عن ابی ا مامۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) والذی نفس محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ لغدٰوۃ اوروحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما فیھا ولمقام احدکم فی الصف خیر من صلوتہ ستین سنۃ ( رواہ احمد )
ترجمہ :۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ، اللہ کے راستہ ( جہاد میں ایک مرتبہ صبح یا شام کو نکلنا ساری دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بدر جہا بہتر ہے اور ایک شخص کا جہاد صف میں کھڑا ہونا گھر میں بیٹھ کر ساٹھ برس کی نمازوں سے بہتر ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب عیسایوں و رومیوں کو مسلسل شکست سے دوچار کرکے بیت المقدس فتح کیا تو عیسایوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنے باطل نظریات کے ذریے جہاد سے دور کیا جائے اور نفرت دلائی جائے - اس کام کے لئے انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں سے ایسے عالم ڈھونڈ نکالے جو ان کو تزکیہ نفس اور رہبانیت کا درس دینے لگے اور آہستہ آہستہ یہ زہر ان کے اندر سرایت کرنے لگے کہ جہاد صرف قتل و غارت کا دوسرا نام ہے اور کچھ نہیں -اور تصوف کے نام سے دین محمّدی صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے متوازی ایک اور دین (دین تصوف) کی بنیادیں کھود ڈالیں - اور اس باطل اور کفریہ دین کے ثمرات آج بھی ہم معاشرے میں واضح طور محسوس کر سکتے ہیں -اگر ان صوفیوں کا ایمان اتنا ہی مضبوط ہوتا تو ان کے حواری آج پوری دنیا پر قابض ہوتے - لیکن معاملہ الٹ ہے اور آج کفار مسلمانوں پر قابض ہیں-مسلمانوں کی اصل پستی کی وجہ ان میں صوفی ازم کا فروغ ہے - (واللہ عالم)-