئی رکوع ان سے لمبا نہیں کیا۔
علی بن مبارک نے معاویہ بن سلام کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: علی بن مبارک نے اسے مسند عائشہ میں سے قرار دیا ہے، اور معاویہ بن سلام نے مسند عبد اللہ بن عمرو میں سے۔


1482- أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَفْصَةَ مَوْلَى عَائِشَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهُ لَمَّا كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، وَأَمَرَ فَنُودِيَ: أَنَّ الصَّلاةَ جَامِعَةٌ، فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ فِي صَلاتِهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَسِبْتُ قَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"، ثُمَّ قَامَ مِثْلَ مَا قَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ، ثُمَّ رَكَعَ، فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَكْعَتَيْنِ وَسَجْدَةً، ثُمَّ جَلَسَ، وَجُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۹۸) (صحیح)
(اس کے راوی '' ابو حفص مولی عائشہ '' لین الحدیث ہیں لیکن متابعت اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)
۱۴۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ نے وضو کیا، اور حکم دیا تو ندا دی گئی: ''الصلاة جامعة'' (صلاۃ باجماعت ہوگی)، پھر آپ (صلاۃ کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے لمبا قیام کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو مجھے گمان ہوا کہ آپ نے سورۃ البقرۃ پڑھی، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے: ''سمع الله لمن حمده'' کہا، پھر آپ نے اسی طرح قیام کیا جیسے پہلے کیا تھا، اور سجدہ نہیں کیا، پھر آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے پہلے ہی کی طرح دو رکوع اور ایک سجدہ کیا، پھر آپ بیٹھے، تب سورج سے گرہن چھٹ چکا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-نَوْعٌ آخَرُ
۱۴-باب: سورج گرہن کی صلاۃ کے ایک اور طریقہ کا بیان​


