• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباد امثالکم سے کون مراد ہیں؟

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
تفسیر نسفی میں ہے
بَل لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْئاً} أي تبين لنا أنهم لم يكونوا شيئاً وما كنا نعبد بعبادتهم
تفسیر خازن میں ہے
لَمْ نَكُنْ نَدْعُوا مِنْ قَبْلُ شَيْئاً قيل إنهم أنكروا عبادتها،
تفسیر ابی سعود میں ہے
{بَل لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْئاً} أي بَلْ تبينَ لنَا أنَّا لم نكُنْ نعبدُ شيئاً بعبادتِهم
اب اتمام حجت کے لئے آپ کے گھر کا حوالہ
1۔تفسیر احسن البیان جو سعودی عرب سے مفت میں تقسیم کی جاتی ہے اس میں بھی ہی بات موجود ہے کہ مشرکین عبادت کا ہی انکار کر دیں گئے۔
اور اگر کوئی اور دانہ ہو تو اس کو بھی پیش کریں۔سب دانوں کو اللہ کے فضل سے صاف کر دیا جائے گا
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
دعا، پکار، یہ اللہ کی عبادت ہے اور عبادت میں کسی غیر کو شریک کرنا شرک اکبر ہے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (المؤمن: ٦٠)
تمہارا رب کہتا ہے ''مجھے پکارو میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
جن اللہ ہر ایک کی سنتا ہے تو حضرت عمر نے ابن عباس سے دعا کیوں کروائی ؟ کیا اللہ نے کسی اور کی سننی نہیں تھی؟اس بات کا تو جواب دیں۔اور ہمارے اشال کا اذالہ فرمائیں۔اور میں اس پر بحث نہیں کر رہا کہ مانگنا صرف اللہ سے چاہے میرا تو اپنا یہی عقیدہ ہے مگر جو غیر اللہ سے مانگے وہ مشرک نہیں اور اس کے شرک ہونے کی دلیل مانگ رہا ہوں جس کو آپ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جن اللہ ہر ایک کی سنتا ہے تو حضرت عمر نے ابن عباس سے دعا کیوں کروائی ؟ کیا اللہ نے کسی اور کی سننی نہیں تھی؟اس بات کا تو جواب دیں۔اور ہمارے اشال کا اذالہ فرمائیں۔اور میں اس پر بحث نہیں کر رہا کہ مانگنا صرف اللہ سے چاہے میرا تو اپنا یہی عقیدہ ہے مگر جو غیر اللہ سے مانگے وہ مشرک نہیں اور اس کے شرک ہونے کی دلیل مانگ رہا ہوں جس کو آپ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نیک اور صالح صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے کہا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک انسان سے جو زندہ ہو، اُس کا عقیدہ بھی ٹھیک ہو، تو اُس سے دعا کروائی جا سکتی ہے، اِس میں تو کوئی غیراللہ سے مانگنے کی دلیل نہیں ہے، جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد، یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کبھی اُن کو نہیں پکارا اور نہ ہی اُن کی قبروں پر مزار بنایا اور نہ ہی وہاں مانگنے کے لئے جاتے تھے، تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ صرف ایک اللہ سے مانگنے والے تھے، اور کیوں نہ ہوتے کہ اُن کو آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم ہی یہی دی تھی کہ ایک صحابی کو فرمایا جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ جب سوال کرنا ہو تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگنی ہو تو اللہ سے مانگ، تو صحابہ کے اندر یہ عقیدہ توحید پیوست تھا۔ لہذا آپ کو بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جیسا ایمان و عقیدہ اپنانا چاہئے تاکہ آپ ہدایت پا سکیں، لیکن آپ کا اپنا حال تو یہ ہے کہ ایک طرف آپ غیراللہ کو پکارنا غلط بھی سمجھتے ہیں اور پکارنے کے حق میں بات بھی کرتے ہیں اور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرتے، اور دلیل پیش کر بھی کیسے سکتے ہیں آپ کہ اس بات کی دین اسلام میں کوئی دلیل ہی نہیں کہ مشکل میں اور حاجت میں اللہ کے علاوہ بھی کسی کو پکارا جا سکتا ہو، پس اللہ تعالیٰ اکیلے معبود برحق کو پکارنے والے بن جائیے، یہ آپ کے لئے بہتر ہے، ورنہ جو غیراللہ کو مشکل میں حاجت میں مافوق الاسباب پکارنے کا عقیدہ رکھتے ہوئے مر گیا تو اُس کی سزا ہمیشہ کی جہنم ہے کیونکہ یہ شرک اکبر ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
گذشتہ بهی معاملہ یہیں پر رکا رها ۔
همارے علم میں کوئی واضح تو کیا مبهم دلیل بهی نهیں هے کہ هم شرک کو حرام قرار دیں وه بهی کهلے شرک کو ۔ عملی شرک کو ۔
جیسا کہ کها تها : یہ حد فاصل هے ۔ ایک جانب اسلام هے اور دوسری جانب جو بهی هو اسلام نهیں ۔ دلیل کوئی قبول کیونکر هو گی؟ اب کسی کے چاهنے سے شریعت اللہ بدلنے سے رهی اور اب کوئی نبی بهی نهیں آنا هے ۔ اصحاب نے مقدور بهر کوششیں کرلیں اب تو صرف اللہ کا معاملہ هے وہ جسے توفیق دے دے۔
آخری بات کے هم شرک کو شرک هی کهینگے کوئی مانے نہ مانے ۔ اور یہ آزادی انسان کو خود اللہ نے دی هے ۔ اسی لئے ٹهکانے بهی دو بنائے هیں ۔ ایک جنت اور دوسرا جهنم ۔ کسی پر کوئی جبر نهیں ۔ وہ جس راستے پر جانا چاهے ۔ کوئی سمندر سے گذر کر ساحل پر بهی ڈوب جاتا هے ۔ هدایت حاصل کرنے بعد گمراهی اختیار کرنا اور اس پر فخر کرنا وہ بهی علی الاعلان ۔ اللہ کا شکر بهی کرنا ۔ اگر یہ محض غصہ کی حالت والی اول فول هو تب تو چلو کوئی صورت نکال لی جائیگی یهاں تو قسمیں کهائی جا رهی هیں ۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قادری رانا صاحب ، بات لمبی ہوئی ، اور مسئلے کی مناسب وضاحت بھی ہو گئی ، لیکن آپ نے کچھ باتوں کو یہ کہہ کر ایک طرف کردیا کہ ان کا موضوع سے تعلق نہیں ، کچھ کے بارے میں کہا کہ ان پر فلاں جگہ بحث ہورہی ہے ، اور فلاں جگہ کر لیں ،لیکن آپ کا یہ نعرہ بدستور قائم رہا کہ کوئی آپ کو قیامت کی صبح تک دلیل نہیں دکھا سکتا ۔۔۔
خیر ہمارے نزدیک اس کا مناسب جوابی نعرہ یہ ہوسکتا کہے کہ آپ قیامت کی صبح تک درست بات کا اعتراف نہیں کریں گے ۔
آئیے آپ کی پہلی پوسٹ کا جائزہ لیے لیتے ہیں کہ اس میں آپ نے ایسا کیا پیش کردیا جس پر آپ اس قدر خوش ہورہے ہیں ۔
کچھ لوگ سورت اعراف کی آیت نمبر ١۹۴ کو دلیل بناتے ہیں کہ من دون اللہ سے فقط بت ہی نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ بھی تمہاری مثل بندے ہیں تو ثابت ہوا یہاں فقط بت نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں۔
یہ آپ نے اپنی زبانی فریق مخالف کا موقف نقل کیا ہے ، اور دلیل بھی ساتھ ہی موجود ہے ۔
