• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


(1163) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَ شُجَّ فِي رَأْسِهِ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ وَ يَقُولُ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيَّهُمْ وَ كَسَرُوا رَبَاعِيَتَهُ وَ هُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى { لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ } (آلِ عمران: 128)


سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت احد کے دن ٹوٹا اور سر پر زخم لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:'' اس قوم کی فلاح کیسے ہو گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا اور اس کا دانت توڑا ،حالانکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا تھا۔'' اس وقت یہ آیت اتری :''تمہارا کچھ اختیار نہیں اللہ تعالیٰ چاہے ان کو معاف کرے اورچاہے عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔'' (آل عمران : ۱۲۸)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قِتَالُ جِبْرِيْلَ وَمِيْكَائِيْلَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ أُحُدٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے احد کے دن جبریل اور میکائیل علیہما السلام کا لڑنا
(1164) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عَنْ شِمَالِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابُ بَيَاضٍ مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَ لاَ بَعْدُ يَعْنِي جِبْرِيلَ وَ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
فاتح ایران سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے (اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے) اس سے پہلے اور اسکے بعد میں نے ان کو نہیں دیکھا، وہ جبرئیل اورمیکائیل علیہما السلام تھے (اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فرشتوں کے ساتھ عزت دی اور اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا صرف بدر میں لڑنا خاص نہ تھا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اِشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ رَسُوْلُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ تعالیٰ کا غصہ اس پر بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیا ہو
(1165) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا هَذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ حِينَئِذٍ يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فِي سَبِيلِ اللَّهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کا غصہ ان لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے ایسا کیا ۔''اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دانت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر (بھی) بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کریں۔'' (یعنی جہاد میں جس کو ماریں کیونکہ اس مردود نے پیغمبرکو مارنے کا قصد کیا ہو گا اور اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم حد یا قصاص میں ماریں)ـ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا لَقِيَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَذَى قَوْمِهِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تکلیف پہنچی، اس کا بیان
(1166) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ ؟ فَقَالَ لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ وَ كَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ وَ أَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلاَّ بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ فَنَادَانِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَ مَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَ قَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ قَالَ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ وَ سَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَ أَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَ قَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرِكَ فَمَا شِئْتَ ؟ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے (یعنی قریش کی قوم سے) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا، جب میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے آپ کو پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنانہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر (بہت زیادہ) رنج و غم تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلتا گیا) مگر جب (مقام) قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا تو ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور اس میں جبرئیل علیہ السلام تھے، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کی قوم کا کہنا سنا جو انہوں نے آپ کو جواب دیا، سن لیا ہے اور پہاڑوں کے فرشتے کو اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم کریں۔ پھر اس فرشے نے مجھے پکارا اور سلام کیا اورکہا کہ اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کہنا سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں میں کر دوں۔ پھر آپ جو چاہیں کہیں؟ اگر آپ کہیں تو میں دونوں پہاڑ (یعنی ابوقبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے) ان پر ملا دوں (اور ان کو کچل دوں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ( میں یہ نہیں چاہتا) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو خاص اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔'' (سبحان اللہ! کیا شفقت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر۔ وہ رنج دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تکلیف گوارا کرتے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1167) عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَمِيَتْ إِصْبَعُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَشَاهِدِ فَقَالَ:
