بَابٌ : إِعْطَاء الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَ تَصَيُّرُ مَنْ قَوِيَ إِيْمَانُهُ
جن کے دل اسلام کی طرف راغب ہیں، ان کو دینا اور مضبوط ایمان والوں کو چھوڑ دینا
(513) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَ غَطَفَانُ وَ غَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَ نَعَمِهِمْ وَ مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلاَفٍ وَ مَعَهُ الطُّلَقَاء فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ قَالَ فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَائَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا قَالَ فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ فَقَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ قَالَ ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ قَالَ وَ هُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَائَ فَنَزَلَ فَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَ رَسُولُهُ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ وَ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَنَائِمَ كَثِيرَةً فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَائِ وَ لَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالَتِ الأَنْصَارُ إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى وَ تُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ ؟ فَسَكَتُوا فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَ تَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ ؟ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ رَضِينَا قَالَ فَقَالَ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَ سَلَكَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الأَنْصَارِ قَالَ هِشَامٌ فَقُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ قَالَ وَ أَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حنین کا دن ہوا تو (قبیلہ) ہوازن اور غطفان اور دوسرے قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ (جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے) بھی، جن کو طلقاء کہتے ہیں۔ پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے گئے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آوازیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا، پہلے دائیں طرف منہ کیااور پکارا کہ اے گروہ انصار! تو انصار نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف منہ کیااور پکارا کہ ''اے گروہ انصار! تو انہوں نے پھر جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔'' اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور فرمایا:'' میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت انبیاء کے واسطے خاص ہے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ! اللہ کا بندہ ہونا اور اس کا رسول ہونا کتنی بڑی نعمت ہے) اور رسول ہوں۔ پس مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مہاجرین اور مکہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ مشکل گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروںکو دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیںایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا:'' اے گروہ انصار! یہ کیسی بات ہے جو مجھے تم لوگوں سے پہنچی ہے؟'' تب وہ چپ ہو رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے گروہ انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیںا ور تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟'' انہوں نے کہا کہ بے شک اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی کی راہ لوں گا۔'' ہشام(سیدنا انس کے شاگرد) نے کہا کہ میں نے کہا کہ اے ابوحمزہ! تم اس وقت حاضر تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟
(514) عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ وَ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ وَ عُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ وَالأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ وَ أَعْطَى عَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ ذَلِكَ فَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَتَجْعَلُ نَهْبِي وَ نَهْبَ الْعُبَيْدِ بَيْنَ عُيَيْنَةَ وَالأَقْرَعِ ؟
فَمَا كَانَ بَدْرٌ وَ لاَ حَابِسٌ
يَفُوقَانِ مِرْدَاسَ فِي الْمَجْمَعِ
وَ مَا كُنْتُ دُونَ امْرِئٍ مِنْهُمَا
وَ مَنْ تَخْفِضِ الْيَوْمَ لاَ يُرْفَعِ
قَالَ فَأَتَمَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِائَةً
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان، صفوان، عیینہ اور اقرع بن حابس رضی اللہ علیھم اجمعین کو سو سو اونٹ دیے اور عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کو کچھ کم دیے تو عباس رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے:
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عیینہ اور اقرع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے (یعنی مجھ سے) کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوںسے کچھ کم نہیں ہوں۔ اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہو گی۔''
سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سو اونٹ پورے کر دیے۔
(515) عَنْ أَبِيْ سَعِيدِ نِالْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْيَمَنِ بِذَهَبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا قَالَ فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ وَالأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ بْنُ عُلاَثَةَ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلآئِ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَلاَ تَأْمَنُونِي وَ أَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَائِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَائِ صَبَاحًا وَ مَسَائً ؟ قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَ جْنَتَيْنِ نَاشِزُ الْجَبْهَةِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الإِزَارِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ فَقَالَ وَيْلَكَ أَوَ لَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ ؟ قَالَ ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلآ أَضْرِبُ عُنُقَهُ ؟ فَقَالَ لاَ لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي قَالَ خَالِدٌ وَ كَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أُنَقِّبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَ لاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ قَالَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَ هُوَ مُقَفٍّ فَقَالَ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا
يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ قَالَ أَظُنُّهُ قَالَ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے کچھ سوناایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل رضی اللہ علیھم اجمعین ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوا ب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو'' (معلوم ہواکہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھا ورنہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا اور کہا کہ'' اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے۔'' (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا :'' اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔''