• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الستار ایدھی ۔ ایک متنازعہ شخصیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور یہ تحریر تو خود پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مجھے لکھنے والا کون ہے
عبد الستار ایدھی ....کو معاف کر دیجئے..
..
ایدھی دنیا سے چلے گئے....قوم غم میں ڈوب گئی....لیکن فیس بک پر ایک بحث چل نکلی .ان کے عقائد پر ..ان کی خدمات کے حوالے سے ..اعتدال بہت کم نظر آ رہا تھا...
ایدھی نے خدمت انسانیت کی جو مثال پیش کی شائد ہی کوئی کر سکے.. اپنی مفلوج والدہ کی خدمت سے انسانیت کی خدمت کا سفر انہوں نے بہت جلد طے کر لیا...اور پھر اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا..دوسری جماعت سے سکول چھوڑ گیے لامحالہ تعلیم کی کمی کے اثرات تھے..
ان کا میدان خدمت خلق تھا ، انسان سے ہمدردی تھا، لاوارثوں کو پناہ دینا تھا..لاشوں کو کفن پہنانا تھا...اور رات کے اندھیروں میں کیے گیے گناہوں کے نتائج کو سینے سے لگانے کا تھا
انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کی بنیاد ڈالی...اور اس میں وہ مقام بھی آیا کہ ٹرین حادثے میں لاشوں اور زخمیوں کے انبار لگے ہوۓ تھے ایدھی کے رضاکار پہنچ چکے تھے ایدھی بھی ہیلی کاپٹر پر نکلے ...منزل تک پہنچنے کو تھے کہ جان سے عزیز نواسے کی موت کی خبر آ گئی کہ جس کو نازک حالت میں ہسپتال چھوڑ کر آئے تھے...پائلٹ نے پوچھا "واپس چلیں؟.."..ایدھی نے نمناک آنکھوں کو چھپاتے ہوۓ کہا کہ " نہیں آگے چلو"
انکی موت پر ان کے عقائد پر بحث لایعنی ہے..وہ اگر قوم کے نظریاتی قائد بننے کی کوشش کرتے تو یہ بحث بنتی تھی ...ان کے عقائد سے مجھے بھی اختلاف ہے ..جب جنگ میں ان کا انٹرویو چھپا تو میرے لیے بھی دکھ کا سبب بنا...نماز اور حج کے بارے میں ان کے خیالات بلاشبہ قابل گرفت تھے ..لیکن اس انٹرویو کو مدت گذر گئی....تب اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا...تب اس پر پوسٹ کی جاتیں...کچھ لوگ ان کو جا کر ملتے .ان کو سمجھاتے ...ممکن ہے وہ سمجھ جاتے...یاد رکھئے جو کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں وہ آسان لوگ بھی ہوتے ہیں..اب جب ہم نے ان کی زندگی میں یہ کام نہیں کیے تو ان کی موت پر بھی رہنے ہی دیجئے....اور ویسے بھی اب یہ آپ کی جگ ہنسائی کا ہی موجب بنے گا..اور مذھبی طبقے سے لوگوں کی مزید دوری کا بھی..... اور وہ دو برس بستر پر رہے کون جانتا ہے کہ انہوں نے ان عقائد سے کتنی توبہ کی ہو؟...اور یہ بات تو طے ہے کہ وہ ان عقائد کے مبلغ نہ تھے کہ ان کا احتساب پس مرگ بھی ضروری ہو
کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ان کو الله کا ولی . پکا جنتی ، اور محسن انسانیت کہہ رہے ہیں....دیکھئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت سے انسانوں کے محسن تھے لیکن ترکیب "محسن انسانیت" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے...اسے عام نہ کیجئے
..جب محسن انسانیت کا لفظ بولا جاتا ہے بے اختیار نبی کریم ہی ذہن میں آتے ہیں...کیا آپ ہر کسی کو"قائد اعظم" کہتے ہیں
رہا جنتی ہونے کا سرٹیفکیٹ.... بلا شبہ ان کی خدمات ایسی تھیں کہ جنت ملے..لیکن جنت جہنم کے فیصلے کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟...ان کی دنیاوی خدمات ، سماجی خدمات پر الله نے ان کو دنیا کے بے تحاشا انعامات سے نوازا..کیا ان سی عزت کسی کی ہے ؟ کیا پاکستان میں کسی اور کو بلا لحاظ عقیدہ ، مذہب ، مسلک اتنی عزت ملی ؟..اتنی محبت ملی ؟... اتنا احترام ملا؟....لوگوں نے اربوں روپے ان پر نچھاور کیے.... یہی اللہ کی طرف سے ان پر انعام تھا ..ان کا دنیا میں بدلہ تھا...
جنت دو چیزوں کے بدلے ملتی ہے ایک نیک اعمال اور دوسرا عقیدہ....اور ان دونوں کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے...کہ عقیدہ درست تھا یا نہیں ؟.. اعمال خالص تھے یا ریا کاری اور شہرت طلبی کے لیے...تو دوستو! یہ دونوں معاملات بندے کے دل کے اندر ہوتے ہیں ...اور آپ میں سے دل چیر کے کس نے دیکھا ہے ؟؟؟
دل ، دریا سمندروں ڈھونگے
کون دلاں دیاں جانے ..ھو
...........................ابوبکرقدوسی​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
صحیح بخاری، کتاب الشھادات باب تَعْدِيلِ كَمْ يَجُوزُ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِجَنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ ‏"‏ وَجَبَتْ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا ـ أَوْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ ـ فَقَالَ ‏"‏ وَجَبَتْ ‏"‏‏.‏ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لِهَذَا وَجَبَتْ، وَلِهَذَا وَجَبَتْ، قَالَ ‏"‏ شَهَادَةُ الْقَوْمِ، الْمُؤْمِنُونَ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الأَرْضِ ‏"‏‏.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺکے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی، آپﷺنے فرمایا: واجب ہوگئی ۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی ، یا اس کے سوا اور الفاظ کہے ۔ آپﷺنے اس پر بھی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہوگئی اور پہلے جنازے پر بھی یہی فرمایا: آپﷺنے فرمایا: ایمان والی قوم کی گواہی (بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ھوئے مفتی منیب الرحمن صاحب نے کہا کہ مجھ سے ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے رابطہ کیا تھا جنازہ کیلیئے مگر میں نے انکار کر دیا ۔ وجہ یہ تھی کہ ایدھی ایک ملحد اور منکرحدیث پرویزی فرقہ سے منسلک تھے ۔ اور ایدھی نے بارھا اسلامی شعائر حج ؛ روزہ اور قربانی کے بارے توھین آمیز جملے بولے ۔ قادیانیوں سے ایوارڈ لینا اور انکے بارے نرم اور رحمدل جذبات رکھنا ایدھی صب کو تمام امت مسلمہ کی نظروں سے گرا چکا ھے ۔ باقی یہ کہ ننگوں کو کپڑے پھنانا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اور دیگر تمام خدمت خلق کے اعمال اچھے ضرور ھیں مگر ملحد کو آخرت میں اس سے کچھ نہیں ملے گا ۔ بہرحال میں جنازہ نہیں پڑھا سکتا میرے نبی کی محبت مجھے روکتی ھے ۔
نامہ نگار شکیل رضوی ایکسپریس
محمود نواز میمن ڈیلی قدرت
اشرف چانڈیو بی بی سی اردو
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اگر اس فورم کے کسی رکن کو ایدھی کے عقائد و اعمال پر گفتگو اور مکالمہ ناگوار محسوس ہورہا ہو تو اُسے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اُس کے یہاں ہونے کا کیا جواز ہے؟

یہ فورم تو غالباً (تصحیح کیجئے، اگر میں غلط ہوں تو) بنا ہی اس لئے ہے کہ اس کے ذریعہ دو بنیادی کام کئے جائیں (1) عوام الناس کو دین اسلام کی صحیح تصویر دکھلائی جائے (2) دین اسلام کے نام سے معاشرے میں جو غلط عقائد، اعمال پیش کئے جارہے ہیں (خواہ ایسا کوئی ادارہ کرے، فرقہ کرے، تنظیم کرے یا نمایاں اور ممتاز شخصیات کریں)، ان کی بروقت گرفت کی جائے اور لوگوں کو بتلایا جائے کہ یہ دین اسلام نہیں ہے۔

عبدالستار ایدھی کوئی ”عام آدمی“ نہیں تھے۔ یہ بڑے بڑے لیڈروں سے بھی بڑے ”لیڈر“ تھے۔ اس لئے کہ اس کے ”چاہنے والے“، اسے اربوں روپے کا چندہ دینے والے، اسے ”ایک بہترین انسان اور مسلمان“ سمجھنے والے نہ صرف یہ کہ پاکستان بھر میں موجود ہیں بلکہ دنیا بھر میں اس کے ”سپورٹرز“ موجود ہیں۔ یہ پاکستان کے تیسرے فرد ہیں (قائد اعظم اور شہید ضیاء الحق کے بعد) جنہیں پاک آرمی نے تمام تر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ اور اب ان کا شمار پاکستان کے ”زندہ جاوید“ لوگوں میں ہوگا۔ ان کے نام پر سڑکوں کے نام رکھ دئے گئے ہیں۔ جلد ہی نصابی کتب میں ان کے اسباق بھی شامل ہو جائیں گے۔ پورا سیکولر میڈیا ”ایدھی کی تعلیمات“ کو نمایان کر رہا ہے جس میں ”انسانیت، تمام مذاہب سے بالا تر ہے“ سر فہرست ہے۔ ایسے مین اگر کچھ لوگ سوشیل میڈیا پر ایدھی کی پُر سحر شخصیت سے پردہ اٹھا رہے ہیں، ان کے عقائد و اعمال سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ بتلا رہے رہے ہیں کہ ایدھی صرف اور صرف ایک بہت بڑا سماجی کارکن تھا۔ نہ وہ بہت اچھا انسان تھا اور نہ ہی اسلامی تعلیمات پر پورا اترنے والا ایک عام مسلمان۔ بلکہ اس کے عقائد اور اعمال اسلام سے متصادم ہی تھے

اگر کسی کو ایدھی سے بہت زیادہ ”عقیدت“ ہے تو اُسے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ وہ کس ”صف“ میں کھڑا یا کھڑی ہے۔
اُسے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اُس کے اس فورم میں ہونے کا کیا ”جواز“ ہے؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49

ایدھی صاحب مرحوم کے بارے میں ایک بات کو ہر جگہہ مد نظر رکھیئے گا۔
ایدھی مرحوم عالم تو دور کی بات ہے بلکہ وہ تو ’’چِٹے ان پڑھ ‘‘ تھے ۔ اور ان کی گفتگو سننے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربی اصطلاح میں ’’اعرابی‘‘ یا ’’بدو‘‘ جیسے تھے ۔ حتی کہ لہجے تک میں ظلم کو جلم اور فلاحی کو پھلائی ، خوشی کو کھسی ۔۔۔بولنے والے تھے ۔
ایسے شخص کی کسی بات کو مذہبی حوالے سے یوں پرکھنا کہ جیسے انہوں نے فتوی دیا ہے یا انکی مذہبی رائے یہ تھی ۔کتنی عجیب بات ہے ۔ ہمارے دیار میں تو لمبی داڑھی والے سارے ہی ’’مولانا‘‘ سمجھے جاتے ہیں ۔
تو عوام اور ناواقف ہی سمجھتے ہیں ۔
اسی لئے کئی جگہہ ان کاذکر بھی مولانا عبد الستار کے طور پر کیا جاتا ہے ۔ اب اس میں سمجھدارآدمی بھی فرق نہ رکھے تو کون رکھے ۔

وہ اعرابی تھے ۔وہ ان پڑھ تھے ۔ وہ اعرابی تھے ۔اعرابی تھے۔۔۔اسی کو وہ سادگی سمجھتے تھے ۔۔دو معمولی کپڑے۔ہمیشہ زیب تن۔
اوپر ایک تحریر نے ان کو کوئی مذہبی رائے رکھنے والی شخصیت سمجھ کر تبصرہ کیا ہے ۔۔۔

