بَابٌ : كِتَاب رَسُوْل صلی اللہ علیہ وسلم الي هرقل يدعوه الي الإسلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو اسلام لانے کے لیے لکھا تھا
(1122) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيئَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ قَالَ وَ كَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَائَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ أَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ لَهُ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ قَالَ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَ اَيْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ قُلْتُ لاَ قَالَ وَ مَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ ؟ قَالَ قُلْتُ تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُ سِجَالاً يُصِيبُ مِنَّا وَ نُصِيبُ مِنْهُ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ ؟ قُلْتُ لاَ وَ نَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ فَوَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ وَ كَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَ سَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ وَ سَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ ؟ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ وَ كَذَلِكَ الإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَ كَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُ سِجَالاً يَنَالُ مِنْكُمْ وَ تَنَالُونَ مِنْهُ وَ كَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لاَ يَغْدِرُ وَ كَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ ؟ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الصِّلَةِ وَ الْعَفَافِ قَالَ إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَ قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ وَ لَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَائَهُ وَ لَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَ لَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ :
بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَ أَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ وَ إِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ وَ { يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ } (آلِ عمران : 64) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَ كَثُرَ اللَّغْطُ وَ أَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ قَالَ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمَ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان سے بالمشافہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت) سفر پر نکلا اور ملک شام میں تھا کہ ہرقل شاہ روم کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لایا گیا جو کہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر آئے تھے ۔انہوں نے بصری کے رئیس کو دیا اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دیا۔ ہرقل نے پوچھا کہ یہاں اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا، کہ ہاں ۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھلایا اور پوچھا کہ تم میں سے رشتہ میں اس شخص سے جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے ،زیادہ نزدیک کون ہے ؟ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں ہوں (یہ ہرقل نے اس لیے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھلایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھلایا ۔اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کو بلایا (جو دوسرے ملک کے لوگوں کی زبان بادشاہ کو سمجھاتا ہے) اور اس سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص (یعنی ابو سفیان رضی اللہ عنہ ) سے اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، پھر اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی۔ (اور میری ذلت ہو گی)، تو میں جھوٹ بولتا ( کیونکہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت تھی)۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھ کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حسب و نسب (یعنی خاندان) کیسا ہے؟۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے پوچھا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ کبھی اس دعویٰ سے پہلے (یعنی نبوت کے دعوے سے) تم نے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سنا؟میں نے کہا کہ نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اچھا! ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ؟ میں نے کہا کہ غریب لوگ کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے پیروکاروںمیں سے کوئی ان کے دین میں آکر اور پھر اس دین کو برا جان کر پھرا؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے؟ میں نے کہا ہاں ۔ ہرقل نے کہا کہ ان کی تم سے کیسے لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے)؟ میں نے کہا کہ ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے (جیسے کنویں سے ڈول پانی کھینچنے میں ایک ادھر آتا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی انکی فتح ہوتی ہے) وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ وہ معاہدہ کو توڑتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں ہاں! اب ایک مدت کے لیے ہمارے او ران کے درمیان اقرار ہوا ہے، دیکھیے اب وہ اس میں کیا کرتے ہیں؟ (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے اور کسی بات میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقع نہیں ملا سوائے اس بات کے ( اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا کہ ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ تم اس شخص سے یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے کہو کہ میں نے تجھ سے ان کا حسب و نسب پوچھا ،تو تو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اورپیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے ،وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے آباؤ و اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو نے کہا نہیں یہ اس لیے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے آباؤ واجدادمیں کوئی بادشاہ ہوتا، تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ؟ تو تونے کہا کہ غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے؟ تو نے کہا کہ نہیں۔ اس سے میں نے یہ نکالا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں سے تو جھوٹ نہ بولے اور اﷲ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ (جھوٹا دعویٰ کر کے) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو برا سمجھ کر پھر جاتا ہے؟ تو نے کہا نہیں اورایمان جب دل میں سما جاتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں )اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ تم ان سے لڑتے ہو؟ تو نے کہا کہ ہم لڑتے ہیں اور ہمارے ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کو صبر و تکلیف کا اجر ملے اوران کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں) ،پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ وہ دغا کرتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ دغا نہیں کرتے اور پیغمبروں کا یہی حال ہے وہ دغا (یعنی عہد شکنی) نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیاہے؟ تو نے کہا کہ نہیں ۔ یہ میں نے اس لیے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے پھر ہرقل نے کہا کہ وہ تمہیں کن باتوں کاحکم کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ نماز پڑھنے ، زکوٰۃ دینے ، رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے اور بری باتوں سے بچنے کا حکم کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اگر ان کا یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا ،تو بے شک وہ پیغمبر ہیں اور میں جانتا تھا (اگلی کتابوں میں پڑھ کر) کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤںگا، تو میں ان سے ملنا پسند کرتا ۔ (بخاری کی روایت ہے کہ میں کسی طرح بھی محنت مشقت اٹھا کے ملتا ) اور جو میں ان کے پاس ہوتا، تو ان کے پاؤں دھوتا اور یقینا ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں۔پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اس کو پڑھا ۔اس میں یہ لکھا تھا کہ:
’’شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کی طرف جو کہ روم کا رئیس ہے۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تجھے دعوت اسلام کی طرف بلاتا ہوں کہ مسلمان ہوجا، تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت اور جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا ، اللہ تجھے دہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے گا، تو اریسیین کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔‘‘ اے اہل کتاب ! مان لو ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور ہم ایک دوسرے کو اللہ کے علاوہ رب نہ بنائیں۔ اگر اہل کتاب پھر جائیں تو تم کہو یقینا ہم تو مسلمان (فرمانبردار) ہیں۔‘‘ (آل عمران: ۶۴)
پھر جب ہرقل اس خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو، لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور بک بک بہت ہوئی اور ہم باہر نکال دیے گئے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا درجہ بہت بڑھ گیا،ان سے بنی اصفر کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن سے مجھے یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیاب اور غالب ہوں گے ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی مسلمان بنا دیا۔