- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اس طرح کی اور کئی آیات ہیں۔
پوری کائنات کا ہر منظر رحمت ہی رحمت ہے۔
ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ﴿١٦٣﴾ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾۔ البقرہ
اور تمہارا معبود ایک اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق، رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدہ کے لیے رواں ہیں اور پانی (میں) جس کو اللہ نے آسمان سے اُتارا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل جو آسمانوں اور زمین کے درمیان تابع کیے ہوئے ہیں۔ ان سب چیزوں میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
یعنی کائنات کی ہر ایک چیز آسمان جیسی فلک بندی، زمین جیسی فرش بندی، رات کی تاریکی، دن کی روشنی اور ان کا ایک دوسرے کے بعد آنا، دریاؤں اور سمندروں میں پہاڑ جیسی بلند و بالا کشتیوں کا چلنا اور ان سے لاکھوں کروڑوں کا نفع حاصل کرنا، بادل، بارش، مختلف اقسام کے درخت، پودے، بیلیں، اور بے شمار قسم کی مخلوق، ہواؤں کا چاروں طرف لگنا، یہ سب اس رحمٰن و رحیم کی بے نظیر رحمت کی نشانیاں ہیں۔
حتی کہ عیسائی جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم میں عجز و انکساری، رحمت و مہربانی بہت زیادہ ہے۔ مگر وہ بھی صرف ان لوگوں میں تھی جو عیسٰی علیہ السلام کے پیروکار تھے یہ بھی محض اللہ کی طرف سے تھی۔
وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً ۔۔۔ ﴿٢٧﴾۔ الحدید
اور پیچھے (انبیاء کے تسلسل میں) ہم نے عیسٰی ابن مریم کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں نرمی اور مہربانی ڈال دی۔
ذوالقرنین نے جب یاجوج و ماجوج جیسی خطرناک اور دہشتناک قوم کے آگے بند باندھ کر روک دیا اور لوگ اس قوم کے فتنہ سے بچ گئے تو ذوالقرنین نے بھی یہ اقرار کیا کہ یہ کامیابی اللہ تعالی کی رحمت کی نشانی ہے۔
قَالَ هَـٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ۔۔﴿٩٨﴾۔ الکھف
کہا یہ میرے رب کی ایک مہربانی ہے۔
خضر علیہ السلام نے ایک تختہ نکال کر غریبوں کی کشتی کو بچا لیا۔ ناعاقبت اندیش لڑکے کو قتل کیا اور یتیموں اور مسکینوں کے خزانے کو بچانے کے لیے دیوار کی مرمت کی۔ خضر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی رحمت ہے۔
رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴿٨٢﴾۔ الکھف
یہ مہربانی تیرے پروردگار کی طرف سے ہے اور میں نے اسے اپنی رائے (مرضی) سے نہیں کیا۔ یہ تفسیر ہے اس کی جس پر تو نے صبر نہ کیا۔
خود خضر کو جو عطا ہوا وہ بھی اسی کی رحمت ہے۔
آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ﴿٦٥﴾۔ الکھف
اس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی اور اپنے پاس سے ایک (خاص) علم سکھایا تھا۔
پوری کائنات کا ہر منظر رحمت ہی رحمت ہے۔
ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ﴿١٦٣﴾ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾۔ البقرہ
اور تمہارا معبود ایک اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق، رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدہ کے لیے رواں ہیں اور پانی (میں) جس کو اللہ نے آسمان سے اُتارا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل جو آسمانوں اور زمین کے درمیان تابع کیے ہوئے ہیں۔ ان سب چیزوں میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
یعنی کائنات کی ہر ایک چیز آسمان جیسی فلک بندی، زمین جیسی فرش بندی، رات کی تاریکی، دن کی روشنی اور ان کا ایک دوسرے کے بعد آنا، دریاؤں اور سمندروں میں پہاڑ جیسی بلند و بالا کشتیوں کا چلنا اور ان سے لاکھوں کروڑوں کا نفع حاصل کرنا، بادل، بارش، مختلف اقسام کے درخت، پودے، بیلیں، اور بے شمار قسم کی مخلوق، ہواؤں کا چاروں طرف لگنا، یہ سب اس رحمٰن و رحیم کی بے نظیر رحمت کی نشانیاں ہیں۔
حتی کہ عیسائی جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم میں عجز و انکساری، رحمت و مہربانی بہت زیادہ ہے۔ مگر وہ بھی صرف ان لوگوں میں تھی جو عیسٰی علیہ السلام کے پیروکار تھے یہ بھی محض اللہ کی طرف سے تھی۔
وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً ۔۔۔ ﴿٢٧﴾۔ الحدید
اور پیچھے (انبیاء کے تسلسل میں) ہم نے عیسٰی ابن مریم کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں نرمی اور مہربانی ڈال دی۔
ذوالقرنین نے جب یاجوج و ماجوج جیسی خطرناک اور دہشتناک قوم کے آگے بند باندھ کر روک دیا اور لوگ اس قوم کے فتنہ سے بچ گئے تو ذوالقرنین نے بھی یہ اقرار کیا کہ یہ کامیابی اللہ تعالی کی رحمت کی نشانی ہے۔
قَالَ هَـٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ۔۔﴿٩٨﴾۔ الکھف
کہا یہ میرے رب کی ایک مہربانی ہے۔
خضر علیہ السلام نے ایک تختہ نکال کر غریبوں کی کشتی کو بچا لیا۔ ناعاقبت اندیش لڑکے کو قتل کیا اور یتیموں اور مسکینوں کے خزانے کو بچانے کے لیے دیوار کی مرمت کی۔ خضر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی رحمت ہے۔
رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴿٨٢﴾۔ الکھف
یہ مہربانی تیرے پروردگار کی طرف سے ہے اور میں نے اسے اپنی رائے (مرضی) سے نہیں کیا۔ یہ تفسیر ہے اس کی جس پر تو نے صبر نہ کیا۔
خود خضر کو جو عطا ہوا وہ بھی اسی کی رحمت ہے۔
آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ﴿٦٥﴾۔ الکھف
اس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی اور اپنے پاس سے ایک (خاص) علم سکھایا تھا۔