اب دیکھ لیتے ہیں کہ آپ نے فریق مخالف کے آیت سے استدلال میں کیا خامی نکالی ہے ؟
اور اپنے حق میں کیا دلیل پیش کی ہے ؟
جوابا عرض ہے کہ یہاں عباد امثالکم سے بت ہی مراد ہیں
یعنی مستندا ہے میرا فرمایا ہوا ؟
اور رہ گئی بات ان کو عباد کہنے کی تو ان کو عباد مخلوق مملوک کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں
اس توجیہ سے یہ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے بت بھی مراد ہیں لیکن اس سے یہ کیسے نکلتا ہے کہ اس سے بتوں کے علاوہ مراد نہیں ؟
پھر اس سے اگلی آیت بھی اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ یہاں بت ہی مراد ہیں۔اللہ فرماتا ہے أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)اس آیت میں کہا گیا کہ کیا ان کے ہاتھ ہیں ؟ِ کیا ان کے پاوں ہیں یا ان کی آنکھیںِ ہیںِ؟یعنی ان سے ان اشیا کی نفی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح تم مخلوق ہو وہ بھی مخلوق ہیں مملوک ہیں بلکہ وہ تو تم سے بھی کم تر ہیں نہ ان کی آنکھیں ہیں نہ ہاتھ۔
گزارش ہے کہ اس آیت سے یہ کہیں ثابت نہیں ہورہا کہ یہاں مراد صرف بت ہیں . بلکہ آپ کا بیان کردہ فہم ہے ۔
اس کے مقابلے میں ہم کہیں گے کہ قرآن کی آیت سے یہ مراد ہوسکتی ہے کہ جن لوگوں کو تم غیر اللہ کے لیے پکارتے ہو ، ان کے اعضاء کیا ان کی ملکیت ہیں جو تم ان سے مدد طلب کرتے ہو ؟
دوسری بات : آپ نے کہا کہ دوسری آیت سے یہ ثابت ہورہا ہے ، گویا آپ عباد امثالکم والی آیت کے معنی کو دوسری آیت سے ملا کر سمجھ رہے ہیں ، تو بھائی دوسری آیات تو وہ بھی ہیں جو ارسلان بھائی نے پیش کی ہیں ، ان آیات سے عباد امثالکم والی آیت کا معنی و مفہوم کیوں نہیں سمجھا جاسکتا ؟
تفسیر خازن میں ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ يعني أن الأصنام التي يعبدها هؤلاء المشركون إنما هي مملوكة لله أمثالهم
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة.(تفسیر بیضاوی)
تفسر قرطبی میں ہے
(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ) حَاجَّهُمْ فِي عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ." تَدْعُونَ" تَعْبُدُونَ. وَقِيلَ: تَدْعُونَهَا آلِهَةً." مِنْ دُونِ اللَّهِ" أَيْ مِنْ غَيْرِ اللَّهِ. وَسُمِّيَتِ الْأَوْثَانُ عباد الأنها مَمْلُوكَةٌ لِلَّهِ مُسَخَّرَةٌ. الْحَسَنُ: الْمَعْنَى أَنَّ الْأَصْنَامَ مخلوقة أمثالكم.
تفسیر مدراک میں ہے
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
ان تمام تفسیری اقوال سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہاں بت بھی مراد ہیں ،لیکن یہ تو کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہاں بتوں کےعلاوہ کچھ او ر مراد نہیں .
یہ ہے آپ کے مکمل مراسلے کی حقیقت ، جس میں آپ بقول خود فریق مخالف کا استدلال پیش کرکے اس کا نہ تو توڑ پیش کرسکے ہیں ، اور نہ ہی اپنے حق میں یہ دلیل دے سکے ہیں کہ ’’ یہاں صرف بت ہی مراد ہیں ‘‘ .
لیکن اس کے باوجود اترا رہے ہیں کہ قیامت تک مخالفین سے یہ نہیں ہوسکتا اور وہ نہیں ہوسکتا .
تو بھائی میرے جو ہو چکا ہے پہلے اس کا تو معقول جواب دے دیں .
