• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرح اسماءِ حسنٰی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کتاب کا نام: شرح اسماءِ حسنی
مصنف: فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ
لنک

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تعالٰی کے سب نام ہی اچھے ہیں اور اسے ان ہی ناموں سے پکارا جائے اور ان اچھے ناموں والی اور کوئی ذات نہیں۔
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا (اعراف:180)
" اور اللہ تعالٰی کے سب نام اچھے ہیں، اسے انہی ناموں سے پکارو"۔
قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖأَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (الاسراء:110)
" اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اللہ کو اس کے نام سے پکارو یا رحمٰن کے نام سے پکارو،جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں"۔
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (طہ:8)
" اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کے نام اچھے ہیں"۔
هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ(الحشر:24)
" وہ اللہ پیدا کرنے والا، ایجاد و اختراع کرنے والا، اور صورتیں بنانے والا، اُس کے سب اچھے نام ہیں۔
اللہ تعالی کے کسی بھی نام سے دعا کی جاسکتی ہے، صحیح ابن حبان میں سیدنا عبداللہ بن مسعو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جس بندے کو بھی غم یا فکر لاحق ہو اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو اللہ تعالٰی اس کی پریشانیاں دور فرما دیں گے اور خوشی نصیب فرمائیں گے"۔
اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ وَجَلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي۔
" یا اللہ میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے بندے اور بندی کا بیٹا ۔ میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تیرا ہر حکم مجھ پر نافذ ہونے والا ہے، میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ انصاف و عدل پر مبنی ہے۔ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں، جسے تو نے خود اپنے لیے پسند کیا ہے یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا اپنے علم غیب کے خزانے میں محفوظ کر رکھا ہے، کہ قرآن کو میرے دل کی بہار، آنکھ کا نور اور میرے دکھوں اور غموں کو دور کرنے کا ذریعہ بنا دے"
تب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا ہمیں یہ کلمات یاد کرنے چاہئیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جو سنے وہ بھی یاد کرلے۔
(موارد الظمان الی زوائد ابن حبان للھیثمی ص589)
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالی کے بے شمار اچھے نام ہیں اور ایسے بھی نام ہیں جن کو اللہ تعالی نے ظاہر نہیں کیا اور وہ اس کے علم غیب میں سے ہیں جس کا علم صرف اسے ہی ہے لیکن یاد کرنے اور پڑھنے کے لیے صرف (99) ناموں کا ذکر ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ان للہ تسعۃ وتسعین اسما مائۃ الا واحد من احصاھا دخل الجنۃ"(مشکوٰۃ ص199)
