بَابٌ : مِيْرَاثُ الْكَلاَلَةِ
کلالہ (جس میت کا نہ باپ ہو اور نہ اولاد) کے ورثے کا بیان
(996) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنَا مَرِيضٌ لاَ أَعْقِلُ فَتَوَضَّأَ فَصَبُّوا عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ فَعَقَلْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا يَرِثُنِي كَلالَةٌ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فَقُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ { يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ } (النساء : 176) قَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں بیمار اور بے ہوش تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، نے وضو کیا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا۔ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میرا ترکہ؟ (ترکہ تو کلالہ کا ہو گا)۔ (راوی شعبہ) کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن المنکدر سے پوچھا کہ کیا یہ آیت ''فتویٰ پوچھتے ہیں تجھ سے کہہ دو اللہ فتویٰ دیتا ہے تم کو (مسئلہ) کلالہ میں۔'' (النساء:۱۷۶) (نازل ہوئی تھی؟) انہوں نے کہا: ہاں! یہی آیت نازل ہوئی تھی۔
وضاحت: کلالہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں اور جمہور علماء کے نزدیک کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کے نہ تو والدین ہوں اور نہ اولاد۔
(997) عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ ذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ إِنِّي لاَ أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ عِنْدِي مِنَ الْكَلالَةِ مَا رَاجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي شَيْئٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلالَةِ وَ مَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْئٍ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهِ حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي وَ قَالَ يَا عُمَرُ ! أَلاَ تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَائِ وَ إِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا بِقَضِيَّةٍ يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَ مَنْ لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ۔ پھر کہا کہ میں اپنے بعدکوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں چھوڑتا جیسے کلالہ کا مسئلہ اور میں نے کوئی مسئلہ ایسا بار بار نہیں پوچھا جتنا کلالہ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھ سے ایسی سختی کسی بات میں نہیں کی جتنی کلالہ کے مسئلہ میں کی، یہاں تک کہ اپنی انگلی مبارک میرے سینے میں چبھو کر فرمایا:'' اے عمر! تجھ کو وہ آیت کافی نہیں ہے جوگرمی کے موسم میں سورئہ نساء کے اخیر میں اتری تھی۔'' پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو کلالہ کے بارے میں ایسا حکم (صاف صاف) دوں گا کہ اس کے موافق ہر شخص فیصلہ کرے جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