1483- أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي السَّائِبُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَدَّثَهُ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلاةِ، وَقَامَ الَّذِينَ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، وَسَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، وَجَلَسَ فَأَطَالَ الْجُلُوسَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَقَامَ، فَصَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ مَا صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنْ الْقِيَامِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَالْجُلُوسِ، فَجَعَلَ يَنْفُخُ فِي آخِرِ سُجُودِهِ مِنْ الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ وَيَبْكِي وَيَقُولُ: " لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا فِيهِمْ، لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُكَ "، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَانْجَلَتْ الشَّمْسُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -، فَإِذَا رَأَيْتُمْ كُسُوفَ أَحَدِهِمَا فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ أُدْنِيَتِ الْجَنَّةُ مِنِّي حَتَّى لَوْ بَسَطْتُّ يَدِي لَتَعَاطَيْتُ مِنْ قُطُوفِهَا، وَلَقَدْ أُدْنِيَتِ النَّارُ مِنِّي حَتَّى لَقَدْ جَعَلْتُ أَتَّقِيهَا خَشْيَةَ أَنْ تَغْشَاكُمْ، حَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ حِمْيَرَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ، فَلا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلاَ هِيَ سَقَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهَا تَنْهَشُهَا إِذَا أَقْبَلَتْ، وَإِذَا وَلَّتْ تَنْهَشُ أَلْيَتَهَا، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ - أَخَا بَنِي الدَّعْدَاعِ - يُدْفَعُ بِعَصًا ذَاتِ شُعْبَتَيْنِ فِي النَّارِ، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ - الَّذِي كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ - مُتَّكِئًا عَلَى مِحْجَنِهِ فِي النَّارِ، يَقُولُ: أَنَا سَارِقُ الْمِحْجَنِ "
* تخريج: د/ال صلاۃ ۲۶۷ (۱۱۹۴)، ت/الشمائل ۴۴ (۳۰۷)، حم۲/۱۵۹، ۱۶۳، ۱۸۸، ۱۹۸، ۲۲۳، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۹)، ویأتی عند المؤلف فی برقم: ۱۴۹۷ (صحیح)
۱۴۸۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم صلاۃ کے لیے کھڑے ہوئے، اور وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے جو آپ کے ساتھ تھے، آپ لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا، اور بیٹھے تو دیر تک بیٹھے رہے، پھر آپ سجدہ میں گئے تو لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا، اور کھڑے ہو گئے، پھر آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح قیام، رکوع، سجدہ اور جلوس کیا جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا، پھر دوسری رکعت کے آخری سجدے میں آپ ہانپنے اور رونے لگے، آپ کہہ رہے تھے: '' تو نے مجھ سے اس کا ۱؎ وعدہ نہیں کیا تھا، اور حال یہ ہے کہ میں ان میں موجود ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، اور ہم تجھ سے (اپنے گناہوں کی) بخشش چاہتے ہیں''، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تب سورج صاف ہو چکا تھا، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور آپ نے لوگوں کو خطاب کیا، پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: '' سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو جب تم ان میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جنت مجھ سے قریب کر دی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے کچھ گچھے لے لیتا، اور جہنم مجھ سے قریب کر دی گئی یہاں تک کہ میں اس سے بچاؤ کرنے لگا، اس خوف سے کہ کہیں وہ تمہیں ڈھانپ نہ لے، یہاں تک کہ میں نے اس میں حمیر کی ایک عورت پر ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوتے ہوئے دیکھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو اس نے اسے زمین کے کیڑے مکوڑے کھانے کے لیے چھوڑا، اور نہ ہی اس نے اسے خود کچھ کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ مر گئی، میں نے اسے دیکھا وہ اس عورت کو نوچتی تھی جب وہ سامنے آتی، اور جب وہ پیٹھ پھیر کر جاتی تو اس کے سرین کو نوچتی، نیز میں نے اس میں دو چمڑے کی جوتیوں والے کو دیکھا، جو قبیلہ بنی دعدع کا ایک فرد تھا، اُسے دو منہ والی لکڑی سے مار کر آگ میں ڈھکیلا جا رہا تھا، نیز میں نے اس میں خمدار سروالی لکڑی چرانے والے کو دیکھا، جو حاجیوں کا مال چراتا تھا، وہ جہنم میں اپنی لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے کہہ رہا تھا: میں خمدار سر والی لکڑی چرانے والا ہوں''۔
وضاحت ۱؎: یعنی میری موجودگی میں انہیں عذاب دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا، بلکہ تو نے اس کے برعکس یہ وعدہ کیا تھا کہ تو انہیں میری موجودگی میں عذاب نہیں دے گا۔


1484- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْعَظِيمِ: قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ سَبَلانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ، فَصَلَّى لِلنَّاسِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ وَهُوَ دُونَ السُّجُودِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَفَعَلَ فِيهِمَا مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ يَفْعَلُ فِيهِمَا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلاتِهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لاَيَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلالِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ - عَزَّوَجَلَّ -، وَإِلَى الصَّلاةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۳) (حسن صحیح)
۱۴۸۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ کھڑے ہوئے، اور آپ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، اور یہ پہلے سجدہ سے کم تھا، پھر آپ (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے دو رکوع کیے، اور ان میں پہلے جیسا ہی کیا، پھر آپ نے دو سجدے کیے، ان دونوں میں اسی طرح کرتے رہے جیسے پہلے کیا تھا یہاں تک کہ اپنی صلاۃ سے فارغ ہو گئے، پھر آپ نے فرمایا: '' سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، لہٰذا جب تم انہیں (گرہن لگا) دیکھو، تو تم اللہ کے ذکر اور صلاۃ کی طرف دوڑ پڑو ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-نَوْعٌ آخَرُ
۱۵-باب: سورج گرہن کی صلاۃ کے ایک اور طریقہ کا بیان​


