• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
معنی ولی اور اس کے ارتقاءاور اس کے شرعی معنی کے بیان ووضاحت کے بعد کرامات کے متعلق اہل السنۃ کا موقف بیان کرنا ضروری ہے نیز یہ کیا صوفیاءنے اس موقف کا التزام کیا یا نہیں اور کیا ولایت وکرامت میں کچھ تعلق ہے؟۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کائنات کا پیدا فرمایااور اس میں ایک محکم ومضبوط نظام جاری وساری کردیا جس میں نہ تو سقم ہے نہ ہی تعارض وتخلف اور اسباب کو مسببات اور نتائج اور ان کے مقدمات کے ساتھ مربوط کردیا اور ہر شئے کو کچھ صفات عطاءکیں آگ جلاتی ہے ،پانی سیراب کرتاہے،خوراک بھوک مٹاتی ہے اور پھر یہ کائناتی نظام عمدہ ومرتب ہے چاند،سورج ،ستارے،دن اوررات کا ہیر پھیر یہ سب اس کے بہترین نظام ہیں تواگر کبھی اسباب نتائج سے مربوط نہ ہوں اور یہ عادت مالوفہ سے ہٹ کر کچھ ہو اللہ کے حکم سے کسی دینی مصلحت کی بناءپر یا کسی صالح شخص کی دعاءسے تو اگر خرق عادت معاملہ نبی کے لئے ہو تو وہ معجزہ ہے اور اگر صالحین کے لئے ہو تو وہ کرامت ہے اور یہ کرامت اگر حقیقتاً کسی ولی کے لئے ہوتو دراصل یہ بھی معجزات رسول کا ہی ایک رخ ہے جو آپ کی اتباع کی برکت سے حاصل ہوا۔
یہ امور خرق عادت یا علم کی نسبت سے ہوتے ہیں کہ نبی وہ کچھ سن لیتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں سن پاتا یا وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جو کوئی اورنہیں دیکھ پاتا نیند کی حالت میں یا بیداری میں یا وہ کچھ جان لیتاہے جو کوئی دوسرانہیں جان پاتا ولی اور الہام یا بندہ مومن کی فراست صادقہ کے اعتبارسے نیز یہ یا تو قدرت و تاثیر کی قبیل سے ہوتا ہے جیسے دعائے مستجاب یا کھانے میں برکت یا آگ کا نہ جلانا صحابہ کرام کے لئے اس نوع کی کرامات ثابت ہیں یا پھر کسی دینی ضرورت یا حجت کی نوع سے ہوتا ہے جیسے ام ایمن نے جب ہجرت کی تو ان کے پاس کھانے پینے کاسامان نہ تھا وہ بھوک سے نڈھال ہوکر موت کے قریب تر ہوگئیں تو اپنے سر کے اوپر کچھ محسوس کیاتادیکھاتو ڈول لٹکا ہوا تھا تو اس سے سیراب ہوگئیں نیز براءبن مالک قسم کھالیتے تو اللہ ان کی قسم پوری کرتا اور سعد بن ابی وقاص مستجاب الدعوات تھے اسلامی لشکر کے امیر علاءبن حجرمی اور ان لشکر بحرین میں سمندر کی سطح پر چلامگر سمندر نے ان سے کچھ تعرض نہ کیا جبکہ ان کے پاس کشتیاں بھی نہ تھیں جن پر وہ سوار ہوتے نیز ابومسلم الخولانی کو آگ میں ڈالا گیا مگر وہ انہیں جلانہ سکی(الفتاوی:279/11 از ابن تیمیۃ ) ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ صحیح واقعات صحابہ کے لئے ثابت ہیں اور ان سے زیادہ واقعات تابعین کے بعد رونما ہوئے اہل السنۃ بدعتیوں کی طرح کرامات کے منکر نہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس اللہ نے اسباب اور مسببات کو پیداکیا وہ اپنے بندوں کے لئے ان خرق عادت امور پر بھی قادر ہے لیکن صوفیاءصرف اس کے وقوع کو ہی صاحب کرامت کی افضلیت کی دلیل قرار دیتے ہیں حتی کہ اگر کسی فاجر کے ہاتھوں ہی کرامت کا صدور ہوتو وہ اسے شیخ طریقت کا لقب دے دیتے ہیں چنانچہ اس موضوع پر کچھ تحفظات ہونالازمی تقاضا ہے۔
