• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباد امثالکم سے کون مراد ہیں؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب یہاں زندہ یا مردہ کی بات نہیں ہورہی بلکہ یہاں بات یہ ہورہی کہ وہ بھی مخلوق ہیں اور تم بھی مخلوق ۔باقی نعوزباللہ کون کہتا ہے کہ صالحین کی عبادت کی جائے دیکھیں جب عبادت کی نفی آئے تب تو اس میں انبیا و اولیا بھی شامل ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں مگر دوسری طرف انکو ان آیات کا مصداق بنانا جن میں اختیارات کی نفی ہے یا جو آیت آپ نے لکھی ہے یہ غلط ہے۔اور حضرت عیسی نے تو خود نسبت مجازی کرتے ہوئے کہا کہ میں تخلیق کرتا ہوں مٹی سے پرندہ ۔اب ان کو من دون اللہ کا مصداق بنانا یہ غلط ہے۔اور یہ جو آیت آپ نے پیش کی اس سے مراد بھی بت ہیں تفاسیر اس کی گواہ ہیں باقی اگر آپ نے من دون اللہ کے حوالے سے بھث کرنی ہے تو الگ تھریڈ بنائے یہاں صرف اس آیت کے متعلق بحث ہو گی
محترم -

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام ہی الله کے ازن سے ہوتا ہے - اور اس بات کو ہم اور آپ سے زیادہ نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم کے دور کے مشرکین مکہ جانتے تھے -قرآن اس بات کا گواہ ہے کہ وہ مشرکین نہ صرف الله کو رازق اور مشکل کشا سمجھتے تھے بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس دنیا کا سارا نظام الله ہی کے قبضہ قدرت میں ہے - لیکن پھر بھی وہ الله کے نزدیک کافر اور مشرک قرار پاے - وجہ صرف یہ تھی کہ وہ صرف اپنے خود ساختہ وسیلوں کے چکر میں پھنسے ہوے تھے - قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے کہ" ہم ان کی عبادت ان کی خوشنودی کے لئے نہیں کرتے بلکہ الله سے قریب ہونے کے لئے کرتے ہیں " سوره الزمر ٣-

دوسری بات یہ کہ سوره سورة الأعراف کی یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ اس سے مراد قبر میں مدفون انسان ہی ہیں- صرف پتھر کے بت نہیں ہیں-

أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ سورة الأعراف ١٩٥

کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنیں-

کیا قبر میں مدفون ایک انسان- اب چاہے وہ نبی ہو یا اس کا شمار صالحین میں ہو کیا اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ یہ سب افعال سر انجام دے سکے؟؟- جو ایک زندہ انسان اپنے ان اعضاء سے سرانجام دیتا ہے - اگر آپ کا ان مشرکین کی طرح یہ کہنا ہے کہ الله کے ازن سے تو یہ ممکن ہے کہ قبر پر پڑا ایک صالح انسان ہماری مدد کر سکتا ہے- تو پھر میرا کہنا یہ ہے کہ پھر تو الله کے ازن سے پتھر کے بت بھی مشریکن مکہ کی مدد کرسکتے تھے - کیا آج ہندو اور بدھ مت کے لوگ جو پتھروں سے مانگتے ہیں الله کے رزق سے محروم ہیں ؟؟ کیا ان کو ان کے وسیلوں سے اولادیں نہیں ملتیں ؟؟ ان کی تمام مشکلات حل نہیں ہوتین ؟؟ تو پھر صرف وہ ہی کافر کیوں - ؟؟ اور ہم اس خود ساختہ وسیلے اختیار کرنے کے باوجود مسلمان کیوں ؟؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم -

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام ہی الله کے ازن سے ہوتا ہے - اور اس بات کو ہم اور آپ سے زیادہ نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم کے دور کے مشرکین مکہ جانتے تھے -قرآن اس بات کا گواہ ہے کہ وہ مشرکین نہ صرف الله کو رازق اور مشکل کشا سمجھتے تھے بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس دنیا کا سارا نظام الله ہی کے قبضہ قدرت میں ہے - لیکن پھر بھی وہ الله کے نزدیک کافر اور مشرک قرار پاے - وجہ صرف یہ تھی کہ وہ صرف اپنے خود ساختہ وسیلوں کے چکر میں پھنسے ہوے تھے - قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے کہ" ہم ان کی عبادت ان کی خوشنودی کے لئے نہیں کرتے بلکہ الله سے قریب ہونے کے لئے کرتے ہیں " سوره الزمر ٣-

