• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ النِّسَاء وَ الصِّبْيَانِ فِيْ الْغَزْوِ
جہاد میں عورتوں اور بچوں کا قتل ممنوع ہے
(1133) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةٌ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَغَازِي فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ ایک عورت ایک لڑائی میں پائی گئی جس کو مار ڈالا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے مارنے سے منع فرما دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا أُصِيْبَ مِنْ ذَرَارِيِّ الْعَدُوِّ فِي الْبَيَاتِ
رات کے وقت حملہ میں دشمن کے بیوی بچوں کے مارے جانے کے متعلق
(1134) عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الذَّرَارِيِّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُبَيَّتُونَ فَيُصِيبُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ وَ ذَرَارِيِّهِمْ ؟ فَقَالَ هُمْ مِنْهُمْ
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد اور ان کی عورتوں کے بارے میں سوال ہوا ،جب رات کے چھاپے میں مارے جائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' وہ انہی میں داخل ہیں۔ ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَطْعُ نَخِيْلِ الْعَدُوِّ وَ تَحْرِيْقُهَا
دشمن کے کھجورکے (درختوں) کو کاٹنے اور جلانے کا بیان
(1135) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَطَعَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَ حَرَّقَ وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
وَ هَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ
حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ
وَ فِي ذَلِكَ نَزَلَتْ { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا } الآيَةَ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کی کھجوروں کے درخت کچھ کٹوا ڈالے اور کچھ جلا دیے، اس موقع پر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے یہ شعر کہے:
''بنی لؤی(یعنی قریش) کے سرداروںاور شرفاء پر یہ آسان ہو گیا کہ بویرہ کا نخلستان آگ کی لپیٹ میں ہے۔''
اور اسی بارے اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :''جو درخت تم نے کاٹے یا ان کواپنی جڑوں پر کھڑا ہوا چھوڑ دیا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اس لیے کہ گنہگاروں کو رسوا کرے۔ ''(الحشر:۵)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : أَخْذُ الطَّعَامِ فِيْ أَرْضِ الْعَدُوِّ
دشمن کی زمین سے کھانا (طعام) حاصل کرنا
(1136) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ قَالَ فَالْتَزَمْتُهُ فَقُلْتُ لاَ أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا قَالَ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مُتَبَسِّمًا
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن چربی کی ایک تھیلی پائی۔ میں اس پر لپکا۔ میں نے دل میں کہا کہ میں اس میں سے کچھ بھی کسی کو نہ دوں گا۔ کہتے ہیںمیں نے پلٹ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے مسکرا رہے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : تَحْلِيْلُ الْغَنَائِمِ لِهَذِهِ الأُمَّةِ خَاصَّةً
مال غنیمت کا اس امت (محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے خصوصی طور پر حلال ہونا
(1137) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَائِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ لاَ يَتْبَعْنِي رَجُلٌ قَدْ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَ هُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا وَ لَمَّا يَبْنِ وَ لاَ آخَرُ قَدْ بَنَى بُنْيَانًا وَ لَمَّا يَرْفَعْ سُقُفَهَا وَ لاَ آخَرُ قَدِ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ وِلادَهَا قَالَ فَغَزَا فَأَدْنَى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلاةِ الْعَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ لِلشَّمْسِ أَنْتِ مَأْمُورَةٌ وَ أَنَا مَأْمُورٌ اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيَّ شَيْئًا فَحُبِسَتْ عَلَيْهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ قَالَ فَجَمَعُوا مَا غَنِمُوا فَأَقْبَلَتِ النَّارُ لِتَأْكُلَهُ فَأَبَتْ أَنْ تَطْعَمَهُ فَقَالَ فِيكُمْ غُلُولٌ فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَةٍ رَجُلٌ فَبَايَعُوهُ فَلَصِقَتْ يَدُ رَجُلٍ بِيَدِهِ فَقَالَ فِيكُمُ الْغُلُولُ فَلْتُبَايِعْنِي قَبِيلَتُكَ فَبَايَعَتْهُ قَالَ فَلَصِقَتْ بِيَدِ رَجُلَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ فَقَالَ فِيكُمُ الْغُلُولُ أَنْتُمْ غَلَلْتُمْ قَالَ فَأَخْرَجُوا لَهُ مِثْلَ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ فَوَضَعُوهُ فِي الْمَالِ وَ هُوَ بِالصَّعِيدِ فَأَقْبَلَتِ النَّارُ فَأَكَلَتْهُ فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ مِنْ قَبْلِنَا ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى رَأَى ضَعْفَنَا وَ عَجْزَنَا فَطَيَّبَهَا لَنَا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '''پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر نے جہاد کیا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ میرے ساتھ وہ آدمی نہ جائے جو نکاح کر چکا ہو اور چاہتا ہو کہ اپنی عورت سے صحبت کرے لیکن ابھی تک اس نے صحبت نہیں کی اور نہ وہ شخص جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی تک چھت بلند نہ کی ہو اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے جننے کا منتظر ہو (اس لیے کہ ان لوگوں کا دل ان چیزوں میں لگا رہے گا اورا طمینان سے جہاد نہ کر سکیں گے)۔ پھر اس پیغمبر نے جہاد کیا تو عصر کے وقت یا عصر کے قریب اس گاؤں کے پاس پہنچا (جہاں جہاد کرنا تھا) تو پیغمبر علیہ السلام نے سورج سے کہا کہ تو بھی تابعدار ہے اور میں بھی تابعدار ہوں۔ اے اللہ! اس کو تھوڑی دیر میرے اوپر روک دے ـ(تاکہ ہفتہ کی رات نہ آجائے کیونکہ ہفتہ کو لڑنا حرام تھا اور یہ لڑائی جمعہ کے دن ہوئی تھی)۔ پھر سورج رک گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دی۔ پھر لوگوں نے مال غنیمت اکٹھا کیا اور آگ آسمان سے اس کے کھانے کو آئی ،لیکن اس نے نہ کھایا۔پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے (لہٰذا یہ نذر قبول نہ ہوئی) ۔اس لیے تم میں سے ہر گروہ کا ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے۔ پھر سب نے بیعت کی، تو ایک شخص کا ہاتھ جب پیغمبر کے ہاتھ سے چمٹ گیاتو پیغمبر نے کہا کہ تم لوگوں میں خیانتمعلوم ہوتی ہے۔تمہارا قبیلہ مجھ سے بیعت کرے۔ پھر اس قبیلے نے بیعت کی تو دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ پیغمبر کے ہاتھ سے لگا اور چمٹ گیا۔ تو پیغمبرu نے کہا کہ تم نے خیانت کی ہے۔ پھر انہوں نے بیل کے سر کے برابر سونا نکال کر دیا ۔وہ بھی اس مال میں جو بلند زمین پر (جلانے کے لیے) رکھا گیاتھا رکھ دیا گیا ۔ پھر آگ آئی اس کے کھانے کو اور اس کو کھا گئی اور ہم سے پہلے کسی کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا صرف ہمارے لیے حلال ہوا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضعیفی اور عاجزی دیکھی ،تو ہمارے لیے مال غنیمت کو حلال کر دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِي الأَنْفَالِ
انفال (مال غنیمت) کے بارے میں
(1138) عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَزَلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ أَصَبْتُ سَيْفًا فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! نَفِّلْنِيهِ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ نَفِّلْنِيهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ ضَعْهُ فَقَامَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! نَفِّلْنِيهِ أَ أُجْعَلُ كَمَنْ لاَ غَنَائَ لَهُ ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ { يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ } (الأنفال : 1)
سیدنا مصعب بن سعد اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے بارے میںچار آیتیں اتریں۔ ایک مرتبہ ایک تلوار مجھے مال غنیمت میں ملی ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا کہ یارسول اللہ! یہ مجھے عنایت فرمایے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اس کو رکھ دے۔'' پھر میں کھڑا ہوا (اور وہی کہا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اس کو جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔'' پھر اٹھے اورکہاکہ یارسول اللہ ! یہ تلوار مجھے دیدیجیے ۔آپ نے فرمایا :''اس کو رکھ دو۔'' پھر(چوتھی مرتبہ) کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ!یہ تلوار مجھے مال غنیمت کے طور پر دے دیجیے، کیا میں اس شخص کی طرح رہوں گا جو نادار ہے؟ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اس کو لیا ہے۔'' تب یہ آیت اتری کہ ''اے محمد!آپ سے مال غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرما دیجیے کہ مال غنیمت، اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔'' (الانفال: ۱)۔ (اس حدیث میں چار آیات میں سے ایک آیت کا ذکر ہے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : تَنْفِيْلُ السَّرَايا
