ابو الحسن علوی بھائی قریب قریب تو تقریبا تمام علمائے اہلحدیث صوفی ملتے ہیں ،ایک دو کا تذکرہ میں نےکیا ہے ،فقہ،قران و حدیث پڑھ کر یہ لوگ حاندان غزنوی اور حاندان لکھنوی سے بیعت ہوتے تھے، منازل سلوک طے کرتے تھے،اس پر تاریخ کے صفحات آج بھی گواہ ہیں۔
انااللہ وانا علیہ راجعون! قریشی صاحب کچھ رمضان ہی کا خیال کرو۔اتنا جھوٹ بولنا اچھا نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ تقریبا تمام ہی اہل حدیث علماء صوفی تھے سیاہ ترین جھوٹ ہے۔ دوسرا محض علمائے اہل حدیث کا تصوف کی اصطلاح کا استعمال کرنا انہیں صوفی نہیں بناتا۔ صوفی وہ ہے جو صوفی عقائد رکھتا ہے جیسے دیوبندی اور بریلوی حضرات، جو صوفی مذہب کے لازمی عقیدہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ جبکہ میرا دعویٰ ہے کہ علمائے اہل حدیث میں سے کوئی ایک بھی وحدت الوجود کا قائل نہیں تھا۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ وحدت الوجود کی تاؤیل کرتے تھے لیکن انہوں نے رجوع کرلیا تھا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف تصوف کا لفظ استعمال کرلینے اور وحدت الوجود کی تاؤیل کر لینے سے کوئی صوفی نہیں بنتا۔ صوفی وہ ہے جو صوفی مذہب کے من گھڑت عقائد اور اعمال پر عمل پیرا ہے اور اسے درست جانتا ہے۔ جبکہ اہل حدیث اس نجس مذہب سے بری ہیں۔والحمداللہ
اس کے علاوہ صوفیوں کی من گھڑت بیعت باطل ہے اور سلوک کی منزلیں شریعت سے متصادم اور محض شیطانی سوچ ہے۔
خاندان شاہ ولی اللہ ؒ تو ہے صوفیوں کا خاندان، تصوف صرف علماء اہلحدیث اور علماء دیوبند میں ملتا ہے،بدعتیوں کے سینے میں یہ نور داخل نہیں ہوتا،باقی جہلاء کو ہم صوفی نہیں مانتے،تزکیہ نفس ، تصوف،شریعت وطریقت،سلوک و احسان سب ہم لفط معنی ہیں۔باقی آپ میرے مضمون پر اپنی رائے اظہار فرمائیں
یہ وہ اصل بات ہے جس کے لئے آپ نے صوفیوں کے گندے مذہب میں علمائے اہل حدیث کو گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔قریشی صاحب خود دیوبندی ہیں اور تصوف کو صحیح و حق جانتے ہیں لیکن اہل حدیثوں سے تصوف کی بدعت منوانے کے لئے انہیں اہل حدیث اکابرین کے شاذ اقوال کا سہارا لینا پڑا۔اور اپنے اہل حدیث ہونے کا ڈرامہ رچانا پڑا۔ لیکن فائدہ کچھ نہیں ہوا اور نہ ہوگا کیونکہ صوفیوں کا جدید اور شیطانی مذہب قرآن وحدیث اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔اس لئے اہل حدیث کبھی اس کو تسلیم نہیں کرینگے۔
اہل حدیث علماء نے تزکیہ نفس کے لئے محض تصوف کی اصطلاح استعمال کی ہے لیکن دیوبندی اور بریلوی تصوف میں ابن عربی کے پیروکار ہیں جو عقیدہ وحدت الوجود کا بانی تھا جسے دیوبندی اور بریلوی حضرات شیخ اکبر کے لقب سے پکارتے ہیں۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کے شیخ اکبر کو ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہ اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے بدتر کافر قراردیا ہے اور اس کے پیروکاروں کا بھی یہی حکم ہے۔ تصوف میں ابن عربی کی تقلید کی وجہ سے دیوبندی اور بریلوی حضرات بھی بدترین کافر اور مشرک ہیں کیونکہ یہ لوگ خالق اور مخلوق میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ دیوبندی اور بریلوی حضرات کے تصوف کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:
حاجی امداد اللہ تھانہ بھونی نے لکھا ہے۔
اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوجاتا ہے۔(کلیات امدادیہ ص 36)
امداد اللہ نے مزید لکھا:
اور اس کے بعد اس کو ہوہو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہو جانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے۔(کلیات امدادیہ ص18)
دیوبندیوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی بھی انسان ہوہو کا وظیفہ کرکے خود اللہ بن سکتا ہے۔ نعوذبااللہ
چونکہ وحدت الوجود کے صوفی عقیدے میں خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہیں رہتا بلکہ فاعل اور مفعول ایک ہی ہوجاتے ہیں اسی لئے دیوبندیوں نے اللہ کو زانی بھی قرار دیا ہے۔ (دیکھئے تذکرۃ الرشید ص 242 ج2 )
اسی طرح خواجہ محمد یار فرید بریلوی لکھتے ہیں۔
بندگی سے آپ کی ہم کوخداوندی ملی
ہے خداوند جہاں بندہ رسول اللہ کا
(دیوان محمدی ص 207)
یہ ہے بریلویوں کا وحدت الوجود کا مردود عقیدہ جس میں خالق اور مخلوق کے فرق کو مٹا دیا جاتا ہے اسی لئے محمد یار فریدی بریلوی نے اللہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بندہ قرار دے دیا۔
دیوبندیوں اور بریلویوں کے صوفی مذہب کی ان چند جھلکیوں کے بعد علمائے اہل حدیث اور دیوبندیوں کو تصوف میں ایک جیسا قرار دینا بدترین ظلم ہے۔جس کا حساب قریشی صاحب کو اللہ کی بارگارہ میں دینا ہوگا۔ان شاء اللہ
جن جن علمائے اہل حدیث کے بارے میں قریشی صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ صوفی تھے ان میں سے کسی نے ایسی کفریہ بکواسات نہیں کیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ علمائے اہل حدیث صوفی نہیں تھے بلکہ صوفی تو دیوبندی اور بریلوی ہیں جو اللہ اور مخلوق کو ایک ہی جانتے ہیں۔