• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیاہ کار عورت اور اس کی سزا

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
[H1]ایک سوال کے دو بہانے[/H1]

پہلے آپ نے پیسے کا بہانہ بنایا اور اب گڈ مسلم کے سوال کا جواب مانگنے کا بہانہ بنا رہے ہیں۔ ہمارے مختصر سوال کا اگر کوئی جواب نہیں ہے تو غلطی کو تسلیم کریں کیونکہ سورة نور میں رجم کا کوئی ذکر نہیں ہے اور قرآن حکیم کے بارے میں غلط بیانی کرنا گناہ کیبرہ ہے۔
ہم لوگ قرآن اور صحیح حدیث دونوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آپ کی مرضی آپ جہاں سے بھی رہنمائی لیں۔لیکن قرآن کے بارے میں غلط بیانی نہ کریں کہ سورة نور میں رجم کی سزا کا ذکر ہے۔آپ کے اس قول کے بعد اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ قرآن شریف ویسے ہی موجود نہیں ہے جیسے نازل ہوا تھا تو وہ محمد ارسلان کے قول کے مطابق درست ہوگا۔کیونکہ عامر کے فرمان کے مطابق سورة نور میں رجم کی آیت ہے اور محمد ارسلان کے مطابق رجم کی آیت سورة نور میں نہیں ہے بلکہ حدیث شریف میں ہے۔


محمد ارسلان صاحب، جہاں تک ہم آپ کی بات سمجھے ہیں اس سے عامر کی غلطی تو واضح ہو جاتی ہے کم از کم عامر کی غلطی تو تسلیم کریں۔
میں رجم کے متعلق گفتگو نہیں کر رہا،نہ ہی میں ایسے موضوع پر بحث کرتا ہوں جس کا مجھے علم نہ ہو اور قرآن مجید اور حدیث مبارکہ کے معاملے میں تو میں ویسے ہی محتاط ہوں۔الحمدللہ

میں نے نہیں جانتا ابھی تک کہ عامر بھائی نے اپنی پوسٹ میں کیا لکھا ہے نا ہی اس تھریڈ میں مکمل بحث پڑھی ہے میں تو آپ منکرین حدیث سے بنیادی اختلاف یعنی آپ کا نظریہ حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن مجید کو اللہ کی وحی ماننےوالے کے بارے میں چار سوالات پوچھے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
رجم كى آيت كا علم صرف عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو ہى نہيں

ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کر دے، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب تک سورۃ نور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لئے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بےشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن ، حضرت عطاء خرسانی ٫ حضرت ابو صالح ، حضرت قتادہ ، حضرت زید بن اسلم اور حضرت ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالٰی نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ نے فرمایا مجھ سے حکم الٰہی لو اللہ تعالٰی نے سیاہ کار عورتوں کے لئے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی (مسلم وغیرہ) ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے، امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں، اسی طرح ابو داؤد میں بھی،
صحيح بخارى كے باب الاحكام ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے:
" اگر لوگ رجم كى آيت كے متعلق نہ كہيں تو ميں اسے اپنے ہاتھوں سے لكھ دو "
اس آيت كو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ كوئى اور كيوں نہيں جانتا ؟
اور اس كے متعلق دريافت كرنے والے كو ہم كيا جواب ديں ؟