1 صحابہ کے لئے اس طرح کی کرامات تکلف اور مطالبہ یا روحانی ریاضتیں کئے بغیر حاصل ہوئیں بلکہ اس طرح اللہ انہیں عزت دینا چاہتا تھا یا ان کی کسی دعا کا اثر تھا جس میں کوئی دینی مصلحت تھی یا توقیام حجت یاحاجات مسلمین کی تکمیل جیسا کہ نبی کے معجزات بھی ایسے ہی تھے جبکہ متاخرین کرامات کو طلب کرتے ہیں ان کے لئے تکلف اور روحانی ریاضتیں کرتے ہیں جن سے بسا اوقات ان کا جسم یا نفس بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے حالانکہ کرامات کو طلب کرنا اس کے حق میں توکوئی دلیل نہیں البتہ اس کے خلاف دلائل ہیں دراصل انہیں انسان سے پردہ غیب میں رکھاگیا ہے نہ کہ یہ ان تکلیفی امور سے ہے جن کا بندے کومکلف بنایا گیا ہے(الموافقات از شاطبی:283/2) ۔
یہ سب فلاسفہ سے متاثر ہونے کا انجام ہے کیونکہ وہ اس طرح کی خرق عادت امور کے حصول کے لئے اسی طرح معین ریاضتیں ضروری قرار دیتے ہیں ۔
2 اولیاءکی کرامات کا سبب ان کا ایمان وتقوی ہوتاہے اور اللہ کا ولی فرائض سنن ونوافل کا پابند ہوتا ہے اللہ کے حکم کوجانتا ہے اور اپنے علم پر عمل کرتا ہے توجس کا عقیدہ وعمل صحیح ہووہ اللہ کا ولی ہے اور اس بات کامستحق ہے کہ اللہ اگر چاہے تو اسے اعزاز بخشے ایسی شخصیت کے لئے کچھ خرق عادت ہوجانا مضر نہیں نہ ہی اس کے ذریعے دہوکے میں پڑا جاسکتا ہے نہ ہی وہ اس پر متکبر ہوتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو اس سے بھی افضل ہو اس کے لئے کرامت ثابت نہ ہوچنانچہ کر امت افضلیت کی دلیل نہیں ابوبکر صدیق کو یہ چیز حاصل نہ ہوسکی جبکہ دیگر کچھ صحابہ کو حاصل ہوئی بالکل اسی طرح ہر شخص ولی اللہ نہیں ہوسکتا جس کے لئے کچھ خرق عادت ہو جس طرح ہر وہ شخص جسے دنیاوی نعمتیں میسر ہوں تویہ اس کی کرامات شمار ہوتی ہیں بلکہ کبھی خرق عادت امر ایسے شخص کے لئے بھی ممکن ہوجاتا ہے جو فرائض کا تارک ہو اور بے حیائیوں کا مرتکب ہو تویہ ہاتھ جناتی شیاطین کی شرارت شمار ہوگی جن کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہو یاپھر اللہ کی طرف سے مہلت اور اس کی تدبیر شمار ہوگی یا پھر ایسی ریاضت (پریکٹس کرکے مشقت کا عادی بن جانا)شمار ہوگی جو کافرہندو سادھو اور بدھ بھکشو وغیرہ بکثرت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اتنے ایکسپرٹ ہوجاتے ہیں کہ گرم آلات ان پر اثر انداز نہیں ہوپاتے یا وہ کئی کئی روز کچھ کھائے پیئے بغیر گزار دیتے ہیں فاسق لوگ اسے ان کی کرامت سمجھتے ہیں ۔اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے ادوار میں اس طرح کے خرق عادات واقعات بہت کم ہیں جبکہ ان کے بعد بکثرت ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ابن تیمیہجواب دیتے ہیں کہ :"یہ ہر شخص کی ضرورت کے مطابق ہے جب کوئی کمزورایمان والا یا محتاج اس کا ضرورت مند ہو تو ا س کے پاس کچھ ایسا خرق عادت معاملہ ہوجاتا ہے جو اس کے ایمان کو قوی کردیتا ہے اور جو اس سے بڑھ کر ولی ہو تو وہ اپنے بلند رتبے کی بناءپر اس سے مستغنی ہوتا ہے*جیسے اس کرامت کا نہ ہونا مسلمان کے لئے مضرنہیں نہ ہی اس سے اس کے مرتبے میں کچھ فرق پڑتا ہے صحابہ سے اس طرح کے امور اس لئے صادر ہوئے کہ ان کے ذریعے اللہ نے انہیں اکرام بخشا یا کسی دینی ضرورت کی تکمیل کی پھر ان کے بعد ادوار میں اس طرح کے واقعات کا بکثر ت ہونا۔
حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ راہ ہدایت راہ کتاب وسنت جس پر صحابہ وتابعین گامزن رہے اس پر استقامت کا مظاہرہ ہی اصل کرامت ہے پھر اگر اللہ کسی مخلص مومن کو عزاز کسی کرامت سے نواز دے تو اسے چھپانا واجب ہے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہیئے اور اللہ کے اس احسان پر شکریہ ادا کرنا چاہیئے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اقطاب واتاد
جب ولی کا معنی قرآنی مراد سے علاوہ اپنی منشاءومرضی کے مطابق اختیار کیا گیا تو نتیجتاً صوفیاءنے اقطاب ،ابدال ،اوتادکی اصطلاحات وضع کرلیں جن پر اللہ کی طرف سے کوئی دلیل نہیں اور پھر ان اصطلاحات کو مقام مرتبے تک کے اعتبار سے ترتیب دیا جس طرح عیسائی اپنے دینداروں کو مراتب میں تقسیم کرتے ہیں۔ شماس(قسِّیس یعنی پوپ سے نیچے درجے کا پادری)سے ابتداءکرتے ہیں اور پوپ پر اختتام کرتے ہیں ۔ایسے ہی شیعہ ،نصیریہ ا ور اسماعیلیہ اپنے ائمہ کی ترتیب لگاتے ہیں جیسے سابق پھر تالی پھر ناطق پھر اساس (فتاوی ابن تیمیۃ:439/11)۔
صوفیاءنے بھی اسی طرح اپنے اولیاءکو درجات کے اعتبار سے مرتب کیا ہے :
1 قطب
2 اوتاد اربعۃ
3 ابدال ،یہ چالیس ہیں شام میں ....؟
4 النجباءیہ مخلوق کے بوجھ اپنے اوپر لاد لیتے ہیں
5 نقباء
ان کے نزدیک قطب کسے کہتے ہیں اس کے جواب میں تیجانیہ کابانی کہتا ہے:قطب درحقیقت حق (اللہ تعالیٰ) کی نیابت ہے خلق تک حق کی طرف سے کچھ بھی قطب کے حکم کے بغیر نہیں پہنچ سکتا(ھذہ ھی الصوفیۃ:125)۔
پھر صوفیاءکے ہاں قطب بھی دوطرح کے ہیں :
1 جو بشر ہو مخلوق ہو اس زمین پر موجود ہو۔اپنی موت کے وقت اپنا مقرب ترین بدل جانشین چھوڑتا ہے (عیسائیوں سے مکمل مشابہت)۔
2 وہ قطب جس کا کوئی قائم مقام نہیں بن سکتا وہ ایک چنیدہ روح ہوتا ہے جو اس کائنات میں میں ایسے سیر کرتا ہے جیسے روح جسم میں چلتی ہے(ھذہ ھی الصوفیۃ:125نیز تنبیہ الغبی کا حاشیہ:32)۔
ابوالعباس مریسی کے نزدیک مقام صدیقیت مقام قطبیت سے بھی فائق ہے (لطائف المنن:12)۔
اوتاد یہ چار افراد ہیں اور عالم کے چار ستونوں مشرق مغرب شمال جنوب میں ہوتے ہیں(التعریفات از جرجانی:39)۔
ابدال یہ سات افراد ہیں کسی ایک جگہ نہیں اپنا جسم چھوڑ کر زندہ ہیں(التعریفات از جرجانی:23)۔
ایک مسلمان ان خرافات کوپڑھ سن کر تعجب میں پڑجاتا ہے کہ جرجانی وغیرہ جو علم ومعرفت کا دعویٰ کرتے ہوں کس طرح یہ باتیں کرجاتے ہیں یہ تو عقیدہ اسلامیہ سے مزاحم پرخطر راستے ہیں یہ عقیدہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی اس کائنات میں تصرف کرتا ہے شرک اکبر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر اولیاءکو صدیقین کے وصف سے متصف کیا ہے جیسے صدیق اکبر اور سیدہ مریم ام عیسیٰ مگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی کھلی مخالفت کرنے لگے ہیں کہ :قطبیت مرتبہ صدیقیت سے بڑھ کر ہے۔