ابرار صاحب آپ میری نہ مانیں ، اگر آپ تصوف کو جانتے تو تصوف کی تعریف کریں؟ کیونکہ آپ انکار کر رہیں ،اور انکار کے لئے کچھ نہ کچھ جاننا شرط ہے۔
اگر آپ نہیں جانتے تو پہلے رجوع کریں کے میں غلطی پر تھا۔میں تصوف کو نہیں جانتا ہوں۔
عامر رضا صاحب آپ صرف بحث برائے بحث کر رہے ہیں کہ تصوف کو آپ ثابت کر رہے ہیں تو دلیل آپ کو دینی چاہیے
اور تصوف کی تعریف کے لیے اسی فورم کا ایک صفحہ میں نے کافی پہلے دیکھا تھا میں آپ کی سہولت کے لیے اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں
تصوف کی لغوی و اصطلاحی تعریف
صوفیا کے ہاں مشہور اصطلاح 'التصوف،عرب اس اصطلاح سے ناواقف ہیں، اصلاً کلمہ تصوف جو عربی زبان کے اَوزان میں سے تفعُّل کے وزن پر ہے، مستعمل نہیں۔عربوں نے صوف کے بارے میں مادہ (ص و ف) کومد نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا ہے جس سے وہ بھیڑ کے بال اور پشمینہ لیتے ہیں اور بھیڑ کا وہ بچہ جس کے بال گنے ہوں اس کوصوف کی صفت سے ذکر کرتے ہیں۔[ لسان العرب،مختار الصحاح،مادہ :ص و ف]
صوفی کی وجہ تسمیہ
لفظ' صوفی' کا اشتقاق ومصدر کیا ہے؟ اس میں مختلف اَقوال ہیں:
1۔صوفی کی نسبت مسجد ِنبویؐ میں اہل صفہ کی طرف ہے۔ماہرین لغت کا اس پر اعتراض ہے کہ اگر صوفی کی نسبت اہل صفہ کی طرف ہوتی تو صوفی کی بجائے صُفِّی ہونا چاہیے تھا۔
2۔صوفی کی نسبت اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلی صف کی طرف ہے۔اس پر بھی یہی اعتراض کیا گیا کہ لغت کے اعتبار سے صَفِّی ہونا چاہیے تھانہ کہ صوفی۔
3۔ایک قول یہ ہے کہ صوفی صفوۃ من الخلق کی طرف منسوب ہے جو لغوی اعتبار سے غلط ہے، کیونکہ صفوۃ کی طرف نسبت صَفَوِیٌّ آتی ہے۔
4۔صوفی ،صوفہ بن بشر بن طابخہ قبیلہ عرب کی طرف منسوب ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
''اگرچہ یہ نسبت لغوی،لفظی اعتبار سے درست ہے، لیکن سنداً اور تاریخی اعتبار سے ضعیف ہے،کیونکہ یہ زاہدوں،عابدوں کے ہاں غیر معروف ہے۔اگرنساک عابدوں کی نسبت انہیں لوگوں کی طرف ہوتی توپھر اس نسبت کے زیادہ حق دار صحابہؓ، تابعینؒ وتبع تابعین ہوتے اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو صوفی کہا جاتا ہے وہ یہ ناپسند کرتے ہیں کہ ان کی نسبت ایسے جاہلی قبیلہ کی طرف ہو جس کا اسلام میں کوئی وجودنہیں۔''
لہٰذا اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی نسبت غلط ہے۔
5۔ایک رائے یہ ہے کہ صوفی، الصفۃ (اچھی صفات سے متصف ہونا)سے مشتق ہے جو حسب ِسابق صحیح نہیں ہے، کیونکہ الصفہ کی نسبت صُفِّی آتی ہے نا کہ صوفی۔ [فتاوی ابن تیمیہ،۱۱؍۶،مجلہ البحوث الإسلامیۃ،شمارہ ۴۰]
6۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی، صفا سے ماخوذ ہے جس کے معنی قلب کی صفائی اور اصلاح ہے۔لغوی اعتبار سے یہ نسبت بھی غلط ہے، کیونکہ صفاکی طرف نسبت صَفْوِیٌّ آتی ہے ۔[ قرآن اور تصوف ازمیر ولی الدین،ص۸]
7۔علامہ لطفی جمعہ کی تحقیق کے مطابق صوفی کا لفظ ثیوصوفیا سے مشتق ہے جو ایک یونانی کلمہ ہے جس کے معنی حکمت الٰہی کے ہیں۔[ایضاً:ص۹]
8۔صوفی صوف(پشمینہ)کی طرف نسبت ہے جس کے معنی پشم پہننے والا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اسی نسبت کو درست اورراجح کہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لغوی اشتقاق کے تناظر سے دیکھا جائے تویہ نسبت درست معلوم ہوتی ہے۔[مجموع الفتاوی :۱۱؍۶]
یہ میرے ایک بھائی کلیم حیدر صاحب کی پوسٹ ہے میں انہیں ذاتی طور پر تو نہیں جانتا لیکن اپنی پوسٹ کی روشنی میں میرے لیے قابل احترام ہیں