الحمد للہ:
اول:
بخارى اور مسلم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے خطبہ جمعہ ميں فرمايا:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو حق كے ساتھ مبعوث كيا، اور ان پر كتاب نازل كى، اور اللہ تعالى نے جو نازل كيا اس ميں رجم كى آيت تھى، ہم نے اسے پڑھا، اور سمجھا اور ياد كيا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رجم كيا، اور ان كے بعد ہم نے بھى رجم كيا، مجھے خدشہ ہے كہ لوگوں پر لمبا وقت گزرے اور كوئى كہنے والا يہ كہنے لگے:
اللہ كى قسم ہم تو كتاب اللہ ميں رجم كى آيت نہيں پاتے، تو اللہ كا نازل كردہ فريضہ ترك كرنے كى وجہ سے وہ گمراہ ہو جائينگے، اور شادى شدہ مرد اور عورت كے زنا كرنے پر دليل ثابت ہو جانےيا حمل ہو جانے يا اعتراف كرنے پر رجم كرنا كتاب اللہ ميں حق ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6830 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1691 ).
اور ابو داود ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
" اللہ كى قسم اگر لوگ يہ كہيں كہ عمر نے كتاب اللہ ميں زيادہ كر ديا ہے تو ميں اسے لكھ ديتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4418 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
يہ حديث امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں كئى ايك جگہ ذكر كى ہے مثلا كتاب الحدود حديث نمبر ( 6829 ) اور ( 6830 ) اور كتاب الاعتصام و السنۃ حديث نمبر ( 7626 ) ميں، ليكن سوال ميں وارد الفاظ:
" اگر لوگ نہ كہيں... الخ "

ان روايات ميں نہيں ہيں.
اور اس حديث كو امام بخارى رحمہ اللہ نے كتاب الاحكام ميں بغير سند كے متعلق بيان كيا ہے كہ:
" عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
" اگر لوگ يہ نہ كہيں كہ عمر نے كتاب اللہ ميں زيادہ كر ديا ہے تو ميں اپنے ہاتھ سے رجم كى آيت لكھ دوں "

اور اس طرح كى روايت كے متعلق يہ نہيں كہا جا سكتا كہ امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے، ليكن اس كے ساتھ يہ ضرور كہا جائيگا كہ امام بخارى نے اسے معلقا روايت كيا ہے.
اور ابو داود نے اسے موصول روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

دوم:

عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ كوئى اور اس آيت كو كيوں نہيں جانتا تھا ؟

يہ سوال كرنے والے كو جواب ديا جائيگا:
اس آيت كا علم صرف عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو ہى نہ تھا، بلكہ كئى ايك صحابہ كرام سے اس اس كا ثبوت ملتا ہے.
ابن ماجہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں:
" يقينا رجم كى آيت نازل ہوئى، اور يہ ميرے پلنگ كے نيچے صحيفہ ميں تھى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1944 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور مسند احمد ميں على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى سے بھى اس كا ثبوت ملتا ہے، ليكن اس كى سند ضعيف ہے.

مسند احمد حديث نمبر ( 1214 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں ذكر كيا ہے كہ:
" اس آيت كا ثبوت ابى بن كعب، اور زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى ملتا ہے "
اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس آيت كو خطبہ جمعہ ميں منبر پر ثابت كيا، اور اس خطبہ ميں بڑے بڑے صحابہ كرام اور فقھاء حاضر تھے، اور ان سب نے اس آيت كے ثبوت كا اقرار كيا، اور كسى ايك نے بھى اس كا انكار نہيں كيا، تو پھر اس كے بعد يہ كيسے كہا جا سكتا ہے يہ آيت عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ كسى كو معلوم نہ تھى ؟!

سوم:
رجم كى آيت اس ميں شامل ہوتى ہے جسے علماء كرام " اصول فقہ " ميں منسوخ ہونے كى بحث ميں بيان كرتے ہيں، كہ يہ آيت وہ ہے جس كے الفاظ منسوخ ہو چكے ہيں، اور اس كا حكم باقى ہے، تو يہ آيت قرآن كريم ميں شامل نہيں كى جا سكتى، ليكن اس كا حكم باقى ہے منسوخ نہيں ہوا، ہو سكتا ہے يہى وہ سبب ہے جس كى بنا پر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے قرآن ميں اسے نہيں لكھا، كيونكہ اس كى تلاوت منسوخ ہو چكى تو يہ قرآن ميں شمار نہيں كى جا سكتى، تو اس طرح اس كا قرآن ميں لكھنا جائز نہ ہوا
ديكھيں: المنتقى شرح الموطا حديث نمبر ( 1560 ).

