• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ غَزْوَةِ الأَحْزَابِ، وَ هِيَ الْخَنْدَقُ
غزوۂ احزاب جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے، کے متعلق
(1173) عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ رَجُلٌ لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَاتَلْتُ مَعَهُ وَ أَبْلَيْتُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْتَ كُنْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ ؟ لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْلَةَ الأَحْزَابِ وَ أَخَذَتْنَا رِيحٌ شَدِيدَةٌ وَقَرٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَلاَ رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ ثُمَّ قَالَ أَلا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ ثُمَّ قَالَ أَلاَ رَجُلٌ يَأْتِيْنِى بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ فَقَالَ قُمْ يَا حُذَيْفَةُ ! فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِي بِاسْمِي أَنْ أَقُومَ قَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَ لاَ تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مِنْ عِنْدِهِ جَعَلْتُ كَأَنَّمَا أَمْشِي فِي حَمَّامٍ حَتَّى أَتَيْتُهُمْ فَرَأَيْتُ أَبَا سُفْيَانَ يَصْلِي ظَهْرَهُ بِالنَّارِ فَوَضَعْتُ سَهْمًا فِي كَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِيَهُ فَذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ وَ لَوْ رَمَيْتُهُ لَأَصَبْتُهُ فَرَجَعْتُ وَ أَنَا أَمْشِي فِي مِثْلِ الْحَمَّامِ فَلَمَّا أَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَ فَرَغْتُ قُرِرْتُ فَأَلْبَسَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ فَضْلِ عَبَائَةٍ كَانَتْ عَلَيْهِ يُصَلِّي فِيهَا فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحْتُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ قَالَ قُمْ يَا نَوْمَانُ
سیدنا ابراہیم التیمی اپنے والد (یزید بن شریک تیمی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص بولا، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہوتا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتا اور لڑنے میں لڑنے میں جان لڑاتا۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تو ایسا کرتا؟ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا، کرنا اور ہے اور کہنا اور ہے۔ صحابہ کرام نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا تھا) میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم غزوۂ احزاب کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کوئی شخص ہے جو جا کر کافروں کی خبر لائے؟ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔'' یہ سن کرہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب کرے گا؟ ''کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔'' اب کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر جانے کا حکم دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جا اور کافروں کی خبر لے کر آ اور ان کو مجھ پر مت اکسانا۔'' (یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ان کو مجھ پر غصہ آئے اور وہ تجھے ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں)۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پہلے تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کرے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے) یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ ابوسفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے تو میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور مارنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یا د آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو۔ اگر میں مار دیتاتو بے شک ابوسفیان کو مار لیتا۔ آخر میں لوٹا پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حمام کے اندر چل رہا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا ، اس وقت سردی معلوم ہوئی۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا، جس کو اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سویا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اٹھ اے بہت زیادہ سونے والے! ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1174) عَنِ الْبَرَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ الأَحْزَابِ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ وَ لَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ وَ هُوَ يَقُولُ
وَاللَّهِ لَوْلا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا
وَ لاَ تَصَدَّقْنَا وَ لاَ صَلَّيْنَا
فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا
إِنَّ الأُلَى قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا
قَالَ وَ رُبَّمَا قَالَ :
إِنَّ الْمَلاَ قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا
إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا
وَ يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ

سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے (جب مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی)اور مٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کی سفیدی کو چھپا لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے:''قسم اللہ تعالیٰ کی! اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ تو ہم پر اپنی رحمت کو اتار ، ان لوگوں (یعنی مکہ والوں) نے ہمارا کہنا نہ مانا (یعنی ایمان نہ لائے )اور ایک روایت میں ہے :''سرداروں نے ہمارا کہنا نہ مانا۔ جب وہ فساد کی بات کرنا چاہتے ہیں (یعنی شرک اور کفروغیرہ) تو ہم ان کے شریک نہیں ہوتے ۔''اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرماتے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1175) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم كَانُوا يَقُولُونَ : يَوْمَ الْخَنْدَقِ
نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا
عَلَى الإِسْلامِ مَا بَقِينَا أَبَدًا
أَوْ قَالَ عَلَى الْجِهَادِ شَكَّ حَمَّادٌ وَالنَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ :
اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الآخِرَهْ
فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خندق کے دن یہ رجز پڑھ رہے تھے: ''ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر یا جہاد پر بیعت کی ہے (اس وقت تک) جب تک ہم زندہ رہیں۔'' اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رجز پڑھ رہے تھے: '' اے اللہ! بھلائی توآخرت کی بھلائی ہے۔ پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : ذِكْرُ بِنَيْ قُرَيْظَةَ
بنی قریظہ کا بیان
(1176) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَادَى فِينَا رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ انْصَرَفَ عَنِ الأَحْزَابِ أَنْ لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الظُّهْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَتَخَوَّفَ نَاسٌ فَوْتَ الْوَقْتِ فَصَلَّوْا دُونَ بَنِي قُرَيْظَةَ وَ قَالَ آخَرُونَ لاَ نُصَلِّي إِلاَّ حَيْثُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ إِنْ فَاتَنَا الْوَقْتُ قَالَ فَمَا عَنَّفَ وَاحِدًا مِنَ الْفَرِيقَيْنِ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احزاب سے لوٹے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کی: ''کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے محلہ میں ۔''بعض لوگ ڈرے کہ ایسا نہ ہو کہ نماز قضا ہو جائے۔ انہوں نے وہاں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم نہیں پڑھیںگے مگر جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اگرچہ نماز قضا ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوںگروہوں میں سے کسی گروہ پر خفا نہیں ہوئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ غَزْوَةِ ذِيْ قَرَدٍ
غزوہ ذی قرد کا بیان
(1177) عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ نَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَ عَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لاَ تُرْوِيهَا قَالَ فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى جَبَا الرَّكِيَّةِ فَإِمَّا دَعَا وَ إِمَّا بَصَقَ فِيهَا قَالَ فَجَاشَتْ فَسَقَيْنَا وَاسْتَقَيْنَا قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم دَعَانَا لِلْبَيْعَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ قَالَ فَبَايَعْتُهُ أَوَّلَ النَّاسِ ثُمَّ بَايَعَ وَ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ قَالَ بَايِعْ يَا سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِ النَّاسِ قَالَ وَ أَيْضًا قَالَ وَ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَزِلاً يَعْنِي لَيْسَ مَعَهُ سِلاَحٌ قَالَ فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَجَفَةً أَوْ دَرَقَةً ثُمَّ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ النَّاسِ قَالَ أَلاَ تُبَايِعُنِي يَا سَلَمَةُ ! قَالَ قُلْتُ قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فِي أَوَّلِ النَّاسِ وَ فِي أَوْسَطِ النَّاسِ قَالَ وَ أَيْضًا قَالَ فَبَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ ثُمَّ قَالَ لِي يَا سَلَمَةُ ! أَيْنَ حَجَفَتُكَ أَوْ دَرَقَتُكَ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! لَقِيَنِي عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَزِلاً فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ إِنَّكَ كَالَّذِي قَالَ الأَوَّلُ اللَّهُمَّ أَبْغِنِي حَبِيبًا هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتَّى مَشَى بَعْضُنَا فِي بَعْضٍ وَاصْطَلَحْنَا قَالَ وَ كُنْتُ تَبِيعًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَسْقِي فَرَسَهُ وَ أَحُسُّهُ وَ أَخْدِمُهُ وَ آكُلُ مِنْ طَعَامِهِ وَ تَرَكْتُ أَهْلِي وَ مَالِي مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَ أَهْلُ مَكَّةَ وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ أَتَيْتُ شَجَرَةً فَكَسَحْتُ شَوْكَهَا فَاضْطَجَعْتُ فِي أَصْلِهَا قَالَ فَأَتَانِي أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَجَعَلُوا يَقَعُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَبْغَضْتُهُمْ فَتَحَوَّلْتُ إِلَى شَجَرَةٍ أُخْرَى وَ عَلَّقُوا سِلاَحَهُمْ وَ اضْطَجَعُوا فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِي يَا لَلْمُهَاجِرِينَ قُتِلَ ابْنُ زُنَيْمٍ قَالَ فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَى أُولَئِكَ الأَرْبَعَةِ وَ هُمْ رُقُودٌ فَأَخَذْتُ سِلاَحَهُمْ فَجَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي قَالَ ثُمَّ قُلْتُ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لاَ يَرْفَعُ أَحَدٌ مِنْكُمْ رَأْسَهُ إِلاَّ ضَرَبْتُ الَّذِي فِيهِ عَيْنَاهُ قَالَ ثُمَّ جِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ جَائَ عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِرَجُلٍ مِنَ الْعَبَلاَتِ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزٌ يَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى فَرَسٍ مُجَفَّفٍ فِي سَبْعِينَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ دَعُوهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْئُ الْفُجُورِ وَ ثِنَاهُ فَعَفَا عَنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنْزَلَ اللَّهُ { وَ هُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ } الآيَةَ كُلَّهَا قَالَ ثُمَّ خَرَجْنَا رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً بَيْنَنَا وَ بَيْنَ بَنِي لِحْيَانَ جَبَلٌ وَ هُمُ الْمُشْرِكُونَ فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِمَنْ رَقِيَ هَذَا الْجَبَلَ اللَّيْلَةَ كَأَنَّهُ طَلِيعَةٌ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابِهِ قَالَ سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَقِيتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلامِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنَا مَعَهُ وَ خَرَجْتُ مَعَهُ بِفَرَسِ طَلْحَةَ أُنَدِّيهِ مَعَ الظَّهْرِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْفَزَارِيُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتَاقَهُ أَجْمَعَ وَ قَتَلَ رَاعِيَهُ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ خُذْ هَذَا الْفَرَسَ فَأَبْلِغْهُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ وَ أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِ قَالَ ثُمَّ قُمْتُ عَلَى أَكَمَةٍ فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِينَةَ فَنَادَيْتُ ثَلاثًا يَا صَبَاحَاهْ ثُمَّ خَرَجْتُ فِي آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِيهِمْ بِالنَّبْلِ وَ أَرْتَجِزُ أَقُولُ :
أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ
وَ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ
فَأَلْحَقُ رَجُلاً مِنْهُمْ فَأَصُكُّ سَهْمًا فِي رَحْلِهِ حَتَّى خَلَصَ نَصْلُ السَّهْمِ إِلَى كَتِفِهِ قَالَ قُلْتُ خُذْهَا
وَ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ
وَ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ
قَالَ فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ أَرْمِيهِمْ وَ أَعْقِرُ بِهِمْ فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ أَتَيْتُ شَجَرَةً فَجَلَسْتُ فِي أَصْلِهَا ثُمَّ رَمَيْتُهُ فَعَقَرْتُ بِهِ حَتَّى إِذَا تَضَايَقَ الْجَبَلُ فَدَخَلُوا فِي تَضَايُقِهِ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَجَعَلْتُ أُرَدِّيهِمْ بِالْحِجَارَةِ قَالَ فَمَا زِلْتُ كَذَلِكَ أَتْبَعُهُمْ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ بَعِيرٍ مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلاَّ خَلَّفْتُهُ وَرَائَ ظَهْرِي وَ خَلَّوْا بَيْنِي وَ بَيْنَهُ ثُمَّ اتَّبَعْتُهُمْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثِينَ بُرْدَةً وَ ثَلاَثِينَ رُمْحًا يَسْتَخِفُّونَ وَ لاَ يَطْرَحُونَ شَيْئًا إِلاَّ جَعَلْتُ عَلَيْهِ آرَامًا مِنَ الْحِجَارَةِ يَعْرِفُهَا رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابُهُ حَتَّى أَتَوْا مُتَضَايِقًا مِنْ ثَنِيَّةٍ فَإِذَا هُمْ قَدْ أَتَاهُمْ فُلانُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ فَجَلَسُوا يَتَضَحَّوْنَ يَعْنِي يَتَغَدَّوْنَ وَ جَلَسْتُ عَلَى رَأْسِ قَرْنٍ قَالَ الْفَزَارِيُّ مَا هَذَا الَّذِي أَرَى ؟ قَالُوا لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ وَاللَّهِ مَا فَارَقَنَا مُنْذُ غَلَسٍ يَرْمِينَا حَتَّى انْتَزَعَ كُلَّ شَيْئٍ فِي أَيْدِينَا قَالَ فَلْيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ أَرْبَعَةٌ قَالَ فَصَعِدَ إِلَيَّ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فِي الْجَبَلِ قَالَ فَلَمَّا أَمْكَنُونِي مِنَ الْكَلامِ قَالَ قُلْتُ هَلْ تَعْرِفُونِي ؟ قَالُوا لاَ وَ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ قُلْتُ أَنَا سَلَمَةُ ابْنُ الأَكْوَعِ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ أَطْلُبُ رَجُلاً مِنْكُمْ إِلاَّ أَدْرَكْتُهُ وَ لاَ يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكَنِي قَالَ أَحَدُهُمْ أَنَا أَظُنُّ قَالَ فَرَجَعُوا فَمَا بَرِحْتُ مَكَانِي حَتَّى رَأَيْتُ فَوَارِسَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ قَالَ فَإِذَا أَوَّلُهُمُ الأَخْرَمُ الأَسَدِيُّ عَلَى إِثْرِهِ أَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ وَ عَلَى إِثْرِهِ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَأَخَذْتُ بِعِنَانِ الأَخْرَمِ قَالَ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ قُلْتُ يَا أَخْرَمُ احْذَرْهُمْ لاَ يَقْتَطِعُوكَ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابُهُ قَالَ يَا سَلَمَةُ ! إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَ تَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ فَلاَ تَحُلْ بَيْنِي وَ بَيْنَ الشَّهَادَةِ قَالَ فَخَلَّيْتُهُ فَالْتَقَى هُوَ وَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ فَعَقَرَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَرَسَهُ وَ طَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ وَ تَحَوَّلَ عَلَى فَرَسِهِ وَ لَحِقَ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ فَوَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم لَتَبِعْتُهُمْ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ حَتَّى مَا أَرَى وَرَائِي مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ غُبَارِهِمْ شَيْئًا حَتَّى يَعْدِلُوا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَائٌ يُقَالُ لَهُ ذُو قَرَدٍ لِيَشْرَبُوا مِنْهُ وَ هُمْ عِطَاشٌ قَالَ فَنَظَرُوا إِلَيَّ أَعْدُو وَرَائَهُمْ فَخَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ يَعْنِي أَجْلَيْتُهُمْ عَنْهُ فَمَا ذَاقُوا مِنْهُ قَطْرَةً قَالَ وَ يَخْرُجُونَ فَيَشْتَدُّونَ فِي ثَنِيَّةٍ قَالَ فَأَعْدُو فَأَلْحَقُ رَجُلاً مِنْهُمْ فَأَصُكُّهُ بِسَهْمٍ فِي نُغْضِ كَتِفِهِ قَالَ قُلْتُ خُذْهَا :
وَ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ
وَ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ
قَالَ يَا ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ أَكْوَعُهُ بُكْرَةَ ؟ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ يَا عَدُوَّ نَفْسِهِ أَكْوَعُكَ بُكْرَةَ قَالَ وَ أَرْدَوْا فَرَسَيْنِ عَلَى ثَنِيَّةٍ قَالَ فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ لَحِقَنِي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِسَطِيحَةٍ فِيهَا مَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ وَ سَطِيحَةٍ فِيهَا مَائٌ فَتَوَضَّأْتُ وَ شَرِبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ عَلَى الْمَائِ الَّذِي حَلَّأْتُهُمْ عَنْهُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ أَخَذَ تِلْكَ الإِبِلَ وَ كُلَّ شَيْئٍ اسْتَنْقَذْتُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَ كُلَّ رُمْحٍ وَ بُرْدَةٍ وَ إِذَا بِلاَلٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ وَ إِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ كَبِدِهَا وَ سَنَامِهَا قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! خَلِّنِي فَأَنْتَخِبُ مِنَ الْقَوْمِ مِائَةَ رَجُلٍ فَأَتَّبِعُ الْقَوْمَ فَلاَ يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلاَّ قَتَلْتُهُ قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ فِي ضَوْئِ النَّارِ فَقَالَ يَا سَلَمَةُ ! أَتُرَاكَ كُنْتَ فَاعِلاً ؟ قُلْتُ نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ فَقَالَ إِنَّهُمُ الآنَ لَيُقْرَوْنَ فِي أَرْضِ غَطَفَانَ ۔ قَالَ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ فَقَالَ نَحَرَ لَهُمْ فُلاَنٌ جَزُورًا فَلَمَّا كَشَفُوا جِلْدَهَا رَأَوْا غُبَارًا فَقَالُوا أَتَاكُمُ الْقَوْمُ فَخَرَجُوا هَارِبِينَ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ خَيْرَ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ خَيْرَ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ ثُمَّ أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَهْمَيْنِ سَهْمَ الْفَارِسِ وَ سَهْمَ الرَّاجِلِ فَجَمَعَهُمَا لِي جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَرَائَهُ عَلَى الْعَضْبَائِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ ؟ قَالَ فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ قَالَ وَ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ لاَ يُسْبَقُ شَدًّا قَالَ فَجَعَلَ يَقُولُ أَلاَ مُسَابِقٌ إِلَى الْمَدِينَةِ ؟ هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ ؟ فَجَعَلَ يُعِيدُ ذَلِكَ قَالَ فَلَمَّا سَمِعْتُ كَلامَهُ قُلْتُ أَمَا تُكْرِمُ كَرِيْمًا وَ لاَ تَهَابُ شَرِيفًا ؟ قَالَ لاَ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي ذَرْنِي فَلِأُسَابِقَ الرَّجُلَ قَالَ إِنْ شِئْتَ قَالَ قُلْتُ اذْهَبْ إِلَيْكَ وَ ثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ فَعَدَوْتُ قَالَ فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ أَسْتَبْقِي نَفَسِي ثُمَّ عَدَوْتُ فِي إِثْرِهِ فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ ثُمَّ إِنِّي رَفَعْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ قَالَ فَأَصُكُّهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ قَالَ قُلْتُ قَدْ سُبِقْتَ وَاللَّهِ قَالَ أَنَا أَظُنُّ قَالَ فَسَبَقْتُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا لَبِثْنَا إِلاَّ ثَلاَثَ لَيَالٍ حَتَّى خَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَجَعَلَ عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْتَجِزُ بِالْقَوْمِ :
تَاللَّهِ لَوْ لاَ اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا
وَ لاَ تَصَدَّقْنَا وَ لاَ صَلَّيْنَا
وَ نَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا
فَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاقَيْنَا
وَ أَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ هَذَا قَالَ أَنَا عَامِرٌ قَالَ غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ قَالَ وَ مَا اسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِإِنْسَانٍ يَخُصُّهُ إِلاَّ اسْتُشْهِدَ قَالَ فَنَادَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ عَلَى جَمَلٍ لَهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْلا مَا مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا خَيْبَرَ قَالَ خَرَجَ مَلِكُهُمْ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ وَ يَقُولُ :
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاكِي السِّلاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ
قَالَ وَ بَرَزَ لَهُ عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرٌ
شَاكِي السِّلاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ
قَالَ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ ذَهَبَ عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْفُلُ لَهُ فَرَجَعَ سَيْفُهُ عَلَى نَفْسِهِ فَقَطَعَ أَكْحَلَهُ فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ قَالَ سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُونَ بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَهُ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنَا أَبْكِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ قَالَ ذَلِكَ قَالَ قُلْتُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ قَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ أَرْمَدُ فَقَالَ لَاُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ قَالَ فَأَتَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ وَ هُوَ أَرْمَدُ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَسَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ وَ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَ خَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ :
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاكِي السِّلاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ
فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ
كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ
أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ
قَالَ فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ ثُمَّ كَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ

سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ ابن اکوع) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں پہنچے تو ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہور روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنویں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی اتناکم پانی تھا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر یا تو دعا کی یا کنویں میں لعاب مبارک ڈالا تووہ اسی وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو پانی پلایا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں بیعت کے لیے درخت کی جڑ میں بلایا (اسی درخت کو شجرئہ رضوان کہتے ہیں اور اسی درخت کا ذکر قرآن پاک میں ہے) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے رہے، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے سلمہ! بیعت کر۔'' میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میں تو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' پھر دوبارہ ہی سہی ۔'' اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا (بے ہتھیار دیکھا) تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لینے لگے، یہاںتک کہ لوگ ختم ہونے لگے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا؟'' میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے لوگوں میں بیعت کر چکا ہوں پھر درمیان کے لوگوں میں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' چلو پھر سہی۔'' غرض میں نے تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے سلمہ! تیری وہ بڑی یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی؟ '' میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میرا چچا عامر رضی اللہ عنہ مجھے ملا اور وہ نہتا تھا میں نے وہ پھر اس کو دے دی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تیری مثال تو ماضی کے ایسے شخص کی سی ہے جس نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔'' پھر مشرکوں نے صلح کے پیغام بھیجے، یہاں تک کہ طرفین کے آدمی ایک دوسرے کی طرف آنے جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا ، اس کی پیٹھ کھجاتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا اور انہی کے ساتھ کھانا کھاتا اور میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے اپنا گھر بار ،دھن دولت سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا، تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے، صاف کیے اور جڑ کے پاس لیٹ گیا کہ اتنے میں مکہ کے چار آدمی مشرکوں میں سے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے لگے۔ مجھے غصہ آیا اور (مصلحت کی بنا پر) میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا۔ انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی کہ دوڑو اے مہاجرین : ابن زنیم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا، جو سو رہے تھے۔ ان کے ہتھیار میں نے لے لیے اور ایک گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے، پھر میں نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں اس کا وہ عضو کہ جس میں اس کی آنکھیں ہیں (یعنی سر) تن سے جدا کر دوں گا۔ پھر میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور میرا چچا عامر عبلات (جو کہ قریش کی ایک شاخ ہے) میں سے مشرکوں کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایک ایسے شخص کو بھی لایا جس کو مکرز کہتے تھے وہ اس کو ایسے گھوڑے پر کھینچتا ہوا لایا جو تیار کیا گیا تھا (یعنی جس پر جھول پڑی تھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایاکہ ان کو چھوڑ دو، مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو، پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہدشکنی ایک بار نہیں دوبار ہو تو ہ میں بدلا لینا برانہیں)۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف کر دیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ''اور اس اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے (لڑائی سے) روکا، مکہ کی سرحد میں جب تم کو ان پر فتح دے چکا تھا ...۔'' (الفتح:۲۴) پھر ہم مدینہ کو لوٹے راستے میں ایک منزل پر اترے جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے دعا کی جو رات کو اس پہاڑ پر چڑھ جائے اور آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے پہرا دے۔ میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرا دیتا رہا) پھر ہم مدینہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے غلام رباح کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا اور میں اس کے ساتھ طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیے ہوئے انہیں پانی پلانے کے لیے ندی پر لانے کے لیے نکلا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا کہ اے رباح ! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروںنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ لی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اورمدینہ کی طرف منہ کر کے میں نے تین بار آواز دی کہ یاصباحاہ، یا صباحاہ ! (یہ الفاظ حملہ کے وقت اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں)۔ اس کے بعد میں ان لٹیروں کے پیچھے تیر مارتا اور رجز پڑھتا ہوا روانہ ہوا۔ (رجز یہ تھا کہ)'' میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔'' پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو (کاٹھی کو چیر کر) اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا اور کہتا:''یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔'' پھر اللہ کی قسم میں ان کو برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا۔ جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا، تو میں درخت کے نیچے آکر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مار کر سوار یا گھوڑے کو زخمی کر دیتا یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کر دیے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا، نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا ہو اور لٹیروں نے اس کو چھوڑ نہ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے چھین لئے)۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں ان کے پیچھے تیر مارتاہوا چلا، یہاں تک کہ (انہوں نے) تیس سے زیادہ چادریں اور نیزے اپنے آپ کو ہلکا کرنے کے لیے پھینک دیے اور جو چیز وہ پھینکتے اس پر میں پتھر کا ایک نشان رکھ دیتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اس کو لے لیں)، یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا اور وہ سب دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھ گئے اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھ گیا۔ فزاری نے کہا کہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے کہ اس شخص نے تو ہ میں تنگ کر چھوڑا ہے۔ اللہ کی قسم! اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے، برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا کہ تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے، جب وہ اتنی دور آگئے کہ میری بات سن سکیں تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں سلمہ ہوں ( رضی اللہ عنہ ) اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن اپنے آپ کو بوجہ شہرت کے دادا کی طرف منسوب کیا) قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں گا (تیر سے) مار ڈالوں گا اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ سب لوٹے اور میں وہاں سے چلا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے۔ سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے، ان کے پیچھے سیدنا ابوقتادہ ، ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندیy۔ میں نے سیدنا اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں نے کہا کہ اے اخرم !جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آجائیں، تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اے سلمہ! اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا یقین ہے اور تو جانتا ہے کہ جنت اور جہنم حق ہیں، تو مجھ کو شہادت سے مت روک (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ سے شہید ہوجاؤں گا تو اس سے بہتر کیا ہے؟) میں نے ان کو چھوڑ دیا ، ان کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا ۔اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمن نے برچھی سے اخرم کو شہید کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا کہ اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمن کو برچھا مار کر قتل کر دیا۔ تو قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی کہ میں ان کے پیچھے گیا۔ میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی دکھلائی دیا نہ ان کا غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا، وہ پیاسے تھے اور پانی پینے کو اترے۔ پھر مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا، تو آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا کہ وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ اب وہ کسی گھاٹی کی طرف دوڑے تو میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر اس کے شانے کی ہڈی میں مارا اور میں نے کہا :'' یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔'' وہ بولا اس کی ماں اس پر روئے (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے) کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں اے اپنی جان کے دشمن ! وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان لٹیروں کے دو گھوڑے (دوڑتے دوڑتے تھک گئے) تو انہوں نے ان کوچھوڑ دیا۔ تو میں ان گھوڑوں کو ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گھاٹی میں لایا۔ وہاں مجھے عامر رضی اللہ عنہ ملے جن کے پاس ایک برتن میں دودھ اور ایک میں پانی تھا۔ میں نے وضو کیا اور اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ کی ہمت کہ صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے، مال رہ گئے لیکن سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ یہ اللہ جل جلالہ کی خاص مدد تھی جو اس کی راہ میں ہمت و استقامت کے ساتھ چلنے والوں کو ملتی ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اونٹ لے لیے ہیں اور وہ سب چیزیں (بھی) جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں اور وہ نیزے اور چادریں بھی اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نحر (ذبح) کیا جو میں نے چھینے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی تلی اور کوہان کا گوشت بھون رہے تھے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! مجھے لشکر میں سے سو آدمی لینے کی اجازت دیجیے میں ان لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جو (اپنی قوم کو) جا کر خبر سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں آگ کی روشنی میں ظاہر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے سلمہ! تو یہ کر سکتا ہے؟'' میں نے کہا کہ ہاں اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''وہ تو اب قبیلہ غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے اور وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔'' اتنے میں غطفان میں سے ایک شخص آیا اور وہ بولا کہ فلاں شخص نے ان کے لیے ایک اونٹ کاٹا تھا اور وہ اس کی کھال نکال رہے تھے کہ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی، تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آگئے اور وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر ابوقتادہ ( رضی اللہ عنہ ) ہیں اور پیادوں (پیدل فوج) میں سب سے بڑھ کر سلمہ ابن اکوع ( رضی اللہ عنہ ) ہیں۔'' سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے دیے،ایک حصہ سوار کا اور ایک پیادے (پیدل) کا اور دونوں میرے لیے جمع کر دیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو لوٹتے وقت مجھے اپنے ساتھ عضباء پر بٹھا لیا۔ (یعنی اپنے ساتھ سوار کر لیا۔ ایک تو اس لیے کہ ان کے پاس سواری نہیں تھی، دوسرے ان کی قدردانی کے لیے کہ پا پیادہ اور تن تنہا انہوں نے اتنا بڑا کام کیا تھا۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنے ساتھ سوار کر لیا) ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کہ کوئی ہے جومدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور وہ بار بار یہی کہتا تھا جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا کہ تو بزرگ کی بزرگی کا خیال نہیں کرتا اور بزرگ سے نہیں ڈرتا؟ اس نے کہا نہیں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کا خیال کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے میں اس مرد سے دوڑ میں آگے بڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اچھا اگر تیرا جی چاہے۔'' تب میں نے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں اپنا پاؤں ٹیڑھا کر کے کود پڑا، پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہے تو میں نے اپنے دم کو روکا پھر اس کے پیچھے دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو سانس بحال کرنے کو ذرا دم لیا۔ پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور کہا کہ اللہ کی قسم ! اب میں آگے بڑھا۔ پھر اس سے آگے مدینہ کو پہنچا ( معلوم ہوا کہ بغیر کسی لالچ و انعام کے مقابلہ بازی درست ہے اور انعام وغیرہ کی شکل میں اختلاف ہے۔ اکثر انعام وغیرہ کی شکل میں دھوکے بازی، سٹے بازی وغیرہ کا معمول بن چکا ہے) پھر اللہ کی قسم! ہم صرف تین رات ٹھہرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے اور میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ ''اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ یاب نہ ہوتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پروا نہیں ہوئے ،تو ہمارے پاؤں کو جمائے رکھ ،اگر ہم کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسکین ہمارے اوپر نازل فرما۔'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ کون ہے؟'' لوگوں نے کہا کہ عامر رضی اللہ عنہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ تجھ کو بخشے۔'' سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے خاص طور پر استغفار کرتے، تو وہ ضرور شہید ہوتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے کہ اے اللہ کے نبی ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں عامر سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار لہراتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھ رہا تھا : ''خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں۔'' یہ سن کر میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ اس سے مقابلے کو نکلے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا کہ '' میں عامر ہوں پورا ہتھیار بند، لڑائی میں کود پڑنے والا۔'' پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر رضی اللہ عنہ نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نکلا اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ عامر ( رضی اللہ عنہ ) کا عمل ضائع ہو گیا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! عامر ( رضی اللہ عنہ ) کا عمل ضائع ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کون کہتاہے؟'' میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے کہا جھوٹ کہا، نہیں بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔'' پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہے یا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دوست رکھتے ہیں۔'' (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کے ہاتھوں پر فتح دے گا اوروہ بھاگنے والا نہیں ہے)۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کو کھینچتا ہوا لایا ،ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا دیا۔ مرحب وہی رجز پڑھتے ہوئے نکلا: ''خیبرکو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں پورا ہتھیار بند، بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں۔'' سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا کہ '' میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے، نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو)، میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ا ن کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں)۔'' پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح دی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قِصَّةُ الحُدَيْبِيَةِ وَ صُلْحِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَ قُرَيْشٍ
حدیبیہ کا واقعہ اور قریش سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح کا بیان
(1178) عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال لَمَّا أُحْصِرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عِنْدَ الْبَيْتِ صَالَحَهُ أَهْلُ مَكَّةَ عَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا فَيُقِيمَ بِهَا ثَلاَثًا وَ لاَ يَدْخُلَهَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ السَّيْفِ وَ قِرَابِهِ وَ لاَ يَخْرُجَ بِأَحَدٍ مَعَهُ مِنْ أَهْلِهَا وَ لاَ يَمْنَعَ أَحَدًا يَمْكُثُ بِهَا مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اكْتُبِ الشَّرْطَ بَيْنَنَا بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَهُ الْمُشْرِكُونَ لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ تَابَعْنَاكَ وَ لَكِنِ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَمَرَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَمْحَاهَا فَقَالَ عَلِيٌّ لاَ وَاللَّهِ لاَ أَمْحَاهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَ كَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَأَقَامَ بِهَا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا أَنْ كَانَ اليَوْمُ الثَّالِثُ قَالُوا لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَذَا آخِرُ يَوْمٍ مِنْ شَرْطِ صَاحِبِكَ فَأْمُرْهُ فَلْيَخْرُجْ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ نَعَمْ فَخَرَجَ
