• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ابن الجوزی غزالی کے اس کلام پر لکھتے ہیں:اس کلام کا ایک فقیہ سے صادر ہونا مجھ پر بڑا گراں ہے اس کی قباحت مخفی نہیں یہ درحقیقت بساط شریعت کو لپیٹ کررکھ دیتا ہے (تلبیس ابلیس:323)۔
حدیث سے اس صوفیانہ اعراض کے نتیجے میں انہوں نے ہر طرح کی صحیح وسقیم سچی جھوٹی احادیث اپنی کتابوں میں بھرمار کردی احیاءالقلوب اور الرسالۃ اور حقائق التفسیر بعض احادیث ضعیفہ وموضوعہ جن سے وہ اپنے مذہب کو ثابت کرتے ہیں درج ذیل ہیں :
1 بعض عارفین نے فرمایا:معرفت کا اول حیرت وآخر حیرت ہے دلیل میں جھوٹی حدیث پیش کی کہ :زدنی فیک تحیّراً(یعنی)اپنی ذات متعلق مجھے مزید حیران کردے"۔ابن تیمیہ فرماتے ہیں :جھوٹی حدیث ہے رسول اللہ فرماتے تھے :رب زدنی علماًاے پروردگار مجھے علم میں زیادہ کر(فتاوی:384/11)۔
2 محمد بن طاہر مقدسی نے مسئلہ سماع میں اس اعرابی کی حدیث ذکر کی ہے جس نے درج ذیل ابیات میں نبی کی تعریف کی ہے :میرے جگر کو خواہش کا سانپ چاٹ گیا اس کا نہ توکوئی معالج ہے نہ ہی دم جھاڑکرنے والاسوائے اس محبوب کے جن سے مجھے شغف ہے ان کے پاس میرا علاج اور تریاق ہے اور وہ محمد ہیں جب انہوں نے ان ابیات کو سنا تو وہ حاضر ہوگئے حتی کہ آپ کے کندھے سے چادر بھی گرپڑی۔ابن تیمیہ فرماتے ہیں :یہ جھوٹی اور موضوع حدیث ہے(فتاوی:563/11)۔
3 ایک حدیث یہ بھی ہے جسے انہوں نے روایت کیا ہے کہ :"اگر تم پتھر سے حسن ظن رکھو تو وہ بھی نفع دے "یہ شرکیہ کلام اور صریح بہتان ہے ہم نے یہ حدیث بعض صوفیاءسے خود سنی ہے وہ اس کے معتقد ہیں ۔
4 اون کالباس پہنو اور خوب عمل کرو اور آدھاپیٹ خوراک کھاؤ تم آسمانی بادشاہت میں داخل ہوجاؤگے ۔اس حدیث کو ابوطالب المکی نے قوت القلوب میں ذکر کیا ہے (التصوف از زکی مبارک:44/1)۔
کیا اللہ کے رسولایسا کلام کرسکتے ہیں یہ درحقیقت اپنے عقیدے کہ اون کالباس پہننا چاہیئے کو ثابت کرنے کے بنائی گئی ہے ۔ان کی بیان کردہ احادیث کے چند نمونے ہیں جن سے ان کی کتابیں بھری پڑیں ہیں جیسے قشیری کی کتاب الرسالۃ اس میں اس نے صحیح ،ضعیف اور موضوع ہر طرح کی احادیث روایت کی ہیں اور فضل بن عبس الرقاشی سے روایت کرتا ہے جبکہ وہ احادیث میں بالکل کمزوراور نااہل تھا (فتاوی:680/10)۔
مزید عجائب کے لئے احیاءالقلوب ملاحظہ ہو جس کے مطالعے سے معلوم ہوجائے گا کہ انہیں علم وفقہ وحدیث سے کچھ لگاؤ نہیں ہے بلکہ یہ سب انہوں نے دیوار پر دے مارا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہڈ حرامی اوربگاڑ
ابتداءً صوفیاءعبادت وریاضت میں واقعی سچے تھے اگرچہ ان کے بعض اعمال خلاف سنت بھی تھے جیسا کہ ہم ذکر کرآئے ہیں اس کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے تکیے اور مسندیں بنائیں اور عیش وآرام کی دوکانیں(آستانیں)کھول کر بیٹھ گئے محنت مزدوری سے جان چھڑا کر کھانے پینے اور رقص و سرور اور ڈھول ڈھمکے میں مست ہوگئے اور ہر ظالم وفاجر سے دنیا کی بھیک مانگنے لگے بشر المریسی کی بھوک اور سری کا خوف خداوندی اور جنید کی مشقت کو کنارے لگادیا(ملاحظہ ہو تلبیس ابلیس)جبکہ محض عبادت اور تنہائی کی غرض سے بھی اس طرح کے آستانے (یعنی انسانی آبادی سے الگ جانے تنہائی یا انسانی آبادی میں رہتے ہوئے بالکل الگ تھلگ جگہ جس طرح راہب کی کٹیا ہوتی ہے)بناکر ان میں تکیے لگادینا بدعت ہے کیونکہ مسجدیں بناکر ان میں تکیے لگادینا یہ عیسائی راہبوں کی کٹیاؤں سے مشابہت ہے ۔بعض صوفیاءسے جب کہاجاتا کیا تو اپنا جبہ بیچے گا تو وہ کہتا ہے اگر شکاری اپنا ہتھیار بیچ دے توپھر شکار کیسے کرے گاامام محمد حسن الشیبانی صوفیاءکے اس طرز عمل سے بڑے حیران ہوتے کہ کیسے یہ لوگوں کے ہاں حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر کھانے جاتے ہیں۔