ان کے کلام کا خلاف عقل بلاشبہ معلوم ہے کیونکہ عقل ان خرافات کو نہیں مان سکتی کہ اقطاب اوتاد عالم میں تصرف کرتے ہیں وہ چار ہیں یہ سات ہیں وہ کہاں سے یہ تعداد وتخصیص لے کر آئے ہیں اورکہاں سے قطب کو اللہ کا نائب قرار دیتے ہیں کیا اللہ عام بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ ہے جو نائب کا محتاج ہوسبحان اللہ یہ بہتان وافتراءپردازی وبکواس ہے۔
(فتاویہ بزاریہ میں ہے کہ :جو کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہوتی ہیں علم رکھتی ہیں وہ کافر ہے ۔غایۃ الامانی از شکری آلوسی :66/3یہاں اولیاءاوتاد واقطاب سے متعلق شیخ صنع اللہ حنفی نے بہترین کلام کیاہے ملاحظہ ہو:66/2)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بکواسیات اور نامعقولیات
یہ روایت صحیح ہویا نہ ہو حقیقت یہی ہے کہ صوفیت میں عام رجحان عقل وعقلانیت سے دوری ہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ احوال اور مقامات تک پہنچنے کے لئے عقل زائل کرنا ضروری ہے اسی لئے وہ اپنے مشائخ کے لیے ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جن کا عقل سے بالکل واسطہ نہیں ہوتا جبکہ عقل معرفت علوم میں شرط اول ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے آنکھ کے لئے بصارت ضروری ہے پھر اگر اس کے ساتھ ایمان وقرآن کا نور بھی حاصل ہوجائے تو یہ نور علی نور ہے جبکہ عقل کو بالکل ہی ترک کردینا تو حیوانیت وبہیمیت ہے ۔
(ملاحظہ ہو فتاوی ابن تیمیۃ:338/3 نیزابن تیمیہ نے دس جلدیں صرف اس عنوان پر لکھی ہیں کہ شریعت منقولہ اور حقیقت معقولہ میں بالکل فرق نہیں )کوئی مسلمان مکلف اسی وقت بنتا ہے جب وہ عاقل ہویہ بھی علم ہے لیکن صوفیاءہے کے ہاں سب ممکن ہے سب چلتا ہے خواہ کتنا ہی عجیب ہو کیونکہ ان کے مشائخ کی کسی بات کارد نہیں کیا جاسکتا اور اگر رد کریا تو پھر وہ حجاب میں آجاتا ہے اس طرح کے معاملات نہیں سمجھ سکتا اسی لئے ان کے قصے وحکایات یہود ونصاری کے لئے باعث مذاق ہیں جیسا کہ آلوسی نے لکھا ہے(محاکمۃ الاحمدیین:490)۔
چونکہ سقوط بغداد کے بعد لوگ اسباب کو مسببات کے ساتھ مربوط کرنے سے عاجز آچکے تھے لہٰذا تصوف ہی وہ واحد راہ بچی جو اس مشکل سے پیچھا چھڑاسکتی تھی تو لوگ بکثرت صوفیاءکے پاس جانے لگے ان سے تبرک حاصل کرنے لگے اور شہروں میں صوفیاءکی بہتات ہوگئی (ظھرالاسلام از احمد امین:219/4)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کوئی ہمیں جھوٹا اور ظالم نہ سمجھے صوفیاءکے یہ نامعقول قصے شعرانی کی کتاب "الطبقات الکبریٰ"سے ماخوذ ہیں وہ ان قصوں کو نقل کرتا ہے اور اس پر بالکل تنقید نہیں کرتا کیونکہ اس کے عقیدے کے مطابق یہ سب صحیح ہے بلکہ مجذوبوں کے قصے بیان کرکے انہیں بنظر تحسین دیکھتاہے حالانکہ یہ کہاجاتا ہے کہ یہ قصے ان کے بارے میں بنائے ہوئے ہیں لیکن شعرانی انہیں نقل کرتے وقت ان کا انکار نہیں کرتا اس کے دور سے آج تک ان قصوں کو پڑھنے والوں میں سے کو ئی بھی نہیں کہتا کہ ہم ان قصوں کو نہیںمانتے انہیں ہماری کتابوں سے ہٹایا جائے یہی مشکل ہے کہ لوگ انہیں روا سمجھتے ہیں اور عملاً ان کی تصدیق کرتے ہیں ذیل میں مختلف ادوار سے لے کر مؤلف کے دور کے 10ویں صدی ہجری تک کے چند نمونے درج ہیں:
1 شیخ احمد رفاعی کے تذکرے میں شعرانی لکھتا ہے :جب حق تعالیٰ اس پر تعظیماً تجلی ڈالتا تو وہ پگھل جاتا حتی کہ پانی کا ٹکڑا سا بن جاتا پھر اسے لطف پالیتا پھر وہ آہستہ آہستہ جمنا شروع ہوجاتا اور واپس جسم بن جاتا اور پھر کہتا کہ :اگر اللہ میرا رب نرمی نہ کرتا تو میں تمہاری طرف نہ پلٹتا(الطبقات:143/1)۔
2 شیخ ابوعمرو بن مرزوق القرشی کے بارے میں لکھتا ہے :یہ عربی شیخ تھا جب کوئی عجمی بولنا چاہتا یا عربی عجمی بولنا چاہتا تویہ اس کے منہ میں تھوک دیتا اور وہ اس کی زبان بولنا شروع کردیتا گویا اس کی اصل زبان وہی ہے(الطبقات:154/1)۔
3 تقی الدین سبکی کہتے ہیں :میں محفل سماع میں گیا وہاں شیخ رسلانی تھے وہ ہوا میں تیرتے پھرآہستہ آہستہ نیچے آجاتے حتی کہ جب ان کی کمر زیتون کے درخت پر ٹھہرجاتی جو خشک ہوچکاہوتا اچانک سرسبز ہوجاتا اور پھل دینے لگتا اور اس سال زیتون حمل سے بھی ہوگیا(الطبقات:152/1)۔
4 ابوالعباس احمد ملثم کے متعلق شعرانی کہتا ہے :لوگوں کا اس کی عمر میں اختلاف تھا بعض کہتے یہ یونس کی امت کا ہے اور بعض کہتے کہ اس نے امام شافعی کو دیکھا ہے اس سے اس بارے میں پوچھاگیا تو کہنے لگا میری عمر اس وقت تقریباً 400سال ہے ۔اہل مصر اپنی لڑکیوں کو اس کے ساتھ خلوت وجلوت سے منع نہیں کرتے تھے(الطبقات:157/1)۔
5 شیخ ابراہیم جعبری کی ایک مریدہ ان کا وعظ سنتی جبکہ وہ مصر اور سوڈان کے پرے ہوتی تھی(الطبقات:203/1)۔
6 حسین ابوعلی کامل عارفین میں سے تھا بہت سی شکلیں رکھتا تھا کبھی فوجی ہوتا توکبھی درندہ توکبھی ہاتھی (واہ اللہ کے لطائف) (الطبقات:87/1)۔
7 ابراہیم بن عصفیر:اس پر اکثر حال آتے یہ جنازہ کے آگے چلتا اور گالیاں دیتا اور اول فول بکتا اسکے بڑے عجیب حال تھے اور مجھ سے محبت کرتا تھا میں اس کی زیر برکت ونظرتھا(الطبقات:140/1)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عقل کے زوال کی انتہاءصوفیاءشطح یعنی بکواس کہتے ہیں وہ یہ کہ ان کاکوئی شیخ نامعقول یا کفریہ یا زندیقیہ باتیں شروع کردے۔صوفیاءکہتے ہیں کہ اس نے حالت جذب یا حالت مستی میں ایسا کہا اور ہوش کی حالت میں وہ ان سے رجوع کرلیتا ہے شطح کی تعریف میں کہا جاتا ہے ایسا کلمہ جس پر رعونت طاری ہو اور ایسا دعویٰ جو عارفین سے حالت اضطرار واضطراب میں صادر ہو(شطحات الصوفیۃ از بدوی:22/1)۔
ذیل میں ان کی بکواسیات کے کچھ نمونے درج ہیں :
ابویزید بسطامی کہتا ہے:جہنم مجھے دیکھ کر سرد پڑجاتی ہے میں مخلوق کے لئے رحمت ہوں اور آگ جہنم کو تومیں اپنی پلک جھپکا کر بجھاسکتا ہوں(تاریخ التصوف از عبدالرحمن بدوی)۔
دسوقی علی الاعلان کہتاہے:جہنم کے دروازے اس کے ہاتھ میں ہیں اور جو اس کی زیارت کرے گا وہ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے گا(ھذہ ھی الصوفیۃ:121)۔
ابوالحسن شاذلی دس سمندروں کا مجموعہ ہے پانچ انسانی ہیں:محمد ،ابوبکر،عمر،عثمان،علی ۔بقیہ پانچ روحانی ہیں :جبرائیل،میکائیل،اسرافیل،عزرائیل اور روح(لطائف المنین:57)۔
