• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایسے ہی ابن جوزی بیان کرتے ہیں :عہد رسول میں لفظ مومن یا مسلم تھا پھر زاہد وعابد کا لفظ نکل آیا پھر کچھ لوگ آئے اور زہد وعبادت کا اہتمام کرنے لگے اور اس کے لئے الگ الگ طریقے بنانے لگے پہلی قوموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا شیطان نے پہلوں کو التباس میں ڈالاپھر ان کے بعد والوں کو تاآنکہ آخری والوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ۔(تلبیس ابلیس:161)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صوفیت ترقی کرتے ہوئے غلوتک جاپہنچی جب ان میں کچھ خارجی عناصرداخل ہوئے توصوفیاءعملی بدعات سے قولی اور اعتقادی بدعات میں مبتلا ہوگئے جیسے ہر فرقہ ابتداءمیں جمنا شروع ہوتا ہے پھر جڑ پکڑلیتا ہے پھر اس کی شاخیں نکلتی ہیں پھروہ غلو اور گمراہی میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اس ارتقاءکو تین مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
1 ابتدائی صوفیاءاور ان کے متبعین
2 صوفیت میں مخصوص اصطلاحات کا ظاہر ہونا
3 ان میں تنگ یونانی فلسفے کا داخل ہونا اور اتحاد اور وحدت الوجود جیسے عقائد کا ظاہر ہونا۔
یہ تمام مرحلے ایک دوسرے سے الگ نہیں کہ مخصوص دور تک پہنچ کر ختم ہوگئے بلکہ مرحلہ اپنے سے برابر والے مرحلے کا ذمہ دار ہے لیکن یہ ارتقاءغالباً اسلامی زمانوں میں ہوا ان کی ابتداءمیں غلونہ تھا بلکہ تصوف انحراف کی انتہاءتک ساتویں ہجری میں پہنچی اور اس کے ذمہ دار ابن عربی اور ابن فارض جیسے لوگ تھے آج کل کی صوفیت علمی اور عملی دونوں طرح کے انحراف سے گڈ مڈ ہے ایسے لوگ ہمیشہ رہے ہیں جو بلا علم وباعلم دونوں طرح غالی صوفیاءکے اقوال دہراتے ہیں تیسری صدی کے پہلے مرحلے کے مشہور صوفیاءمیں جنید بغدادی اور سری سقطی ھی ہیں اور چوتھی صدی میں ابوطالب المکی ہیں اور پانچویں صدی کے شروع میں ابوعبدالرحمن السلمی ہیں ان کے فوراً بعد ہی حلاج ظاہر ہوا جو حلول کا قائل تھا لیکن یہ نظریہ صوفیت کے گزشتہ ادوار کی نسبت کمیاب تھا چنانچہ یہ تقسیم ہر مرحلے میں غالب عقیدہ وعمل کے اعتبار سے ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تصوف کی ابتدائی شکل وصورت
اپنی ابتداءمیں تصوف تصفیہ روح کے لئے چند نفسانی ریاضتوں ،جسمانی مشقتوں معروف کسر نفس اور طبعی مجاہدوں سے معروف تھا یہ تزکیہ روح جو سلف کے ہاں بلاتکلف ہی حاصل ہوجاتا تھا جب ایک مکمل تربیت ومشق کا نتیجہ جاٹھہرا تو ہم نے دیکھ لیا کہ اس تزکیہ کے حصول کے لئے تشدد وتکلف اور اخلاص کی جانچ پڑتال اور چھانٹ پھٹک جو وساوس کی حد تک لے جاتے کا طریقہ اختیارکرنا پڑتا ہم ان کے اقوال واحوال میں اس بات کی تائید دیکھتے ہیں جنید بغدادی جسے اس جماعت کا سرغنہ کہاجاتا ہے کہتے ہیں:ہم نے تصوف قیل وقال سے نہیں بلکہ بھوک ،ترک دنیا اور آسائش چھوڑ کر حاصل کیا ہے (سیر اعلام النبلاء:69/14) ۔​
معروف کرخی بیان کرتا ہے کہ :میں ایک عرصہ روزے سے رہا اگرکھانے کی طرف بلایا جاتا تو کھالیتا اور یہ نہ کہتا کہ روزے سے ہوں (صفۃ الصفوۃ:329/2)۔​
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جنید بغدادی اپنے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ وہ جب وہ سوجاتے توانہیں پکارا جاتا کیا تومجھ سے سوتا ہے اگر تو سویا تومیں تجھے کوڑے ماروں گا ۔ایسے ہی غزالی سہل بن عبداللہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ چھوٹے کھجور کے پتے کھاتے اورغزالی کو خود بھی جنگلوں میں چلے جانے پر آمادہ کرتے اور یہ شرط لگاتے کہ گھاس پھوس کھانے کی عادت بنالے گا۔ابونصر السراج کے نزدیک صوفیت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ عزت پر ذلت کو ترجیح دے گا اور نرمی پر سختی کو پسند کرے گا(اللمع:28)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انہوں نے اس شخص کے لئے جو ان کے حلقے میں داخل ہونا چاہے یا ان کا مرید ہواس کے لئے ایک دستور بنارکھا تھا جس میں یہ ہے کہ مال چھوڑے گا جیسا کہ قشیری نے اپنے رسالہ میں ذکر کیاہے اور آہستہ آہستہ خوراک کم کردے گا اورکبھی شادی نہ کرے گا(الاعتصام از شاطبی :214/1)۔
ابوطالب المکی اپنے مرید سے مطالبہ کرتا کہ وہ دن اوررات میں دوچپاتی سے زیادہ نہ کھائے (تلبیس ابلیس:141)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ تمام امور اس اعتدال اور آسان دین حنیف اور طریق صحابہ کے خلاف ہیں اس مرحلے کے امتیازات درج ذیل ہیں :
1 سماع:کا ایجاد ہونا اس سے زہد پر مشتمل دل نرمادینے والے قصیدوں کا سننا مراد ہے یا ایسے قصیدے جن میں غزلیات ہوتیں۔
2 ایک خاص طرز جسے صوفیت کہتے کے متعلق کلام کرنا اور ہمارا طریقہ ،ہمارامذہب ،ہمارا علم جیسے لفظ کا ظاہر ہونا جنید بغدادی کہتے ہیں :ہمارایہ علم حدیث رسول سے ملا ہواہے(مدارج السالکین از ابن القیم : 142/3) اور ابوسلیمان الدارانی کہتا ہے :"میرے دل میں بسا اوقات قوم کے نکات میں سے کوئی ایک نکتہ آتا تو اسے کتاب وسنت دوعادل گواہوں کے بغیر قبول نہ کرتا (مدارج السالکین از ابن القیم : 142/3)۔
یہاں قوم سے اس کی مراد خاص قوم ہے یعنی صوفیاء۔
3 ایسی کتب لکھی گئیں جو زہد وزہّاد سے متعلق صحیح وسقیم احادیث سے بھری پڑی ہیں اور نفسانی وقلبی خطرات اور فقر وفاقہ کی طرف دعوت سے بھری پڑی ہیں اور اہل کتاب کی روایات نقل کرتی ہیں مثلاً حارث محاربی کی کتابیں،ابوطالب المکی کی قوت القلوب ،ابوعبدالرحمن السلمی کی تفسیر ،ابونعیم الاصبہانی کی حلیۃ الاولیاء۔ابن خلدون فرماتے ہیں :ان کا اصل طریق محاسبہ نفس اور لذات کے متعلق کلام تھا پھر انہوں نے ترقی کی اور اس فن میں تالیف کرنے لگے چنانچہ ورع اور محاسبہ کے متعلق کتابیں لکھیں جیسا کہ قشیری نے الرسالہ میں کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب طریقہ محض عبادت ہی رہ گیا(ابن خلدون:469)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