دوسری بات یہ کہ سوره سورة الأعراف کی یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ اس سے مراد قبر میں مدفون انسان ہی ہیں- صرف پتھر کے بت نہیں ہیں-

أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ سورة الأعراف ١٩٥

کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنیں-

کیا قبر میں مدفون ایک انسان- اب چاہے وہ نبی ہو یا اس کا شمار صالحین میں ہو کیا اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ یہ سب افعال سر انجام دے سکے؟؟- جو ایک زندہ انسان اپنے ان اعضاء سے سرانجام دیتا ہے - اگر آپ کا ان مشرکین کی طرح یہ کہنا ہے کہ الله کے ازن سے تو یہ ممکن ہے کہ قبر پر پڑا ایک صالح انسان ہماری مدد کر سکتا ہے- تو پھر میرا کہنا یہ ہے کہ پھر تو الله کے ازن سے پتھر کے بت بھی مشریکن مکہ کی مدد کرسکتے تھے - کیا آج ہندو اور بدھ مت کے لوگ جو پتھروں سے مانگتے ہیں الله کے رزق سے محروم ہیں ؟؟ کیا ان کو ان کے وسیلوں سے اولادیں نہیں ملتیں ؟؟ ان کی تمام مشکلات حل نہیں ہوتین ؟؟ تو پھر صرف وہ ہی کافر کیوں - ؟؟ اور ہم اس خود ساختہ وسیلے اختیار کرنے کے باوجود مسلمان کیوں ؟؟
آپکے سارے سوالات جواب طلب هیں
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موضوع دین اسلام کی اساسیات میں سے هے ۔ مجهے امید قوی هیکہ فورم پر موجود اهل علم اس پر مناسب توجہ دینگے ۔
یہ وہ خط هے جو فاصل هے اسلام اور کفر و شرک کے درمیاں ۔ اللہ تعالی کی کتاب میں انتهائی وضاحت موجود هے ، رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام میں امت کو سب سے زیادہ اسی چیز سے دور رهنے کی تلقین کی اور بار بار کها کے یہ افعال نصاری و یهود کے هیں ، اللہ کے یہاں سب سے ناپسندیدہ اعمال یہی هیں ۔ احادیث میں انتہائی تنبیہ هے امت مسلمہ کیلئے ۔ مجهے حیرت هے کہ قرآن کی واضح آیتوں اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف میں کسی مسلم کا قلم جنبش کیسے کرسکتا هے؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
محترم -