اپنے اردو سے بھی ان پڑھ ہونے کا اقرار انہوں نے اس ضمن میں کیا کہ وہ ہر روز صبح قرآن پاک کا ترجمہ ٹی وی پر سنتے تھے ۔اور پڑھ نہیں سکتے تھے۔
یہ بات عامر لیاقت سے انٹرویو میں ہے ۔جو نیٹ پر موجود ہے ۔
ان کی ہر بات کو ایک اعرابی ٹائپ کے طور پر ہی دیکھیں ۔چہ جائیکہ کفریات تک بات لے جائی جائے۔
اور بات میں شدت پیدا نہیں کریں ۔ ان کی مذہبی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی ۔
مثال کے طور پر پہلی تحریر میں بعض باتوں میں کچھ شدت ہے ۔۔۔۔
ایدھی صاحب کے لئے ابن جدعان کی مثال دی گئی ہے ۔
ابن جدعان کی مثال دینے کی کیا ضرورت ہے ۔کیا ایدھی صاحب کا کفر پہلے فرض کر لیا گیا ہے ۔
اسلام کے ۶ ارکان۔
اس بات میں خود موجود ہے کہ وہ پہلے ۵ بھی مانتے ہیں تو پھر اگلی بات شدت کے علاوہ کچھ نہیں۔
اور صاحب تحریر کے اپنے الفاظ ’’عجلت پسند عوام کافر سے کم پر راضی‘‘ سے وہ خود ہی متاثر لگتے ہیں۔
ارکان اسلام میں اضافہ بھی کوئی غیر اسلام چیز سے نہیں ہے ۔۔ اس میں بھی ان کی عامیت موجود ہے کہ انہیں عبادات ، معاملات کا الگ سے نہیں پتا ۔ ارکان میں فرق مراتب ۔۔۔
ایک اعرابی ٹائپ سے کیا آپ توقع ہے کہ وہ تفسیر و حدیث سے ارکان اسلام واضح کرے ۔
اتنا بہت ہے وہ منکر نہیں ۔۔۔

نماز کا وقت ہوا تو میں نے کہا ایدھی صاحب نماز پڑھ لیتے ہیں۔ کہنے لگے: "آپ کا دل رکھنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہوں لیکن میں اسے کوئی چیز نہیں سمجھتا"۔
معلوم نہیں کیا سیاق ہے کیا سباق ہے ۔ ایدھی صاحب کے حلیہ اور طور اطوار میں مذہبی چیزیوں کا رنگ نمایاں تھا (اگرچہ اعرابیت کے ساتھ )
لمبی داڑھی ، ٹوپی ، ان کی بیگم بوڑھی ہونے کے باوجود ہر وقت سر کو ڈھانکنا۔۔۔۔۔اور کبھی فلم نہیں دیکھی۔۔۔وغیرہ
اور گفتگو میں ہر وقت اللہ نے یہ کیا ، اللہ کی مہربانی، اللہ کا شکر ،
ہر روز صبح ٹی وی پر قرآن اور ترجمہ سننا۔۔وغیرہ
ان باتوں پرعمل پر ان كو كيا چیز مجبور کرتی تھی۔؟
پھر عامر لیاقت سے انٹرویو میں انہوں نے کئی بار کہا۔۔۔
پاکستان میں اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔
پھر اوپر گزرا جملہ کہ اسلام کے ۶ رکن یعنی اس میں نماز کے وہ ہرگز منکر نہیں۔
تیسری ایک تصویر ہے جو ایک بھائی نے شیئر کی ہے جس میں وہ اپنے گھر والوں یا ایدھی کی بچیاں جن کو وہ بیٹیاں کہتے تھے کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔
اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ وہ دوسروں کو بھی نماز پڑھواتے تھے۔
اب اس میں ایک نیا مسئلہ تو پیدا ہوسکتا ہے کہ انہیں یوں خواتین کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔لیکن اس کے لئے پھر وہی جملہ وہ اعرابی اور چٹے ان پڑھ مسائل سے ناواقف تھے ۔ جو ان کو مولانا سمجھتا ہے ۔ وہ ناواقف ہے ۔
اس میں کوئی اعتراض کرنے والا یوں ثابت کرے کا وہ اس رکن کے منکر تھے تو وہ پھر ثبوت پیش کرے ۔
اسلام کے ایک اتنے بڑے رکن کا منکر تو بڑی بات ہے اس کے لئے پکا ثبوت چاہیے ۔
خضر بھائی نے مزید اختصار بلکہ بالمعنی کر دیا۔اور جملہ مزید خوفناک ہو گیا۔

اور اللہ کے دین کی رو سے نماز کا انکار ، ارکان اسلام میں اضافے کا تقاضا یا جہنم کی خواہش کرنا ، ایسے آدمی کا مسلمان رہنا بھی محل نظر ہے .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک جملہ اور پہلی تحریر سے۔۔۔

