کِتَابُ السِّیَرِ
سیر و سیاحت اور لشکر کشی کا بیان
بَابٌ : فِي الأُمَرَاء عَلَى الْجُيُوْشِ وَالسَّرَايا وَالْوَصِيَّةِ لَهُمْ بِمَا يَنْبَغِيْ
لشکروں اور سرایا کے امراء اور انہیں مناسب وصیت کے بارے میں
(1111) عَنْ بُرَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَ مَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا ثُمَّ قَالَ اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا وَ لاَ تَغُلُّوا وَ لاَ تَغْدِرُوا وَ لاَ تَمْثُلُوا وَ لاَ تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَ إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَ كُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلامِ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَ كُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَ أَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَ لاَ يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَ الْفَيْئِ شَيْئٌ إِلاَّ أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَ كُفَّ عَنْهُمْ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَ قَاتِلْهُمْ وَ إِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَ ذِمَّةَ نَبِيِّهِ فَلاَ تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَ لاَ ذِمَّةَ نَبِيِّهِ وَ لَكِنِ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَ ذِمَّةَ أَصْحَابِكَ فَإِنَّكُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَ ذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَ ذِمَّةَ رَسُولِهِ وَ إِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ فَلاَ تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ وَ لَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ فَإِنَّكَ لاَ تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لاَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ (يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ) هَذَا أَوْ نَحْوَهُ
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو لشکر پر یا سریہ پر امیر مقرر کرتے (سریہ کہتے ہیں چھوٹے ٹکڑے کو اور بعضوں نے کہا کہ سریہ میں چار سوار ہوتے ہیں جو رات کو چھپ کر جاتے ہیں) ،تو خاص اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم کرتے اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو بھلائی کرنے کا حکم کرتے ،پھر فرماتے :’’اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کے راستے میں جہاد کرو اور اس سے لڑو جس نے اللہ کو نہیںمانا اور (لوٹ کے مال یعنی مال غنیمت) میں چوری نہ کرو اور معاہدہ نہ توڑو اور مثلہ نہ کرو (یعنی ہاتھ پاؤںناک کان نہ کاٹو) اور بچوں کو مت مارو (جو نابالغ ہوں اور لڑائی کے لائق نہ ہوں) اور جب تم مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ملو،تو ان کو تین باتوں کی طرف بلاؤ، پھر ان تین باتوں میںسے جوبھی مان لیں ،تم بھی قبول کرو اور ان (کو مارنے اور لوٹنے )سے باز رہو۔ پھر ان کو اسلام کی طرف بلاؤ (یہ تین میں سے ایک بات ہوئی) ،اگر وہ مان لیں تو قبول کرو اور ان کے مارنے سے باز رہو پھر ان کو اپنے ملک سے نکل کر مہاجرمسلمانوں کے ملک میں آنے کے لیے بلاؤ اور ان سے کہہ دو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو جومہاجرین کے لیے ہو گا وہ ان کے لیے بھی ہو گا اور جو مہاجرین پر ہے وہ ان پر بھی ہو گا (یعنی نفع اور نقصان دونوں میں مہاجرین کی مثل ہوں گے)۔ اگر وہ اپنے ملک سے نکلنا منظور نہ کریں، تو ان سے کہہ دو کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے او رجو اللہ کا حکم مسلمانوں پر چلتا ہے وہ ان پر بھی چلے گا اور ان کو لوٹ اور صلح کے مال سے کچھ حصہ نہ ملے گا۔ مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر (کافروں سے) لڑیں (تو حصہ ملے گا )اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں، تو ان سے جزیہ (محصول ٹیکس) مانگ ،اگر وہ جزیہ دینا قبول کریں تو مان لو اور ان سے بازر رہو ۔اگر وہ جزیہ بھی نہ دیں، تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑائی کرو اور جب تم کسی قلعہ والوں کو گھیرے میں لو اور وہ تجھ سے اللہ یا اس کے رسول کی پناہ مانگیں، تو اللہ اور رسول کی پناہ نہ دو لیکن اپنی اور اپنے دوستوں کی پناہ دے دو۔ اس لیے کہ اگر تم سے اپنی اور اپنے دوستوں کی پناہ ٹوٹ جائے، تو اس سے بہتر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ٹوٹے اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے یہ چاہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تم ان کو باہر نکالو، تو ان کو اللہ کے حکم پر مت نکالو بلکہ اپنے حکم پر باہر نکالو۔ اس لیے کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تجھ سے ادا ہوتا ہے یا نہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی(راویٔ حدیث) نے کہا کہ یوں ہی کہا یا اس کے ہم معنی۔