ایک اہم بات
اور پھر ان ساری باتوں سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو ایک اہم قید ’’ من دون اللہ ‘‘ یعنی ’’ اللہ کے سوا ‘‘ کی ہے ، آپ اس آیت سے اپنی من مانی مراد ’’ صرف بت ‘‘ ہی لے لیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ نیک اور صالحین لوگ ’’ من دون اللہ ‘‘ نہیں ہیں ؟ اگر کوئی آدمی ان کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتا ہے جو مشرکین بتوں کے بارے میں رکھتے تھے تو کیا اس کو ’’ من دو ن اللہ ‘‘ کو پکارنے والا نہیں کہا جائے گا ؟
حقیقت یہ ہے کہ ’’ دون اللہ ‘‘ کی قید لگا کر تو حید و شرک کے درمیان حد فاصل قائم کردی گئی ہے ۔
جو اللہ کو پکارے گا ، وہ موحد ہے ، اور جو اللہ کے ماسوا کو پکارے گا ، وہ مشرک ہے ، کیا نیک و صالح لوگ اللہ تعالی ہیں ؟ کیا انبیاء اللہ تعالی ہیں ؟ کیا اولیاء اللہ تعالی ہیں ؟ کیا قبریں ، قبے ، دربار مزار اللہ تعالی ہیں ؟
لفظ ’’ مشرک ‘‘ پر غور کریں ، اس کا معنی کیا ہے ؟ بتوں کا پجاری ؟
نہیں ، بلکہ اس کے معنی ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا ، گویا جو بھی غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک بنائے گا ، وہ مشرک کہلائے گا ، جنہوں نے بتوں کو بنایا ، وہ ساتھ بتوں کے پجاری کہلائے ، جنہوں نے قبروں اور مزاروں والوں کو بنایا ، وہ درباری کہلائے ، گویا شرک دونوں نے ہی کیا ، لیکن ایک نے بت کو شریک کیا تو ’ بت پرست ‘ کہلایا دوسرے نے قبر والے کو کیا تو ’’ قبر پرست ‘‘ کہلایا .
امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی ، ان شاءاللہ .
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت اگر آپ جرجیس صاحب کی ویڈیو دیکھیں تو ان کا استدلال تھا (اسی پس منظر میں نے جواب دیا ہے) کہ مکے کے مشرک بتوں کو نہیں پکارا کرتے تھے بلکہ وہ جنکو پکارا کرتے تھے وہ بھی تمہاری طرح بندے۔اگلی بات میں نے پہلے بھی کہا کہ عبادت کے لحاط سے ہر چیز اللہ کے سوا شامل ہیں مگر مطلقا انبیا کو من دون اللہ میں شامل کرکے کہ کبھی یہ کہنا کہ وہ کھجور کے چھلکے کے بھی مالک نہیں یا مکھی بھی پیدا نہیں کت سکتے یہ غلط ہے۔رہ گیا کسی کو قبر پرست کہنا تو اگر وہ قبر کو پوجتا ہے تو وہ بے شک قبر پرست ہے مگر مدد کے لئے پکارانا کبھی بھی عبادت نہیں۔شاہ عبد العزیز صاحب فتاوی عزیزی میں فرماتے ہیں مدد چاہنا اور چیز ہے اور عبادت اور چیز ہے۔اور اگر مدد مانگنا عبادت ہوتی تو وہ کسی بھی حالت میں غیر اللہ کے لئے جائز نہ ہوتی۔مدد کے لئے پکارنا کبھی بھی عبادت نہیں۔ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین۔
رہ گئی یہ بات کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے تو جو مطلب ہمنے بیان کیا وہ مفسرین کے حوالے سے ہے آپ کے موقف کو کس مفسر نے بیان کیا ہے۔؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حضرت اگر آپ جرجیس صاحب کی ویڈیو دیکھیں تو ان کا استدلال تھا (اسی پس منظر میں نے جواب دیا ہے) کہ مکے کے مشرک بتوں کو نہیں پکارا کرتے تھے بلکہ وہ جنکو پکارا کرتے تھے وہ بھی تمہاری طرح بندے۔اگلی بات میں نے پہلے بھی کہا کہ عبادت کے لحاط سے ہر چیز اللہ کے سوا شامل ہیں مگر مطلقا انبیا کو من دون اللہ میں شامل کرکے کہ کبھی یہ کہنا کہ وہ کھجور کے چھلکے کے بھی مالک نہیں یا مکھی بھی پیدا نہیں کت سکتے یہ غلط ہے۔رہ گیا کسی کو قبر پرست کہنا تو اگر وہ قبر کو پوجتا ہے تو وہ بے شک قبر پرست ہے مگر مدد کے لئے پکارانا کبھی بھی عبادت نہیں۔شاہ عبد العزیز صاحب فتاوی عزیزی میں فرماتے ہیں مدد چاہنا اور چیز ہے اور عبادت اور چیز ہے۔اور اگر مدد مانگنا عبادت ہوتی تو وہ کسی بھی حالت میں غیر اللہ کے لئے جائز نہ ہوتی۔مدد کے لئے پکارنا کبھی بھی عبادت نہیں۔ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین۔
