• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلسَّفَرُ قِطْعَةٌ مِّنَ الْعَذَابِ
سفر عذاب کا ایک حصہ ہے​

(1117) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ نَوْمَهُ وَ طَعَامَهُ وَ شَرَابَهُ فَإِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ نَهْمَتَهُ مِنْ وَ جْهِهِ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، تمہارے ایک کو(یعنی مسافر کو) سونے ،کھانے اور پینے سے روکتا ہے (یعنی وقت پر یہ چیزیں نہیں ملتیں اکثر تکلیف ہو جاتی ہے) سو جب تم میں سے کوئی اپنا کام سفر میں پورا کرلے، تو وہ اپنے گھر کو جلد چلا آئے۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : كَرَاهِيَةُ الطُّروقِ لِمَنْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ لَيْلاً
جو سفر سے آکر رات کے وقت گھر آنے کی کراہت​

(1118) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلاً يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يَلْتَمِسُ عَثَرَاتِهِمْ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اپنے گھر میں آنے سے، گھر والوں کی چوری یا خیانت پکڑنے کو یا ان کا قصور ڈھونڈھنے کو آنے سے منع فرمایا۔‘‘ (کیونکہ اس میں ایک تو گمان بد ہے جو شریعت میں منع ہے، دوسرے عورت کی دل شکنی کا باعث ہے اور اس میں سینکڑوں خرابیاں ہیں ،تیسرے اللہ نہ کرے اگر کچھ ہو تو اپنی جان کا خوف ہے)

(1119) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ لاَ يَطْرُقُ أَهْلَهُ لَيْلاً وَ كَانَ يَأْتِيهِمْ غُدْوَةً أَوْ عَشِيَّةً
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے اپنے گھر میں رات کو نہ آتے بلکہ صبح یا شام کوآتے (تاکہ عورت کو آراستہ ہونے کا موقع ملے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي الدُّعَاء قَبْلَ الْقِتَالِ وَالإِغَارَةِ عَلَى الْعَدُوِّ
جنگ شروع کرنے اور دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرنا​

(1120) عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ عَنِ الدُّعَائِ قَبْلَ الْقِتَالِ ؟ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيَّ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ فِي أَوَّلِ الإِسْلامِ قَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَ هُمْ غَارُّونَ وَ أَنْعَامُهُمْ تُسْقَى عَلَى الْمَاء فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ وَ سَبَى سَبْيَهُمْ وَ أَصَابَ يَوْمَئِذٍ قَالَ يَحْيَى أَحْسِبُهُ قَالَ جُوَيْرِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَوْ قَالَ الْبَتَّةَ ابْنَةَ الْحَارِثِ وَ حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ كَانَ فِي ذَاكَ الْجَيْشِ
ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے یہ پوچھنے کے لیے لکھا کہ لڑائی سے پہلے کافروں کو دین کی دعوت دینا ضروری ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ حکم شروع ‘اسلام میں تھا (جب کافروں کو دین کی دعوت نہیں پہنچی تھی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مصطلق پر حملہ کیا اور وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کیا ان میں سے جو لڑے اور باقی کو قید کیا اور اسی دن ام المومنین جویریہ یا البتہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو پکڑا۔ نافع نے کہا کہ یہ حدیث مجھ سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں شامل تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : كُتُبُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى الْمُلُوْكِ يَدْعُوْهُمْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى
بادشاہوں کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط، جن میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے​

(1121) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَتَبَ إِلَى كِسْرَى وَ إِلَى قَيْصَرَ وَ إِلَى النَّجَاشِيِّ وَ إِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَ لَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی اور ہرایک حاکم کو لکھا ، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے اور یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : كِتَاب رَسُوْل صلی اللہ علیہ وسلم الي هرقل يدعوه الي الإسلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو اسلام لانے کے لیے لکھا تھا​

(1122) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيئَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ قَالَ وَ كَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَائَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ أَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ لَهُ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ قَالَ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَ اَيْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ قُلْتُ لاَ قَالَ وَ مَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ ؟ قَالَ قُلْتُ تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُ سِجَالاً يُصِيبُ مِنَّا وَ نُصِيبُ مِنْهُ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ ؟ قُلْتُ لاَ وَ نَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ فَوَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ وَ كَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَ سَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ وَ سَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ ؟ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ وَ كَذَلِكَ الإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَ كَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُ سِجَالاً يَنَالُ مِنْكُمْ وَ تَنَالُونَ مِنْهُ وَ كَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لاَ يَغْدِرُ وَ كَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ وَ سَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ ؟ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الصِّلَةِ وَ الْعَفَافِ قَالَ إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَ قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ وَ لَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَائَهُ وَ لَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَ لَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ :
بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَ أَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ وَ إِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ وَ { يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ } (آلِ عمران : 64) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَ كَثُرَ اللَّغْطُ وَ أَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ قَالَ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمَ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان سے بالمشافہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت) سفر پر نکلا اور ملک شام میں تھا کہ ہرقل شاہ روم کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لایا گیا جو کہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر آئے تھے ۔انہوں نے بصری کے رئیس کو دیا اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دیا۔ ہرقل نے پوچھا کہ یہاں اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا، کہ ہاں ۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھلایا اور پوچھا کہ تم میں سے رشتہ میں اس شخص سے جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے ،زیادہ نزدیک کون ہے ؟ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں ہوں (یہ ہرقل نے اس لیے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھلایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھلایا ۔اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کو بلایا (جو دوسرے ملک کے لوگوں کی زبان بادشاہ کو سمجھاتا ہے) اور اس سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص (یعنی ابو سفیان رضی اللہ عنہ ) سے اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، پھر اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی۔ (اور میری ذلت ہو گی)، تو میں جھوٹ بولتا ( کیونکہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت تھی)۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھ کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حسب و نسب (یعنی خاندان) کیسا ہے؟۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے پوچھا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ کبھی اس دعویٰ سے پہلے (یعنی نبوت کے دعوے سے) تم نے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سنا؟میں نے کہا کہ نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اچھا! ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ؟ میں نے کہا کہ غریب لوگ کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے پیروکاروںمیں سے کوئی ان کے دین میں آکر اور پھر اس دین کو برا جان کر پھرا؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے؟ میں نے کہا ہاں ۔ ہرقل نے کہا کہ ان کی تم سے کیسے لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے)؟ میں نے کہا کہ ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے (جیسے کنویں سے ڈول پانی کھینچنے میں ایک ادھر آتا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی انکی فتح ہوتی ہے) وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ وہ معاہدہ کو توڑتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں ہاں! اب ایک مدت کے لیے ہمارے او ران کے درمیان اقرار ہوا ہے، دیکھیے اب وہ اس میں کیا کرتے ہیں؟ (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے اور کسی بات میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقع نہیں ملا سوائے اس بات کے ( اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا کہ ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ تم اس شخص سے یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے کہو کہ میں نے تجھ سے ان کا حسب و نسب پوچھا ،تو تو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اورپیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے ،وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے آباؤ و اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو نے کہا نہیں یہ اس لیے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے آباؤ واجدادمیں کوئی بادشاہ ہوتا، تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ؟ تو تونے کہا کہ غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے؟ تو نے کہا کہ نہیں۔ اس سے میں نے یہ نکالا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں سے تو جھوٹ نہ بولے اور اﷲ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ (جھوٹا دعویٰ کر کے) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو برا سمجھ کر پھر جاتا ہے؟ تو نے کہا نہیں اورایمان جب دل میں سما جاتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں )اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ تم ان سے لڑتے ہو؟ تو نے کہا کہ ہم لڑتے ہیں اور ہمارے ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کو صبر و تکلیف کا اجر ملے اوران کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں) ،پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ وہ دغا کرتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ دغا نہیں کرتے اور پیغمبروں کا یہی حال ہے وہ دغا (یعنی عہد شکنی) نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیاہے؟ تو نے کہا کہ نہیں ۔ یہ میں نے اس لیے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے پھر ہرقل نے کہا کہ وہ تمہیں کن باتوں کاحکم کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ نماز پڑھنے ، زکوٰۃ دینے ، رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے اور بری باتوں سے بچنے کا حکم کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اگر ان کا یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا ،تو بے شک وہ پیغمبر ہیں اور میں جانتا تھا (اگلی کتابوں میں پڑھ کر) کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤںگا، تو میں ان سے ملنا پسند کرتا ۔ (بخاری کی روایت ہے کہ میں کسی طرح بھی محنت مشقت اٹھا کے ملتا ) اور جو میں ان کے پاس ہوتا، تو ان کے پاؤں دھوتا اور یقینا ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں۔پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اس کو پڑھا ۔اس میں یہ لکھا تھا کہ:
’’شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کی طرف جو کہ روم کا رئیس ہے۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تجھے دعوت اسلام کی طرف بلاتا ہوں کہ مسلمان ہوجا، تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت اور جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا ، اللہ تجھے دہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے گا، تو اریسیین کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔‘‘ اے اہل کتاب ! مان لو ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور ہم ایک دوسرے کو اللہ کے علاوہ رب نہ بنائیں۔ اگر اہل کتاب پھر جائیں تو تم کہو یقینا ہم تو مسلمان (فرمانبردار) ہیں۔‘‘ (آل عمران: ۶۴)
پھر جب ہرقل اس خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو، لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور بک بک بہت ہوئی اور ہم باہر نکال دیے گئے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا درجہ بہت بڑھ گیا،ان سے بنی اصفر کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن سے مجھے یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیاب اور غالب ہوں گے ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی مسلمان بنا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ دُعَاء النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى اللهِ وَ صَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِيْنَ
اللہ تعالیٰ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر​