اور احمد بن سلیمان الزاہد کی سفارش کو اللہ نے اس کے تمام ہم عصر کے متعلق قبول کرلیا(الطبقات:82/2)۔
ان کی بکواسیات کے یہی چند نمونے کافی ہیں ان کی بکواسیات اس لائق نہیں کہ ان پر تبصرہ کیا جائے اسلام کا مضبوط قاعدہ ہے کہ ہم ظاہر پر حکم لگاتے ہیں توکسی کے لئے گنجائش نہیں کہ وہ ان کے اقوال کے باطن کو ان کے ظاہر کے برعکس قرار دے اسلام کو اس کی بکواس سے محفوظ رکھنا واجب ہے بلکہ یہ شرک ہے کیونکہ جو جہنم وجنت میں تصرف کا مدعی ہو بالفاظ دیگر وہ الوہیت کا مدعی ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ہمسر ہونے کا دعویدار ہے ۔ابن عقیل فرماتے ہیں:ایسا کہنے والا خواہ کوئی ہو زندیق ہے واجب القتل ہے(تلبیس ابلیس:343)
پھر جب جنت دسوقی کے قبضے میں ہے تو باطل پرست سوئے رہیں مشقت کرنے ،تھکنے ،علم حاصل کرنے ،عبادت کرنے یا جہاد کرنے کی کیا حاجت ہے محض شیخ کی زیارت اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دے گی کیا یہ بخشش کا نعم البدل نہیں ؟البتہ ہم اللہ سے بخشش کے خواستگار ہیں ان کے اقوال نقل کرنے پر بھی استغفار کرتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صوفیاءکی عملی بدعات
پسماندہ تربیت
صوفیاءنے اپنے مریدوں کی تربیت کے ایسے قواعد بنائے ہیں جن کا مقدمہ مرید کو شیخ کے سامنے بالکل ذلیل کردینا ہے کہ بیچارا مرید ایک ڈول کھینچنے والا آلہ بن جاتا ہے اس کی اپنی کوئی شخصیت نہیں رہتی جو اس سے کہہ دیاجائے وہ اسے بلاسوچے سمجھے دہراتا رہتا ہے بلکہ یہ اندھی چال ہے اور جب یہ پسماندہ تربیتی مرحلہ ختم ہوتاہے وہ مرید کو ایک معین لباس ،معین ڈھنگ ،معین شیخ اور معین طریق کا گرویدہ بناچکے ہوتے ہیں اس کے چند معروف قاعدے درج ذیل ہیں:
- شیخ کے سامنے ایسا بن جا جیسا غسل دینے والے کے لئے میت۔
- اعتراض نہ کر بھٹک جائے گا۔
- جس نے شیخ سے کہا کیوں وہ کامیاب نہ ہوا۔
- جس کا کوئی شیخ نہ ہو تو اس کا شیطان شیخ ہوتا ہے
غافلین کی اکثریت شیخ کے پیچھے چلتے ہیں ان کے ہاتھوں کے بوسے لیتے ہیں ان سے سہمے رہتے ہیں جب بھی وہ انہیں دیکھیں جب تک شیخ نہ بولے بولتے نہیں اس کی ہربات مانتے ہیں اس کی جوتیاں اٹھاتے ہیں لوٹا اٹھاتے ہیں ۔یہ سب فلسفہ وہ اپنی کتابوں میں "آداب مریدین" کے عنوان سے لکھتے ہیں کہتے ہیں:اس کے آداب میں شیخ کی ظاہراً وباطناً تعظیم کرنا بھی ہے اس کے دشمن کے ساتھ مت بیٹھ اس کے دوست سے عداوت نہ رکھ اور اپنے دل میں آنے والا کوئی خیال اس سے مت چھپا (جس طرح عیسائی چرچ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں )اس کی اجازت کے بغیر نہ سفرکر نہ شادی کر ان سے سب سے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ مرید پر شیخ سے سوال کرنا حرام ہے کیونکہ بسا اوقات شیخ جاہل ہوتا ہے اسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے (اہل السنۃ کے نزدیک آداب تعلیم و تعلم صوفیاءکے آداب سے یکسر مختلف ہیں)تربیت کا یہ انداز نیا نہیں قشیری آداب سے متعلق کہتا ہے:جس کسی نے کسی شیخ کی صحبت اختیار کی پھر اپنے دل میں اس پریہ اعتراض کیا تو اس نے عہد صحبت کو توڑ ڈالااس پر توبہ کرنا واجب ہے مشائخ کہتے ہیں کہ مشائخ کے حقوق سے توبہ نہیں کی جاسکتی(ھذہ ھی الصوفیۃ:101)۔