1485- أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ الْعَلائِ بْنِ هِلالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِيُّ - مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ - أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، فَذَكَرَ فِي خُطْبَتِهِ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ سَمُرَةُ ابْنُ جُنْدُبٍ: بَيْنَا أَنَا يَوْمًا وَغُلامٌ مِنْ الأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنْ الأُفُقِ اسْوَدَّتْ، فَقَالَ: أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَوَافَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ، قَالَ: فَاسْتَقْدَمَ، فَصَلَّى، فَقَامَ كَأَطْوَلِ قِيَامٍ قَامَ مَا بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ مَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ رُكُوعٍ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، مَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ سُجُودٍ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لاَنَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسِ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، فَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ . مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۲۶۲ (۱۱۸۴)، ت/ال صلاۃ ۲۸۰ (الجمعۃ ۴۵) (۵۶۲) مختصراً، ق/الإقامۃ ۱۵۲ (۱۲۶۴) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۷۳)، حم۵/۱۴، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۳، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۵۰۲ مختصراً (ضعیف)
(اس کے راوی ''ثعلبہ'' لین الحدیث ہیں)
۱۴۸۵- ثعلبہ بن عباد العبدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے اپنے خطبہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث ذکر کی، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے نشانہ بازی کر رہے تھے، یہاں تک کہ سورج دیکھنے والے کی نظر میں افق سے دو تین نیزے کے برابر اوپر آ چکا تھا کہ اچانک وہ سیاہ ہو گیا، ہم میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: چلو مسجد چلیں، قسم اللہ کی اس سورج کا معاملہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے لیے آپ کی امت میں ضرور کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، پھر ہم مسجد گئے توہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایسے وقت میں پایا جب آپ لوگوں کی طرف نکلے، پھر آپ آگے بڑھے اور آپ نے صلاۃ پڑھائی، تو اتنا لمبا قیام کیا کہ ایسا قیام آپ نے کبھی کسی صلاۃ میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے رکوع کیا تو اتنا لمبا رکوع کیا کہ ایسا رکوع آپ نے کبھی کسی صلاۃ میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا تو اتنا لمبا سجدہ کیا کہ ایسا سجدہ آپ نے کبھی کسی صلاۃ میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ایسے ہی دوسری رکعت میں بھی کیا، دوسری رکعت میں آپ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج صاف ہو گیا، تو آپ نے سلام پھیرا، اور اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، اور گواہی دی کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور گواہی دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ حدیث مختصرہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-نَوْعٌ آخَرُ
۱۶-سورج گرہن کی صلاۃ کے ایک اور طریقہ کا بیان​


1486- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَخَرَجَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ فَزِعًا حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي بِنَا حَتَّى انْجَلَتْ، فَلَمَّا انْجَلَتْ قَالَ: "إِنَّ نَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ إِلاَّ لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ الْعُظَمَائِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَيَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -، إِنَّ اللَّهَ -عَزَّ وَجَلَّ - إِذَا بَدَا لِشَيْئٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنْ الْمَكْتُوبَةِ "
* تخريج: د/ال صلاۃ ۲۶۷ (۱۱۹۳) مختصراً، ق/الإقامۃ ۱۵۲ (۱۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۳۱)، حم۴/۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۱، ۲۷۷، ویأتي عند المؤلف بأقام: ۱۴۸۹، ۱۴۹۰ (ضعیف)
(اس کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے، اس کا سبب ابو قلابہ مدلس ہیں، دیکھئے إرواء رقم: ۶۶۲)
۱۴۸۶- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرائے ہوئے اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد آئے، اور ہمیں برابر صلاۃ پڑھاتے رہے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، جب سورج صاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ''کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کے مرنے پر لگتا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، سورج اور چاند گرہن نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے لگتا ہے اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اللہ تعالیٰ جب اپنی کسی مخلوق کے لیے اپنی تجلی ظاہر کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، تو جب کبھی تم اس صورت حال کو دیکھو تو تم اس تازہ فرض صلاۃ کی طرح صلاۃ پڑھو، جوتم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، آپ نے گرہن کی صلاۃ عام صلاتوں کی طرح ایک رکوع سے نہیں پڑھی تھی بلکہ دو رکوع سے پڑھی تھی۔


