بَابٌ : فِيْ خُرُوْجِ النِّسَاء مَعَ الْغُزَاةِ
غازیوں کے ساتھ عورتوں کے جانے میں کوئی حرج نہیں
(1130) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا اتَّخَذَتْ يَوْمَ حُنَيْنٍ خِنْجَرًا فَكَانَ مَعَهَا فَرَآهَا أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَذِهِ أُمُّ سُلَيْمٍ مَعَهَا خِنْجَرٌ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا هَذَا الْخِنْجَرُ ؟ قَالَتِ اتَّخَذْتُهُ إِنْ دَنَا مِنِّي أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بَقَرْتُ بِهِ بَطْنَهُ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَضْحَكُ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! اقْتُلْ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَائِ انْهَزَمُوا بِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَا أُمَّ سُلَيْمٍ ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَفَى وَ أَحْسَنَ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حنین کے دن ایک خنجر لیا، وہ ان کے پاس تھا کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو رسول اﷲسے عرض کی کہ یا رسول اﷲ!یہ ام سلیم ہے اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ام سلیم رضی اللہ عنہا سے ) پوچھا :’’ یہ خنجر کیسا ہے؟‘‘ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یارسول اللہ! اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یارسول اللہ ! ہمارے سوا طلقاء ( یعنی اہل مکہ)کو مار ڈالیے ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکست پائی (اس وجہ سے مسلمان ہو گئے اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے )تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ام سلیم! (کافروں کے شر کو) اﷲ تعالیٰ بہت بہترین انداز سے کافی ہو گیا۔‘‘ (اب تیرے خنجر باندھنے کی ضرورت نہیں)
(1131) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْهَزَمَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبُو طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم مُجَوِّبٌ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ قَالَ وَ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلاً رَامِيًا شَدِيدَ النَّزْعِ وَ كَسَرَ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلاثًا قَالَ فَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ الْجَعْبَةُ مِنَ النَّبْلِ فَيَقُولُ انْثُرْهَا لِأَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَ يُشْرِفُ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي لاَ تُشْرِفْ لاَ يُصِبْكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ قَالَ وَ لَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ وَ أُمَّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ إِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تَنْقُلانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا ثُمَّ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِهِمْ ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآنِهَا ثُمَّ تَجِيئَانِ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ وَ لَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدِ أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِمَّا مَرَّتَيْنِ وَ إِمَّا ثَلاثًا مِنَ النُّعَاسِ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن چند لوگ شکست خوردہ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے، ان کی اس دن دو یا تین کمانیں ٹوٹ گئیں ۔ جب کوئی شخص تیروں کا ترکش لے کر گزرتا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے :’’یہ تیر ابوطلحہ کے لیے رکھ دے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن اٹھا کر کافروں کو دیکھتے ،تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن مت اٹھایے ایسا نہ ہو کہ کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے آگے ہے (یعنی ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سینہ آگے کیا تھا کہ اگر کوئی تیر وغیرہ آئے تومجھے لگے۔) سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنھم کو دیکھا وہ دونوں کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں (جیسے کام کے وقت کوئی اٹھاتا ہے) اور میں ان کی پنڈلی کی پازیب کو دیکھ رہا تھا، وہ دونوں اپنی پیٹھ پر مشکیں لاتی تھیں، پھر اس کا پانی لوگوں کو پلا دیتیں پھر جاتیں اور بھر کر لاتیں اور لوگوں کو پلا دیتیں اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو تین بار اونگھ کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔
(1132) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الأَنْصَارِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَ أُدَاوِي الْجَرْحَى وَ أَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى
سیدہ ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی، مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی ،زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی تھی۔