ایدھی صاحب کو حج کا خیال بھی آیا تھا۔ رمی جمرات کے وقت کہنے لگے: "(یہ عبث کام ہے نعوذ باللہ) پاکستان میں کم شیطان ہیں وہاں جاکر انہیں کنکریاں مار لوں گا.
آدمی کا مزاج اور سمجھ ہے وہ شخصیت کے حساب سے جملے کو کس طرح دیکھتا ہے ۔ اس کلپ کو ملاحظہ کر لیجئے
کیا وہ سنجیدہ انداز میں بات چیت ہو رہی ہے ۔ وہاں میزبان اور ایدھی اور ان کی بیوی سب ہنستے ہوئے اس کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ سنجیدہ جملہ ہی نہیں ۔ ہے بھی اعرابی کے منہ سے ۔ اس کی کیا اہمیت۔
لیکن اگر کوئی سنجیدہ لینے پر مصر ہے تو پھر بات یہ ہے کہ جس طرح ہزاروں حاجی حج کے مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔
یہ بھی ان میں سے سمجھ لیں ۔
’’یہ عبث کام ہے‘‘ کا کلپ میں کوئی ذکر نہیں۔
اپنے حج کے بارے میں اسی انٹرویو میں دو اور باتیں یہ کہیں۔
’’بس اللہ کو کامیاب کرنا تھا۔اللہ کی ایک پھَرَض(فرض) تھی وہ ادا کرانی تھی۔ انہوں نے کردیا۔۔۔۔
سوال ۔ جب روضہ رسول کو پہلی بار دیکھا تو کیا محسوس ہوا۔
ج۔ مجھے رونا آگیا۔توبہ کرنے لگا۔ بس اللہ قبول کرے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے بارے میں ایدھی کی رائے
جہاد کے بارے میں رائے
قادیانیوں کے بارے میں رائے
اور بہت سی مذہبی رائے۔
ایک اعرابی ، بالکل ان پڑھ آدمی کی رائے کی کسے ضرورت ہے ۔کیا اہمیت ہے ۔ ۔
کس کو چٹے ان پڑھ کی مذہبی رائے چاہیے۔
اور ایسا آدمی ایسے معاملات کس پائے کی رائے کی توقع ہے ۔ کیا عالمانہ رائےدے گیا ۔؟ نہیں۔۔
اور کوئی ہے بھی نہیں یہاں پر ان کی رائے کو دلیل بنانے والا
اوپر کی باتوں اور خاص اس بات کے بعد ایک حدیث میں نقل کرتا ہوں ۔۔ذرا اس کو دیکھیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ ( مسجد میں) تشریف فرما تھے کہ ایک بدو مسجد میں آیا۔ اس نے کہا: اے اللہ! مجھے اور محمد(ﷺ) کو بخش دے اور ہمارے ساتھ کسی اور کی بخشش نہ کرنا۔
رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا:
’’تو نے ایک وسیع چیز( رحمت الٰہی ) کو محدود کر دیا۔‘‘
پھر وہ (اعرابی) واپس پلٹا۔ ابھی مسجد ہی کے ایک حصے میں تھا کہ (کھڑا ہو کر) پاؤں ایک دوسرے سے دور کر کے پیشاب کرنے لگا۔ اسی اعرابی صحابی( رضی اللہ عنہ) نے دین کی سمجھ آجانے کے بعد ( اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں! آپ اٹھ کر میرے پاس آئے، مجھے نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، بس یہ فرمایا:’’ یہ مسجد ایسی جگہ ہے کہ اس میں پیشاب نہیں کیا جاتا، یہ تو اللہ کے ذکر اور نماز کے لئے تعمیر کی گئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے پانی کا ڈول طلب فرمایا جو پیشاب پر بہا دیا گیا۔
(سنن ابن ماجہ۔۱۔۳۳۲۔صحیح)

