• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
2۔دوسرامرحلہ
صوفیت کی ابتداء کا مرحلہ ہے جس میں تصوف کے طرق اور مصطلحات وضع ہوئیں۔اس مرحلہ میں علم کی ظاہر وباطن ،قلب وقالب، شریعت وطریقت کے نام پر تقسیم ہوئی۔یہ وہی مرحلہ ہے جس میں اولیاء سے شریعت کے احکام تکلیفیہ ساقط ہونے کا اس گمان پر اعلان کیا گیا کہ وہ کشف والہام کے ذریعے علم حقیقت کی معرفت رکھتے ہیں۔ [مجموع فتاوی:۱۱؍۴۱۷،۴۳۹]
تصوف کا یہ مرحلہ جن مشائخ کے مرہون منت ہے یا جنہیں تصوف کی امامت کا درجہ حاصل ہے،درج ذیل ہیں:
1۔ابوالعباس علی بن عبداللہ الشاذلی(متوفی:۶۵۶ھ) ہیں جن کی طرف طائفہ شاذلی کی نسبت ہے۔
تعجب خیز بات ہے کہ جامعہ الازہر کے سابق شیخ عبدالحلیم محمود نے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس میں وہ شاذلی کی مدح وستائش اور ان کے طریقے کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:
''نبیﷺنے اپنے حجرے سے شاذلی کے ساتھ کلام کی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب شاذلی مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حرم (مسجد نبویﷺ)کے دروازے پر طلوع آفتاب سے دوپہر تک کھڑے رہے،سرپر کپڑا ہے نہ پاؤں میں جوتا۔رسول اللہﷺسے اجازت مانگ رہے ہیں، جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے میں اس وقت داخل ہوں گا جب مجھے اجازت مل جائے گی یہاں تک کہ روضہ شریفہ کے اندر سے آواز آئی اے علی!داخل ہو جاؤ۔''[المدرسۃ الشاذلیۃ الحدیثیۃاز عبدالحلیم،ص:۳۲]
{إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّإِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ} [ الزمر:۳۰]
اسی طرح کی ایک حیرت انگیز کہانی شیخ صوفیا احمد رفاعی کے بارے میں پیش کی جاتی ہے کہ اس کے متبعین اس کے بارے میں یہ زعم کرتے تھے کہ
جب اس نے حج کیا تو حجرہ نبویہﷺ کی جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے او رکہا السلام علیکم یا جدّی تو رسول اللہﷺنے فرمایا علیک السلام یا ولدی۔اور یہ بات مسجد میں تمام حاضرین نے سنی اور مزید رسول اللہ ﷺنے قبر سے اپنا ہاتھ بڑھایا جس کو شیخ رفاعی نے تقریباً نوے ہزار کے جمع غفیر کے سامنے چوما جس پر لوگوں نے کہا اس کرامت کا انکار کفر ہے۔[شیخ عبدالقادر جیلانی وآراؤہ الصوفیۃ]
ایسی نوبت قرون اولیٰ کی نفوس قدسیہ کے بارے میں کبھی پیش نہ آئی تھی۔
تصوف کے اس مرحلے کی صفات طبقات صوفیا کے چوتھے اور پانچویں طبقہ میں بڑی تفصیل سے گزر گئی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
3۔تیسرا مرحلہ
یہ مرحلہ انتہائی نازک شمار کیا جاتا ہے اس میں یونانی فلسفے،فارسی اور مجوسی توجیہات اور یہودی،عیسائی تعلیمات کے سرایت کر جانے کے بعد اس مرحلہ کی صفات درج ذیل ہیں:
1۔صوفیت کے اصول وضع ہونے لگے جن کی بنیاد عیسائیت سے متاثر ہو کر اتحاد وحلول،مجوسیت سے متاثر ہو کر شخصیت پرستی اور اس کی تقدیس،ہندو مت سے متاثر ہو کر فناء اور تناسخ،یونان کے فلسفے سے متاثر ہو کر الحاد اور زندیقیت اور وحدت الوجود وغیرہ کے عقائد ونظریات پر تھی۔[درء تعارض العقل والنقللابن تیمیہ:۵؍۸۲، تلبیس ابلیس:ص۳۴۵]
2۔علم لدنّی ،اللہ رب العزت سے بلاواسطہ کسب فیض کا دعویٰ ہونے لگا جس طرح بسطامی کا قول ہے:
''أخذتم دینکم میت عن میت أما نحن فنأخذ عن الحی الذی لا یموت''[الطبقات الکبری:۱؍۵]
''تم نے اپنا دین ایک فوت ہو جانے والے کا دوسرے فوت ہو جانے والے سے حاصل کیا ہے لیکن ہم اپنا دین، اس حیی ذات(اللہ تعالیٰ) جسے کبھی موت نہ آئے گی، سے بلاواسطہ لیتے ہیں۔''
اور ابن عربی کا قول ہے:
''واﷲ ما کتبت فی الفتوحات المکیة حرفا إلا إماء الہٰی أو القاء ربانی أو نفث روحانی أو روح کیانی'' [فتوحات مکیۃ ابن عربی:۳؍۴۵۶]
''اللہ کی قسم میں نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں ہر حرف اللہ کی طرف سے املائ،القاء ربانی،افہام روحانی اور اپنی فطری روح سے لکھا ہے۔''
3۔کتاب وسنت جیسے صحیح مناہج کو پانے کے بجائے ان سے دوری کی وجہ سے عقائد کی خرابیوں مثلاً تشیع، رجاء اور قدر میں واقع ہوئے۔
4۔بعض صوفیاء تو فحاشی اور گھٹیا صفات میں یہ گمان کر کے داخل ہو گئے کہ یہ کرامات ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
امام غزالیؒ کے بارے میں مستشرقین کی تصریحات
مستشرق نیکلس نے امام غزالیؒ کے دین تصوف کی حقیقت کو خوب سمجھا اور کہا:
''تصوف کے جرثومے پھیلانے والا پہلا شخص غزالی ہے۔امام غزالیؒ نے وحدۃالوجود کے قائل بعض صوفیا ،جیسے ابن عربی اور اس کے علاوہ سلسلوں کے اصحاب کے لیے راستہ کشادہ کر دیا۔''[في التصوف الإسلامي،(ترجمہ:ڈاکٹر عفیفی)ص:۱۰۴ بحوالہ:ہذہ ہی الصوفیۃ،ص:۵۵]
گولڈ زیہر لکھتا ہے:
''غزالی نے تصوف کو گوشئہ عزلت سے نکالا اور اسلام اور مسلم معاشرے کے اندر اسے ایک مرغوب عنصر بنا دیا اور سرکاری طور پر اسے مقبول کر دیا۔ اس نے تصوف کے متعلق آراء کو جمع کیا اور ان سے مدد لی تاکہ جامد دنیا مظاہر کے اندر ایک روحانی طاقت بخش سکے۔'' [التراث الیوناني(ترجمہ:ڈاکٹر بدوی)بحوالہ:ہذہ ہی الصوفیۃ،۵۶]
کارل پیکر لکھتا ہے:
''ابتدائے اسلام میں تمام مسلم فرقوں پر غنوصی روح چھائی ہوئی تھی مگر اس کے بعد تصوف چھاگیا۔شروع میں تو تصوف دین سے خارج ایک بدعت تصور کیا جاتا تھا مگر غزالی کی بدولت اسے زہر سے خالی ایک جام کی حقیقت مل گئی اور اہل سنت نے اسے قبول کر لیا۔'' [التراث الیوناني(ترجمہ:ڈاکٹر بدوی)بحوالہ:ہذہ ہی الصوفیۃ،۵۶]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تصوف سے امام غزالیؒ کی برأت
امام سبکی رح اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں غزالی کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
''وہ آخری ایام میں کتاب وسنت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔(اللہ کرے ایسا ہی ہو) مگر امام غزالیؒ نے آخری ایام میں کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی جس سے ثابت ہو کہ وہ کتاب وسنت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔''[طبقات الشافعیۃ،بحوالہ:حامش:ہذہ ہي الصوفیۃ،ص: ]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کراماتِ صوفیاء
آپ نے پیچھے مراحل تصوف میں چند کرامات ملاحظہ فرمائیں:
کرامات کو ذکر کرنے کے لیے الگ سے ایک دفتر درکار ہے بطور نمونہ ایک اور کرامت سنتے جائیے۔
ابن ابی ذرعہ الصوفی کہتے ہیں کہ:
'' میں نے اپنے والد محترم اور ابن حنیف کے ساتھ مکہ کا سفر کیا ہمیں شدید فاقہ کا سامنا کر نا پڑا۔ چنانچہ ہم مدینۂ رسولﷺ میں داخل ہوئے اور ہم نے بھوک کی حالت میں رات گزاری،اس وقت میری عمربلوغت سے کم تھی۔میں بھوک کی وجہ سے کئی مرتبہ اپنے ابا جان کے پاس آیا۔لہٰذا ہمارے والد صاحب روضہ شریف کے سامنے آئے اور کہنے لگے یارسول اللہﷺ اس رات میں آپ کا مہمان ہوں اور مراقبہ میں بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا اور کبھی ہنستے ہیں اور کبھی روتے ہیں اور کہنے لگے میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ انہوں نے میرے ہاتھ پر دراہم تھمائے ہیں۔ انہوں نے ہاتھ کھولا تو واقعی ان کے ہاتھ میں دراہم تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان دراہم میں اتنی برکت ڈالی کہ ہم شیراز واپسی تک انہیں خرچ کرتے آئے ۔اور اسی طرح کا ایک واقعہ السید ظلیل ابو العباس احمدالصوفی بھی اپنی بابت نقل کرتے ہیں۔[دفع الشبہ من شبہ وتمرد ونسب ذلک إلی السید،۱؍۸۴]
اس مذکورہ کرامت میں رسول اللہﷺ میزبان تھے، لیکن ان کرامات کا سلسلہ ابھی رکا نہیں تھا کہ ماضی قریب میں ایک کرامت پاکستان کے نام نہاد 'شیخ الاسلام' سے ظاہر ہوئی ،وہ یہ کہ انہیں رسول اللہﷺ کی مہمانی کا شرف میزبانی حاصل ہوا اور پھر کچھ دن قبل آسمان پر بادلوں میں اسم محمدﷺ لکھا ہوا دکھا دیا۔
معجزات اور کرامات کا ماننا اور شعبدہ بازی کا انکار کرناجزو ایمان ہے، لیکن ایسی کرامات جن سے ایمان ویقین میں دراڑ پیدا ہو اور عقیدہ توحید میں خلل واقع ہو ،کو نہ ماننا بھی جزو ایمان ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تحریک تصوف کے بنیادی عقائد ونظریات
جہاں تک تصوف کے بنیادی عقائد ہیں توان کی اصل بنیاد ذاتی مکاشفات ومشاہدات پر ہوتی ہے جن میں فروعی اختلاف کے باوجود چند باتیں متفق علیہ ہیں جن کو طریقت میں نظریات وعقائد کی حیثیت حاصل ہے۔جو مراتب کے لحاظ سے درج ذیل ہیں:
1۔وحدۃ الوجود
یعنی انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔
2۔وحدۃ الشہود
جب انسان اس مقام سے ترقی کر جاتا ہے تو اس کی ہستی خدا کی ہستی میں مدغم ہو جاتی ہے اور وہ دونوں ایک ہی ہو جاتے ہیں۔گویا یہ نظریہ خدا کی ہستی کو کائنات سے الگ تسلیم تو کرتا اور اس کائنات کو خدا کا پرتو یا سایہ تصورکرتا ہے لیکن مزید روحانی ترقی کے بعد خود کو خدا کی ذات میں گم کر دیتا ہے۔
3۔حلول
اس سے اگلا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے آئینہ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔گویا وحدۃ الشہود میں تو انسان روحانی ترقی کرتا کرتا خدا کی ذات میں جا مدغم ہوتا ہے لیکن حلول میں خدا خود اپنے مرتبہ سے نیچے اتر کر انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
باالفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وحدۃ الشہود اور حلول،وحدۃالوجود ہی کے دوسرے پہلو یا ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔اصل الاصول وحدۃ الوجود ہی ہے۔[شریعت وطریقتازعبدالرحمن کیلانی،ص:۶۳،۶۴]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عقیدہ وحدۃ الوجود کی ابتدا اور بانی
اگرچہ بعض اکابر صوفیاء نے وحدۃ الوجود کی توضیح وترجمانی ذوق و حال سے کی ہے مگراس نظریہ کی ترتیب وتنظیم کا سہرا محی الدین ابن عربی کے سر ہے جس کو نظریہ وحدۃ الوجود کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔انکی کتاب فصوص الحکم اس سلسلے میں آخری سند ہے لیکن یہ خیال بالکلیہ درست نہیں کیونکہ پروفیسر سلیم چشتی نے اپنی کتاب تاریخ تصوف میں حضرت جنید بغدادی کے 21 رسائل کا تفصیلی تعارف کرایا ہے ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نظریہ وحدۃ الوجود کی داغ بیل ڈالنے والے اصلیت میں جنید بغدادی ہیں اور اس کی تشکیل وتنظیم بعد میں محی الدین ابن عربی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ [اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات،ص:۱۸۷]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تصوف کے شیخ اکبر کی توحید
تصوف کے بہت بڑے امام ابن عربی کہتے ہیں:
''فیحمدنی وأحمدہ ویعبدنی وأعبدہ'' [فصوص الحکم لابن عربی:۱؍۸۳]
''وہ میری حمد وثناء کرتا ہے اور میں اس کی حمدوثناء کرتا ہوں۔اور وہ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔''
ابن عربی کے نزدیک کائنات کی ہر چیز ،ہر موجود اور غیر موجود شے اللہ کی ذات ہے۔
اللہ کی تعریف یوں کرتا ہے:
''سبحان من أظہر الأشیاء وہو عینہا'' [فتوحات مکیۃ:۲؍۲۰۴]
''پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیاء کو ظاہر کیا اور وہی ان اشیاء کا ظاہر وباطن ہے۔''
سلسلہ تصوف کے صاحب مرتبہ عارف کی یوں تعریف کرتا ہے:
''إن العارف من یری الحق(اﷲ)فی کل شیٔ بل یراہ عین کل شیٔ '' [أیضاً]
''عارف وہ ہے جو ہر چیز میں ذات باری تعالیٰ کو دیکھے بلکہ ہر چیز اسے اللہ ہی کی ذات نظر آئے۔''
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جیلی کا دعوی ربوبیت
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَﷲِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ}
''زمین وآسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔''[ آل عمران:۱۸۹]
جیلی کہتا ہے:
لی الملک فی الدارین لم أر فیہما
سوای فأرجو فضله أو فأخشاہ
''دونوں عالم میں میری حکمرانی ہے ان دونوں عالم میں،میں نے اپنی ذات کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔لہذا میں اپنی ہی ذات سے فضل وکرم کا طلب گار ہوں اور اسی سے ڈرتا ہوں۔
وقد حضرت أنواع الکمال وإننی
جمال جلال الکل ما أنا إلا ہو
''کمال کے جمیع مراتب میں نے طے کر لیے اور میں اس(اللہ)کی تمام جلالت وجبروت کا جمال ہوں،میں کچھ نہیں ہوں مگر وہی(اللہ)۔''[ ہذہ ہی الصوفیۃازعبدالرحمن وکیل(ترجمہ:نقی ندوی)ص:۴۸]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ابو حمزہ کا عقیدہ حلول
ابو علی الروزباری ابو حمزہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ:
'' وہ بہت بڑا حلولی تھا جب ہوا وآندھی ،پانی کے گرنے اور پرندوں کے چہچہانے کی آواز سنتا تو چیخ چیخ کر کہا کرتا تھا لبیک لبیک،جس پر لوگ انہیں حلولی کہتے تھے۔''[تلبیس ابلیس:۱؍۲۱۰،تاریخ بغداد،۱؍۳۷۱]
اسی طرح ایک روز ابو حمزہ کوالحارث المحاسبی کے گھر جانا ہوا کہ حارث کی بکری نے مَیں مَیں کیا توابو حمزہ ہچکیاں لینے لگا اور بکری سے مخاطب ہو کر کہا لبیک یا سیدی۔الحارث المحاسبی یہ الفاظ سن کر غصے میں آ گئے اور کہا کہ اگر تو نے توبہ نہ کی تو میں تجھے ذبح کر دوں گا،تو ابو حمزہ نے جواب دیا معلوم ہوتا ہے کہ تم ابھی تصوف کے میدان میں مبتدی ہو۔
 
Top