محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
معنی ولی اور اس کے ارتقاءاور اس کے شرعی معنی کے بیان ووضاحت کے بعد کرامات کے متعلق اہل السنۃ کا موقف بیان کرنا ضروری ہے نیز یہ کیا صوفیاءنے اس موقف کا التزام کیا یا نہیں اور کیا ولایت وکرامت میں کچھ تعلق ہے؟۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کائنات کا پیدا فرمایااور اس میں ایک محکم ومضبوط نظام جاری وساری کردیا جس میں نہ تو سقم ہے نہ ہی تعارض وتخلف اور اسباب کو مسببات اور نتائج اور ان کے مقدمات کے ساتھ مربوط کردیا اور ہر شئے کو کچھ صفات عطاءکیں آگ جلاتی ہے ،پانی سیراب کرتاہے،خوراک بھوک مٹاتی ہے اور پھر یہ کائناتی نظام عمدہ ومرتب ہے چاند،سورج ،ستارے،دن اوررات کا ہیر پھیر یہ سب اس کے بہترین نظام ہیں تواگر کبھی اسباب نتائج سے مربوط نہ ہوں اور یہ عادت مالوفہ سے ہٹ کر کچھ ہو اللہ کے حکم سے کسی دینی مصلحت کی بناءپر یا کسی صالح شخص کی دعاءسے تو اگر خرق عادت معاملہ نبی کے لئے ہو تو وہ معجزہ ہے اور اگر صالحین کے لئے ہو تو وہ کرامت ہے اور یہ کرامت اگر حقیقتاً کسی ولی کے لئے ہوتو دراصل یہ بھی معجزات رسول کا ہی ایک رخ ہے جو آپ کی اتباع کی برکت سے حاصل ہوا۔
یہ امور خرق عادت یا علم کی نسبت سے ہوتے ہیں کہ نبی وہ کچھ سن لیتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں سن پاتا یا وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جو کوئی اورنہیں دیکھ پاتا نیند کی حالت میں یا بیداری میں یا وہ کچھ جان لیتاہے جو کوئی دوسرانہیں جان پاتا ولی اور الہام یا بندہ مومن کی فراست صادقہ کے اعتبارسے نیز یہ یا تو قدرت و تاثیر کی قبیل سے ہوتا ہے جیسے دعائے مستجاب یا کھانے میں برکت یا آگ کا نہ جلانا صحابہ کرام کے لئے اس نوع کی کرامات ثابت ہیں یا پھر کسی دینی ضرورت یا حجت کی نوع سے ہوتا ہے جیسے ام ایمن نے جب ہجرت کی تو ان کے پاس کھانے پینے کاسامان نہ تھا وہ بھوک سے نڈھال ہوکر موت کے قریب تر ہوگئیں تو اپنے سر کے اوپر کچھ محسوس کیاتادیکھاتو ڈول لٹکا ہوا تھا تو اس سے سیراب ہوگئیں نیز براءبن مالک قسم کھالیتے تو اللہ ان کی قسم پوری کرتا اور سعد بن ابی وقاص مستجاب الدعوات تھے اسلامی لشکر کے امیر علاءبن حجرمی اور ان لشکر بحرین میں سمندر کی سطح پر چلامگر سمندر نے ان سے کچھ تعرض نہ کیا جبکہ ان کے پاس کشتیاں بھی نہ تھیں جن پر وہ سوار ہوتے نیز ابومسلم الخولانی کو آگ میں ڈالا گیا مگر وہ انہیں جلانہ سکی(الفتاوی:279/11 از ابن تیمیۃ ) ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کائنات کا پیدا فرمایااور اس میں ایک محکم ومضبوط نظام جاری وساری کردیا جس میں نہ تو سقم ہے نہ ہی تعارض وتخلف اور اسباب کو مسببات اور نتائج اور ان کے مقدمات کے ساتھ مربوط کردیا اور ہر شئے کو کچھ صفات عطاءکیں آگ جلاتی ہے ،پانی سیراب کرتاہے،خوراک بھوک مٹاتی ہے اور پھر یہ کائناتی نظام عمدہ ومرتب ہے چاند،سورج ،ستارے،دن اوررات کا ہیر پھیر یہ سب اس کے بہترین نظام ہیں تواگر کبھی اسباب نتائج سے مربوط نہ ہوں اور یہ عادت مالوفہ سے ہٹ کر کچھ ہو اللہ کے حکم سے کسی دینی مصلحت کی بناءپر یا کسی صالح شخص کی دعاءسے تو اگر خرق عادت معاملہ نبی کے لئے ہو تو وہ معجزہ ہے اور اگر صالحین کے لئے ہو تو وہ کرامت ہے اور یہ کرامت اگر حقیقتاً کسی ولی کے لئے ہوتو دراصل یہ بھی معجزات رسول کا ہی ایک رخ ہے جو آپ کی اتباع کی برکت سے حاصل ہوا۔
یہ امور خرق عادت یا علم کی نسبت سے ہوتے ہیں کہ نبی وہ کچھ سن لیتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں سن پاتا یا وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جو کوئی اورنہیں دیکھ پاتا نیند کی حالت میں یا بیداری میں یا وہ کچھ جان لیتاہے جو کوئی دوسرانہیں جان پاتا ولی اور الہام یا بندہ مومن کی فراست صادقہ کے اعتبارسے نیز یہ یا تو قدرت و تاثیر کی قبیل سے ہوتا ہے جیسے دعائے مستجاب یا کھانے میں برکت یا آگ کا نہ جلانا صحابہ کرام کے لئے اس نوع کی کرامات ثابت ہیں یا پھر کسی دینی ضرورت یا حجت کی نوع سے ہوتا ہے جیسے ام ایمن نے جب ہجرت کی تو ان کے پاس کھانے پینے کاسامان نہ تھا وہ بھوک سے نڈھال ہوکر موت کے قریب تر ہوگئیں تو اپنے سر کے اوپر کچھ محسوس کیاتادیکھاتو ڈول لٹکا ہوا تھا تو اس سے سیراب ہوگئیں نیز براءبن مالک قسم کھالیتے تو اللہ ان کی قسم پوری کرتا اور سعد بن ابی وقاص مستجاب الدعوات تھے اسلامی لشکر کے امیر علاءبن حجرمی اور ان لشکر بحرین میں سمندر کی سطح پر چلامگر سمندر نے ان سے کچھ تعرض نہ کیا جبکہ ان کے پاس کشتیاں بھی نہ تھیں جن پر وہ سوار ہوتے نیز ابومسلم الخولانی کو آگ میں ڈالا گیا مگر وہ انہیں جلانہ سکی(الفتاوی:279/11 از ابن تیمیۃ ) ۔