شیخ نجم الدین شیخ ابوالعباس مریسی کے پیچھے قبلہ رخ نماز پڑھنے میں شرم محسوس کرتا تھا چنانچہ اپنا چہرہ قطب کی طرف پھیر لیتا لیکن ابوالعباس متواضع تھا وہ کہتا میں خلاف سنت عمل سے خوش نہیں ہوتا(لطائف المنن:74)۔
گویا صرف خلاف سنت ترک قبلہ کا اعتبار نہیں؟اور احمد شریف السنوسی اپنے چچا محمد المہدی سے شدید اعتقاد رکھتااور اس سے اوپر سوائے محمدکے اور کسی کو نہ سمجھتا تھا(حاضر العالم الاسلای :162/2 از شیکب ارسلان)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تربیت کا یہی غلط طریقہ باپوں میں بھی منتقل ہوگیا وہ بھی اپنی اولاد کی جبری تربیت کرنے لگے جس سے بچے کی اپنی شخصیت کمزور پڑجاتی ہے۔اس انداز تربیت پر ہمارا تبصرہ درج ذیل ہے:
1 مرید کی تربیت کے یہ آداب انتہائی مکروہ ہیں ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ شیخ کی دین سے جہالت پر پردہ ڈالا جائے اور احترام کے نام پر اس کے دل ودماغ کو مکمل کنٹرول میں کرلیا جائے اور صوفیاءکا یہ کہنا کہ علم سینوں میں ہوتا ہے کتابوں میںنہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ طلباءکو کتب فقہ وحدیث سے روکا جائے کیونکہ اگر اس نے انہیں پڑھا تو اس کی عقل کا بند دروازہ کھل جائے گا اور شیخ کے دجل وفریب سے آگاہ ہوجائے گا۔
2 رسول اللہ نے اپنے صحابہ کی ایسی کمینی تربیت نہیں کی بلکہ ایسی تربیت کی جو انہیں قائد اور مرد میدان بناتی وہ اللہ کے رسول سے سوال کیا کرتے کیا یہ وحی ہے یا مشورہ ورائے اگر وہ مشورہ ورائے ہوتی تو وہ بھی اپنا مشورہ پیش کردیتے جیسا کہ سعد بن معاذ نے غزوہ خندق میں کیا جب رسول اللہ نے قبیلہ بنو غطفان سے مصالحت کرنی چاہی نبی اپنی حکیمانہ قیادت کے باوجود ان کی طرف توجہ دیتے اور ان سے صورتحال کے متعلق تبادلہ خیال کرتے اور ان سے یہ نہ کہتے کہ تم مجھ پر کیوں کر رائے پیش کرسکتے ہوجبکہ میں جملہ مخلوق کا سردار ہوں اور رب العالمین کانمائندہ ہوں؟اور صحابہ بھی رسول اللہ سے باوجود شدید محبت کے آپ کے لئے کھڑے نہ ہوتے نہ آپ کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ بھی انسان کی تعظیم میں مبالغہ کوناپسند کرتے ہیں رسول اللہ کو اپنے صحابہ کی اسی حکیمانہ تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ اول ابوبکر صدیق لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر میں غلط کروں تومجھے سیدھا کردو اور فرماتے اگر میں اللہ کی کتاب میں اپنی رائے پیش کرنے لگوں تو نہ آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا اورنہ ہی زمین میرا بوجھ برداشت کرے گی ۔جبکہ صوفیہ کہتے ہیں :کہ شیخ کا ہر طریقہ تسلیم کیاجائے جبکہ شریعت کے مقابل کون سا طریقہ ٹھہرسکتا ہے؟عمر بن خطاب دستوں کے قائدین اور علاقوں کے گورنروں کو لکھتے ہیں کہ:"لوگوں کو خوشامدی بناکر انہیں ذلیل مت کرو" کیونکہ جو قوم پست ہو اس میں خیر نہیں ہوتی جیسا کہ قرآن کریم بنی اسرائیل کا قصہ بیان کرتا ہے کہ وہ فرعون کے غلام تھے جب موسیٰ نے انہیں عزت واکرام کا راستہ دکھایا تووہ کہنے لگے :"تواور تیرا رب جاکر لڑو ہم تو یہاں پسرے بیٹھے ہیں (سورۃ المائدہ:24) "
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تابعین بھی اسی تربیت گاہ میں رہے چنانچہ وہ ناپسند کرتے تھے کہ ان کے شاگرد ان کے پیچھے چلیں(کتاب العلم از زھیر بن حرب:146)۔ اور کہتے کہ تابع اورمتبوع دونوں کے لئے باعث فتنہ ہے(کتاب العلم:138)۔
صحابہ سے معروف نہیں کہ وہ رسول اللہ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے ہیں ایسابہت نادر ہے بعض علماءاسے مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں جیسے امام مالک ،امام سلیمان بن حرب کہتے ہیں یہ چھوٹا سجدہ ہے ۔انس بن مالک سے مروی ہے کہتے ہیں :ہم نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم ایک دوسرے سے سہما کریں آپ نے فرمایانہیں (سنن ابن ماجہ کتاب الادب:1220/2)۔
3 ہزاروں بیوقوں کا شیوخ کے پیچھے چلنے کی وجہ حقیقت سے فرار ہے ۔یا ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی مشکلات حل کرائیں ،میرے خیال میں یہ شرعی احکامات سے دوری کا نتیجہ ہے خاص کر تنگی اور تکلیف کی حالت میں ،بعض لوگ محض شوقیہ طور پر عجیب وغریب واقعات کو سچا مان لیتے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ جھوٹے ہوتے ہیں(کیف تفکر از منیر بعلبکی)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
علم حدیث اور صوفیاء
صوفیاءکے لئے خاص کر متاخرین صوفیاءکے لئے علوم شریعت خاص کر علم فقہ وحدیث کا اہتمام بڑا ہی مشکل ہے کیونکہ ان علوم سے ان کی جہالت آشکارا ہوجائے گی اور جب یہ فقہ وحدیث ان مریدین کے دل ودماغ میں سماگئے تو کوئی ان کی سیوا کرنے والا نہیں بچے گا جبکہ متقدمین صوفیاءعلوم شرعیہ کا اہتمام کرتے تھے لیکن یا توان کی شخصیت دورنگی ہوتی تھی کہ فقہ واصول کے بھی عالم ہیں لیکن جب صوفیت کے متعلق گفتگو کریں تو شخصیت ہی بدل جاتی یاپھر اچھا خاصاعلم حاصل کرنے کے بعد اسے ترک کرچکا ہوگا کہ علم عمل کے لئے وسیلہ ہے جب عمل کے میدان میں قدم رکھ دیا توعلم کی ضرورت نہ رہی یہ مغالطہ ہے کیونکہ مسلمان اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک علم کا محتاج رہتا ہے احمد بن ابوالحواری نے اپنی ساری کتابیں سمندر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ تم بہترین دلیل تھیں (یعنی عمل کے لئے مگر چونکہ اب صوفیانہ عمل ہے اس لئے تمہاری ضرورت نہیں۔نعوذ باللہ من ذلک)ابوحامد الغزالی علوم شریعت سے دور ہوکر علم کشف جیسے صوفیانہ رجحان کو جائز قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے:جان لے کہ صوفیاءالٰہیت کی طرف مائل ہوئے ہیں نہ کہ تعلیم کی طرف اس لئے کہ وہ نہ علم حاصل کرتے ہیں نہ ہی اس کے شوقین ہوتے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ریاضتیں اور اللہ کی طرف دھیان اور مال و اولاد اور علم سے کٹ جانا اور صرف فرائض ورواتب پر اقتصار کرنا ہی راحج طریق ہے وہ نہ قرآن پڑھتے ہیں نہ حدیث لکھتے ہیں ۔
 
Top