ایدھی صاحب کو بھی اگر مذہبی سمجھنا ہے تو اعرابی کی طرح معاملہ کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی ایدھی سنٹر اور معاملہ ہے ۔ اس پہ ضرور توجہ دیں ۔۔۔۔اور اس میں جو خامیاں ہیں وہ ضرور سامنے لائیں۔۔۔۔۔
میرا نہیں خیال پورے ملک میں پھیلا ہوا یہ سسٹم ایدھی صاحب چلاتے تھے ۔ بلکہ یہ عام عملہ ہے ۔
اور اس کے خلا ف کوئی بات ہے تو دلائل سے پیش کرنی چاہیے ۔ تاکہ لوگ ان سے تعاون نہ کریں۔
ورنہ ایدھی صاحب کی شخصیت کو عوام میں نیک نامی حاصل ہے ۔ اس لئے ان کی شخصیت کے خلاف باتیں کر کے شاید فائدہ حاصل نہ ہوسکے ۔ بلکہ مال یا چندا ان کو دینے والوں کو گائیڈ کریں کے وہ تحقیق کرے کے اس کا مال کہاں استعمال ہوتا ہے ۔
اس طرح کی نچلے درجےزبان ۔۔۔زانیوں کی سہولت ، بھاگی لڑکیاں ، حرامی بچے ۔۔۔سے مسئلہ نہیں حل ہو سکتا۔
ناجائز بچے ، ۔۔۔۔لاوارث کہنا چاہیے ۔ وہ اگر ہیں تو پھینکنے والوں کا قصور ہے ۔
البتہ وہاں سے لوگ سینکڑوں بچے گود بھی لیتے ہیں ۔۔۔ہاں بقول ایدھی لوگ اپنی فطرت کے مطابق بچے لیتے رہے۔
کئی سالوں میں لڑکے تو گود لینے کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔اور لڑکیاں گود لیں صرف ۲۰۰۔شاید اسی لئے وہاں بچیاں زیادہ ہیں۔
جو اس پر معترض ہے اور اس کے پاس ٹھوس اطلاع بھی ان کے خلاف ہے تو وہ ثبوت سے پیش کرے ۔
اور ایسے حالات کے لئے صحیح ادارے کی طرف راہنمائی بھی کریں ۔
بھاگی لڑکیاں ۔۔۔تو میرا خیال ہے ۔۔۔بھاگ ہی جاتی ہیں جن کے ساتھ بھاگنا ہو۔۔۔بہرحال اگر ساری لاوارث بچیاں ۔۔بھاگی ہیں ۔اور اس بارے میں کوئی ٹھوس اطلاع ہے ۔۔۔تو ثبوت کے ساتھ آگاہ کریں ۔ ظن و تخمین سے نہیں۔ بس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس میں جتنا جرم ہے وہی بتائیں ۔اور دلیل سے حکمت سے بتائیں ۔
البتہ ان پر چونکہ اعتراضات کافی ہیں ۔اس لئے ان کے ساتھ تعاون کرنے والا خود ہی تحقیق کا ذمہ دار ہے۔ یہ کوئی مذہبی ادارہ نہیں ہے ۔
بعد میں یوسف بھائی کی ایک اور تحریر آگئی ۔۔ان کی نیت بالکل صحیح ہے اسلامی معاملات میں گرفت بالکل ڈھیلی نہیں ہونی چاہیے۔

پورا سیکولر میڈیا ”ایدھی کی تعلیمات“ کو نمایان کر رہا ہے جس میں ”انسانیت، تمام مذاہب سے بالا تر ہے“ سر فہرست ہے
یہ میڈیا تو حضرت محمدﷺ کو بھی انسانیت کی تعلیمات والے ظاہر کرتا ہے ۔
اور ان کے پاس ان کی تعریف کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ایک انگریز مائیکل ہارٹ نے ۱۰۰ ٹاپ کے انسانوں میں پہلے پر ان کو رکھا۔
مفتی منیب نے کہا۔۔۔ ایدھی نے بارھا اسلامی شعائر حج ؛ روزہ اور قربانی کے بارے توھین آمیز جملے بولے
ایدھی ایک ملحد اور منکرحدیث پرویزی فرقہ سے منسلک تھے ۔
اس مزاج پہ اوپر گفتگو ہوچکی ہے ۔ مفتی منیب قابل احترام شخصیت ہیں۔لیکن وہ دور حاضر کے میڈیا سے ناواقف ہیں ۔وہ ان جملوں پر رائے ظنی کرتے ہیں جو انہیں بطور سوال پیش کئے جائیں۔
ایسے معاملات میں ان کی رائے کی اتنی اہمیت نہیں۔وہ بھی ایدھی کو ایک مولانا مذہبی رائے والا سمجھ کر اس پر حکم لگا رہے ہیں ۔۔بلکہ انہوں نے تو ایک فرقہ میں بھی اس اعرابی کو اڈجسٹ کر دیا۔۔۔۔۔
ایک مثال دیتا ہوں ۔
انڈیا کی ایک مشہور مسلمان ٹینس سٹار کے بارے میں اسی طرح بعض لوگوں نے صرف یہ جملہ دارالافتاوں میں پیش کیا کہ ان کا لباس ایسا ہے اس پر کیا فتوی ہے ۔اس پر پھر سخت فتوے سامنے آئے ۔ لیکن دور حاضر کے میڈیا سے واقف ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس پر کیا ہی خوب تبصرہ کیا ہے وہ نیٹ پر ملاحظہ کیا جائے۔