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام ہی الله کے ازن سے ہوتا ہے - ؟؟
بے شک ہر کام اللہ کے اذن سے ہوتا ہے مگر کچھ کاموں میں اس کی مشیت و رضا ہوتی کچھ میں نہیں۔یعنی کچھ سے وہ راضی ہوتا ہے اور کچھ سے نہیں۔
اگلی بات رہ گئی مشرکین کی بات تو پہلی بات یہ کہ وہ اللہ کی عطا مانتے تھے اذن نہیں۔اور دوسری بات وہ الوہیت کے قائل تھے۔
مثال سے یوں سمجھئے کہ میں کہوں کہ رسول اللہ کا علم ہے تو اللہ کی عطا سے مگر ہے اللہ کے برابر اور جب چاہے آپ جو چاہے رب کا اذن نہ بھی ہو تو مستقل طور اس چیز کو معلوم کرسکتے ہیں۔اور میرا یہ عقیدہ شرک نہیں کیونکہ میں اللہ کی عطا مان رہا ہوں۔
تو آپ کہے گئے بھائی تم عطا مانو یا نہ مانو اس کا فائدہ ہی نہیں جب اللہ کے برابر اور مستقل طور مان لیا پھر عطا کا مطلب ہی ختم ہو جاتا ہے۔یہ بات مشرکین کی تھی جب وہ الوہیت مانتے تھے اب وہ عطا مانے یا نہ مانے اس کا ان کو فائدہ نہیں کیونکہ جب برابری مان لی پھر تو یہ عطا کا لفظ ہی بے مطلب ہوگیا۔
اور رہ گئی ان کے وسیلے کی بات تو پہلی بات تو وہ پوجتے تھے اور ہم پوجتے نہیں ۔ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اور کیا حضرت عمر نے ابن عباس کو وسیلہ نہیں بنایا تھا؟ کیا اللہ نے ابن عباس کے علاوہ کسی کی سننی نہیں تھی؟کیا وجہ تھی جو یہ کام کیا؟اور کیوں بارش ہوئی۔؟جواب عطا فرما کر شکریہ کا موقع دیں
اگلی بات آپ نے یہاں قبر میں مدفون کی قید لگائی ۔میں پوچھتا ہوں کیا زندہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا جائز ہے؟جب آپ کے نزدیک زندہ سے کو بھی مافوق الاسباب طریقے سے پکارنا شرک ہے تو پھر قبر میں مدفن کی قید کیوں؟کیا زندہ من دون اللہ نہیں؟اگر آپ زندہ کو بھی اس میں شامل کریں تو اس سے قرآن کی تکذیب ہو گی اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان و سمیع و بصیر بنایا جبکہ یہاں انکی نفی ہے۔
پھر آپ لوگوں کا مسئلہ یہ ہے آپ نے صنم میں اور قبر میں فرق نہیں کیا؟اللہ کے بندے
صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہی اسے ادراک بھی
بندہ خاکی تو سن لیتا ہے زیر خاک بھی
کیا بخاری کی حدیث نہیں ہے کہ قبر میں پڑا انسان جوتوں کی چاپ کی آواز سنتا ہے؟آپ لوگوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ آپ نے ایمان بالغیب پر اپنی عقلوں کو ترجیح دی ہے۔جیسے مشرکین کہتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجائے ؟اس کے بکھرے ہوئے عضا جڑ جائیں؟مگر وہ بیوقوف یہ نہیں جانتے تھے کہ اکٹھا ان اعضا نے خود نہیں ہونا بلکہ اللہ نے کرنا ہے اور یہی مسئلہ آپ کے ساتھ بھی ہے آپ کو اتنا سمجھ نہیں آتا کہ قبر کی زندگی رب کی عطا سے ہے
پھر کس مفسر نے اس سے مراد قبر میں دفن انسان لئے ہیں؟
اور رہ گئی مشرکین کے مانگنے والی بات تو سنئے خرق عادت عمل ولی کو بھی ملتا ہے اور ایک کافر کو بھی تو سوال پیدا ہوا کہ پھر ولی کا کمال کیا ہے ؟تو علامہ ابن حجر نے اس کا جواب دیا کہ کافر کو ملتا ہے اس کی گمراہی پر ڈھیل دینے کے لئے اور ولی کو ملتا ہے عزت و شرف کے لئے۔بس یہی فرق ہم میں اور ان میں ہے اور وہ فقط سفارشی نہیں مانتے مگر ان کی عبادت بھی کرتے ہیں اور اللہ نے ان کو شفاعت کا اختیار دیا بھی نہیں اور یہی من دون اللہ ہیں۔جبکہ جو اللہ کے اذن سے سفارش کریں گئے وہ اہل اللہ ہیں۔اب قبر کو بت پر قیاس کرنا یہ انتہائی درجے کی حماقت ہے یارو بت تو ہے ہی جنہم کا ایندھن مگر قبر مومن بالیقین جنتی باغوں سے باغ۔اسی فرق کو نہ سمجھتے ہوئے آپ نے امت پر شرک کے فتوے لگائے ا ن کی جانوں مالوں کو حلال قرار دیا۔بس خلاصہ یہ ہے کہ مت ملاو صالحین کو طبقہ اوثان سے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جتنی عقلی دلائل دی هیں خود ان دلائل کا رد بهی کردیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنه والے واقعہ سے ۔
یہ وہ دلیل هے جو هم دیتے هیں کے اس وقت بهی اسلاف کا عمل یہی تها کے انهوں نے قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جاکر امت کیلئے طلب نہ کرتے هوئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعاء کروائی ۔
اس فرق کا تعلق اسلام کے بنیادی عقیدہ سے هے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اوریہ کونسی تفسیر ہے کتاب کا نام لکھیں
یہ صوفیاء کے مشہور امام ابو القاسم القشیری (المتوفى: 465 ھ) کی تفسیر ’’ لطائف الاشارات ‘‘ کا اقتباس تھا ۔
امام القشیری نیشاپوری امام ابن فورکؒ کے شاگرد اور امام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ کے ہم عصر اور سید علی ہجویری کے بھی ہم عصر ہیں ۔
ان کیلئے یہ اعزازکی بات کہ امام ابو اسحاق اسفرائینی کے شاگرد ہیں ۔ علامہ اسفرائینی ؒکے متعلق امام الذہبی رحمہ اللہ ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ میں فرماتے ہیں :
أبو إسحاق الإسفراييني إبراهيم بن محمد *
الإمام، العلامة الأوحد، الأستاذ، أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن إبراهيم بن مهران الإسفراييني، الأصولي، الشافعي، الملقب ركن الدين.
أحد المجتهدين في عصره وصاحب المصنفات الباهرة.