اصحاب سرایا(فوجی دستوں) کو مال غنیمت میں حصہ دینا
(1139) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَرِيَّةً إِلَى نَجْدٍ فَخَرَجْتُ فِيهَا فَأَصَبْنَا إِبِلاً وَ غَنَمًا فَبَلَغَتْ سُهْمَانُنَا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا وَ نَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعِيرًا بَعِيرًا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک چھوٹا لشکر بھیجا، میں بھی اس میں نکلا۔ وہاں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں ملیں ،تو ہم میں سے ہر ایک کے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایک اونٹ مزید دیا ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : تَخْمِيْسُ الأَنْفَالِ
مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ)نکالنا
(1140) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ كَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لِأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً سِوَى قَسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ وَالْخُمْسُ فِي ذَلِكَ وَاجِبٌ كُلِّهِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بعض لشکر والوں کو باقی تمام لشکروں کی نسبت زیادہ دیتے اور ان سب مالوں میں خمس واجب تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِعْطَاء الْقَاتِلِ سَلَبَ الْمَقْتُوْلِ
کافر مقتول کا سامان (حرب) قاتل کو دینا چاہیے
(1141) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ قَالَ فَرَأَيْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلا رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاسْتَدَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ وَ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ مَا لِلنَّاسِ؟ فَقُلْتُ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ ۔ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ قَالَ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ؟ ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ؟ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ ؟ فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! سَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْ حَقِّهِ وَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ هَا اللَّهِ إِذًا لاَ يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسُدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَ عَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيَكَ سَلَبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ فَأَعْطَانِي قَالَ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الإِسْلامَ
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی لڑائی میں نکلے، لڑائی ہوئی۔ جب ہم لوگ دشمنوں سے لڑے ،تو مسلمانوں کو (شروع میں)شکست ہوئی (یعنی کچھ مسلمان بھاگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان میں جمے رہے) پھر میں نے ایک کافر کو دیکھاکہ وہ ایک مسلمان پر (ـاس کے مارنے کو) چڑھا تھا، میں گھوم کر اس کی طرف آیا اور اس کے کندھے اورگردن کے بیچ میں ایک ضرب لگائی، وہ میری طرف پلٹا اور مجھے ایسا دبایا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی۔ اس کے بعد وہ خود مر گیا تب ہی مجھے چھوڑا۔ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا (جو ایسا بھاگ نکلے) ، میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جس نے کسی کو مارا اور وہ گواہ رکھتا ہو تو اس (مقتول) کا سامان وہی لے۔'' سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ سن کر میں کھڑا ہوا اورکہا کہ میرا گواہ کون ہے؟ اس کے بعد میں بیٹھ گیا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایسا ہی فرمایا ،تو میں پھر کھڑا ہوا اور کہا کہ میرے لیے گواہی کون دے گا؟ میں بیٹھ گیا۔پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ،تو میں پھرکھڑا ہوا ۔آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ابوقتادہ! تجھے کیا ہوا ہے؟ میں نے سارا قصہ بیان کیا ،تو ایک شخص بولا کہ یارسول اللہ! ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں اس شخص کا سامان میرے پاس ہے ،آپ ان کو راضی کر دیجیے کہ اپنا حق مجھے دے دیں۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہو گا اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ارادہ نہ کریں گے) کہ اللہ تعالیٰ کے شیروں میں سے ایک شیر جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑتا ہے (اس کا) اسباب تجھے دلائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ابوبکر رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں (اس حدیث سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فتویٰ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتوے کو سچ کہا) تو وہ سامان ابوقتادہ کو دے دے۔'' پھر اس نے وہ سامان مجھے دے دیا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے (اس سامان میں سے) زرہ کو بیچا اور اس کے بدل بنوسلمہ کے محلے میں ایک باغ خریدا اور یہ پہلا مال ہے جس کو میں نے اسلام کی حالت میں کمایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِعْطَاء السَّلَبِ بَعْضَ الْقَاتِلِيْنَ بِالإِجْتِهَادِ
(دشمن مقتول کا) سامان بعض قاتلین کو اجتہاد کی بنا پر دینا
(1142) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَ شِمَالِي فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلامَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ لَوْ كُنْتُ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ ؟ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ وَ مَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي ؟ قَالَ أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لاَ يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الأَعْجَلُ مِنَّا قَالَ فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ فَغَمَزَنِي الآخَرُ فَقَالَ مِثْلَهَا قَالَ فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَزُولُ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ أَلا تَرَيَانِ ؟ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلاَنِ عَنْهُ قَالَ فَابْتَدَرَاهُ فَضَرَبَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا حَتَّى قَتَلاهُ ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرَاهُ فَقَالَ أَيُّكُمَا قَتَلَهُ فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنَا قَتَلْتُ فَقَالَ هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا ؟ قَالاَ لاَ فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ فَقَالَ كِلاَكُمَا قَتَلَهُ وَ قَضَى بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَ الرَّجُلاَنِ مُعَاذُ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَ مُعَاذُ بْنُ عَفْرَائَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا ہوا تھا اپنے دائیں اور بائیں دیکھا، تو میری دونوں طرف انصار کے نوجوان اور کم عمر لڑکے نظر آئے۔ میں نے آرزو کی کہ کاش! میں ان سے زور آور جوانوںکے درمیانہوتا (یعنی آزو بازو اچھے قوی لوگ ہوتے تو زیادہ اطمینان ہوتا)۔ اتنے میں ان میںسے ایک نے مجھے دبایا اور کہا کہ اے چچا ! تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں اور اے میرے بھائی کے بیٹے! تیرا ابو جہل سے کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ابوجہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہتا ہے، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں ابوجہل کو پاؤں تو اس سے جدا نہ ہونگا جب تک کہ ہم دونوں میں سے وہ مرنہ جائے، جس کی موت پہلے آئی ہو۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس کے ایسا کہنے سے تعجب ہوا۔ (کہ بچہ ہو کر ابوجہل جیسے قوی ہیکل کے مارنے کا ارادہ رکھتا ہے) پھر دوسرے نے مجھے دبایا اور اس نے بھی یہی کہا ۔کہتے ہیںتھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو دیکھا کہ وہ لوگوں میں پھر رہا ہے، میں نے ان دونوں لڑکوں سے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم پوچھتے تھے۔یہ سنتے ہی وہ دونوں دوڑے ا ور تلواروںکے وارکیے،یہاں تک کہ مار ڈالا۔ پھر دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:'' تم میں سے کس نے اس کو مارا؟'' ہر ایک بولنے لگا کہ میں نے مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم نے اپنی تلواریںصاف کر لیں؟'' وہ بولے نہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا:''تم دونوں نے اسے مارا ہے۔'' پھراس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو دلایا اور وہ دونوں لڑکے یہ تھے۔ ایک معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرے معاذ بن عفراء۔ ( رضی اللہ عنھم )
 
Top