صوفیاءیہ بھول گئے یا بھولنے کا ڈرامہ کرنے لگے کہ اسلام اس طرح ہڈ حرامی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کونے کھدروں میں جانے سے منع کرتا ہے اور زھد یہ ہے کہ لوگوں سے لاتعلق ہوجایاجائے اور ان سے ان کے اموال میں سے کسی بھی شئے کا سوال نہ کیاجائے کیونکہ رسول اللہ نے سوال کرنے سے منع کیا ہے اور محنت مزدوری کاحکم دیاہے:
ارشاد فرمایا:اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے (نسائی باب الزکاۃ:60/3)۔
نیز فرمایا:"اگر کوئی لکڑیوں کا گھٹااپنی پیٹھ پر رکھ کر اسے بیچ آئے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے بھی دے"(نسائی باب الزکاۃ:93/3)۔
سعید بن مسیب تیل کے تاجر تھے اورابوحنیفہ کپڑا فروخت کرتے تھے یہ بڑے علماءزہاد اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے
ابتداءً صوفیاءعورتوں سے شادی نہ کرتے اور اس پر سختی سے کاربند رہتے مگر بعد کے صوفیاءعورتوں سے میل جول کرنے لگے اور مریدہ کوبھی طریقت میں اور ذکر کی مخلوط محافل میں شامل کرنے لگے کیونکہ باطنیت کے نظریہ اباحیت سے بہت قریب تھے کیونکہ نظریہ وحدت الوجود جو بعد کے صوفیاءمیں مکمل پھیل چکا تھا وہ اس اباحیت کی راہ سمجھاجاتا ہے کیونکہ ثواب وعقاب کا تصور تو ناممکن ہوگیا تو اچھائی کی صورت میں کون ثواب دے گا اوربرائی کرنے پر کون سزا دے گا؟جبکہ انسان خود ہی اللہ کا جزءہے ۔یہ اخلاقیات کی جڑیں تک اکھاڑ پھینکنا ہے اسی لئے بعض صوفیاءاخلاقی گراوٹ والی اور انتہائی گھٹیا زندگی گزارتے تھے (التصوف از زکی مبارک :155/1نیزالملل والنحل از ابن حزم :226/4)۔
بعض معتدل صوفیاءاس صورتحال سے ناخوش تھے جیسے شیخ ابوسعید اعرابی اپنی کتاب "طبقات انسان"میں کہتا ہے:اس علم کے متعلق کلام کرنے والوں میں آخری جنید تھے ان کے بعد ایسے لوگ رہے جن کے تذکرے سے شرم آتی ہے(الحضارۃ الاسلامیہ از آدم متز:39/2)۔
نیز سہل التستری کہتاہے :300ہجری کے بعد ہمارے اس علم کے متعلق کلام کرنا جائزنہیں کیونکہ پھر ایسے لوگ آئے جولوگوں کے سامنے بنتے تھے (الحضارۃ الاسلامیہ از آدم متز:39/2)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سماع اور ذکر
ابتداءً صوفیاءمحفل سماع میں حاضر ہوتے جو کسی ایک خاص مکان میں منعقد ہوتی اور ایک اچھی آواز والا کچھ موسیقی کے ساتھ گاکر ایسے اشعار سناتا جس نے دل نرم ہوجاتے اور ان میں زہد کی ترغیب ہوتی پھر نرمی کرتے ہوئے وہ غزل اور لیلیٰ اور سعدیٰ کے تذکرے گانے لگے اور کہتے یہ کہ ہماری ان سے مراد اللہ کے رسول ہیں یہ گانے مطلق اور غیر معین محبت کا ہیجان پیدا کرتے چنانچہ ہر ایک اپنے دل کی ماننے لگا خواہ ملک وہ قوم کی محبت ہو یا عورتوں سے عشق۔
اس طرز کو انکے لئے مباح قرار دینے والے ابوحامد الغزالی اور ابوعبدالرحمن السلمی وغیرہ ہیں ان کے دلائل نہایت کمزور تھے ان پر بہت سے علماءنے رد کیا جیسے ابن جوزی اور ابن قیم نے اغاثۃ اللہفان میں خوب رد کیا ۔حقیقت اپنی جگہ ہے کہ امت مسلمہ ایک معتدل امت ہے اور اس گانے کو وہی حلال قرار دیتاہے جو اسلام کو صحیح طور پر سمجھ نہ پائے ۔
معاملہ صرف ان قصائد تک نہ رہا بلکہ ڈھول ڈھمکے کے ساتھ رقص کرتے ہوئے اللہ کا ذکر کرنے تک جاپہنچا جب "حضرۃ (مراد اجتماعی محفل بناکر رقص کرتے ہوئے اللہ کا ذکر کیا جائے)منعقد ہوتی توپہلے آہستہ آہستہ لفظ اللہ کا بیک وقت ورد کیا جاتا لیکن جوں جوں رقص میں تیزی آتی اور شیطان ان کے سروں پر منڈلانے لگتا ان کی چیخیں انتہائی بلند ہوجاتیں اور لفظ اللہ کے بجائے لفظ ھوکا ورد ہونے لگتا اس کے بعد سوائے شور شرابے کے کچھ سنائی نہ دیتا ناس شہوانی چیخ وپکار میں عورتیں اوربچے بھی شامل ہوتے ۔درحقیقت یہ یہود کی اتباع ہے ان کے عہد قدیم کے گانوں میں یہ بھی ایک ہے کہ :"صہیونی بچے اپنے بادشاہ کو خوش کریں اور دف کی تھال اور عود کی بو میں رقص کرتے ہوئے اس کانام لیں رباب کے سُروں پر اس کی تسبیح کرو،بلند جھنکار پر اس کی تسبیح کرو"(ھذہ ھی الصوفیۃ:143)۔
