خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 86
128- مکہ میں بلند و بالا عمارات:
عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مکہ کی آبادی بہت کم اور مکانات قلیل تعداد میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی کہ علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ مکہ کی عمارات اس کے پہاڑوں سے بھی بلند ہوجائیں گی۔
غندر، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن أبيه، قال: كنت آخذا بلجام دابة عبد الله بن عمرو فقال: «كيف أنتم إذا هدمتم البيت , فلم تدعوا حجرا على حجر» , قالوا: ونحن على الإسلام؟ قال: «وأنتم على الإسلام» , قال: ثم ماذا؟ قال: «ثم يبنى أحسن ما كان , فإذا رأيت مكة قد بعجت كظائم ورأيت البناء يعلو رءوس الجبال فاعلم أن الأمر قد أظلك
یعلیٰ بن عطاء نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ " میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھا کہ انہوں نے کہا : "اس وقت تم لوگوں کا کیا حال ہوگا جب تم بیت اللہ کو گرا دو گے اور اس کا ایک پتھر بھی دوسرے کے اوپر نہیں رہنے دو گے"۔ لوگوں نے سوال کیا: کیا ہم اس وقت بھی اسلام پر قائم ہوں گے؟ انہوں نے فرمایا:" جی ہاں! آپ لوگ اس وقت اسلام پر ہی ہوں گے"۔ سوال کرنے والے نے پوچھا: پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ سیدنا عبداللہ کہنے لگے: "پھر بیت اللہ کی تعمیر پہلے سے زیادہ احسن انداز میں کی جائے گی۔ جب آپ مکہ کو دیکھیں کہ اس کے پہاڑوں اور زمین کے نیچے سرنگیں کھودی جائیں اور زیرِ زمین پانی کے پائپ بچھا دیے جائیں اور مکہ کی عمارتیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اوپر نکل جائیں، اس وقت سمجھ لینا کہ معاملہ قریب آ پہنچا ہے۔"
المصنف لابن ابی شیبۃ:37232
وإسناده لابأس به وهو موقوف على عبدالله بن عمرو من قوله .
حدیث میں مذکور الفاظ بعجت كظائم سے مراد وہ سرنگیں ہیں جو پہاڑوں کو کھود کر مکہ شہر میں کثیر تعداد میں بنائی گئی ہیں اور زمین کے نیچے بڑے بڑے پائپ آبِ زم زم کے لیے بچھائے گئے ہیں۔