" بے شک اللہ کے ننانوے ایک کم سو نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور یہ اس لیے کہ جو بھی ان ناموں کو یاد کرے گا اور بار بار پڑھتا رہے گا تو اس کا قلب اللہ کی طرف متوجہ ہوگا کیونکہ ہر نام سے اللہ تعالی کی کوئی نہ کوئی قدرت، مہربانی اور دَین (عطا) ظاہر ہوتی رہے گی اس لیے اس کا دل اللہ تعالی کے لیے خالص رہے گا اور اپنے پروردگار کی مہربانیاں دیکھ کر وہ اعمال صالحہ میں بھی مسارعت (تگ ودو) کرتا رہے گا۔ اور اس کے غضب اور قہر کو دیکھ کر گناہوں سے توبہ کرتا رہےگا۔ اس قسم کے آدمی کے لیے یقیناً جنت ہے۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اللہ کے حکم کے عین مطابق ہے اور اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے۔ یہ اسماء ترمذی(ص189جلد1) میں مذکور ہیں۔ جن کی مختصر تشریح پیش کی جاتی ہے۔ تشریح کے لیے امام بیھقی کی کتاب "الاسماء والصفات" امام غزالی کی کتاب "المقصد الاسنٰی شرح اسماء الحسنٰی"، امام بونی کی "شرح اسماءِ اللہ" اور امام ابو اسحٰق زجاج کی تفسیر "اسماء اللہ الحسنٰی" وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ترمذی کتاب الدعوات میں حدیث اس طرح ہے:۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ
1-هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ
2-الرَّحْمَنُ
3-الرَّحِيمُ

4-الْمَلِكُ
5-الْقُدُّوسُ
6-السَّلَامُ
7-الْمُؤْمِنُ
8-الْمُهَيْمِنُ
9-الْعَزِيزُ
10-الْجَبَّارُ
11-الْمُتَكَبِّرُ
12-الْخَالِقُ
13-الْبَارِئُ
14-الْمُصَوِّرُ
15-الْغَفَّارُ
16-الْقَهَّارُ
17-الْوَهَّابُ
18-الرَّزَّاقُ
19-الْفَتَّاحُ
20-الْعَلِيمُ
21-الْقَابِضُ
22-الْبَاسِطُ

23-الْخَافِضُ
24-الرَّافِعُ

25-الْمُعِزُّ
26-الْمُذِلُّ
27-السَّمِيعُ
28-الْبَصِيرُ
29-الْحَكَمُ
30-الْعَدْلُ
31-اللَّطِيفُ
32-الْخَبِيرُ
33-الْحَلِيمُ
34-الْعَظِيمُ
35-الْغَفُورُ
36-الشَّكُورُ
37-الْعَلِيُّ
38-الْكَبِيرُ
39-الْحَفِيظُ
40-الْمُقِيتُ
41-الْحَسِيبُ
42-الْجَلِيلُ
43-الْكَرِيمُ
44-الرَّقِيبُ
45-الْمُجِيبُ
46-الْوَاسِعُ
47-الْحَكِيمُ
48-الْوَدُودُ
49-الْمَجِيدُ
50-الْبَاعِثُ
51-الشَّهِيدُ
52-الْحَقُّ
53-الْوَكِيلُ
54-الْقَوِيُّ
55-الْمَتِينُ
56-الْوَلِيُّ
57-الْحَمِيدُ
58-الْمُحْصِي
59-الْمُبْدِئُ
60-الْمُعِيدُ
61-الْمُحْيِي
62-الْمُمِيتُ
63-الْحَيُّ
64-الْقَيُّومُ
65-الْوَاجِدُ
66-الْمَاجِدُ
67-الْوَاحِدُ
68-الصَّمَدُ
69-الْقَادِرُ
70-الْمُقْتَدِرُ
71-الْمُقَدِّمُ
72-الْمُؤَخِّرُ

73-الأَوَّلُ
74-الآخِرُ

75-الظَّاهِرُ
76-الْبَاطِنُ
77-الْوَالِيَ
78-الْمُتَعَالِي
79-الْبَرُّ
80-التَّوَّابُ
81-الْمُنْتَقِمُ
82-الْعَفُوُّ
83-الرَّئُوفُ
84-مَالِكُ الْمُلْكِ
85-ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ
86-الْمُقْسِطُ
87-الْجَامِعُ
88-الْغَنِيُّ
89-الْمُغْنِي
90-الْمَانِعُ
91-الضَّارُّ
92-النَّافِعُ

93-النُّورُ
94-الْبَدِيعُ
95-الْهَادِي
96-الْبَاقِي
97-الْوَارِثُ
98-الرَّشِيدُ
99-الصَّبُورُ
یہ حدیث ابن حبان بھی اپنی صحیح میں لائے ہیں۔ (مواردالظمان ص592) اور حاکم نے مستدرک ص16 میں لا کر اسے صحیح کہا ہے اور ذھبی نے تلخیص میں ان کی موافقت کی ہے۔ امام حاکم رحمۃ اللہ بطور شہادت اس حدیث کی دوسری سند بھی لائے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ

یہ رب العالمین کی ذات بابرکت کا اسم ذات یا ذاتی اسم ہے جو ناموں میں بڑا اور جامع ہے۔ کوئی اور ذات اس نام سے منسوب نہیں۔
هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا (مریم:65)
" بھلا تم اس کا کوئی ہمنام جانتے ہو؟
یہی سبب ہے کہ اس کا نہ تثنیہ ہے اور نہ ہی جمع۔ اور اس کے معنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:۔
فاللہ اسم للموجود الحق الجامع لصفات الإلهية، المنعوت بنعوت الربوبية، المنفرد بالوجود الحقيقي لا إله إلا ھو سبحانہ۔