1487- وأَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ أَنَّ جَدَّهُ عُبَيْدَاللَّهِ بْنَ الْوَازِعِ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلالِيِّ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ وَنَحْنُ إِذْ ذَاكَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَخَرَجَ فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ أَطَالَهُمَا، فَوَافَقَ انْصِرَافُهُ انْجِلائَ الشَّمْسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لاَيَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلاةٍ مَكْتُوبَةٍ صَلَّيْتُمُوهَا "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۲۶۲ (۱۱۸۵، ۱۱۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۵)، حم۵/۶۰، ۶۱ (ضعیف)
(یہاں ابو قلابۃ مدلس نے ''نعمان'' کے بجائے ''قبیصہ'' کانام لیا ہے، مذکورہ سبب سے یہ روایت بھی ضعیف ہے)
۱۴۸۷- قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا، ہم لوگ اس وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں تھے، آپ گھبرائے ہوئے اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے، پھر آپ نے دو رکعت صلاۃ پڑھی، اور اتنا لمبا کیا کہ آپ جب صلاۃ سے فارغ ہوئے تو سورج چھٹ چکا تھا، آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر آپ نے فرمایا: '' سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، تو جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو اس تازہ فرض صلاۃ کی طرح صلاۃ پڑھو جو تم نے (گرہن لگنے پہلے) پڑھی ہے ''۔


1488- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ - وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ - قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ الْهِلالِيِّ: أَنَّ الشَّمْسَ انْخَسَفَتْ، فَصَلَّى نَبِيُّ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى انْجَلَتْ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لايَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّهُمَا خَلْقَانِ مِنْ خَلْقِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - يُحْدِثُ فِي خَلْقِهِ مَا شَائَ، وَإِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - إِذَا تَجَلَّى لِشَيْئٍ مِنْ خَلْقِهِ يَخْشَعُ لَهُ، فَأَيُّهُمَا حَدَثَ، فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ، أَوْ يُحْدِثَ اللَّهُ أَمْرًا "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۱۴۸۸- قبیصہ الہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورج گرہن لگا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے دو دو رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ''سورج اور چاند کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے نئی بات پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق میں سے کسی پر تجلی فرماتا ہے تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، لہذا جب ان دونوں میں سے کوئی رونما ہو تو تم صلاۃ پڑھو یہاں تک کہ وہ چھٹ جائے، یا اللہ تعالیٰ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے''۔


1489- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۸۶ (ضعیف)
۱۴۸۹- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب سورج اور چاند کو گرہن لگے تو صلاۃ پڑھو، اس تازہ صلاۃ کی طرح جو تم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے''۔


1490- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى حِينَ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ مِثْلَ صَلاتِنَا، يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۸۶ (ضعیف)
۱۴۹۰- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جس وقت سورج گرہن لگا ہماری صلاۃ کی طرح صلاۃ پڑھی آپ رکوع کر رہے تھے اور سجدہ کر رہے تھے۔


1491- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا مُسْتَعْجِلا إِلَى الْمَسْجِدِ وَقَدْانْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى حَتَّى انْجَلَتْ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْخَسِفَانِ إِلاَّ لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ عُظَمَائِ أَهْلِ الأَرْضِ، وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا خَلِيقَتَانِ مِنْ خَلْقِهِ، يُحْدِثُ اللَّهُ فِي خَلْقِهِ مَايَشَائُ، فَأَيُّهُمَا انْخَسَفَ، فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ، أَوْ يُحْدِثَ اللَّهُ أَمْرًا"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۵) (ضعیف)
(سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور یہاں روایت عنعنہ سے ہے، اور سند میں انقطاع ہے، تراجع الالبانی ۳۳۹)
۱۴۹۱- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بڑی جلدی میں گھر سے مسجد کی طرف نکلے، سورج گرہن لگا تھا، آپ نے صلاۃ پڑھی یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن زمین والوں میں بڑے لوگوں میں سے کسی بڑے آدمی کے مر جانے کی وجہ سے لگتا ہے۔ حالانکہ سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، بلکہ یہ دونوں اللہ کی مخلوق میں سے دو مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں جو نیا واقعہ چاہتا ہے رونما کرتا ہے، تو ان میں سے کوئی (بھی) گہنائے تو تم صلاۃ پڑھو یہاں تک کہ وہ صاف ہو جائے، یا اللہ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے''۔