1 یہ عبادات میں تکلف و تشددان جائز امور کا ترک کردینا ہے جس کی مثال سلف میں نہیں ملتی اللہ کے رسول گوشت کھاتے تھے ،میٹھی اشیاءپسند کرتے تھے آپ کے لئے ٹھنڈا پانی شیریں بنایا جاتا(تلبیس ابلیس:151)۔
نبی نے کسی صحابی کو مال ومتاع ضائع ترک کرنے کاحکم نہیں دیا نہ ہی دین میں تشدد ہمیشہ روزہ رکھنا یا ہمیشہ قیام کرنا تو یہود ونصاریٰ کے راہبوں کا وطیرہ ہے (حجۃ اﷲ البالغۃ از شاہ ولی اﷲ دھلوی:20)۔
شادی نہ کرنا ہمیشہ بھوکا رہنا اس تبتل (گوشہ نشینی )کے مترادف ہے جس سے نبی نے اپنے بعض صحابہ کو منع فرمایا یہی وجہ تھی کہ ابن عطاءالادمی فرماتے ہیں کہ :اﷲہماری عقلیں درست رکھے جو بھوک اور ریاضت کی تنگی کو اپنی عقل کے زوال کا سبب بنالے وہ نافرمان گناہ گار ہے(سیر اعلام النبلاء:153/14)۔
جنگلوں میں نکل جانا اس سے روکا گیا ہے یہ رہبانیت کی بدعت ہے ابوداؤد میں ابواسامہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ سیاحت کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا: میری امت کی سیاحت جہاد میں ہے(سنن ابی داؤد کتاب الجھاد:5/3)۔
امام ذہبی فرماتے ہیں :طریق محمدی بہترین ہے وہ یہ ہے کہ پاکیزہ چیزیں اختیار کرنا اور جائز خواہشات بلا اسراف پوری کرنا ہمارے لئے رہبانیت ،وصال (مسلسل روزہ رکھنا اور افطار نہ کرنا)اور ہمیشہ روزہ رکھنا،ہمیشہ بھوکے رہنا مشروع نہیں کیاگیا علماءنے رہبانیت کی راہ کا انکار کیا ہے(سیر اعلام النبلاء:89/12)
سلف صالحین جنہوں نے صحیح معنوں میں اسلام سمجھا انہوں نے تکلف وتشدد کی راہ اختیار نہ کی سیدالتابعین سعید بن مسیب سے ان کے غلام نے کہایہ لوگ (صوفیاء) بڑا بہترین عمل کرتے ہیں کہنے لگے کیا کرتے ہیں ؟کہنے لگا ظہر پڑھ کر عصر تک قیام کرتے ہیں فرمانے لگے تیری خرابی ہو برد اللہ کی قسم یہ عبادت نہیں توکیاجانے عبادت کیا ہے عبادت یہ ہے کہ اللہ کے حکم میں غور کیاجائے اور اس کے حرام کردہ امور سے دور رہا جائے (طبقات ابن سعد:135/5)۔
جسم نفس کی سواری ہے اگر جسم کو اس کا حق نہ دیاجائے تویہ نفس کی بھاری بھرکم بوجھ نہیں اٹھاپاتا لیکن جب ناجائز زہد ،ترک دنیا،بھوکے رہنا ،گوشت نہ کھانا ،بھوسی ٹکڑے کھانا،اور چلو بھر پانی پینا ایسی بدعات رونما ہوں تو جسم پر نفس کے خطرات لازم ہوجاتے ہیں اکثر سنا جاتا ہے کہ بھوک یا نیند نہ کرنے کی وجہ سے نقصانات ہوئے بسا اوقات انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے عبادت کا حصول دنیاوی زندگی ہی میں ممکن ہے اور دنیاوی زندگی بدن کی سلامتی پر موقوف ہے (الذریعہ الی مکارم الشریعۃ از امام راغب اصفہانی:153)۔
ترک دنیا نہ تو کتاب اللہ سے ثابت ہے نہ ہی سنت سے ایسا کرنے میں مذموم دنیاوی نقصان ہے جس کا آخرت میں کچھ فائدہ نہیں (فتاوی ابن تیمیۃ:148/20)۔
حقیقی زہد دنیا میں رہ کر ہی ممکن ہے کہ دنیا کا سونا اورمٹی دونوں ہی برابر ہوجائیں زہد یہ ہے کہ لوگوں کی ناجائز تعریف ومذمت سے بچے جو ایسا بن جائے وہ پاکیزہ دل کا مالک ہے اور اگر اس میں سے کچھ خلاف شرع صادر ہوتو ہم اس کی بدعت اس کے چہرے پر مار کر اس کاردّ کردیں گے (ابجد العلوم:374/2)۔
2 عوام ان لوگوں کی عبادت دیکھ کر انہیں صحابہ سے افضل سمجھنے لگتی ہے کیونکہ لوگ نہیں جانتے کہ صحابہ کیسے تھے وہ عجیب وغریب حرکات اور تشدد سے حیران ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ شریعت راہ اعتدال کا نام ہے آثار وسنن سے کم واقفیت ہی لوگوںکو اس تشدد میں میں مبتلا کرتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ شریعت کا مقصد محض عمل ہے اور اس کے لئے علم کی ضرورت نہیں یہ ناممکن ہے کہ اسلامی تشخص کا معیار لوگ ہوں جیسا بعض صحابہ سے بھی ثابت ہے تومیں یہ نہیں کہوں گا کہ ان کے آثار کی اتباع ہمارے لئے ممکن نہیں اور ہم اس راہ پر نہیں چل سکتے ۔
3 انہوں نے سماع ایجاد کیا جس کے متعلق ابن تیمیہ فرماتے ہیں :یہ بدعت دوسری صدی کے آخر میں نکلی اور اسے نکالنے والے بہترین صوفیاءتھے(الاستقامۃ:297/1)۔
6 اس ابتدائی مرحلے سے معلوم ہوتاہے کہ تصفیہ روح کے لئے جسم کو تکلیف دینا اور آسائشوں سے پرہیز کرنا یہ نصاریٰ سے متاثر ہونے کی بناءپر تھا امام احمد بن ابوحواری حرملہ کی ایک کٹیا میں بیٹھے راہب سے اپنی ملاقات کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کی رہبانیت کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا جسم زمین سے پیدا کیا گیا ہے اور روح کوآسمان کی بادشاہت سے سو جب اس کابدن بھوکا رہے اور اسے بے لباس کردے اور اسے مسلسل بیدار رکھے روح واپس اس جگہ چلی جاتی ہے جہاں سے نکلی تھی اور جب بدن اسے کھلائے اور آرام دے تو زمین پر ہی رہتی ہے اور دنیا سے محبت کرنے لگتی ہے ابوحواری نے راہب سے ہونے والی یہ گفتگو اپنے شیخ ابوسلیمان الدرانی کے سامنے ذکر کی تو کہنے لگے کہ :وہ باتیں بناتے ہیں ۔گویا انہوں نے راہب کی گفتگو سے تعجب کیا اسے لئے امام ذہبی اس پر لکھتے ہیں کہ طریق محمدی بہترین ہے(سیر اعلام النبلاء:89/12)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصطلاحات اور غیر یقینی صورتحال
سنت سے کسی بھی طرح کا انحراف وقت گزرتے بڑھتا جاتا ہے پر طرف سے یکجا ہونے والے معاون حالات غلط اجتہاد اور باطل نظریات سبب بنتے ہیں سو شگاف بڑھتا جاتا ہے اور باطل قوت پکڑلیتا ہے تیسری صدی کے اختتام پر صوفیت اپنی ہی مشکل کے ساتھ ساتھ ایسی پوشیدہ اور مبہم اصلاحات میں واقع ہوگئی جن ہر صوفی اپنی منشاءکے مطابق تفسیر کرتا نیا صوفی ان کی بیزار تفسیر کرتا اورپکا صوفی اپنے غلو وضلالت کے مطابق ان کی تفسیر کرتا اور اصطلاحات کی یہ شکل اور ان کا واضح نہ ہونا ہم سے پہلی امتوں کی گمراہی کا بھی سبب رہا ہے ایسے مبہم کلمات جو حق وباطل دونوں کا احتمال رکھتے نصاریٰ کے عقیدہ الوہیت مسیح کا سبب بنے جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں "رُوح مِّنہُ"یعنی اپنی روح کہا تو اس کا معنی یہ نہ تھا کہ وہ اس کا جزءہے بلکہ یہ نسبت اعزازی تھی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے کہ :"ناقۃ اﷲ"یعنی اللہ کی اونٹنی یا بعض صحابہ کرام کو اسد اللہ یعنی اللہ کا شیر یا سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کہا جاتا ہے یا اللہ کا فرمان کہ : یعنی اس نے تابع کردیا ہے تمہارے وہ سب جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین پر ہے سب اسی سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مشتبہ کے پیچھے لگنے والے سے منع کیا ہے اور مشتبہ کو محکم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے اور محکم اللہ کا یہ فرمان ہے کہ : کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے نہ اس نے جنا نہ وہ ہی جنا گیا۔ امام احمدفرماتے ہیں :عیسیٰ کلمہ کُن "ہوجا"سے پیدا ہوئے نہ کہ وہ خود ہی کلمہ کُن ہیں۔
صوفیہ نے اپنی اصطلاحات میں فناءوبقاء،صحو،محو،تجرید،،تغریدکے بارے میں کلام کیا ہے یہ الفاظ حق اور باطل دونوں کااحتمال رکھتے ہیں بلکہ باطل کے زیادہ قریب ہیں ان کے مؤلفین بھی ان اصطلاحات کے ایجاد کئے جانے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ابوبکر کلابازی کہتا ہے:صوفیوں کی ان کے ہاں منفرد عبارات واصطلاحات ہیں جنہیں ان کے سوا کوئی استعمال نہیں کرتا۔
ان اصطلاحات کو سب سے پہلے استعمال کرنے والے ابوحمزہ الصوفی البغدادی (متوفی 296ہجری)بسطانی اور ابویزید الخزار(متوفی277ہجری )تھے ۔​
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ان کی اصطلاحات کی چند مثالیں اور تعریفیں ذکرکرنے کے بعد ہم ان کے نتائج کے متعلق گفتگو کریں گے :
1 الفنا:اس مبہم ومجمل لفظ سے باطل بلکہ کفر مراد ہے صوفیاءاس سے "ایک ہی وجود سے معدوم ہوجانا"مراد لیتے ہیں یعنی اللہ سبحانہ کے سوا کوئی موجودنہیں اور اس کے سوا کسی کا وجود حقیقی نہیں
2 اس لفظ فناءکا یہ معنی بھی ہے کہ لوگوں اور خلقت سے غائب ہونا اور اللہ کے سوا کسی کاحاضر نہ ہونا اور (غیبوبہ یعنی غائب ہوجانا)میں واقع ہونا حتی کہ عبادت سے بھی غائب ہوجانا اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ کہ وہ (یعنی غائب ہونے والافنا ہونے والا)اور معبود ایک ہی شئے ہیں اور یہ گمان پڑتا ہے کہ اس کی ذات اور اس کی ذات میں اور اس کی صفات اس کی صفات میں مضحمل ہوگئیں(تنبیہ الغبی:81) ۔
3 اس لفظ جسے صوفیاءفنا کہتے ہیں کا یہ معنی بھی ہے کہ "ایک ہی کے ارادے سے معدوم ہوجانا"یعنی صرف اللہ ہی سے محبت ہو اسی کے لئے دوستی وبغض ہو یہ اگرچہ درست ہے لیکن اس کی تعبیر کے لئے ان کالفظ فناءاستعمال کرنا قابل قبول نہیں کیونکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اس میں پوشیدگی اور اشتباہ ہے اور فناءکا یہ معنی کہ "اللہ کے سوا میں مشغول ہونے سے نفس کو فنا کردینا "جیسا کہ صوفیاءیہ بھی کہتے ہیں تویہ معنی بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اللہ ہی نے ہمیں مخلوقات میں مشغول ہونے ان کی دیکھ بھال کرنے اور ان کی طرف توجہ دینے کا حکم دیا ہے(سیر اعلام النبلاء:393/15)۔
4 الجمع والفرق(یعنی اکھٹا ہونااور جداہونا):صوفیاءکہتے ہیں جمع سے حق بلاخلق یعنی خلق کے بغیر حق کی طرف اور فرق سے خلق بلاحق یعنی حق کے بغیر خلق کی طرف اشارہ ہوتاہے اور مراد یہ لیتے ہیں کہ فرق سے مراد وہ کسب ہے جو بندہ اللہ کی بندگی کے قیام کے لئے کرتا ہے اور جمع سے ربوبیت کا مشاہدہ مراد ہے اور جمع وفناءکے پہلے معنی یعنی وحدت الوجود سے بہت قریب ہے ۔
5 السُکر والصحو:(یعنی مست ہونا جیسے کوئی نشے میں مست ہوتا ہے اور "ہوش میں آنا"جیسے نشہ کرکے کوئی ہوش میں آتا ہے)۔سکر کے متعلق صوفیاءکہتے ہیں کہ :بندے پر ایسی حالت کاظاہرہونا جس میں اس کے لئے نہ تو سبب کا لحاظ ممکن رہے نہ ہی ادب کی رعایت(التصرف:114)۔
اور صحو کہتے ہیں عارف کے غائب ہوجانے اور اس کے احساس کے زائل ہوجانے کے بعد پلٹ آنا۔
6 العشق:صوفیاءنے اس لفظ کو اختیار کیا جبکہ رب تبارک وتعالیٰ کو اس لفظ سے موصوف نہیں کیا جاسکتا نہ بندے کا اپنے رب سے اظہار محبت کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاسکتاہے کیونکہ اس لفظ میں عریانیت کا عنصر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کتاب وسنت میں مودّت ومحبت کے الفاظ موجود ہیں مگر عشق کا لفظ قطعاًنہیں نیز کوئی بھی شخص اپنی ماں ،بہن ،بیٹی سے اظہار محبت کے لئے یہ لفظ ہرگز استعمال نہیں کرتا کیونکہ ان سے کی جانے والی محبت عریانیت سے پاک ہوتی ہے ۔
یہ ان کی کثیر اصطلاحات میں سے چند کا نمونہ ہے یہ سبب مبہم و مجمل ہیں ایسی دیگر اصطلاحات حال،مقام عطش ،دھش ،جمع الجمع ....وغیرہ بھی ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صوفیاءکی فناءفی اللہ کو شش ناممکن ہے کیونکہ اللہ سبحانہ خالق اور وہ مخلوق ہیں تو خالق اور مخلوق ایک کیسے ہوسکتے ہیں یہ لوگ ایک اور فریب دیتے ہیں یعنی الصحو بعدالمحو"مٹ جانے کے بعد ہوش میں آنا"یا الفرق فی الجمع یعنی یکجا ہوکر الگ ہونا مطلب یہ کہ انسان حالت بندگی کی طرف پلٹ آئے یہ ان کے مونہوں کی محض باتیں ہیں یعنی یہ کہ وہ عبودیت کی طرف پلٹ آتا ہے حقیقت میں یہ صرف اوہام باطلہ ہیں جبکہ اسلام عقل کی حفاظت کا تقاضا کرتا ہے تو ایک مسلمان زوال عقل کی سعی کیونکر کر سکتا ہے جبکہ صوفیاءربوبیت کے اسرار سے متعلق گفتگو کرتے وقت ایسی باتیں بناتے ہیں جو طاقت انسانی سے باہر ہیں اسی لئے وہ اس وحدت الوجود کے حادثے سے دوچار ہوئے جو دراصل کفر ہے اور اس بارے میں وہ نفسیاتی عدم توازن کا شکار ہیں کہ جو انسان تکبر وخدائی کے زعم میںمبتلاہوکر وحی سے اعراض کرتا ہے توغیر محسوس طور پر اس نفسیاتی بیماری کا مریض بن جاتا ہے اور وحدت الوجود کے راستے سے اپنی باطل نفسیات کو تسکین دیتا ہے جیسا کہ فرعون کی نفسیات تھی وہ کہا کرتا تھا کہ :انا ربکم الاعلیٰ میں ہی تمہارا سب سے برتر رب ہوں۔بدھ مذہب میں بھی فناءکا عقیدہ موجود ہے وہ اسے نروان کہتے ہیں بسا اوقات صوفیاءنے انہی سے یہ عقیدہ لیا ہے۔
 
Top