وقیل معناہ الذی یستحق ان یعبد وقیل معناہ واجب الوجود الذی لم یزل ولا یزال والمعنی واحد۔

اللہ اس موجود بادشاہ کا نام ہے جو حق، سچا اور تمام صفات الہیہ کا جامع، ربوبیت کے تمام اوصاف سے موصوف، وجود حقیقی میں منفرد، جس کے سوا اور کوئی الٰہ نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ وہ ہے جو تمام مخلوقات کی بندگی کا مستحق ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ واجب الوجود یعنی جس کا ازل تا ابد تک موجود رہنا ضروری ہے۔ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
مذکورہ تمام معانی کا ماحصل ایک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فصل:۔ اس اسم مبارک کے اشتقاق کے بارے میں دو اقوال ہیں۔ ایک قول کے مطابق اصل اس کا الٰہ بروزن فعال ہے بعد میں اس پر الف اور لام بعوض ھمزہ کے داخل کیے گئے ہیں ۔ جیسے اناس سے الناس اور بعض نے کہا ہے کہ اصل الالہ ہے۔ الٰہ کےھمزہ کو حذف کر کے لام کو لام میں ادغام کیا گیا تو اللہ بن گیا۔ اس اصل کے مطابق الٰہ کا اصل ولاہ ہوگا اور ھمزہ واؤ سے بدل ہے جیسے وشاح سے اشاح اور وسادۃ سے اسادۃ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اسم علم خاص اور جامد ہے، جس کا کوئی اشتقاق نہیں۔ بیشتر علماء کا یہی خیال ہے۔ مثلا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، ابوالمعالی امام الحرمین، ابو سلیمان خطابی رحمۃ اللہ علیہ، ابو حامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اور مفضل وغیرہم۔ استاذ النحو الخلیل نیز سیبویہ سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے۔ (القرطبی ص3، 102 ج1)
راقم الحروف کا بھی خیال ہے کہ تحقیق کے مطابق آخری قول صحیح ہے اور اس قسم کے اشتقاق کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ اس قسم کے تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہیں بلکہ خود اسکے خلاف دلائل ہیں۔ خود قرطبی نے امام خطابی سے نقل کیا ہے کہ:۔
والدلیل علی ان الالف والام من بنیۃ ھذا الاسم ولم یدخلا للتعریف دخول حرف النداء علیہ کقولک یا اللہ وحروف النداء لا تجتمع مع الالف واللام للتعریف الاتری انک لا تقول یا الرحیم کما تقول باللہ فدل علی انھما من بنیۃ الاسم۔
مگر کسی دوسرے نام پر معروف بالام ہونے کی صورت میں یا حروف ندا داخل نہیں ہوگا۔ مثلا یا الرحمٰن، یا القدوس، یا الکریم، یا الغفار یا الشکور وغیرہ بلکہ
یا رحمان، یاقدوس، یاکریم، یاغفار، یا شکور وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ثابت ہوا کہ لفظ اللہ میں الف لام تعریف کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے اصلی بناء کے حروف میں شامل ہے۔ علماء النحو نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ منادیٰ معروف بالام اور حرف نداء دونوں ایک ساتھ جمع نہ ہوں گے بلکہ اس صورت میں حرف نداء اور مادیٰ کے درمیان کلمہ "ایھا" اگر مذکر ہے اور اگر مونث ہے تو کلمہ "ایتھا" درمیان میں بڑھا دیا جائے گا۔ (الکافیہ لابن حاجب ص25، متن متین ص118 الفیہ ابن مالک مع شرح ابن عقیل وشرحہ البھجۃ المرضیۃ للسیوطی ص 140، المفضل للزمخشری ص41، ملحقہ الاعراب لابی القاسم الحریری ص78 وغیرہ) علامہ خازن نے اپنی تفسیر ص15 ج1 میں اسے جمہور کا قول قرار دیا ہے۔ علامہ فیروز آبادی القاموس ص280 ج 4 میں لکھتے ہیں کہ واصحھا انہ علم غیر مشتق یعنی صحیح قول یہ ہے کہ لفظ اللہ عَلم غیر مشتق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الحاصل لفظ اللہ، اللہ کا خاص ذاتی نام ہے اور الالٰہ اس کاصفاتی نام ہے جس کے مختلف اشتقاق بتائے گئے ہیں جو سب قریباً ہم معنی ہیں۔
