قادری رانا صاحب ، بات لمبی ہوئی ، اور مسئلے کی مناسب وضاحت بھی ہو گئی ، لیکن آپ نے کچھ باتوں کو یہ کہہ کر ایک طرف کردیا کہ ان کا موضوع سے تعلق نہیں ، کچھ کے بارے میں کہا کہ ان پر فلاں جگہ بحث ہورہی ہے ، اور فلاں جگہ کر لیں ،لیکن آپ کا یہ نعرہ بدستور قائم رہا کہ کوئی آپ کو قیامت کی صبح تک دلیل نہیں دکھا سکتا ۔۔۔
خیر ہمارے نزدیک اس کا مناسب جوابی نعرہ یہ ہوسکتا کہے کہ آپ قیامت کی صبح تک درست بات کا اعتراف نہیں کریں گے ۔
آئیے آپ کی پہلی پوسٹ کا جائزہ لیے لیتے ہیں کہ اس میں آپ نے ایسا کیا پیش کردیا جس پر آپ اس قدر خوش ہورہے ہیں ۔
کچھ لوگ سورت اعراف کی آیت نمبر ١۹۴ کو دلیل بناتے ہیں کہ من دون اللہ سے فقط بت ہی نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ بھی تمہاری مثل بندے ہیں تو ثابت ہوا یہاں فقط بت نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں۔
یہ آپ نے اپنی زبانی فریق مخالف کا موقف نقل کیا ہے ، اور دلیل بھی ساتھ ہی موجود ہے ۔
اب دیکھ لیتے ہیں کہ آپ نے فریق مخالف کے آیت سے استدلال میں کیا خامی نکالی ہے ؟
اور اپنے حق میں کیا دلیل پیش کی ہے ؟
جوابا عرض ہے کہ یہاں عباد امثالکم سے بت ہی مراد ہیں
یعنی مستندا ہے میرا فرمایا ہوا ؟
اور رہ گئی بات ان کو عباد کہنے کی تو ان کو عباد مخلوق مملوک کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں
اس توجیہ سے یہ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے بت بھی مراد ہیں لیکن اس سے یہ کیسے نکلتا ہے کہ اس سے بتوں کے علاوہ مراد نہیں ؟
پھر اس سے اگلی آیت بھی اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ یہاں بت ہی مراد ہیں۔اللہ فرماتا ہے أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)اس آیت میں کہا گیا کہ کیا ان کے ہاتھ ہیں ؟ِ کیا ان کے پاوں ہیں یا ان کی آنکھیںِ ہیںِ؟یعنی ان سے ان اشیا کی نفی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح تم مخلوق ہو وہ بھی مخلوق ہیں مملوک ہیں بلکہ وہ تو تم سے بھی کم تر ہیں نہ ان کی آنکھیں ہیں نہ ہاتھ۔
گزارش ہے کہ اس آیت سے یہ کہیں ثابت نہیں ہورہا کہ یہاں مراد صرف بت ہیں . بلکہ آپ کا بیان کردہ فہم ہے ۔
اس کے مقابلے میں ہم کہیں گے کہ قرآن کی آیت سے یہ مراد ہوسکتی ہے کہ جن لوگوں کو تم غیر اللہ کے لیے پکارتے ہو ، ان کے اعضاء کیا ان کی ملکیت ہیں جو تم ان سے مدد طلب کرتے ہو ؟
دوسری بات : آپ نے کہا کہ دوسری آیت سے یہ ثابت ہورہا ہے ، گویا آپ عباد امثالکم والی آیت کے معنی کو دوسری آیت سے ملا کر سمجھ رہے ہیں ، تو بھائی دوسری آیات تو وہ بھی ہیں جو ارسلان بھائی نے پیش کی ہیں ، ان آیات سے عباد امثالکم والی آیت کا معنی و مفہوم کیوں نہیں سمجھا جاسکتا ؟
تفسیر خازن میں ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ يعني أن الأصنام التي يعبدها هؤلاء المشركون إنما هي مملوكة لله أمثالهم
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة.(تفسیر بیضاوی)
تفسر قرطبی میں ہے
(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ) حَاجَّهُمْ فِي عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ." تَدْعُونَ" تَعْبُدُونَ. وَقِيلَ: تَدْعُونَهَا آلِهَةً." مِنْ دُونِ اللَّهِ" أَيْ مِنْ غَيْرِ اللَّهِ. وَسُمِّيَتِ الْأَوْثَانُ عباد الأنها مَمْلُوكَةٌ لِلَّهِ مُسَخَّرَةٌ. الْحَسَنُ: الْمَعْنَى أَنَّ الْأَصْنَامَ مخلوقة أمثالكم.
تفسیر مدراک میں ہے
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
ان تمام تفسیری اقوال سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہاں بت بھی مراد ہیں ،لیکن یہ تو کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہاں بتوں کےعلاوہ کچھ او ر مراد نہیں .
یہ ہے آپ کے مکمل مراسلے کی حقیقت ، جس میں آپ بقول خود فریق مخالف کا استدلال پیش کرکے اس کا نہ تو توڑ پیش کرسکے ہیں ، اور نہ ہی اپنے حق میں یہ دلیل دے سکے ہیں کہ ’’ یہاں صرف بت ہی مراد ہیں ‘‘ .
لیکن اس کے باوجود اترا رہے ہیں کہ قیامت تک مخالفین سے یہ نہیں ہوسکتا اور وہ نہیں ہوسکتا .
تو بھائی میرے جو ہو چکا ہے پہلے اس کا تو معقول جواب دے دیں .
ایک اہم بات
اور پھر ان ساری باتوں سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو ایک اہم قید ’’ من دون اللہ ‘‘ یعنی ’’ اللہ کے سوا ‘‘ کی ہے ، آپ اس آیت سے اپنی من مانی مراد ’’ صرف بت ‘‘ ہی لے لیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ نیک اور صالحین لوگ ’’ من دون اللہ ‘‘ نہیں ہیں ؟ اگر کوئی آدمی ان کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتا ہے جو مشرکین بتوں کے بارے میں رکھتے تھے تو کیا اس کو ’’ من دو ن اللہ ‘‘ کو پکارنے والا نہیں کہا جائے گا ؟
حقیقت یہ ہے کہ ’’ دون اللہ ‘‘ کی قید لگا کر تو حید و شرک کے درمیان حد فاصل قائم کردی گئی ہے ۔
جو اللہ کو پکارے گا ، وہ موحد ہے ، اور جو اللہ کے ماسوا کو پکارے گا ، وہ مشرک ہے ، کیا نیک و صالح لوگ اللہ تعالی ہیں ؟ کیا انبیاء اللہ تعالی ہیں ؟ کیا اولیاء اللہ تعالی ہیں ؟ کیا قبریں ، قبے ، دربار مزار اللہ تعالی ہیں ؟
لفظ ’’ مشرک ‘‘ پر غور کریں ، اس کا معنی کیا ہے ؟ بتوں کا پجاری ؟
نہیں ، بلکہ اس کے معنی ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا ، گویا جو بھی غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک بنائے گا ، وہ مشرک کہلائے گا ، جنہوں نے بتوں کو بنایا ، وہ ساتھ بتوں کے پجاری کہلائے ، جنہوں نے قبروں اور مزاروں والوں کو بنایا ، وہ درباری کہلائے ، گویا شرک دونوں نے ہی کیا ، لیکن ایک نے بت کو شریک کیا تو ’ بت پرست ‘ کہلایا دوسرے نے قبر والے کو کیا تو ’’ قبر پرست ‘‘ کہلایا .
امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی ، ان شاءاللہ .