اگر کسی کو ایدھی سے بہت زیادہ ”عقیدت“ ہے تو اُسے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ وہ کس ”صف“ میں کھڑا یا کھڑی ہے۔
مجھے نہ عقیدت ہے اور نہ نفرت۔۔
اور بے فکر رہیےہمارے لوگوں میں نہ قائد اعظم کی کوئی اہمیت ہے نہ ضیا الحق کی۔تو پھر ایدھی صاحب کی کیا حیثیت ہے ۔
کچھ پیسا ضرور اکٹھا ہو جائے گا۔جیسے ایک میسج چل پڑا ہے کہ ایدھی کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے فلاں جگہہ ایس ایم ایس بیجھ کر ڈونیٹ کریں ۔۔ایسی چیزوں سے لوگوں کو روکیں ۔جس کو وہاں دینا ہے وہ تحقیق کا ذمہ دار ہے ۔بلکہ چونکہ وہ مذہبی ادارہ نہیں اس لئے نہ ہی دے ۔
 
Last edited:

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
ابن عثمان صاحب اپنے بہترین رد کیا ہے میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ آپکی یہ تحریر فیس بک پر لگاؤں اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔۔۔۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اگر اس فورم کے کسی رکن کو ایدھی کے عقائد و اعمال پر گفتگو اور مکالمہ ناگوار محسوس ہورہا ہو تو اُسے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اُس کے یہاں ہونے کا کیا جواز ہے؟

یہ فورم تو غالباً (تصحیح کیجئے، اگر میں غلط ہوں تو) بنا ہی اس لئے ہے کہ اس کے ذریعہ دو بنیادی کام کئے جائیں (1) عوام الناس کو دین اسلام کی صحیح تصویر دکھلائی جائے (2) دین اسلام کے نام سے معاشرے میں جو غلط عقائد، اعمال پیش کئے جارہے ہیں (خواہ ایسا کوئی ادارہ کرے، فرقہ کرے، تنظیم کرے یا نمایاں اور ممتاز شخصیات کریں)، ان کی بروقت گرفت کی جائے اور لوگوں کو بتلایا جائے کہ یہ دین اسلام نہیں ہے۔

عبدالستار ایدھی کوئی ”عام آدمی“ نہیں تھے۔ یہ بڑے بڑے لیڈروں سے بھی بڑے ”لیڈر“ تھے۔ اس لئے کہ اس کے ”چاہنے والے“، اسے اربوں روپے کا چندہ دینے والے، اسے ”ایک بہترین انسان اور مسلمان“ سمجھنے والے نہ صرف یہ کہ پاکستان بھر میں موجود ہیں بلکہ دنیا بھر میں اس کے ”سپورٹرز“ موجود ہیں۔ یہ پاکستان کے تیسرے فرد ہیں (قائد اعظم اور شہید ضیاء الحق کے بعد) جنہیں پاک آرمی نے تمام تر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ اور اب ان کا شمار پاکستان کے ”زندہ جاوید“ لوگوں میں ہوگا۔ ان کے نام پر سڑکوں کے نام رکھ دئے گئے ہیں۔ جلد ہی نصابی کتب میں ان کے اسباق بھی شامل ہو جائیں گے۔ پورا سیکولر میڈیا ”ایدھی کی تعلیمات“ کو نمایان کر رہا ہے جس میں ”انسانیت، تمام مذاہب سے بالا تر ہے“ سر فہرست ہے۔ ایسے مین اگر کچھ لوگ سوشیل میڈیا پر ایدھی کی پُر سحر شخصیت سے پردہ اٹھا رہے ہیں، ان کے عقائد و اعمال سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ بتلا رہے رہے ہیں کہ ایدھی صرف اور صرف ایک بہت بڑا سماجی کارکن تھا۔ نہ وہ بہت اچھا انسان تھا اور نہ ہی اسلامی تعلیمات پر پورا اترنے والا ایک عام مسلمان۔ بلکہ اس کے عقائد اور اعمال اسلام سے متصادم ہی تھے