(1123) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَ أَرْدَفَ وَرَائَهُ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَ ذَاكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَ فِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَ قَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَيُّهَا الْمَرْئُ لاَ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَ ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَائَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَيْ سَعْدُ ! أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ ؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ كَذَا وَ كَذَا قَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَاصْفَحْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ وَ لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے ،جس کی کاٹھی کے نیچے(شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کو اپنے پیچھے بٹھا یا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے اوریہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پرمشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے ،جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا، (اس وقت تک عبداللہ بن ابی (ظاہر میں بھی) مسلمان نہیں ہوا تھا )اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آپہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا او رپھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگرچہ تیرا کلام بہت اچھا ہے، اگر یہ سچ ہے توبھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا، اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجیے، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں ، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے،(آخر کار وہ سب خاموش ہوگئے )پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے او ران سے فرمایا :’’اے سعد! تو نے ابو حباب کی باتیں نہیں سنیں؟ (ابو حباب سے عبداللہ بن ابی مراد ہے)اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔‘‘ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ اسے معاف کر دیجیے اور اس سے درگزر فرمایے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیاہے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے۔اس لیے اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) ایسے برے کلمات کہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف کر دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلنَّهْيُ عَنِ الْغَدْرِ
دھوکا بازی کی ممانعت​


(1124) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ أَلاَ وَ لاَ غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ہر دغا باز کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا ،جو اس کی دغابازی کے موافق بلند کیا جائے گا اور کوئی دغاباز اس سے بڑھ کر نہیں جو خلق اللہ کا حاکم ہو کر دغابازی کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : الْوَفَاءبِالْعَهْدِ
وعدے کی پاسداری​


(1125) عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلاَّ أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَ أَبِي حُسَيْلٌ قَالَ فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ قَالُوا إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْنَا مَا نُرِيدُهُ مَا نُرِيدُ إِلاَّ الْمَدِينَةَ فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللَّهِ وَ مِيثَاقَهُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ وَ لاَ نُقَاتِلُ مَعَهُ فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ فَقَالَ انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَ نَسْتَعِينُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بدر میں صرف اسی وجہ سے شریک نہ ہو سکا کہ میں اپنے والد حسیل کے ساتھ نکلا (یہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام اور بعض لوگوں نے حسل کہا ہے۔) تو ہمیں قریش کے کافروں نے پکڑلیا اور کہا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ پس ہم نے کہا کہ ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم تو صرف مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو جائیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے۔پھرہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم نے یہ سب قصہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم مدینہ کو چلے جاؤ کہ ہم ان کا معاہدہ پورا کریں گے اور ان پر اللہ سے مدد چاہیں گے۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : تَرْكُ تَمَنِّيْ لِقَاء الْعَدُوِّ وَالصَّبْرُ إِذَا لقُوا
دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا لیکن جب آمنا سامنا ہو ، تو ڈٹ جانا چاہیے​


(1126) عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ كِتَابِ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ حِينَ سَارَ إِلَى الْحَرُورِيَّةِ يُخْبِرُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِيَ فِيهَا الْعَدُوَّ يَنْتَظِرُ حَتَّى إِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ قَامَ فِيهِمْ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلالِ السُّيُوفِ ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَ مُجْرِيَ السَّحَابِ وَ هَازِمَ الأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ
ابوالنضر سیدنا عبد اﷲ بن ابی اوفیٰ جو کہ قبیلہ اسلم سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن عبیداللہ کی طرف ، جب وہ خارجیوں سے( لڑائی) کے لیے نکلے تو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دنوں میں دشمن سے ملاقات ہوئی یا انتظار کیا یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا:’’ اے لوگو! دشمن سے ملنے کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی چاہو جب تمہارا دشمن سے آمنا سامنا ہو جائے تو ڈٹ جاؤ اور یہ سمجھ لو کہ جنت تلوار کے سائے کے نیچے ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا:’’ اے اللہ !کتاب کے اتارنے والے اور بادل کو چلانے والے اور گروہوں کو بھگا دینے والے ! ان کو بھگا دے اور ان کے سامنے ہماری مدد کر ۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلدُّعَاء عَلَى الْعَدُوِّ
دشمن کے خلاف دعا​


فِيْهِ حديثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِيْ أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ قَدْ تَقَدَّمَ فِيْ الْبَابِ قَبْلَهُ ـ
اس باب میں سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو اوپر والے باب میں ہے۔

(1127) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تَشَأْ لاَ تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن یہ فریاد کر رہے تھے :’’اے اللہ! اگر تو چاہے تو زمین میں کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا۔‘‘ (یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔پوری حدیث میں ہے کہ اگر آج مسلمان مغلوب ہو گئے تو اہل توحید مٹ جائیں گے۔)​
 
Top