اور قشیری کا ( الرسالۃ القشیریہ ) اہل تصوف میں اصل الاصول کا درجہ رکھتا ہے ؛
میرا خیال ہے القشیری کا اتنا تعارف کافی ہے ۔
اور اب دیکھئے ان کی تفسیر کا مذکورہ بالا حوالہ :

قشيري 2.jpg
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
کیا "من دون اللہ " سے مرادصرف بُت ہیں؟

إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿194﴾
ترجمہ: بے شک جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں پھر انہیں پکار کر دیکھو پھر چاہے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو (سورۃ الاعراف،آیت 194)
وَجَعَلُوا۟ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا۟ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَٰتٍۭ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿100﴾
ترجمہ: اور اللہ کا شریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اس نے ان کو بنایا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں جہالت سے ،پاکی اور برتری ہے اس کو ان کی باتوں سے (سورۃ الانعام،آیت 100)*
*ترجمہ: احمد رضا خاں
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ﴿22﴾
ترجمہ: کہہ دوالله کے سوا جن کا تمہیں گھمنڈ ہے انہیں پکارو وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرّہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے الله کا کوئی مددکار ہے (سورۃ سبا،آیت 22)*
*تفسیر مدارک5/159میں ہے: "قولہ (من دون اللہ) ای من الاصنام والملائکۃ"یعنی (من دون اللہ) سے مراد بُت اور فرشتے ہیں ،چند ایک اور آیات ملاحظہ ہوں جن میں (من دون اللہ) سے مراد ذوی العقول ہیں۔
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًۭا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹےکو بھی حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے (سورۃ التوبہ،آیت 31)
اس آیت کریمہ میں( من دون اللہ) سے مراد علماء درویش اور عیسی علیہ السلام ہیں۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ ٱللَّهُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا۟ عِبَادًۭا لِّى مِن دُونِ ٱللَّهِ
ترجمہ: کسی انسان کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے سوا میرے بندے ہو جاؤ (سورۃ آل عمران،آیت 79)
یہاں (من دون اللہ) سے مراد انبیاء علیھم السلام ہیں جنہیں کتاب،حکمت اور نبوت جیسی اہم خصوصیات سے نوازا گیا۔
قُلْ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ كَلِمَةٍۢ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِۦ شَيْا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۚ
ترجمہ: کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے (سورۃ آل عمران،آیت 64)
یہاں (من دون اللہ) سے مراد انسان ہی ہے۔
إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ إِلَّآ إِنَٰثًۭا
ترجمہ: وہ اللہ کے علاوہ عورتوں کو پکارتے ہیں (سورۃ النساء،آیت 117)
اس آیت کریمہ میں (من دونہ) سے مراد عورتیں ہیں۔ان تمام آیات سے واضح ہو گیاکہ (من دون اللہ) سے مراد صرف بُت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے (من دون اللہ) میں انبیاء اولیاء،شہداء،ملائکہ،جن،انسان،شجر و حجر وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
کتاب کلمہ گو مشرک از مبشر احمد ربانی سے اقتباس​
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیر محمد ارسلان صاحب