اگر کسی کو ایدھی سے بہت زیادہ ”عقیدت“ ہے تو اُسے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ وہ کس ”صف“ میں کھڑا یا کھڑی ہے۔
اُسے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اُس کے اس فورم میں ہونے کا کیا ”جواز“ ہے؟
کیا آپ فورم پر اس لیے ہیں کہ بار بار ایک ہی بات کریں ؟ کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا کے لوگ شخصیات لیڈرز چھوڑ کر ایک ہی بات کو آپ نے پکڑ لیا ہے۔ایدھی صاحب متنازعہ شخصیت ہیں اس میں میرا یا آپ کا کیا عمل دخل ہے؟ ایک رائے آپ نے دے دی اب اس کو ختم کر دینا چاہیئے اور اپنی عاقبت کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

جب تک کہ کوئی مرنے والا انسان (جو کہ برے اعمال و عقائد کی بنا پر شہرت رکھتا ہو) لیکن سرعام شعائر اسلام کا مذاق نہیں اڑاتا ، یا پھر الله رب العزت یا قرآن یا فرشتوں ، یا انبیاء کرام علیہ سلام ،یا صحابہ کرام و صحابیات رضوان الله اجمین کی شان میں سرعام گستاخی نہیں کرتا - تو بہتر یہی ہے کہ اس کے معاملے میں سکوت اختیار کیا جائے- اور اس کی برائیوں کی تشہیر سے اجتناب کیا جائے- (واللہ اعلم)-

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مرنے والے کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ وہ اس نتیجے تک پہنچ چُکا جو اُس نے آگے بھیجا ہوا ہے:
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 476، جلد 2)
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام و علیکم و رحمت الله -

جب تک کہ کوئی مرنے والا انسان (جو کہ برے اعمال و عقائد کی بنا پر شہرت رکھتا ہو) لیکن سرعام شعائر اسلام کا مذاق نہیں اڑاتا ، یا پھر الله رب العزت یا قرآن یا فرشتوں ، یا انبیاء کرام علیہ سلام ،یا صحابہ کرام و صحابیات رضوان الله اجمین کی شان میں سرعام گستاخی نہیں کرتا - تو بہتر یہی ہے کہ اس کے معاملے میں سکوت اختیار کیا جائے- اور اس کی برائیوں کی تشہیر سے اجتناب کیا جائے- (واللہ اعلم)-

حضر ت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مرنے والے کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ وہ اس نتیجے تک پہنچ چُکا جو اُس نے آگے بھیجا ہوا ہے:
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 476، جلد 2)
کاش ہم کچھ معاملات اللہ تعالی پر بھی چھوڑنا سیکھیں۔
سکوت اور تکرار سے اجتناب پر "عقیدت" کے خطاب بھی مل سکتے ہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کاش ہم کچھ معاملات اللہ تعالی پر بھی چھوڑنا سیکھیں۔
سکوت اور تکرار سے اجتناب پر "عقیدت" کے خطاب بھی مل سکتے ہیں۔
جی صحیح فرمایا آپ نے :

لیکن سکوت کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہم مرنے والے کے معاملے کو الله رب العزت پر چھوڑ رہے ہیں - وہی بہتر جانتا ہے کہ مرنے والے کے ساتھ آخرت میں کیا سلوک ہونے والا ہے- ہاں اعمال کی نسبت ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں فلاں عمل دین اسلام مخالف ہے - اور اس کا کرنے والا عذاب سے دوچار ہو گا- البتہ ہم اکثر زندہ لوگ نہیں جانتے کہ مرنے والے کا اپنی موت سے قبل آخری عمل کیا تھا- کیا اس نے الله سے اپنے عمل کی سچی توبہ کی یا نہیں؟؟- باقی "عقیدت" کے خطاب کا معاملہ ہر انسان کے اپنے فہم و ظرف پر منحصر ہے -
 
Top