1492- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَائَهُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَسْجِدِ وَثَابَ إِلَيْهِ النَّاسُ، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْكَشَفَتِ الشَّمْسُ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - بِهِمَا عِبَادَهُ، وَإِنَّهُمَا لاَيَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ "، وَذَلِكَ، أَنَّ ابْنًا لَهُ مَاتَ، يُقَالُ لَهُ: إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ لَهُ نَاسٌ فِي ذَلِكَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۶۰ (صحیح)
۱۴۹۲- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج گرہن لگا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد پہنچے، اور لوگ (بھی) آپ کی طرف لپکے، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت صلاۃ پڑھائی، جب سورج صاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا: '' سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اور یہ دونوں نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، تو جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو صلاۃ پڑھو یہاں تک کہ وہ چیز چھٹ جائے جو تم پر آن پڑی ہے''، اور آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ (اسی روز) آپ صلی الله علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا، تو کچھ لوگوں نے آپ سے یہ بات کہی تھی۔


1493- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَلاتِكُمْ هَذِهِ، وَذَكَرَ كُسُوفَ الشَّمْسِ .
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۶۰ (صحیح)
۱۴۹۳- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے تمہاری اسی صلاۃ کی طرح دو رکعت صلاۃ پڑھی، اور انہوں نے سورج گرہن لگنے کا ذکر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-قَدْرُ الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْكُسُوفِ
۱۷-باب: سورج گرہن کی صلاۃ میں قرأت کی مقدار کا بیان​


1494- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلا قَرَأَ نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلاً، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَيَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ- "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ؟ قَالَ: " إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ - أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ - فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَائَ "، قَالُوا: لِمَ يَارَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِهِنَّ " قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: " يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۱ (۲۹) مختصراً، ال صلاۃ ۵۱ (۴۳۱) مختصراً، الأذان ۹۱ (۷۴۸) مختصراً، الکسوف ۹ (۱۰۵۲)، بدء الخلق ۴ (۳۲۰۲) مختصراً، النکاح ۸۸ (۵۱۹۷)، م/الکسوف ۳ (۹۰۷)، د/ال صلاۃ ۲۶۳ (۱۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۷۷)، ط/الکسوف ۱ (۲)، حم۱/۲۹۸، ۳۵۸، دي/ال صلاۃ ۱۸۷ (۱۵۶۹) (صحیح)
۱۴۹۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے صلاۃ پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورہ بقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو''، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ''میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ''ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے''، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: '' (نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب الْجَهْرِ بِالْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْكُسُوفِ
۱۸-باب: سورج گرہن کی صلاۃ میں بلند آواز سے قرأت کرنے کا بیان​


1495- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنَّهُ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، وَجَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ، كُلَّمَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"۔
* تخريج: خ/الکسوف ۱۹ (۱۰۶۵)، م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، د/ال صلاۃ ۲۶۴ (۱۱۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲۸)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۴۹۸ (صحیح)
۱۴۹۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ (گرہن کی) صلاۃ پڑھی، آپ نے ان میں بلند آواز سے قرأت کی، آپ جب جب رکوع سے سر اٹھاتے تو ''سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد'' کہتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19-تَرْكُ الْجَهْرِ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ
۱۹-باب: سورج گرہن کی صلاۃ میں بلند آواز سے قرأت نہ کرنے کا بیان​


1496- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ ابْنِ عِبَادٍ - رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْقَيْسِ - عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ لاَ نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۸۵ (ضعیف)
(اس کے راوی ''ثعلبہ بن عباد'' لین الحدیث ہیں)
۱۴۹۶- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سورج گرہن کی صلاۃ پڑھائی (وہ کہتے ہیں) کہ ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے۔
 
Top