هَلْ أَنْتِ إِلاَّ إِصْبَعٌ دَمِيتِ
وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ

سیدنا جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی اور خون نکل آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' نہیں ہے تو مگرایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بے حقیقت ہے)۔ ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1168) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَ أَبُو جَهْلٍ وَ أَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ وَ قَدْ نُحِرَتْ جَزُورٌ بِالأَمْسِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى سَلا جَزُورِ بَنِي فُلانٍ فَيَأْخُذُهُ فَيَضَعُهُ فِي كَتِفَيْ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَأَخَذَهُ فَلَمَّا سَجَدَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ قَالَ فَاسْتَضْحَكُوا وَ جَعَلَ بَعْضُهُمْ يَمِيلُ عَلَى بَعْضٍ وَ أَنَا قَائِمٌ أَنْظُرُ لَوْ كَانَتْ لِي مَنَعَةٌ طَرَحْتُهُ عَنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَاجِدٌ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى انْطَلَقَ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَجَائَتْ وَ هِيَ جُوَيْرِيَةٌ فَطَرَحَتْهُ عَنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَشْتِمُهُمْ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلاَتَهُ رَفَعَ صَوْتَهُ ثُمَّ دَعَا عَلَيْهِمْ وَ كَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلاَثًا وَ إِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا سَمِعُوا صَوْتَهُ ذَهَبَ عَنْهُمُ الضِّحْكُ وَ خَافُوا دَعْوَتَهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ وَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَ شَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ وَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَ عُقْبَةَ ابْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَ ذَكَرَ السَّابِعَ وَ لَمْ أَحْفَظْهُ فَوَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًاصلی اللہ علیہ وسلم بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ سَمَّى صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ غَلَطٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اپنے دوستوں سمیت بیٹھا تھا اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ ابوجہل نے کہا کہ تم میں سے کون جا کر اس کی بچہ دانی لاتا ہے اور اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں رکھ دیتاہے جب کہ وہ سجدے میں جائیں؟ یہ سن کر ان کا بدبخت شقی (عقبہ بن ابی معیط ملعون) اٹھا اور لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان وہ بچہ دانی رکھ دی۔ پھر ان لوگوں نے ہنسی شروع کی اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے۔ میں کھڑا ہوا دیکھتا تھا، میں اگر زور آور ہوتا (یعنی میرے مددگار لوگ ہوتے) تو میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے پھینک دیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ایک آدمی گیا اور اس نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو خبر کی ،تو وہ آئیں اور اس وقت وہ (چھوٹی عمر کی )لڑکی تھیں اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے اتارا اور پھر ان لوگوں کی طرف آئیں اور ان کو برا بھلا کہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، تو بلند آواز سے ان پر بددعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاکرتے تو تین بار دعا کرتے اور جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے اللہ! قریش کو سزا دے۔'' تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا سے ڈر گئے اور ان کی ہنسی جاتی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے اللہ! تو ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو برباد کر دے۔'' اور ساتویں کا نام مجھے یاد نہیں رہا (بخاری کی روایت میں اس کا نام عمارہ بن ولید مذکور ہے)۔ پھر قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا کہ میں نے ان سب لوگوں کو جن کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا، بدر کے دن مقتول پڑے ہوئے دیکھا کہ ان کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈالی گئیں (جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں) ابواسحاق نے کہا کہ ولید بن عقبہ کا نام اس حدیث میں غلط ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : صَبْرُ الأَنْبِيَائِ عَلَى أَذَى قَوْمِهِمْ
انبیاء کا اپنی قوم کی طرف سے تکلیف پر صبر کرنا
(1169) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَائِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ وَ هُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَ يَقُولُ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا کہ میں (اب بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر کا حال بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے ان کو مارا تھا اور وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:'' اے اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ (سبحان اللہ نبوت کے حوصلے کا کیاکہنا)۔ ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَتْلُ أَبِيْ جَهْلٍ
ابو جہل کا قتل
(1170) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ يَنْظُرُ لَنَا مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَائَ حَتَّى بَرَكَ قَالَ فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ فَقَالَ آنْتَ أَبُو جَهْلٍ ؟ فَقَالَ وَ هَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ ؟ أَوْ قَالَ قَتَلَهُ قَوْمُهُ ؟ قَالَ وَ قَالَ أَبُو مِجْلَزٍ قَالَ أَبُو جَهْلٍ فَلَوْ غَيْرُ أَكَّارٍ قَتَلَنِي