قاضی عیاض کی" ترتیب المدارک "میں ہے کہ :تنیسی کہتا ہے :ہم امام مالک بن انس کے پاس تھے ان اردگرد ان کے شاگرد تھے کہ اہل نصیبین میں سے ایک شخص کہنے لگا :ہمارے ہاں کچھ لوگ ہیں جنہیں صوفیاءکہا جاتا ہے وہ کھاتے بہت ہیں اور پھر قصائد گاتے ہیں پھر کھڑے ہوکر رقص کرنے لگتے ہیں؟امام مالک نے کہا کیا وہ چھوٹے بچے ہیں ؟اس نے کہا نہیں امام صاحب نے فرمایا:کہ وہ پاگل ہیں اس نے کہانہیں وہ مشائخ اور باشعور ہیں امام صاحب فرمانے لگے :میں نے کسی مسلمان کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ ایسا کرتا ہو﴿ترتیب المدارک:5/4﴾
ان کے ان حرکتوں کی وجہ یہ بھی ہے کہ نفس انسانی اپنی خواہشات کو دین ،ذکر ،اور حضرہ (محفل سماع ورقص)کے نام سے چھپاتا ہے کیونکہ اگر کبھی اس کا پول کھل بھی جائے تب وہ نافرمانی ہی کہلائے گی جو کہ بدعت سے کم خطرناک ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ذاکرین کو اطمینان قلب ،خشوع وخضوع اور سری ذکرکرنے کی صفات سے موصوف کیا ہے سلف صالحین جب قرآن سنتے تو ان کے دل دہل جاتے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے جبکہ یہ رقص وطرب اس کے برعکس ہے اللہ نے جب عبادت کاحکم دیا تویہ نہیں فرمایا کہ جانوروں کی طرح کھاؤ پھر رقص کرنے لگو بلکہ یہ رقص جسے وہ ذ کر کہتے ہیں اور اسی طرح کی تمام امور عقل اور دین دونوں اعتبار سے قبیح ترین ہیں بلکہ یہ تمام مسلمانان عالم کے لئے باعث شرم ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صوفیاءاور جہاد
ابتدائی مسلمانوں کو جہاد کی تربیت دی جاتی تھی و باطل سے ٹکرانے اور حق کا دفاع کرنے اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرنے کے لئے ہمہ تیار رہتے تھے اس طرح وہ اللہ کے احکامات نافذ کرتے تھے اگر شر کو خیر سے دور نہ کیاجائے توزمین بگاڑ کا شکار ہوجائے سلف صالحین سرحدوں کا پہرہ دیتے تھے تاکہ فضیلت جہاد کوحاصل کرسکیں مثلاً امام احمد بن حنبل اور امام عبداللہ بن مبارک انہوں نے فضیل بن عیاض کو لکھا اور اسے سخت سست کہا کہ وہ مکہ میں عبادت میں مشغول ہے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت میں شریک نہیں ہوتا یہ قصہ مشہور ومعروف ہے تو اس اہم موضوع سے متعلق صوفیاءکا کیا نظریہ ہے ؟
1 ابوحامد الغزالی نے "احیاءالعلوم الدین"اس وقت لکھی جب صلیبی شام پر قابض تھے اس نے اس میں اس اعمال قلوب سے متعلق سب کچھ لکھا مگر جہاد کے متعلق ایک سطر بھی نہیں لکھی ۔
2 جہاد سے جان چھڑانے کے لئے اپنی عادت کے مطابق وہ ایک موضوع اور ضعیف حدیث پیش کردیتے ہیں کہ "ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف پلٹ آئے ہیں "اور جہاد اصغر سے قتال فی سبیل اللہ اور جہاد اکبر سے جہاد بالنفس مراد لیتے ہیں جبکہ رسول اللہکی سیرت طیبہ تو کچھ اور ہی کہتی ہے اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے اس میں واضح مغالطہ دیا گیا ہے جبکہ "جہاد فی سبیل اللہ"سے بڑھ کر اور جہاد بالنفس کیا ہوسکتا ہے اس سب کا مقصد محض مسلمانوں کو جہاد سے روکنا اور جہاد سے جان چھڑانا ہے ۔
3 وہ اس سلسلے میں اللہ کی تقدیر کونی کو دلیل بناتے ہیں اورکہتے ہیں کہ دشمن،بیماری اور فقر اللہ نے جوبھی مقرر کیاہے اس پر راضی رہنا چاہیئے اس لئے وہ ظالم حکمرانوں میں جاگھستے تھے اورکہتے کہ :اللہ یہی چاہتاہے ہم اللہ کے ارادے کی کس طرح مخالفت کریں لہٰذا ہر وقت حکمرانوں کی سیوا کرتے رہتے خواہ وہ مومن ہوتا یا کافر صدیق ہوتا یا زندیق (فتاوی:101/2)۔
مگر وہ یہ بھول گئے کہ تقدیر کونی سے تقدیر شرعی کے ذریعے تعرض کیا جاسکتاہے مثلاً بیماری کا علاج دوا سے اور دشمن کا علاج جہاد سے ۔
یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ صوفیاءکے متعلق فرماتے ہیں :صوفیاءجہاد سے اوروں کی نسبت زیادہ دور ہیں حتی کہ عوام الناس میں ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے محبت کرنا اور محارم اللہ پر غیور ہونا اور غضبناک ہوجانا بکثرت ملتا ہے مگران میں ذرا بھی نہیں ملتا بلکہ اکثر صوفیاءجہاد کو اسلام میں نقص اور عیب تصور کرتے ہیں ۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ ذکر وتدبر اور فناءوبقاءہی اصل اور اہم ہے صوفیاءکے مذکورہ افعال واقوال ذکرکرنے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ صوفیانہ طرز تربیت فکر جہاد وقتال سے بہت دور ہے کیونکہ ان کے نزدیک روحانی ریاضتیں ہی اصل دین ہیں اور یہ ریاضتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک وہ درجہ فناءتک نہ پہنچ جائیں اور جب وہ فناءہو جائے گا تو جہاد کیسے کرے گا؟
یہ ان کی عام اور غالب حالت ہے وگرنہ بعض صوفیاءنے ظالم کے خلاف موافقت بھی کی ہے لیکن ان کی اکثریت ظالم کی حامی ہی رہی ہے اسی لئے کہاجاتا ہے کہ جب مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوئے تو صوفیوں کا کوئی نہ کوئی شعر ضرور سامنے آتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عصر حاضر کے صوفیاء
کیا صوفیاءبدل گئے او رکچھ ہم نے ان کے متعلق سابقہ صفحات میں لکھا ہے مثلاً وحدت الوجود ،مشائخ میں غلو ،اقطاب واوتاد،بدعات ومعصیات کیاانہوں نے یہ سب چھوڑ دیا؟حقیقت یہ ہے کہ اب بھی وہ ان تمام خرافات کو مکمل طور پر تھامے ہوئے ہیں اور ان افکار کوعالم اسلام میں پھیلارہے ہیں جیسے شاذلیت،نقشبندیت، رفایت، قادریت، تیجانیت، بریلویت، سہروردیت... .وغیرہ ان صوفیاءمیں وہ جاہل عوام بھی شامل ہیں جو اجتماعی ذکر وسماع اور حضرت صاحب کی برکات کے سوا ان کے متعلق کچھ نہیں جانتے ان میں سے بعض غالی بھی ہیں جو ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود مانتے ہیں ان میں بعض فقیہ علماءبھی ہیں جن کے لئے ان کی طرف نسبت کرنا مجبوری ہے وگرنہ وہ نامکمل اور ناقص رہتے ہیں چنانچہ ضروری ہے کہ مذہب میں شافعی اور طریقت میں شاذلی ہو....علی ہذا القیاس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے علماءاگرچہ ان کے ماحول میں چلتے ہیں مگر ان کے تمام عقائد تسلیم نہیں کرتے لیکن رسم ورواج کو توڑنے سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔
ایک صوفی مکہ میں مسجد حرام میں قبلہ رخ بیٹھا کرتا تھا لیکن اس کے مرید مکمل خاموشی سے اپنے پیر کی طرف متوجہ ہوتے کیونکہ ان کے لئے پیر کا درشن بھی عبادت ہے جبکہ وہ درس بھی نہیں دے رہا ہوتا۔اور جونہی وہ مجلس سے اٹھتا وہ اس کی طرف لپکتے ایک اس کی جوتیاں اٹھاتا تو دوسرا اس کی لاٹھی اور اس کے پیچھے ایسے چلتے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو کیا یہ اسی تربیت کا شاخسانہ نہیں ۔
اور جامعہ ازہر کے سابق شیخ عبدالحلیم محمود نے اپنے آقا ابوالعباس المریسی کے متعلق کتاب لکھنی چاہی تو پہلے بدوی کی قبر پر جاکر اجازت چاہی اجازت ملی توکتاب لکھی (اس کی کتاب کا مقدمہ ملاحظہ ہو)اور پھر اسے ہندوستان میں کسی مزار کی زیارت اور وہاں محفل ذکروسماع میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ چلاجاتا ہے کیا اسے نہیں معلوم کہ رسول اللہنے اس سے منع فرمایا ہے کیا صوفیاءنہیں جانتے کہ رسول اللہ نے قبروں پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے تو وہ کیوں آپ کے احکامات کی پابندی نہیں کرتے جب کہ آپ سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں یہ خواہش ہی ہے جو ان کی عقل اور دین دونوں کا ستیاناس کردیتی ہے۔
طریق رفاعی کے مریدوں کا اب بھی یہ طریقہ ہے کہ وہ محفل ذکر وسماع میں جاکر اپنے جسم کو تیز گرم آلے پر مارتے ہیں اور جب اثر نہیں ہوتا تو وہاں موجود اسے اس کی کرامت مانتے ہیں اور اگر وہ فاسق ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ شیخ طریقت کی کرامت ہے۔
