ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بَابٌ : فِيْ دُعَاء النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى اللهِ وَ صَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِيْنَ
اللہ تعالیٰ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر
(1123) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَ أَرْدَفَ وَرَائَهُ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَ ذَاكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَ فِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَ قَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَيُّهَا الْمَرْئُ لاَ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَ ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَائَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَيْ سَعْدُ ! أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ ؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ كَذَا وَ كَذَا قَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَاصْفَحْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ وَ لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے ،جس کی کاٹھی کے نیچے(شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کو اپنے پیچھے بٹھا یا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے اوریہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پرمشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے ،جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا، (اس وقت تک عبداللہ بن ابی (ظاہر میں بھی) مسلمان نہیں ہوا تھا )اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آپہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا او رپھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگرچہ تیرا کلام بہت اچھا ہے، اگر یہ سچ ہے توبھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا، اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجیے، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں ، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے،(آخر کار وہ سب خاموش ہوگئے )پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے او ران سے فرمایا :''اے سعد! تو نے ابو حباب کی باتیں نہیں سنیں؟ (ابو حباب سے عبداللہ بن ابی مراد ہے)اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔'' سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ اسے معاف کر دیجیے اور اس سے درگزر فرمایے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیاہے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے۔اس لیے اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) ایسے برے کلمات کہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر
(1123) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَ أَرْدَفَ وَرَائَهُ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَ ذَاكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَ فِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَ قَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَيُّهَا الْمَرْئُ لاَ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَ ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَائَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَيْ سَعْدُ ! أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ ؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ كَذَا وَ كَذَا قَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَاصْفَحْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ وَ لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے ،جس کی کاٹھی کے نیچے(شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کو اپنے پیچھے بٹھا یا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے اوریہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پرمشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے ،جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا، (اس وقت تک عبداللہ بن ابی (ظاہر میں بھی) مسلمان نہیں ہوا تھا )اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آپہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا او رپھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگرچہ تیرا کلام بہت اچھا ہے، اگر یہ سچ ہے توبھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا، اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجیے، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں ، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے،(آخر کار وہ سب خاموش ہوگئے )پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے او ران سے فرمایا :''اے سعد! تو نے ابو حباب کی باتیں نہیں سنیں؟ (ابو حباب سے عبداللہ بن ابی مراد ہے)اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔'' سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ اسے معاف کر دیجیے اور اس سے درگزر فرمایے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیاہے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے۔اس لیے اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) ایسے برے کلمات کہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف کر دیا ۔