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ابوجہل کی خبر کون لاتاہے؟ یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ گئے تو دیکھاکہ عفراء کے بیٹوں نے اسے ایسا مارا تھا کہ وہ زمین پر گرا ہوا تھا (یعنی قریب المرگ تھا)۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ڈاڑھی پکڑی اور کہا کہ تو ابوجہل ہے؟ وہ بولا کہ کیا تم نے اس شخص (ابو جہل) سے زیادہ مرتبے والے شخص کو قتل کیا ہے ؟ (یعنی مجھ سے زیادہ قریش میں کوئی بڑے درجے کا نہیں) یا اس نے کہا کسی بڑے آدمی کو اس کی قوم نے قتل کیا ہے جو مجھ سے بڑا ہو؟(یعنی اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میری کوئی ذلت نہیں) ابومجلز نے کہا کہ ابو جہل نے کہا کہ کاش ! کاشتکار (کسان) کے سوا اور کوئی مجھے مارتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : قَتْلُ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ
کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ
(1171) عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ ائْذَنْ لِي فَلْأَقُلْ قَالَ قُلْ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ وَ ذَكَرَ مَا بَيْنَهُمَا وَ قَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَرَادَ صَدَقَةً وَ قَدْ عَنَّانَا فَلَمَّا سَمِعَهُ قَالَ وَ أَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ الآنَ وَ نَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْئٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ قَالَ وَ قَدْ أَرَدْتُ أَنْ تُسْلِفَنِي سَلَفًا قَالَ فَمَا تَرْهَنُنِي ؟ قَالَ مَا تُرِيدُ ؟ قَالَ تَرْهَنُنِي نِسَائَكُمْ قَالَ أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ أَ نَرْهَنُكَ نِسَائَنَا ؟ قَالَ لَهُ تَرْهَنُونِي أَوْلادَكُمْ قَالَ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَيُقَالُ رُهِنَ فِي وَسْقَيْنِ مِنْ تَمْرٍ وَ لَكِنْ نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ يَعْنِي السِّلاَحَ قَالَ فَنَعَمْ وَ وَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ بِالْحَارِثِ وَ أَبِي عَبْسِ بْنِ جَبْرٍ وَ عَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَجَائُوا فَدَعَوْهُ لَيْلاً فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ إِنِّي لَأَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ صَوْتُ دَمٍ قَالَ إِنَّمَا هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَ رَضِيعُهُ وَ أَبُو نَائِلَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ لَيْلاً لَاَجَابَ قَالَ مُحَمَّدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي إِذَا جَائَ فَسَوْفَ أَمُدُّ يَدِي إِلَى رَأْسِهِ فَإِذَا اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَدُونَكُمْ قَالَ فَلَمَّا نَزَلَ نَزَلَ وَ هُوَ مُتَوَشِّحٌ فَقَالُوا نَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الطِّيبِ قَالَ نَعَمْ تَحْتِي فُلاَنَةُ هِيَ أَعْطَرُ نِسَائِ الْعَرَبِ قَالَ فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ ؟ مِنْهُ قَالَ نَعَمْ فَشُمَّ فَتَنَاوَلَ فَشَمَّ ثُمَّ قَالَ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَعُودَ ؟ قَالَ فَاسْتَمْكَنَ مِنْ رَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ دُونَكُمْ قَالَ فَقَتَلُوهُ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔'' سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''ہاں!۔'' تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تجھے اختیار ہے۔'' چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہ میں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم !آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم ا س کا اتباع کر چکے ہیں ،اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا، لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابو عبس بن جبیر اور عباد بن بشرy کو بھی ساتھ لائیں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ قلعہ سے نیچے اتر کران کے پاس آنے لگا۔ ا س کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں)۔ عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ )اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ( رضی اللہ عنہ ) ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔کعب نے جواب دیا کہ ہاں میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : غَزْوَةُ ذَاتِ الرِّقَاعِ
غزوۂ الرقاع کا بیان
(1172) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزَاةٍ وَ نَحْنُ سِتَّةُ نَفَرٍ بَيْنَنَا بَعِيرٌ نَعْتَقِبُهُ قَالَ فَنَقِبَتْ أَقْدَامُنَا فَنَقِبَتْ قَدَمَايَ وَ سَقَطَتْ أَظْفَارِي فَكُنَّا نَلُفُّ عَلَى أَرْجُلِنَا الْخِرَقَ فَسُمِّيَتْ غَزْوَةَ ذَاتِ الرِّقَاعِ لِمَا كُنَّا نُعَصِّبُ عَلَى أَرْجُلِنَا مِنَ الْخِرَقِ قَالَ أَبُو بُرْدَةَ فَحَدَّثَ أَبُو مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ثُمَّ كَرِهَ ذَلِكَ قَالَ كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَكُونَ شَيْئًا مِنْ عَمَلِهِ أَفْشَاهُ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ وَ زَادَنِي غَيْرُ بُرَيْدٍ وَاللَّهُ يُجْزِي بِهِ
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم باری باری اس پر سوار ہوتے تھے۔ ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پاؤں پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے، تو ہم نے اپنے پاؤں پر پٹیاں باندھ لیں۔ اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔ ابوبردہ (راوی) نے کہا کہ یہ حدیث ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سنائی پھر (ریا کاری کے خوف سے) بیان نہیں کرتے تھے اور ابو اسامہ نے کہا کہ برید کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ زیادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے۔
 
Top