واللہ اعلم .
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم الیاسی صاحب نیچے درج عبارت اور اس کے ترجمے پر اپنی وضاحت پیش فرمائیں
الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائة جلدة
زنا کار مرد اور عورت پس مارو ھرایک کو ان دونوں میں سے سو کوڑے
آپ یہاں ’’ الزانیۃ والزانی ‘‘ کے لفظ سے ہر قسم کے مرد اور عورت کو اس سزا میں داخل کررہے ہیں یا لفظ ’’ کل ‘‘ کی وجہ سے ہر قسم کے مرد اور عورت کےلیے یہی سزا مقرر کررہے ہیں۔ اور دوسرا میں نے ایک لائن کی عربی بتانے کےلیے کہا ہوا تھا۔ جس کا تم نے یہ جواب دیا کہ الف اور ب پر یہ الزام ہے۔ چلو الزام والے الفاظ نکال کر عام عبارت پیش کرتے ہوئے اس کا ترجمہ بھی لکھ رہا ہوں۔ آپ بتائیں دونوں عبارتوں میں غلطی ہے یا نہیں؟ اگر ہے کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہے؟
الالف والباء فاجلدو کل واحد منہما مائة جلدة
الف اور باء پس مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے سو کوڑے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قرآن میں رجم والی آیت کہاں ہے؟؟


عامر صاحب ، آپ قرآن کے بارے میں غلط بیانی نہ کریں کہ سورة نور میں رجم کی سزا کا ذکر ہے۔
آپ کے اس قول کے بعد اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ قرآن شریف ویسے ہی موجود نہیں ہے جیسے نازل ہوا تھا تو وہ آپ کے قول کے مطابق درست ہوگا۔ کیونکہ آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے۔

یعنی سورة نور میں رجم کی آیت موجود ہے اور
لیکن اب آپ یہ کہے رہے ہیں کہ یہ آیت احادیث میں ہے۔
آپ کے قول کے مطابق :


قرآن میں لکھا ہے:
[FONT=me_quran]مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[/FONT]
ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے۔ [سورة البقرہ، آیت نمبر۱۰۶]

اگر آپ کا یہ کہنا ہے کہ رجم والی آیت کی تلاوت منسوخ ہے تو مہربانی کرکے یہ بتائیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی کونسی تلاوت والی آیت نازل ہوئی؟؟؟
میں نے بھی چار سوال پوچھے ہیں آپ سے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جواب نھیں ان لوگوں کی پاس
مولانا صاحب مذاق بہت اچھی طرح کرجانتے ہیں
محترم الیاسی صاحب نیچے درج عبارت اور اس کے ترجمے پر اپنی وضاحت پیش فرمائیں
الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائة جلدة
زنا کار مرد اور عورت پس مارو ھرایک کو ان دونوں میں سے سو کوڑے
آپ یہاں ’’ الزانیۃ والزانی ‘‘ کے لفظ سے ہر قسم کے مرد اور عورت کو اس سزا میں داخل کررہے ہیں یا لفظ ’’ کل ‘‘ کی وجہ سے ہر قسم کے مرد اور عورت کےلیے یہی سزا مقرر کررہے ہیں۔ اور دوسرا میں نے ایک لائن کی عربی بتانے کےلیے کہا ہوا تھا۔ جس کا تم نے یہ جواب دیا کہ الف اور ب پر یہ الزام ہے۔ چلو الزام والے الفاظ نکال کر عام عبارت پیش کرتے ہوئے اس کا ترجمہ بھی لکھ رہا ہوں۔ آپ بتائیں دونوں عبارتوں میں غلطی ہے یا نہیں؟ اگر ہے کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہے؟
الالف والباء فاجلدو کل واحد منہما مائة جلدة
الف اور باء پس مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے سو کوڑے
 

جاءالحق

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
56
كيا صحيح حديث رد كرنے والے كو كافر قرار ديا جائيگا ؟
ايك بھائى صحيح بخارى اور مسلم ميں وارد شدہ بعض احاديث كو اس حجت سے رد كرتے ہيں كہ يہ احاديث قرآن كے ساتھ متصادم اور معارض ہيں، صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم كيا ہو گا، آيا اسے كافر كہا جائے ؟

الحمد للہ:

اول:

سنت نبويہ تشريع ميں دوسرا مصدر ہے، جس طرح قرآن مجيد جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لاتے تھے اسى طرح سنت بھى لاتے تھے، اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.

اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).

اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.

امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى

اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى

ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).

اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى

ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 604 ) اور ( 13206 ) اور ( 77243 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

ليكن جو شخص حديث نبوى كو اس اعتبار سے نہيں مانتا اور رد كرتا ہے كہ يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث نہيں ہو سكتى تو يہ پہلى قسم كى طرح نہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ " تنويرى " قسم كے نئے لوگ وہ ہيں جنہوں نے اپنى آراء اور توجھات كے ساتھ حديث پر حكم لگايا ہے، اور يہ بات كوئى نئى نہيں، بلكہ اپنے سے قبل بدعتيوں كا ہى ٹولہ ہے، جن كے متعلق اہل علم نے ان كے شبہات بيان كيے ہيں.

ان اور اس طرح كے لوگوں كو ہم كہينگے:

حديث رد كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہونے سے انكار كرنے سے قبل علمى منہج تقاضا كرتا ہے كہ اس پر غور كيا جائے ذيل ميں ہم اس كى شروط پيش كرتے ہيں:

پہلى شرط:

حديث ميں جو بيان ہوا ہے اور جو قرآن ميں وارد ہے اس ميں مكمل تناقض ہو اور يہ تناقض كسى واضح دلالت سے ثابت ہو جو منسوخ نہ ہو، يہاں ہم پھر " مكمل تناقض " كى قيد كى تاكيد كرتے ہيں، يہ تناقض صرف ظاہرى نہيں ہونا چاہے جو بادى النظر ميں جلدى سے ذہن ميں آئے.

اميد ہے جو لوگ انكار حديث كا سوچتے ہيں وہ بھى ہمارے ساتھ اس قيد ميں متفق ہونگے؛ كيونكہ اكثر لوگوں كے ذہن ميں آنے والے ظاہرى تعارض كى كوئى حقيقت نہيں، بلكہ يہ تو اعتراض كرنے والے كے ذہن ميں قائم ہوا ہے، اس كا جواب تامل اور غور كرنے اور لغت كى وجوہات تلاش كرنے اور اس كا اصول شريعت اور اس كے مقاصد كى موافقت كے ساتھ جواب ديا جا سكتا ہے.

جو كوئى بھى علامہ ابن قتيبہ الدينورى كى كتاب " مختلف الحديث " پر غور اور تامل كرے وہ اس بے تكى كى قدر معلوم كر سكتا ہے جو ان منكرين حديث نے بےتكى مارى ہيں كہ يہ قرآن كے موافق نہيں، يا پھر عقل اس كى تصديق نہيں كرتى.

پھر جب ابن قتبيہ اس كتاب ميں ان احاديث كى علماء كرام سے صحيح شرح بيان كرتے ہيں تو واضح ہوتا ہے كہ اس كى صحيح وجہ بھى ہے جو شريعت كے موافق ہے، اور قرآن كے تعارض والا تو صرف ايك فاسد قسم كا وہم ہى ہے.

ہم ان اور ان جيسے سنت كو رد كرنے كى جرات كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پر طعن كرنے والوں سے بغير كسى علمى منہج، يا مقبول تنقيدى اصول، اور بغير كسى علمى اصول كے فيصلے جس كى يہ بات اور بحث كرتے ہيں سے سوال كرتے ہيں:

كيا آپ يہ خيال كر سكتے ہيں كہ ناقد كو يقين ہو كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے نہيں اور يہ ممكن ہو كہ وہ مكمل طور پر قرآن كے ساتھ تعارض و تناقض ركھے، اس كے باوجود ہم ديكھيں كہ صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك علماء اسلام اس حديث كو قبول اور اس كى شرح اور تفسير اور اس سے استدلال اور اس پر عمل كرنے پر متفق ہوں ؟!