1-- اَلَہَ (لام کے زبر کے ساتھ) بمعنی عبد یعنی بندگی کے۔ اور الھۃ، الوھۃ اور الوھیۃ اس کے مصادر ہیں اور اسی سے ماخوذ ہے تَاَلَّہ بمعنی تعبد یعنی بندہ ہوا اور اِستَالہ بمعنی استعبد یعنی بندہ بنایا۔ (القاموس ص280 ج 4 )۔ اس طرح الٰہ کے معنی ہوں گے معبود اور عبادت کے لائق۔
2--الِہ (لام کی زیر کے ساتھ) بمعنی تحیر یعنی حیران ہوا (الصحاح للجوہری ص 2224 ج 4) اور الٰہ کے معنی ہوں گے وہ ذات جس کے ادراک اور معرفت کے لیے سب عقلیں حیران ہیں۔
3-- الِہ (لام کی زیر کے ساتھ) بمعنی فزع یعنی پناہ لی۔ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ ذات جس کی ہر مصیبت و مشکل میں پناہ لی جائے۔ جیسے:-
الہ یالہ الی کذا ای لجا الیہ، قال الشاعر:- الھت الینا والحوادث جمۃ وقال الاخر الھت الیھا والرکائب وقف ( لسان العرب )
4-- الھت الی فلان سکنت الیہ
(روح المعانی ج1 ص53 ) یعنی اس میں سکون اور اطمینان کے معنی بھی ہیں اور الٰہ وہ ہے جس کے گھر پر آنے، عبادت کرنے اور ذکر کرنے سے مومن کو سکون اور اطمینان حاصل ہو، جس طرح فرمایا:-
أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:28)
خبردار! دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر ہی سے ملتا ہے۔
5--الٰہ الفھل اذا ولع بامہ (روح المعانی ص53ج1)
اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کی طرف شوق سے آیا۔ گویا کہ الٰہ وہ ہے جس کی طرف بندے شوق سے آئیں اور اس کی محبت اور کشش بندوں کو اس کے دروازے تک لے آئے۔ لسان العرب ص468 ج 3 میں ہے کہ:-
ان الحلق یولھون الیہ فی حوائجھم و یتضرعون الیہ فیما یصیبھم ویغزعون الیہ فی کل ما ینوبھم کما یولہ کل طفل الی امہ۔
یعنی اللہ کی مخلوق اپنی حاجات کے لیے اس کے در کی محتاج و مجبور ہے اور مصیبت و مشکل کے وقت اس کے آگے تضرع و عاجزی کرتے ہیں اور حادثات کے وقت اسی کی طرف لپکتے ہیں جیسے بچہ اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے۔ اسی صفحہ پر ابوالٰہ یثم سے منقول ہے کہ:
ترجمہ:- یعنی الٰہ وہ ہے جو معبود ہو اور اپنے عابد کے لیے خالق، رازق اور تدبیر کرنے والا ہو اور اپنے بندوں پر ہر طرح قدرت رکھنے والا ہو اور جس میں یہ صفات نہ ہوں تو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا اگرچہ ظلم و استبداد سے اس کی بندگی بھی کی جائے۔تب بھی مخلوق اور بندہ ہے
یعنی یہ اللہ کا صفاتی نام ہے۔ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کے بھی یہی معنی ہیں ۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہی ایک اللہ ہے اور کوئی دوسرا اس صفت میں اس کا شریک نہیں۔ اس لیے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کافر اور اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں بھی اللہ صرف اس ذات کو کہتے تھے جس کے اسماء الحسنٰی ہیں۔ اور جن کو مشرک پوجتے تھے انہیں اللہ نہیں بلکہ الٰہ کہتے تھے جس کی اس کلمے میں نفی ہے۔ (لسان العرب ص469 ج 3 ) میں ہے:-
ترجمہ:- یعنی اللہ صرف ایک سبحانہ وتعالی کا نام ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ۔ جب کہ الالٰہ، اللہ سبحان تعالی اور اس کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی پوجا کی جاتی ہے سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اللہ کا اطلاق سوا اس باری تعالی کے کسی اور پر نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن میں ہے کہ:
وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۘلَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ(القصص:88)
اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚقُل لَّا أَشْهَدُ ۚقُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ۔ الانعام:19
کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہیں؟ تو کہہ دے میں تو گواہی نہیں دیتا تو کہہ دے کہ وہی ایک معبود ہے۔ بے شک میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک کرتے ہو
أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚقُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔ (النمل:63)
کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اے نبی کہہ دے اگر سچے ہو تو کوئی دلیل لاؤ۔
هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۔ (الحشر:23)
وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (وغیرھا من الایت) یعنی اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ نہ بناؤ، نہ پکارو اور نہ ہی اس کے سوا اور کوئی الٰہ ہے بلکہ وہی ایک اللہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فصل: اسمِ مبارک اللہ سب ناموں میں سے زیادہ شان والا اور جامع ہے۔ اس لیے اس کو اسم اعظم کہا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو کہ تقریبا چالیس کی تعداد میں ہیں۔ (تخفۃ الذاکرین فی عدۃ الحصن الحصین للشوکانی ص62)
یہاں ہم مشکٰوۃ کتاب الدعوات باب اسماء اللہ تعالی الفصل الثانی سے صرف تین احادیث ذکر کرتے ہیں جو اسماء باری تعالی کے بارے میں ہیں ۔ یہ احادیث فصل ثانی میں صاحب مشکٰوۃ لائے ہیں اور سب کی سب ثابت ہیں۔
1--عن بُرَيْدَةَ رضي الله عنه: "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ، وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ. فَقَالَ: «لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ بِالِاسْمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ۔ رواہ الترمذی وابو داؤد۔
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہتے سنا:
اے اللہ! میں تجھ سے اس لیے سوال کرتا ہوں کہ تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو اکیلا ہے، بے نیاز ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ اسے جنا گیا۔ اور اسکی برابری کرنے والا کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص نے اللہ تعالٰی کے اسم اعظم (بہت بڑے نام) کے ساتھ دعا کی ہے اور اسم اعظم کے وسیلے سے جب اللہ تعالی سے مانگا جاتا ہے تو وہ عطا فرماتا ہے اور جب اس سے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول فرماتا ہے۔ یہ حدیث نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ ترمذی اپنے استاد ابوالحسن مقدسی سے نقل کرتے ہیں کہ اسکی سند میں کسی طعن اور جرح کی گنجائش نہیں اور حافظ ابن حجر اس باب میں تمام روایات کے مقابلے میں اسے راجح قرار دیتے ہیں۔ (تخفۃ الذاکرین ص62)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2-- عن انس قال کنت جالسا مع النبی فی المسجد ورجل یصلی فقال اللھم انی اسئلک بان لک الحمد لا الہ الا انت الحنا المنان بدیع السموات والارض یا ذالجلال والاکرام یا حی یا قیوم اسئلک فقال النبی دعا اللہ باسمہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب واذا سئل بہ اعطی۔ رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی وابن ماجہ۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص نے نماز پڑھی اور یوں دعا مانگی: یا اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو تمام تعریفوں کے لائق ہے ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو بڑا مہربان، احسان کرنے والا زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اے بزرگی اور بخشش کے مالک! اے ہمیشہ زندہ رہنے والے اور دنیا کو قائم رکھنے والے اور برقرار رکھنے والے! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص نے اللہ سے اسم اعظم کے واسے سے دعا مانگی ہے اور اسم اعظم وہ ہے کہ جس کے وسیلے سے دعا مانگی جائے تو قبول کرتا ہے۔ اور جب اس کے واسطے سے سوال کیا جاتا ہے تو عطا فرماتا ہے۔
اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ اور حاکم نے اسے مسم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ (تخفۃ الذاکرین ص 63)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3-- عن اسما بنت یزید ان النبی قال اسم اللہ الاعظم فی ھاتین الایتین: وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ، الم اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۔ رواہ الترمذی و ابو داؤد وابن ماجہ والدارمی۔
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا نام (اسم اعظم) ان دو آیتوں میں ہے (1) تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔ الم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہمیشہ زندہ رہنے اور دنیا کوقائم رکھنے والا ہے۔
اس ضمن میں دیگر روایات بھی ہیں لیکن ان میں جرح اور کلام ہے۔ ان تینوں دعاؤں کو پڑھنے سے اسم اعظم کا پڑھنا نصیب ہوگا۔ وللہ الحمد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فائدہ: (1) عام طور پر صوفی اور وجودی اس اکیلے نام کاذکر کرتے ہیں۔ اللہ اللہ کا ورد کرتے ہیں۔ اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثبوت تو درکنار بلکہ سلف الصالحین القرون مشہود لہم بالخیر میں بھی ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ الرد علی المنطقین ص 35 میں فرماتے ہیں۔
فاما الاسم المفرد فلا یکون کلاما مفیدا عند احد من اھل الارض بل ولا اھل السماء وان کانا وحدہ کان معہ غیرہ مضمرا او کان المقصود بہ تنبیھا او اشارہ کما یقصد بالاصوات التی لم توضع لمعنی لانہ یقصد بہ المعانی التی تقصد بالکلام ولھذا عدالناس من البدع ما یفعلہ بعض النساک من ذکر اسم "اللہ" وحدہ بدون تالیف کلام فان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال افضل الذکر لا الہ الا اللہ و افضل الدعاء الحمدللہ۔ رواہ ابوحاتم فی صحیحہ، وقال افضل ما قلت انا والنبیون من قبلی لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔ روہ مالک وغیرہ، وقد تواتر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یعلم امتہ ذکر اللہ تعالی بالجملہ التامہ مثل سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ رواہ مسلم، وفی صحیح مسلم عنہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لان اقول سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر احب الی مما طلعت علیہ الشمس وقال من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنہ و امثال ذالک فظن طائفہ من الناس ان ذکر الاسم المفرد مشروع بل ظن بعضھم افضل فی حق الخاصہ من قول لا الہ الا اللہ و نحوھا وظن بعصھم ان ذکر الاسم المضمر وھو "ھو" ھو افضل من ذکر الاسم المظھر واخرجھم الشیطان ان یقولو الفظا لا یفید ایمانا ولا ھدی بل دخلوا بذالک فی مذھب اھل الزندقہ ولالحاد اھل وحدۃ الوجود الذین یجعلون وجود المخلوقات وجود الخالق ویقول احدھم لیس الا "اللہ" و "اللہ" ونجو ذالک و ربما احتج بعضھم علیہ بقولہ تعالی قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون0وظنوا انہ مامور بان یقول الاسم مفردا و انما ھو جواب الاستفھام حیث قال اللہ تعالی وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ ای اللہ انزل الکتاب الذی جاء بہ موسی