آخر میں ایک سوال ضروری ہے کہ استشراقی حلقے صوفیت کو اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہیں؟بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ صوفیت سے متعلق جدید مباحث کا منبع مستشرقین ہیں جو صوفیت کے موضوعات پر حاشیے لکھتے ہیں اور اس سے متعلق کتب چھپوا کر تقسیم کرواتے ہیں ۔1854میں المانیہ تائیہ ابن فارض کا اطالوی زبان میں ترجمہ کردیا گیا۔ایسے ہی1917میں روم میں اٹالین میں اس کا اکینترو نے اس کا ترجمہ کیا اور 1921میں نیکلسن نے انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا۔
اور فرانسیسی مستشرق ماسینون نے اپنی پوری زندگی حسین ابن منصور حلاج کی کتب کے لئے وقف کردی کہ جس کے واجب القتل ہونے کا علماءنے فتویٰ دیا تھا کیونکہ وہ حلول کا قائل تھا اور ماسینون نے حلاج کے متعلق تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی ۔
مستشرقین نے فقط "صوفیت"اور ان میں غالی صوفیاءکو منظر عام پر لانے کا اہتمام نہیں کیا بلکہ دیگر تمام فرقے جیسے معتزلہ ،شیعہ اور خوارج کی بھی مکمل سرپرستی کرتے ہیں دراصل وہ مسلمانوں کی درخشندہ تاریخ کا ایک دوسرا اوربھیانک رخ مسلمانوں کے سامنے لانا چاہتے ہیں اور ا س کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہم اس صوفیت وتفرقہ بازی کو اسلام کی تاریخ توکیا اسلام کا حصہ بھی نہیں مانتے چہ جائیکہ اسے وہ اپنے مقاصد مذمومہ کے لئے استعمال میں لاسکیں کسی فرد کی برائی اسلام کو برانہیں کرسکتی ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نتائج :
ہمارے بیان کردہ ان تمام حقائق کے پیچھے وہ کون سے محرکات کارفرماتھے جس نے تفرقہ بازی کی آگ کو ہوا دی اور صراط مستقیم سے دوری میں اضافہ ہوتاگیا اورلوگ منہج اہل السنۃ والجماعۃ سے اعراض کرنے لگے اس کے لئے ہم چند مشترک عوامل ومحرکات کا تذکرہ کریں گے کہ جس نے صوفیت کو حالیہ صورت تک پہنچایا ہے اور اسے ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی بناءپر وہ دیگر فِرَق سے ممتاز ہوگئی اس طرح ایک مسلمان کے لئے خیر اور شر میں تمیز اور فرق کرنا اور عصر حاضر کے حقائق اور اس کے داعیان حق کو داعیان باطل سے الگ کرنا آسان ہوجائے گا ان عوامل کو ہم مختصر طور پر بیان کریں گے
1 شرعی علوم سے نامکمل واقفیت:ابن جوزی فرماتے ہیں :شیطان نے انہیں سب سے پہلے اس فریب میں مبتلا کیا کہ وہ کہنے لگے کہ مقصد عمل ہے اور ہم ہمہ وقت اللہ کے ذکر اور اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں دنیا کو چھوڑ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں ۔یہی تصور بتدریج علم کے روشن چراغ کو بجھانے لگا تاآنکہ وہ علم شرعی سے اعراض کرنے لگے جبکہ وہی صحیح عمل کی بنیاد ہے جیسے فقہ ،حدیث اور تفسیر کے علوم ان پر جہالت چھاگئی نتیجتاً وہ بدعات وخرافات میں پڑگئے اکثر صوفیاءکی عبادات خاص کی عام صوفیاءکی بدعات ہیں اس کی وجہ وہ مغالطے ہیں جو ان مشائخ ان کے لئے مزین کرکے پیش کرتے رہے۔
2 تاویل وتحریف:تمام فرقوں کی مشترکہ مصیبت و نصوص کے ظاہر ومتبادر(یعنی ظاہری مفہوم)سے اعراض کرتے ہیں اور ان کی ایسی تحریف وتاویل کرتے ہیں جونصوص سے مناسبت نہ رکھتی حتی کہ وہ ان سے اپنے باطل اقوال ونظریات ثابت کرنے لگتے جیساکہ شریعت وحقیقت (طریقت)کی بحث میں قرآنی تاویل وتحریف کی بہت سی مثالیں ملاحظہ کرچکے ہیں انہیں یہ دھوکہ دیاگیا کہ یہ تاویل وتحریف آیت قرآنی کا مفہوم مخالف ہے (یعنی باطنیت)جس کاادراک صرف خواص ہی کرسکتے ہیں جبکہ یہ باطنیت اور اہل کتاب کا طریقہ ہے اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے :من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ(یعنی )یہود جو کلمات (احکامات)کو ان کے مقامات (درست معانی)سے بدل ڈالتے ہیں(النساء:46) ۔
3 مشایخ (پیرصاحبان)کے متعلق غلو:اقطاب ،اوتاد،اولیاء،کرامات اور ان سے متعلق صوفیانہ عقائد،اور اسی طرز کی پسماندہ صوفیانہ تربیت جس میں مرید اور شاگرد کو پیر اور صاحب طریقت اور شیخ کے سامنے بالکل ہی ذلیل وحقیر کردیا جاتا ہے ان امور سے متعلق گفتگو میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں یقینا یہ تصوف کی سب گھٹیا صفت ہے اور شیعہ اور نصاریٰ سے مشابہ ہے شیعہ اپنے اماموں اورنصاریٰ مسیح کی ذات میں اسی طرح کاغلو کرتے ہیں اور انہیں مرتبہ الوہیت پر فائز کرتے ہیں یہی وہ عمل ہے جس سے رسول اللہ نے اپنی امت کو ڈرایا اوربچایا ارشاد فرمایا:لا تطرونی کما اطرت النصاری عیسی ابن مریم انما انا عبداﷲ ورسولہ میرے بارے میں غلو نہ کرنا جس طرح عیسائیو ں نے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں غلو کیا درحقیقت میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہو(بخاری)۔اگر ہمارے علماءمیں کوئی مفسد ہے تو وہ یہود کے مشابہ ہے اور اگر ہمارے عابدین میں کوئی مفسد ہے تو وہ نصاریٰ سے مشابہ ہے اور حق پر وہ ہے جسے اللہ توفیق دے اور غلو یہودونصاریٰ کی مشابہت سے نجات دے ۔
4 منہج سلف صالحین سے دوری:صوفیانہ بدعتی اعمال واعتقادات کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ اور صحابہ وتابعین کے منہج عمل وعقیدہ سے دور ہوگئے مقام سلفیت سے گرپڑے اگرچہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ صوفیاءسمجھتے ہیں کہ اہل السنۃ صرف سطحی اسلام کو جانتے ہیں جبکہ ان کے مشائخ حقیقی اسلام کو اسی لئے وہ ان اقوال واعمال سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں جن سے ان سے پہلے والے نہیں کرسکے اوروہ ان مراتب تک جاپہنچے جن تک ان سے پہلے والے سابقین اولین نہیں پہنچ پائے لہٰذا اس کاانجام یہ ہوا کہ وہ بوقت اختلاف منہج صحابہ وتابعین کی طرف رجوع نہ کرتے اور امت کے بہترین طبقے سے استفادہ کرنے سے محروم کردیئے گئے۔
5 تصوف اور تشیع کے مابین تعلق:صوفیت کا شیعیت سے بڑا گہرا رشتہ ہے ان دونوں کا دھیان صحابہ میں سے علی بن ابی طالب اور حسن بن علی پرہی رہتا ہے جو کہ صوفیاءکے نزدیک سب سے پہلے قطب ہیں(لطائف المنن:67) ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور صوفیاءکی اقطاب اور اوتاد کی تقسیم بھی اسماعیلیت اور شیعیت سے مشابہت کی بنیاد پر ہے(ابجد العلوم از صدیق حسن خان :160/2)
ان دونوں فرقوں (صوفیت اور شیعیت)کے رونما ہونے کی وجوہات اور ان کے مزاج قریب قریب ہیں شیعہ سیاسی میدان میں سرگرم رہے اور صوفیہ میدان زندگی میں اور تمام مسلمان اقوام میں سب سے زیادہ صوفی اہل فارس میں ہوئے (التصوف از زکی مبارک:28/2)۔
صوفیاءنے زندگی سے متعلق عقیدہ بھی بعض ان شیعہ سے لیا جو مہدیت کے قائل تھے کہ وہ اب تک زندہ ہیں ۔ابن حزم فرماتے ہیں:نعض بے وقوف صوفیاءبھی اسی راہ پر چلے اورکہتے ہیں کہ الیاس اورخضرابھی تک زندہ ہیں (الصلۃ بین التصوف والتشیع از مصطفی شیبی:136)۔
ایسے ہی ولی کے معصوم عن الخطاءہونے کا عقیدہ بھی صوفیاءنے شیعہ سے ہی لیا ہے جو اپنے ائمہ کومعصوم قرار دیتے ہیں لیکن پھر مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اسے حفظ سے بدل ڈالا قشیری اپنے اس عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :جان لوکہ اولیاءکی سب سے بزرگ کرامت یہ ہے کہ وہ محض اطاعت ہی کرتے ہیں اور ہر طرح کی معصیت ومخالفت سے معصوم ہوتے ہیں اور ان کی جملہ کرامات میں سے ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں اپنے ولی ہونے کا علم ہو۔
شیخ عبدالقادر جیلانی ۔شیخ احمد رفاعی،بدوی،ابوالحسن الشاذلی،بکتاشی ،سنوسی ،مہدی،ان سب کا نسب بالاخر علی سے ملادیاجاتا ہے حتی کہ غیر عربی عجمی مثلاً محمد نور بخش ،خواجہ اسحاق ،اوربالیم سلطان ....وغیرہ ان کانسب بھی علی سے ہی ملادیا جاتا ہے(الصلۃ بین التصوف والتشیع:446)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آخرمیں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم نے صوفیاءکے متعلق محض ا س لئے لکھاتاکہ منہج اہل السنۃ والجماعۃ کو دیگر مناہج باطلہ سے ممتاز کیا جاسکے کیونکہ اس امت کا آخر اسی منہج سے درست ہوگاجس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی اور یہی وہ اللہ کادین ہے جسے اللہ نے اپنے رسول محمدپر نازل فرمایا یہی سلف صالحین کا فہم تھا دیگر تمام راستے حامل نہیں وہ اس سے جدا اور الگ ہیں صوفیت کسی بھی صورت میں اسلام کا منہج نہیں قرار پاسکتی اس کی وجوہات ہم اس کتاب میں درج کر آئے ہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ صوفیت محض ایک راہ سلوک ہے جس میں نفس کی اصلاح کی جاتی ہے اور روح کا تزکیہ کیا جاتا ہے توانہیں جواباً کہا جائے گاجس کے لئے قرآن کی آیات اور اللہ کے رسولکی احادیث صحیحہ طیبہ میں نفس کی اصلاح اور روح کو پاکیزگی نہ ہو اور جو ان کے ذریعے ان مقامات ومراتب کو نہ پاسکے جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں تو ان کی مخالفت کرنے والی خواہ صوفیت ہو یا کوئی اور راہ اس میں قطعاً خیر نہیں ہوسکتی البتہ ابتدائی اور قدیم صوفیاءجنہوں نے انسانی نفس اور دلی بیماریوں (یعنی بغض ،کینہ ،حسد،شہوت،نفاق،کفر وغیرہ)کے علاج کے حوالے سے جو عمدہ باتیں کہیں تویہ قابل قبول ہیں ہم انہیںصوفیاءنہیں مانتے کیونکہ صوفیت تو بدعات کے ایک مستقل سلسلے اور علم کا نام ہے اور صوفیت اختیار کرنے والے ہر شخص کے لئے ان بدعات کو اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے غزالی جس نے دلی امراض کے علاج سے متعلق بہترین کلام کیا ہے وہ صوفیاءکے پھندوں کاشکار بن گیا وہ کہتاہے :"عارفین مجازکی پستی سے حقیقت کی بلندی پر چڑھ جاتے ہیں اور ا س امر کا دیکھ کرمشاہدہ کرتے ہیں کہ اس وجود میں اللہ کے سوا کچھ نہیں "یہ عین وحدت الوجود ہی تو ہے (موقف العقل از مصطفی حبری:94/3)۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ منہج صوفیت کی ہماری توضیح کا یہ معنی نہیں کہ ان کے ہر فرد پر ہم نے فاسد عقیدہ وعمل ہونے کا حکم لگادیا یہاں حق باطل بہت زیادہ خلط ملط ہے ایک ہی شخص میں شر اور خیر سنت اور بدعت جمع ہیں لہٰذا ہم نے عدل کرتے ہوئے شر اور خیر دونوں کے پہلو ذکر کردیئے کیونکہ کچھ لوگ صوفیت کی ابتداءکی نسبت اسے صحیح راہ قرار دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے حقیقی دینداری سے واقفیت ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی انہیں صغیرہ گناہ کا مرتکب سمجھ رہا ہو جبکہ اللہ کے نزدیک وہ کبیرہ ہو۔
ابن تیمیہ جنہیں صوفیاءکا سب سے بڑا دشمن سمجھاجاتا ہے جب صوفیت اور متکلمین میں تقابل کا مسئلہ آتا ہے تو متکلمین کی جدل ونظر کے مقابلے میں صوفیاءکے عمل وعبادت کو افضل قرار دیتے ہیں ظاہر ہے کہ انہوں نے اس فضیلت میں ان ابتدائی صوفیاءہی کی رعایت کی ہے جو اسماءوصفات کے موضوع سے متعلق باوجود کثرت عبادت کے منہج صحیح پر ثابت قدم تھے اور انہوں نے اس میں ان صوفیاءکا اعتبار نہیں کیا جو امور توحید ،علم وعمل میں مختلف پہلوؤں کے حامل تھے مثلاً کلابازی خوکود کو معتدل اور موحد کہتا ہے اور کہتا ہے کہ "تجھ پر کوئی شاہد نہیں توہی حق ہے"یہ کلام حق اور باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے ایسے ہی قشیری اولیاءکو معصوم قرار دیتا تھا اور سلمی نے تفسیر میں عجیب وغریب باتیں کی ہیں اور غزالی نے احیاءالعلوم میں جو قصے نقل کئے ہیں وہ انتہائی عجیب ہیں حتی کہ قدیم صوفیاءمثلاً جنید،شبلی ،اور محاسبی وغیرہ نے بھی فاش غلطیاں کی ہیں جبکہ انہیں اعتدال پسند کہا جاتا ہے۔
ابن تیمیہ صوفیہ اورمتکلمین میں اکثر موازنہ کرتے ہیںاور فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کا انحراف یہ ہے اور ان کا انحراف یہ ہے مقصد غالی متکلمین ہوتے جیسے رازی اور آمدی وگرنہ کیا وہ اشاعرہ متکلمین جیسے ابوبکر باقلانی اورنمونے صوفیاءکے مابین موازنہ کریں گے حالانکہ ابوبکرباقلانی نے اسلام کا دفاع کیا اس کاعلم اور فقہ اور صوفیاءکی بکواسیات سے کئی گنا بہتر ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک اور عالم دین ابن عقیل بھی یہی رائے دیتے کہ :میرے نزدیک متکلمین صوفیاءسے بہتر ہیں کیونکہ متکلمین شک کو دور کرتے ہیں جبکہ صوفیاءشک وشبہات اور وہم کو پیدا کرتے اورجو کہتا ہوکہ مجھے میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا گویا وہ صراحت کررہاہے کہ وہ اللہ کے رسول سے بیزارہے (تلبیس ابلیس:375)۔
قشیری صوفیاءکو انبیاءورسل کے بعد سب سے افضل مانتا تھا اور کہتا کہ وہ مخلوق کے مددگار ہیں مجھے نہیں معلوم کہ وہ صحابہ اور تابعین اور علماءعاملین کو کیا درجہ دیتا تھا دیتا بھی تھا یا نہیں ؟اللہ نے سچ فرمایا:کل حزب بما لدیھم فرحون(یعنی)ہر ٹولہ اسی پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے (یعنی عقائد واعمال )اگر یہ لوگ شریعت کی کسوٹی پر اپنے عقائد واعمال کا جائزہ لیں توجان لیں گے کہ وہ بدعتی ہیں لیکن تعصب اور نخوت و عُجب کا کیاکیا جائے مسئلہ یہ نہیں کہ ہر ایک اپنے لئے اپنی پسند کی راہ چن لے بلکہ حق صرف ایک ہے اور وہ اہل السنۃ والجماعۃ کا راستہ ہے اس کے سوا ماسوا گمراہی کے اور کچھ بھی نہیں ہم ہمیشہ دعاکرتے ہیں جو اللہ کے رسولکیا کرتے تھے :
اللھم رب جبرئیل ومیکائیل واسرافیل فاطرا لسموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنا لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاءالی صراط مستقیم
"یا اللہ جبرائیل ومیکائیل واسرافیل کے رب آسمانوں وزمین کے خالق غائب وموجود کو جاننے والے توہی اپنے بندوں کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا ہمیں اپنے حکم سے ہدایت عطاکر حق کی جس میں اختلاف کیاگیا ہویقینا تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی راہ دکھا دیتا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آج جسے تصوف اور دروشی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے زبان نبوی میں اس کو احسان کہا گیا ہے،عوام اور بعض صوفیاء قسم کے لوگ ظاہری حکام کو شریعت اورتزکیہ باطن کو طریقت اور مشاہدہ و مراقبہ کو حقیقت کہتے ہیں،مگر اس حدیث میں حضورﷺ نے تینوں مقامات کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں کامل وہی شخص ہے جو ان تینوں کا جامع اور عامل ہو ۔اگر کوئی شحص پہلی پانچ باتوں پر جما رئے اور آگے قدم نہ اٹھائے اور احسان کی عملی تعبر کر نہ دکھائے تو بھی ناقص الایمان ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آج جسے تصوف اور دروشی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے زبان نبوی میں اس کو احسان کہا گیا ہے،عوام اور بعض صوفیاء قسم کے لوگ ظاہری حکام کو شریعت اورتزکیہ باطن کو طریقت اور مشاہدہ و مراقبہ کو حقیقت کہتے ہیں،مگر اس حدیث میں حضورﷺ نے تینوں مقامات کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں کامل وہی شخص ہے جو ان تینوں کا جامع اور عامل ہو ۔اگر کوئی شحص پہلی پانچ باتوں پر جما رئے اور آگے قدم نہ اٹھائے اور احسان کی عملی تعبر کر نہ دکھائے تو بھی ناقص الایمان ہے
حافظ صاحب مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمیں اس بات پر کیوں اصرار ہے کہ ہم اصطلاحات نبویہ کی جگہ غیر نبوی اصطلاحات استعمال کریں آخر احسان کو ہم تصوف اور درویشی سے ہی کیوں موسوم کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم غیر اسلامی اصطلاحات کو اسلامی اصطلاحات پر فوقیت دے رہے ہیں۔
اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
 
Top