كيا عقل سليم ـ جس كو يہ حاكم تسليم كرتے ہيں ـ يہى فيصلہ نہيں كرتى كہ اہل تخصص كے كسى امر پر فيصلے كا احترام كيا جائے جو اپنے فن اور تخصص ميں ماہر ہوں ؟!

كيا كوئى شخص مثلا كے طور فيزيا يا كيماء يا رياضى يا علوم تربيہ يا اقتصادى علوم كے ماہرين كو غلط كہنے كى جرات كرتا ہے جب وہ كسى ايك معاملہ پر سب متفق ہوں، خاص كر جب اس علم كے متخصصين ميں سے كوئى شخص بھى ان پر اعتراض كرنے والا نہ پايا جائے، بلكہ انتہائى طور پر يہى ہو گا كہ بعض نے اس كے متعلق كچھ كالم يا كوئى كتاب پڑھ لى جو علم كو بيان كرتى ہو يا پھر سب لوگوں كے علم كے ليے، كيا كوئى ايسى جرات كر سكتا ہے ؟!

دوسرى شرط:

اسناد ميں ضعف كا پايا جانا جو متن ميں وارد خطا كى متحمل ہو:

اور ہمارا خيال بھى ـ يہى ـ ہے كہ يہ شرط منہجى اور صحيح ہے، علمى نقد كے اصول كو تھوڑا سا بھى سمجھنے والے شخص كو اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہ متن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہونے سے انكار كرنا يہ معنى ركھتا ہے كہ سند ميں ضعف كا پايا جانا ہى ہميں يہ وہم دلاتا ہے كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے ہے، حالانكہ يہ ـ بالفعل ـ ايسا نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:

" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "

ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "

ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "

ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).

امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:

" ميں نے اپنى اس كتاب كے شروع ميں جو لكھا ہے اس كا عام معنى كتاب و سنت كا علم ركھنے والے، اور مختلف لوگوں اور قياس اور معقول كا علم ركھنے والے متقدم علماء ميں سے كئى ايك كے سامنے بيان كيا تو ان ميں سے كسى ايك نے بھى كسى ايك كى مخالفت نہ كى، اور ان كا كہنا تھا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام، اور تابعين عظام اور تبع تابعين كا مذہب يہى ہے، اور ہمارا مذہب بھى يہى ہے؛ اس ليے جو بھى اس مذہب كو چھوڑے گا ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ چھوڑ رہا ہے، اور وہ جاہل لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.

ان سب كا كہنا تھا: اس راہ كى مخالفت كرنے والے كو ہمارى رائے ميں سب اہل علم كے اجماع ميں جاہل قرار ديا گيا ہے الخ... "!!

ديكھيں: اختلاف الحديث ـ كتاب الام ـ ( 10 / 21 ) اور اسى طرح كى كلام آپ الرسالۃ فقرۃ ( 1236- 1239 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب حديث كو رد كرنے والے شخص پر سب سے پہلے يہ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ يہ تلاش كرے اور بيان كرے كہ اس كو بيان كرنے والے راويوں ميں سے كون ہے جس نے نقل كرنے ميں غلطى كى ہے، اور اگر رد كرنے والے كو سند ميں كوئى ايسا سبب نہ ملے جو اس حديث كے انكار ميں مقبول سبب بن سكتا ہو تو يہ اس كے منہج كى غلطى كى علامت ہے، اور پھر يہ اس كى بھى علامت ہے كہ اسے حديث اور قرآن كى فہم اور مقاصد شرعيۃ كى فہم كا مراجعہ كرنے كى ضرورت ہے.

اور پھر جب كوئى حديث زمين پر موجود سب سے صحيح ترين سند كے ساتھ موجود ہو، بلكہ وہ حديث بہت سارے طرق سے مروى ہوں ـ جيسا كہ اكثر وہ احاديث جنہيں تنويرى رد كرتے ہيں ـ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہوں انہيں رد كرنا كيسا ہو گا؟!

تيسرى شرط:

سارے معاملہ كو احتمال اجتھاد كى طرف منسوب كرنا، اور يقين و حسم اور مخالف پر مسلمانوں كى عقلوں ميں طعن و تہمت زنى ترك كرنا، يہ اس وقت ہے جب اس ميں كوئى ايسى وجہ ہو جو اس احتمال كو ركھتى ہو، اور اس سلسلہ ميں كلام كرنے والا اہليت بھى ركھتا ہو ـ ضرورى بحث كے لوازمات ـ تا كہ وہ اس كا ادراك كر سكے اور اس ميں بحث كرے، كسى معين علت كى بنا پر كسى ايك عالم كو حديث ضعيف لگتى ہے، ليكن جس نے حديث قبول كى وہ اس پر تہمت كى زبان استعمال نہ كرے.

لہذا جو شخص ان تين شروط كى مخالفت كرتا اور حديث كا انكار اور اس كى تكذيب كرنے پر اصرار كرتا ہے تو وہ خطرناك راہ پر ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان كے ليے بغير كسى شروط و ضوابط كے منہج ميں تاويل كرنا جائز نہيں، وگرنہ وہ گناہ اور حرج ميں پڑيگا.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى

اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:

" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.

اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى

ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).

مزيد آپ سوال نمبر (245 ) اور ( 9067 ) اور ( 20153 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
http://www.islamqa.com/ur/ref/115125
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اصل پیغام ارسال کردہ از: الیاسی
جواب نھیں ان لوگوں کی پاس
مولانا صاحب مذاق بہت اچھی طرح کرجانتے ہیں
محترم الیاسی صاحب نیچے درج عبارت اور اس کے ترجمے پر اپنی وضاحت پیش فرمائیں
الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائة جلدة
زنا کار مرد اور عورت پس مارو ھرایک کو ان دونوں میں سے سو کوڑے
آپ یہاں ’’ الزانیۃ والزانی ‘‘ کے لفظ سے ہر قسم کے مرد اور عورت کو اس سزا میں داخل کررہے ہیں یا لفظ ’’ کل ‘‘ کی وجہ سے ہر قسم کے مرد اور عورت کےلیے یہی سزا مقرر کررہے ہیں۔ اور دوسرا میں نے ایک لائن کی عربی بتانے کےلیے کہا ہوا تھا۔ جس کا تم نے یہ جواب دیا کہ الف اور ب پر یہ الزام ہے۔ چلو الزام والے الفاظ نکال کر عام عبارت پیش کرتے ہوئے اس کا ترجمہ بھی لکھ رہا ہوں۔ آپ بتائیں دونوں عبارتوں میں غلطی ہے یا نہیں؟ اگر ہے کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہے؟
الالف والباء فاجلدو کل واحد منہما مائة جلدة
الف اور باء پس مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے سو کوڑے
جناب گڈ مسلم صاحب شکر ہے اتنا عرصہ بعد شکل دکھادیا اور آپ تشریف لاے ماشاء اللہ میں تو سمجھ رہا تھا آپ جواب ڈھونڈنے کسی اہل حدیث عالم کی پاس سعودی عرب گیے ہو
خیر شکر ہے کہ کچھ تو بولے جناب ہر زنا کار مرد اور عورت مراد ہے اور آپ کی عربی لاین کا ترجمہ یہ ہے الف اورباء مارو ہرایک کو ان دونوں میں سے سو سو کوڑے دونوں میں کوئی
غلطی نھیں اب آپ نے آگے جو کہناہے کہو جلدی لاین پر آجاو بحث کرو کب تک فلسفے لڑاتے رہوگے ؟؟؟؟؟؟ قرآن شریف کو مانو اور اس پر عمل کرو
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
الیاسی بھائی صحیح کہہ رہے ہیں۔ قران کی طرف آئیں۔


قران میں زنا کی سزا سنگسار نہیں ھے، آخر اس بات کی تصدیق کرنے میں آپ لوگوں کو کیا شہ مانع ھے؟
تمہیں چار سوالات کے جوابات دینے میں کیا چیز مانع ہے؟
منکرین حدیث سے چار سوالات
 
Top