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب (وہاں جانے سے) روکے گئے اور مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پرصلح کی کہ (آئندہ سال) آئیں اور تین دن تک مکہ میں رہیں اور ہتھیاروں کو غلاف میں رکھ کر لائیں اور کسی مکے والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ والوں میں سے جو (مشرکوں کاساتھ قبول کر کے) رہ جائے تو اس کو منع نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:''اچھا ! اس شرط کو لکھو کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا۔'' تو مشرک بولے کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کر لیتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لیتے بلکہ یہ لکھیے کہ محمد بن عبداللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فیصلہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مٹانے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اچھا مجھے اس لفظ کی جگہ بتاؤ۔'' سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بتا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ(وا) دیا۔ (جب دوسرا سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے)۔ پھر تین روز تک مکہ معظمہ میں رہے۔ جب تیسرا دن ہوا، تو مشرکوںنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے، اب ان سے جانے کو کہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ٹھیک ہے۔''اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل آئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1179) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ }إِلَى قَوْلِهِ {فَوْزًا عَظِيمًا} (الفتح: 1-5) مَرْجِعَهُ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ وَ هُمْ يُخَالِطُهُمُ الْحُزْنُ وَالْكَآبَةُ وَ قَدْ نَحَرَ الْهَدْيَ بِالْحُدَيْبِيَةِ فَقَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ:'' یقینا ہم نے آپ کو واضح فتح سے ہمکنار کیا تاکہ اﷲ تعالیٰ آپ کو معاف فرمادے... بہت بڑی کامیابی۔''(الفتح:۱۔۵) آخرتک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹ کر آ رہے تھے اور صحابہy کو بہت غم اور رنج تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں قربانی کے جانوروں کو ذبح و نحر کر دیا تھا (کیونکہ کافروںنے مکہ میں آنے نہ دیا)، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ میرے اوپر ایک آیت اتری ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ پسند ہے۔ ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : غَزْوَةُ خَيْبَرَ
غزوۂ خیبر کا بیان
(1180) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى خَيْبَرَ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَ لاَ وَرِقًا غَنِمْنَا الْمَتَاعَ وَالطَّعَامَ وَ الثِّيَابَ ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الْوَادِي وَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَبْدٌ لَهُ وَهَبَهُ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُذَامٍ يُدْعَى رِفَاعَةَ بْنَ زَيْدٍ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ فَلَمَّا نَزَلْنَا الْوَادِي قَامَ عَبْدُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَحُلُّ رَحْلَهُ فَرُمِيَ بِسَهْمٍ فَكَانَ فِيهِ حَتْفُهُ فَقُلْنَا هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَلاَّ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ لَتَلْتَهِبُ عَلَيْهِ نَارًا أَخَذَهَا مِنَ الْغَنَائِمِ يَوْمَ خَيْبَرَ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ قَالَ فَفَزِعَ النَّاسُ فَجَائَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ أَوْ شِرَاكَيْنِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَصَبْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہ میں فتح دی تو ہم نے سونا اور چاندی نہیں لوٹا (یعنی چاندی اور سونا ہاتھ نہیں آیا) بلکہ ہم نے اسباب، اناج اور کپڑے کا مال غنیمت حاصل کیا۔ پھر ہم وادی کی طرف چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام تھا (جس کانام مدغم تھا) جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جذام میں سے ایک شخص جس کا نام رفاعہ بن زید تھا، نے ہبہ کیا تھا اور وہ بنی ضبیب میں سے تھا، جب ہم وادی میں اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ کھول رہا تھا کہ اتنے میں ایک (غیبی) تیر اس کو لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ۔ہم لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مبارک ہو وہ شہید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ہرگز نہیں! قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ وہ چادر اس پر آگ کی طرح سلگ رہی ہے جو اس نے مال غنیمت میں سے خیبر کے دن لے لی تھی اور اس وقت تک غنیمت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ یہ سن کر لوگ ڈر گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خیبر کے دن ان کو پایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ تسمہ یا تسمے آگ کے ہیں۔'' (یعنی اگر تو ان کو واپس نہ کرتا تو یہ تسمہ انگارہ ہو کر قیامت کے دن تجھ پر لپٹتا یا تجھے ان تسموں کی وجہ سے عذاب ہوتا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : رَدُّ الْمُهَاجِرِيْنَ عَلَى الأَنْصَارِ الْمَنَائحَ بَعْدَ الْفَتْحِ عَلَيْهِمْ
فتح کے بعد مہاجرین کا انصار کو عطیہ میں دی ہوئی چیزیں واپس کرنا
(1181) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ مِنْ مَكَّةَ الْمَدِينَةَ قَدِمُوا وَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ وَ كَانَ الأَنْصَارُ أَهْلَ الأَرْضِ وَالْعَقَارِ فَقَاسَمَهُمُ الأَنْصَارُ عَلَى أَنْ أَعْطَوْهُمْ أَنْصَافَ ثِمَارِ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ وَ يَكْفُونَهُمُ الْعَمَلَ وَ الْمَئُونَةَ وَ كَانَتْ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ هِيَ تُدْعَى أُمَّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ كَانَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَ أَخًا لِأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأُمِّهِ وَ كَانَتْ أَعْطَتْ أُمُّ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عِذَاقًا لَهَا فَأَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُمَّ أَيْمَنَ مَوْلاَتَهُ أُمَّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا فَرَغَ مِنْ قِتَالِ أَهْلِ خَيْبَرَ وَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ رَدَّ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى الأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِي كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ قَالَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى أُمِّي عِذَاقَهَا وَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُمَّ أَيْمَنَ مَكَانَهُنَّ مِنْ حَائِطِهِ ۔ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَ كَانَ مِنْ شَأْنِ أُمِّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أُمِّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا كَانَتْ وَصِيفَةً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ كَانَتْ مِنَ الْحَبَشَةِ فَلَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ أَبُوهُ فَكَانَتْ أُمُّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَحْضُنُهُ حَتَّى كَبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَعْتَقَهَا ثُمَّ أَنْكَحَهَا زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ تُوُفِّيَتْ بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَمْسَةِ أَشْهُرٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مہاجرین مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کو خالی ہاتھ آئے تھے اور انصار کے پاس زمین تھی اور درخت تھے (یعنی کھیت بھی تھے اور باغ بھی) تو انصارنے مہاجرین کو اپنا مال اس طور سے بانٹ دیا کہ آدھا میوہ ہر سال ان کو دیتے اور وہ کام اور محنت کرتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ جن کا نام ام سلیم تھا اور وہ عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کی ماں بھی تھیں جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کا ایک باغیچہ دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ لونڈی ام ایمن کو دے دیا جو کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کی والدہ تھیں (اس سے معلوم ہوا کہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے وہ درخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کے طور پر دیا تھا اور وہ صرف میوہ کھانے کو دیتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام ایمن کو کس طرح دیتے)۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوئے کر مدینہ لوٹے، تو مہاجرین نے انصار کو ان کی دی ہوئی چیزیں بھی لوٹا دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میری ماں کو ان کا باغیچہ لوٹا دیا اور ام ایمن رضی اللہ عنھا کو اس کی جگہ اپنے باغ سے دیدیا۔ ابن شہاب نے کہا کہ ام ایمن جو اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کی والدہ تھیں وہ عبداللہ بن عبدالمطلب کی (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد تھے) لونڈی تھیں اور وہ حبشہ کی تھیں۔ جب آمنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی وفات کے بعد جنا، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے ہو کر ان کو آزاد کر دیا پھر ان کا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے پڑھا دیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ مہینے بعد فوت ہو گئیں
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فَتْحِ مَكَّةَ، وَ دُخُوْلِهَا بِالْقِتَالِ عَنْوَةً وَ مَنِّهِ عَلَيْهِمْ
فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ والوں پراحسان
(1182) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنٍ رِبَاحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ ذَلِكَ فِي رَمَضَانَ فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ فَقُلْتُ أَلاَ أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الْعَشِيِّ فَقُلْتُ الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ فَقَالَ سَبَقْتَنِي ؟ قُلْتُ نَعَمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلاَ أُعَلِّمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ؟ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ فَقَالَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ وَ بَعَثَ خَالِدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الأُخْرَى وَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْحُسَّرِ فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي كَتِيبَةٍ قَالَ فَنَظَرَ فَرَآنِي فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ لاَ يَأْتِينِي إِلاَّ أَنْصَارِيٌّ زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ فَقَالَ اهْتِفْ لِي بِالأَنْصَارِ قَالَ فَأَطَافُوا بِهِ وَ وَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَ أَتْبَاعًا فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلاَئِ فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْئٌ كُنَّا مَعَهُمْ وَ إِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَ أَتْبَاعِهِمْ ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى ثُمَّ قَالَ حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَائَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلاَّ قَتَلَهُ وَ مَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا قَالَ فَجَائَ أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أُبِيحَتْ خَضْرَائُ قُرَيْشٍ لاَ قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ ثُمَّ قَالَ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ آمِنٌ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ جَائَ الْوَحْيُ وَ كَانَ إِذَا جَائَ الْوَحْيُ لاَ يَخْفَى عَلَيْنَا فَإِذَا جَائَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ قَالُوا قَدْ كَانَ ذَاكَ قَالَ كَلاَّ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَ رَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ وَ يَقُولُونَ وَ اللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلاَّ الضَّنَّ بِاللَّهِ وَ بِرَسُولِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَ يَعْذِرَانِكُمْ قَالَ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ قَالَ وَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ قَالَ فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ قَالَ وَ فِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَوْسٌ وَ هُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ وَ يَقُولُ { جَائَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ } (الاسراء:81) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلاَ عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَ يَدْعُو بِمَا شَائَ أَنْ يَدْعُوَ
سیدنا عبداللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہ میں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروںاور سب کو اپنے مقام پر دعوت دوں ،تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تونے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)؟ میں نے کہا کہ ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار بنایا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے سے گروہ میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا :'' کیا ابوہریرہ؟'' میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میرے پاس انصاری اور شیبان کے علاوہ کوئی نہ آئے '' دوسرے راوی نے یہ روایت کیا :'' انصار کو میرے لیے آواز دو۔'' ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دل رکھنا مناسب جانا) پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کیے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دے دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا:'' تم مجھ سے صفا پر ملو۔'' سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آیا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے۔'' (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کوفرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی محبت آگئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہ میں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھایہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے انصار کے لوگو!۔''
انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت غالب ہوگئی؟'' انہوں نے کہا کہ بے شک یہ تو ہم نے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا ،نصاریٰ نے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔'' یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' بے شک اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لیے ) ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو بوسہ دیا ، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے ،جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے : ''حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔'' (الاسراء:۸۱) جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔
 
Top