یعنی لفظ اللہ بغیر کوئی کلمہ ملائے نہ آسمان والوں اور نہ زمین والوں کے نزدیک مفید ہے اور جہاں بھی اکیلا استعمال ہوا ہے تو ہاں اس کے ساتھ کلمہ مضمر ضرور ہے۔ یا کسی جملے کی طرف تنبیہہ یا اشارہ کی صورت میں ہوگا۔ اس لیے لوگوں نے صوفیوں کے عام ذکر "اللہ" کو بغیر کسی اور جملے کے ساتھ، بدعت کہا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مکمل جملوں کو بیان فرمایا ہے، مثلا:-
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الااللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وغیرہ۔
جن سے کوئی معنی یا مفہوم ظاہر ہوتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو اچھا ذکر اور اللہ کے یہاں عمدہ کلمے کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنا اور سابقہ انبیاء کاذکر بھی فرمایا ہے۔ جس کلمے کو انس ان کے خاتمے کے وقت جنت میں جانے کا باعث بتلایا ہے وہ بھی لا الہ الا اللہ بتلایا ہے نیز جس کلمے کے کہنے سے ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوگا وہ بھی آپ نے "لاالہ الا اللہ" بتایا ہے۔ بعض نے " اللہ " کے نام کے اکیلے ذکر کو شرعی کہا ہے۔ اور بعض نے "ھو ھو" کے ذکر کو اپنے خواص کے لیے مخصوص کیا ہے اور اسے بہت بابرکت سمجھا ہے اسی طرح شیطان نے انہیں اصل ذکر سے گمراہ کر کے (جس سے کوئی صحیح معنی ظاہر ہو یا عقیدے کی تجدید وتوثیق ہو) خالی الفاظ کے پھندوں میں پھنسا دیا ہے جن سے نہ یقین کا فائدہ ہو اور نہ ہی ہدایت کا۔ یوں وہ الحاد، زندقہ اور وحدۃ الوجود جیسے مہلک مذاہب میں داخل ہوئے جو مخلوق کے وجود کو خالق کا وجود سمجھتے ہیں۔ (نعوذ باللہ) اور یہ کہتے رہتے ہیں کہ لیس الا اللہ یعنی اللہ کے سوا کسی کا وجود نہیں۔ اور ان میں سے بعض قرآن کریم کی اس آیت سے دلیل لیتے ہیں کہ قل اللہ (سورۃ الانعام) تو کہہ کہ اللہ۔ حالانکہ یہ سراسر اختلاس اور قرآن کریم میں ناجائز تصرف ہے کیونکہ پوری آیت سورہ انعام میں یوں مذکور ہے
وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ
اور ان (یہودیوں) نے اللہ کی قدر جیسے جاننی چاہیے تھی نہ جانی۔ جب انہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بھی آدمی پر کچھ نازل نہیں کیا۔ اے پیغمبر! ان سے کہہ دیجیئے وہ کتاب کس نے نازل کی جو موسی لائے تھے؟ جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔ جسے تم ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو۔ اس کے کچھ حصے کو تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ کہہ دو اللہ (نے کتاب کو نازل کیا ہے) پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں۔
پوری آیت سے بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ایک جملے کا جواب ہے اور تنبیہہ کی گئی کہ وہ اللہ کی ذات ہے جس نے اس کتاب کو نازل کیا ہے۔ بہرحال صوفیاء کے اکثر دلائل اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ دھوکے اور تحریف پر مبنی۔ واللہ الھادی الی سواء السبیل۔
 
Top