رہ گئی یہ بات کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے تو جو مطلب ہمنے بیان کیا وہ مفسرین کے حوالے سے ہے آپ کے موقف کو کس مفسر نے بیان کیا ہے۔؟
آپ سے ایک چھوٹا سا سوال ہے، اگر کوئی مسلمان کسی مشکل میں پھنس جائے، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جائے یا اُس کو کوئی اور پریشانی لاحق ہو، ظاہری اسباب کے علاوہ وہ اگر کسی کو اس مشکل کے حل کے لئے پکارنا چاہے تو کس کو پکارے؟ اپنے تخلیق کرنے والے پروردگار اللہ تعالیٰ کو یا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کسی انسان کو؟ آپ کا کیا جواب ہے؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
آپ سے ایک چھوٹا سا سوال ہے، اگر کوئی مسلمان کسی مشکل میں پھنس جائے، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جائے یا اُس کو کوئی اور پریشانی لاحق ہو، ظاہری اسباب کے علاوہ وہ اگر کسی کو اس مشکل کے حل کے لئے پکارنا چاہے تو کس کو پکارے؟ اپنے تخلیق کرنے والے پروردگار اللہ تعالیٰ کو یا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کسی انسان کو؟ آپ کا کیا جواب ہے؟
یہاں مسلک سے ہٹ کر مجھے کسی کا نہیں پتہ مگر میں تو صرف اپنے رب کو پکاروں گا اور اس پر تو بحث ہی نہیں ہے اور نہ میں کر رہا ہوں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نیک اور صالح صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے کہا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک انسان سے جو زندہ ہو، اُس کا عقیدہ بھی ٹھیک ہو، تو اُس سے دعا کروائی جا سکتی ہے، اِس میں تو کوئی غیراللہ سے مانگنے کی دلیل نہیں ہے، جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد، یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کبھی اُن کو مافوق الاسباب نہیں پکارا اور نہ ہی اُن کی قبروں پر مزار بنایا اور نہ ہی وہاں مانگنے کے لئے جاتے تھے، تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ صرف ایک اللہ سے مانگنے والے تھے، اور کیوں نہ ہوتے کہ اُن کو آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم ہی یہی دی تھی کہ ایک صحابی کو فرمایا جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ جب سوال کرنا ہو تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگنی ہو تو اللہ سے مانگ، تو صحابہ کے اندر یہ عقیدہ توحید پیوست تھا۔ لہذا آپ کو بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جیسا ایمان و عقیدہ اپنانا چاہئے تاکہ آپ ہدایت پا سکیں، لیکن آپ کا اپنا حال تو یہ ہے کہ ایک طرف آپ غیراللہ کو پکارنا غلط بھی سمجھتے ہیں اور پکارنے کے حق میں بات بھی کرتے ہیں اور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرتے، اور دلیل پیش کر بھی کیسے سکتے ہیں آپ کہ اس بات کی دین اسلام میں کوئی دلیل ہی نہیں کہ مشکل میں اور حاجت میں اللہ کے علاوہ بھی کسی کو پکارا جا سکتا ہو، پس اللہ تعالیٰ اکیلے معبود برحق کو پکارنے والے بن جائیے، یہ آپ کے لئے بہتر ہے، ورنہ جو غیراللہ کو مشکل میں حاجت میں مافوق الاسباب پکارنے کا عقیدہ رکھتے ہوئے مر گیا تو اُس کی سزا ہمیشہ کی جہنم ہے کیونکہ یہ شرک اکبر ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
نیک انسان سے دعا کروانے کی کیا ضرورت ہے کیا اللہ بدکار کی پکار کو سنتا نہیں؟؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہاں مسلک سے ہٹ کر مجھے کسی کا نہیں پتہ مگر میں تو صرف اپنے رب کو پکاروں گا اور اس پر تو بحث ہی نہیں ہے اور نہ میں کر رہا ہوں۔
ماشاءاللہ، یعنی آپ نے جو یہ کہا "میں تو صرف اپنے رب کو پکاروں گا" تو اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ بھی اللہ کے سوا کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا نہیں سمجھتے، میں ٹھیک سمجھا؟
 
Top