اللہ۔هم سب سے راضی رهے ۔ هم سبکا خاتمہ اسلام پر کرے ۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رکهے ۔ یوم حساب هماری بخشش فرمائے ۔ آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیر محمد ارسلان صاحب
اللہ۔هم سب سے راضی رهے ۔ هم سبکا خاتمہ اسلام پر کرے ۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رکهے ۔ یوم حساب هماری بخشش فرمائے ۔ آمین
آمین یا اللہ ذوالجلال والاکرام
جزاک اللہ خیرا طارق بھائی
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملے گی کہ انہوں نے اللہ کے سوا کسی نبی، ولی، فرشتے کو پکارنے کی ترغیب دی ہو۔ جتنے خود ساختہ ولی لوگوں نے قبر فروشی کا بزنس چلانے کے لیے بنا رکھے ہیں ان کی کیا نسبت ہو سکتی ہے ابو الانبیاء ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ، جن کے بارے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو حکم دیا گیا "ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفًا" ۔ ان کی کیا نسبت ہو سکتی ہے موسٰی علیہ السلام کے ساتھ جن کے بارے فرمایا و کلم اللہ موسیٰ تکلیما، ان کی کیا نسبت ہے ادریس علیہ السلام کے ساتھ جن کے بارے فرمایا و رفعناہ مکانًا علیًا۔
ہمارے یہ بھائی جو صحیح راستے سے ہٹ گئے ہیں کوئی ایک مثال پیش فرما دیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کسی ایک موقع پر ہی سہی ان سے مدد مانگنے کی ترغیب دی ہو۔ چلیں ان کا مقام و مرتبہ اس سے بلند تر تھا لیکن کیا کسی صحابی کو بھی سمجھ میں نہ آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جو مشرکوں کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں، کبھی طائف میں پتھر کھاتے ہیں، کبھی گھر اورشہر سے نکالے جاتے ہیں، کبھی تلوار لے کر بدرو احد اور خندق و حنین میں جنگ کرتے ہیں وہ سارا جھگڑا بس "ذاتی" اور "عطائی" کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے کتنی آسانی ہوجاتی اگر وہ کہتے میرے قریشی بھائیو! تم جن بتوں کو ذاتی اختیارات کا مالک سمجھ رہے ہو ان کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے، سب اللہ کے دیے ہوئے اختیار ہیں، وہی اللہ جسے تم بھی زمین و آسمان کا خالق، زندگی موت دینے والا، آسمان سے پانی برسانے والا مانتے ہو اور جب کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتے ہو تب سب معبودوں کو چھوڑ کر اسی کے آگے آہ و زاری کرتے ہو۔ تم بس اتنا کرو کہ ان کے اختیارات کو عطائی مان لو پھر ان کے آگے چڑھاوے چڑھاؤ، مدد کے لیے پکارو کوئی حرج نہ ہوگا آخر یہ بت بھی تو نیک بندوں یا فرشتوں کے ہی ہیں۔
لیکن وہاں تو منظر ہی دوسراہے۔ بس ایک اللہ ہے جس کی وحدانیت کی پکار ہر طرف پکاری جا رہی ہے۔ وہاں تو بلال جیسے سچے ایمان والے ہیں جو "احد احد" کے سوا کچھ ماننے کو تیار نہیں۔ وہاں تو خبر دی جا رہی ہے کہ جو اللہ کے سوا کسی کو پکارتا ہوا مر گیا وہ آگ میں جائے گا۔ وہاں وہ ساری ہستیاں موجود ہیں جن کے ادنٰی کے مقابلے میں امت کے سارے ولی جمع ہو جائیں تو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن وہاں کوئی "ذاتی" اور "عطائی" کا فلسفہ بگھار کر ان کی عبادت کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسروں کا ذکر ہی چھوڑیے، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں کیسی کیسی مصیبتیں پیش نہ آئی تھیں ان میں سے کسی ایک نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر دہائی نہ دی۔
اس سیدھے سادھے مسئلے میں جو الجھاؤ پیدا کیا جاتا ہے اسے علمی اشکال نہ سمجھیے یہ کاروباری مفاد کا معاملہ ہے جس کا شکار بھولے بھالے مخلص مسلمان ہو جاتے ہیں۔
والسلام علیکم
 
Top