ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بَابٌ : مَنْعُ الْقَاتِلِ السَّلَبَ بِالإِجْتِهَادِ
اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول ) کا سامان نہ دینا
(1143) عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلاً مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرَادَ سَلَبَهُ فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ لِخَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ ؟ قَالَ اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ ادْفَعْهُ إِلَيْهِ فَمَرَّ خَالِدٌ بِعَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَجَرَّ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتُغْضِبَ فَقَالَ لاَ تُعْطِهِ يَا خَالِدُ لاَ تُعْطِهِ يَا خَالِدُ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي ؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلاً أَوْ غَنَمًا فَرَعَاهَا ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا فَشَرَعَتْ فِيهِ فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ وَ تَرَكَتْ كَدْرَهُ فَصَفْوُهُ لَكُمْ وَ كَدْرُهُ عَلَيْهِمْ
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (قبیلہ) حمیر کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کومارا اور اس کا سامان لینا چاہا لیکن سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) لشکر کے سردار تھے،نے نہ دیا۔سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حال بیان کیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟'' سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا) ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' وہ سامان اس کو دے دے۔'' پھر سیدناخالد رضی اللہ عنہ ، سیدنا عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، تو سیدنا عوف نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آخر وہی ہوا ناں (یعنی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کوشرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا:'' اے خالد! اس کو مت دے ،اے خالد! اس کو مت دے، کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا، پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لیے اور بری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔ '
اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول ) کا سامان نہ دینا
(1143) عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلاً مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرَادَ سَلَبَهُ فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ لِخَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ ؟ قَالَ اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ ادْفَعْهُ إِلَيْهِ فَمَرَّ خَالِدٌ بِعَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَجَرَّ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتُغْضِبَ فَقَالَ لاَ تُعْطِهِ يَا خَالِدُ لاَ تُعْطِهِ يَا خَالِدُ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي ؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلاً أَوْ غَنَمًا فَرَعَاهَا ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا فَشَرَعَتْ فِيهِ فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ وَ تَرَكَتْ كَدْرَهُ فَصَفْوُهُ لَكُمْ وَ كَدْرُهُ عَلَيْهِمْ
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (قبیلہ) حمیر کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کومارا اور اس کا سامان لینا چاہا لیکن سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) لشکر کے سردار تھے،نے نہ دیا۔سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حال بیان کیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟'' سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا) ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' وہ سامان اس کو دے دے۔'' پھر سیدناخالد رضی اللہ عنہ ، سیدنا عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، تو سیدنا عوف نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آخر وہی ہوا ناں (یعنی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کوشرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا:'' اے خالد! اس کو مت دے ،اے خالد! اس کو مت دے، کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا، پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لیے اور بری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔ '