sahj
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2011
- پیغامات
- 458
- ری ایکشن اسکور
- 657
- پوائنٹ
- 110
السلام علیکم جناب شاھد صاحبیہ باطل پرستوں کا بے جا پروپیگنڈا ہے کہ ہم صرف احناف کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف باطل کے دشمن ہیں اب اس میں کسی کا کیا قصور کہ جتنے باطل عقائد، باطل مسائل امام ابوحنیفہ کے مذہب میں ہیں باطل کی اتنی کثرت کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
سہج صاحب آپ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے چند قرآن وحدیث کے مخالف مسائل کی نشاندہی کردیں پھر دیکھیں کہ ہم ان کا رد کرتے ہیں یا نہیں۔ائمہ ثلاثہ تو اسلام سے محبت کرنے والے تھے لہذا ایک آدھ مسائل میں اگر ان سے کوئی غلطی بھی ہوگئی ہو تو قابل درگزر ہے۔ اسلام سے محبت کرنے اور اسکا دفاع کرنے والے ائمہ ثلاثہ کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں۔ اب آپکو احناف سے اہل حدیث کے امتیازی سلوک کی وجہ سمجھ میں آگئی ہوگی۔
حنفی اپنے امام کی علاوہ دوسرے ائمہ کی کتنی عزت کرتے ہیں صرف اس بات سے اندازہ کرلیں کہ ان بدبختوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو شیطان کہا ہے۔
آپکو اپنے دماغی علاج کی سخت ضرورت ہے۔ آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں بہتر یہی ہے کہ کامل صحت کے لئے اندھی تقلید کو فوری طور پر ترک کردیں۔ جلد افاقہ ہوگا۔ میں نے جو حوالے پیش کئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک صحابی کا قول و فعل حجت نہیں ہوتا جبکہ وہ نص کے خلاف ہو۔
اوپر جوکچھ لکھا ہے اسمیں آپ نے اپنے دماغی کیفیت کا اظہار کیا ہے اور اپنے عمدہ اخلاق دکھائے ہیں ، یہ سب آپ کو ہی مبارک ہو ۔ اسکا جواب نہیں دوں گا ۔
اگر آپکو سابقہ حوالوں سے بات سمجھ میں نہیں آئی تو یہ دو اور حوالے پیش خدمت ہے جو اپنے معنوں میں صاف اور صریح ہے۔
1۔ دسویں صدی ہجری کے نامور حنفی امام محمد طاہر پٹنی اپنی کتاب مجمع بحار الانور میں لکھتے ہیں: صحابہ کے اقوال و افعال حجت نہیں۔(مجمع بحار الانوار ص340، جلد1)
2۔ تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: نیز صحابی کا اجتہاد حجت نہیں۔ (درس ترمذی، ص191،جلد1)
شاھد صاحب آپ سے درخواست ہے کہ اگر ممکن ہو تو ان عبارات کا اسکین پیش کردیں ۔ اور اگر نہیں کرسکتے تو بتادیں ۔ ایسا میں اسلئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے چند اسکین پیش کئے تھے غیر مقلد علماء کے ۔ تو کچھ زحمت آپ بھی کردیں اسکین دکھانے کی ۔ تاکہ“ اصل عبارت “ دیکھ کر باقی دیکھنے والوں کو بھی سمجھنا آسان ھوسکے ؟ باقی تبصرہ ان شاء اللہ اس وقت ان عبارات پر جب آپ اسکین پیش کریں گے یا جواب دیں گے کہ نہیں پیش کرسکتا ۔1۔حنفی حضرات (نام نہاد اہل سنت) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کو غیر فقہی (بےوقوف، نا سمجھ) قرار دیتے ہیں۔ جبکہ صحابہ کی شان میں یہ گستاخی آپکو اہل حدیث کے ہاں نہیں ملے گی۔
2۔ حنفی حضرات (نام نہاد اہل سنت) صحابہ کے مقابلے میں اپنے امام کو ترجیح دیتے ہیں۔ صحابہ کی تقلید سے منع کرتے ہیں اور اپنے امام کی تقلید کو واجب کہتے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک صحابہ مفضول اور امام ابوحنیفہ افضل ہیں اس بڑھ کراور کیا گستاخی ہوگی۔ حنفیوں کی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں لکھا ہے: تقلید صرف چار اماموں کی کرنی ہے، دیگر علماء اور صحابہ کرام کی نہیں۔(مسلم الثبوت2-407)
کیا صحابہ کے بارے میں یہ بے ہودہ خیالات آپ کو اہل حدیث کے ہاں ملیں گے؟
3۔ حنفی حضرات (نام نہاد اہل سنت) اپنے قیاس کو صحابہ کے اقوال سے مقدم سمجھتے ہیں۔ حنفیوں کی انتہائی معتبر کتاب نورالانوار کے صفحہ 194 میں مرقوم ہے: احناف کا قیاس صحابہ کرام رضی للہ عنہم کے اقوال پر مقدم ہے۔
4۔ منظور مینگل دیوبندی کہتا ہے: اکابر صحابہ وغیرہ اگرچہ بعد والوں سے علم و عمل میں بہت آگے ہیں لیکن پھر بھی کسی کے لئے جائز نہیں کہ صحابہ کرام کے مذہب کو اپنائے۔(تحفۃ المناظر، ص143)
ابھی آپ کے مراسلے کے دوسرے مندرجات پر بات کرتا ہوں
مراسلہ نمبر اکاسی میں آپ نے فرمایا تھا
اور میری اس باتاہل حدیث صحابہ کرام کے ان اقوال کو حجت تسلیم نہیں کرتے جو نص صحیح کے خلاف ہوں کیونکہ صحابہ کرام بھی بہرحال انسان تھے اور معصوم عن الخطاء صرف انبیاء علیہ السلام کی زات قدسیہ ہیں۔ بالکل یہی موقف احناف کا بھی ہے ان کے ہاں بھی احادیث صحیحہ سے تصادم کے نتیجے میں صحابہ کے اقوال حجت نہیں رہتے۔
کے جواب میں آپ نے فتوٰی ارشاد فرمایا ۔نا تو احناف اور غیر مقلدین کا انداز ایک ہے اور نا ہی صحابہ کے بارے میں فکر۔
جناب شاھد صاحب ، میں حیران ہوں کہ ایک مراسلہ میں آپ گستاخان صحابہ سے متفق ہوتے ہیں اور خود ہی اپنے موقف پر لعنت بھیج کر احناف کو گستاخ قرار دیتے ہیں ؟؟ یعنی اگر میں کہوں کہ معاذللہ “ صحابہ کے اقوال ہمارے ہاں حجت نہیں “ تو آپ راضی ۔اور یہ کہوں کہ “ہمارہ غیر مقلدین سے صحابہ کے بارے میں موقف الگ ہے (یعنی وہ حجت ہیں)“ تو گستاخ ؟؟؟بالکل درست فرمایا۔ میں آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ اہل حدیث صحابہ کا حد درجہ احترام کرتے ہیں جبکہ احناف صحابہ کے گستاخ ہیں۔
لیکن جناب شاھد صاحب آپ اور باقی غیر مقلد بھائیوں میں سے کسی نے بھی ا٘ن عبارات کا ناتو رد کیا ھے اور ناں ہی انہیں صاف الفاظ میں قبول کیا ھے جو میں شروع تھریڈ سے پیش کر رہا ہوں اور درخواستیں کر رہا ہوں کہ بھئی ادھر ادھر نا جاؤ ان عبارات کے بارے میں اپنا “ موقف “ بتادو کہ تم انہیں کیا مقام دیتے ہو ؟
اگر جناب شاھد صاحب آپ کی نظر ان عبارات پر نہیں رکی ، تو میں انہیں پھر سے دھرادیتا ھوں ۔
مراسلہ نمبر 15
صحابی کا قول حجت نہی
غیر مقلدین کے مزہب و عقیدہ میں صحابی کا قول دین وشریعت میں حجت نہی ہے
فتاوی نذیریہ میں لکھا ہے
“دوم آنکہ اگر تسلیم کردہ شود کہ سند ایں فتوی صحیح ست تاہم ازواحتجاج صحیح نیست زیرا کہ قول صحابی حجت نیست“
-ص340
یعنی دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن زبیر کا یہ فتوہ صحیح بھی ہے تب بھی اس سے دلیل پکڑ نا درست نہی ہے ،اس لیۓ کہ قول صحابی حجت نہیں ہے ۔
اور نواب صدیق حسن خان نے عرف الجادی میں لکھا ہے ۔
“حدیث جابر دریں باب قول جابر ست وقول صحابی حجت نیست“
یعنی حضرت جابر کی یہ بات (لا صلوۃ لمن یقراء ) والی حدیث تنہا نماو پڑھنے والے کے لیۓ ہے حضرت جابر کا قول ہے اور قول صحابی حجت نہی ہو تا ۔
ص38
فتا وی نذیریہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں-
“مگر خوب یاد رکھنا چاہیۓکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس قول سے صحت جمعہ کے لیۓ مصر کاشرط ہونا ہر گز ثابت نہی ہوسکتا۔
(فتاوی نذیریہ ص594 ج 1)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فہم بھی حجت نہی ہے
فتاوی نذیریہ میں لکھا ہوا ہے :
رابعا یہ کہ( ولوفرضنا ) تو یہ عائشہ اپنے فہم سے فرماتی ہیں ،یعنی حضرت عائشہ کا یہ کہنا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے توآپ عورتوں کو مسجد جانے سے منع کردیتے ، فہم صحابہ حجت نہیں-(ص622ج1)
دیکھئے اور سر دھنئیے جناب شاھد نزیر صاحب کہ آپ کے غیر مقلد اکابرین کیا فتوے اور فرمان جاری کرچکے ہیں ؟اور مراسلہ نمبر 21
چنانچہ طریق محمدی مین محمد جو نا گڈھی لکھتے ہیں :
“بہت سےصاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی اور ہمارا اور آپ کا اتفاق ہے کہ فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت فاروق اعظم بے خبر تھے“
(طریق محمدی ،ص14)
پھر دس مسءلوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے خبری ثابت کر نے بعد محمد جونا گڈھی کا ارشاد ہوتا ہے :
“یہ دس مسلے ہوۓ ابھی تلاش سے ایسے اور مسائل بھی مل سکتے ہیں ۔۔۔۔ان موٹے موٹے مسائل میں جو روز مرہ کے ہیں دلائل شرعیہ آپ سے مخفی رہے “
طریق محمدی، ص42
حضرت عبداللہ بن زبیر کا یہ فتوہ صحیح بھی ہے تب بھی اس سے دلیل پکڑ نا درست نہی ہے ،اس لیۓ کہ قول صحابی حجت نہیں ہے
حضرت جابر کا قول ہے اور قول صحابی حجت نہی ہو تا
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس قول سے صحت جمعہ کے لیۓ مصر کاشرط ہونا ہر گز ثابت نہی ہوسکتا
فہم صحابہ حجت نہیں
بہت سےصاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی
فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت فاروق اعظم بے خبر تھے[/B]
۔۔۔۔ان موٹے موٹے مسائل میں جو روز مرہ کے ہیں دلائل شرعیہ آپ (یعنی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے) سے مخفی رہے
ان سب کے بعد بھی آپ بضد ہیں کہ اکابرین غیر مقلدیت، صحابہ کا احترام کرتے ہیں ؟؟؟
یہ سب اسلئے پھر سے آپ کو دکھا رہا ہوں کہ اب تک کسی غیر مقلد برادر نے ان گستاخانہ فتاوٰی جات کا جواب دینے کی ہمت نہیں فرمائی ہے ۔ شاید آپ جواب دیں ، قبول کریں، یا رد کریں؟
ہاں ابھی تک یہ ضرور ہوا ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ آپ صحابہ کو معصوم مانتے ہو ، کوئی فضول گوئی کرتا ہے کہ ، فلاں معرکہ سے فلاں صحابی فرار ہوگئے تھے ، کبھی کہتے ہیں کہ صحابی غلطیاں کرتے تھے ، غرض ہر کوشش کرلی کہ کسی طرح غیر مقلدین کی عبارات سے جان چھوٹ جائے ۔ لیکن اصل بات کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوا ۔ یعنی اپنا عقیدہ بتاتے اپنے اکابرین کے ارشادات کے بارے میں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ آپ کیا فرماتے ہیں ۔
مزید دیکھئے
فہد صاحب نے ایک مراسلہ میں فتوٰی دکھایا اور فرمایا
اب آپ اور دوسرے بھائی لوگ اس فتوٰی کا اسکین دیکھیں اور بتائیں کہ وہ الفاظ جو فہد صاحب نے ادا کئے ان کا وجود اس فتوٰی میں کہاں ھے ؟اس فتوی میں کہا گیا ہے کہ صحابی کا ذاتی اجتہاد حجت نہیں تو آخر آپ یہ اعتراض کیسے کر رہے ہیں ؟
میں نے اسکے جواب میں ایک درخواست کی تھی لیکن اسکا جواب بھی نہیں دیا گیا ۔
لیکن ابھی تک کسی غیر مقلد برادر کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس سوال کا بھی جواب دے دے ۔ آپ ہمت کیجئے جناب شاھد صاحب اور دھاک بٹھائیے اپنے بھائیوں پر ۔اور اگر آپ کو اس فتوے سے اختلاف ہے تو پھر اپنا موقف بیان کردیجئے کہ کیا آپ اہلحدیث حضرات خون سے تتر بتر ھونے کے بعد بھی صحابی رسول کے عمل کے مطابق نماز ادا کر لیتے ہیں ؟ کیا کسی اہل حدیث کو تیر لگا اور اس نے تیر کے لگے لگے ہی نماز کے رکوع و سجود پورے کئے ؟ اب دیکھتے ہیں کہ آپ کیا فرماتے ہیں اپنے طرزعمل کے بارے میں ۔
مزید مزیدار باتیں کی ہیں کچھ آپ نے کہ ۔
جناب شاھد صاحب آپ یا تو بھولے ہو یا بن رہے ہو یا پھر اپنا دجل و فریب بہت جلدی میں جلد بیان کردیا ہے ۔ اسی لئے اوپر میں نے آپ کے اعتراضات کے اسکین پیش کرنے کی درخواست کی ہے ۔دیکھیں یہ ادب کے واحد ٹھیکیدار کس طرح صحابہ کے مذہب کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ امام ابوحنیفہ جنھیں نہ قرآن آتا تھا نہ حدیث ان کے مذہب پر عمل کو تو واجب کہتے ہیں لیکن صحابہ جو تمام امت میں افضل اور قطعی جنتی اور راہ حق کے مسافر تھے کے مذہب کو اختیار کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ کیا ان شدید گستاخیوں کا اہل حدیث تصور کر سکتے ہیں؟ حاشا وکلا بلکہ یہ جاہل مقلدین کا ہی کام ہے جو عقل سے پیدل ہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگ اللہ کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہوگئے ہو اور مخالفین کو مطعون کرنے کے لئے کثرت سے دروغ گوئی کرتے ہو جیسے جھوٹ حنفی مذہب میں جائز ہو۔ آپ وہی شخص ہو جس نے یہاں ایک غیر مقلد کی کہانی، مقلدین کی زبانی پوسٹ نمبر 6 پر مجھ پر یہ الزام عائد کیا کہ میں نے پوری عبارت نقل نہیں کی لیکن خود آپکا طرز عمل یہ ہے کہ آپ نے ہمیں الزام دینے کے لئے عنوان بھی جان بوجھ کر ادھورا نقل کیا جس سے عبارت کے معنی ہی بدل گئے۔ آپ نے جو عنوان لکھا ہے وہ یہ ہے:صحابہ کی درایت معتبر نہیں ہوتی
جبکہ اصل عبارت یہ ہے جس کا اسکین بھی آپ نے خود ہی پیش کرکے اپنے جھوٹے ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے: صحابہ کی درایت (بسا اوقات)معتبر نہیں ہوتی
اب آپ خود دیکھ لیں کہ ان دونوں عبارتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپکی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی درایت کبھی بھی معتبر نہیں ہوتی۔جبکہ اصل عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی درایت معتبر ہے لیکن کبھی اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اور اس کی وجہ بھی اس عنوان کے تحت دی گئی بحث سے واضح ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درایت سے صحابی کی درایت ٹکرا جائے تو صحابی کی درایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ آخر اس میں کون سی ایسی بات ہے جس سے صحابہ کی گستاخی کا پہلو نکلتا ہو۔ لیکن اگر کوئی اس بات کو نہیں مانتا جیسے یہ کہتا ہو کہ صحابہ کی درایت ہر حال میں معتبر ہے تو وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ہے کیونکہ ایسا شخص صحابہ کرام کی درایت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درایت سے بہتر سمجھتا ہے۔
ویسے جناب کا یہ کہنا
دیکھیں یہ ادب کے واحد ٹھیکیدار کس طرح صحابہ کے مذہب کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔
لیکن صحابہ جو تمام امت میں افضل اور قطعی جنتی اور راہ حق کے مسافر تھے کے مذہب کو اختیار کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ کیا ان شدید گستاخیوں کا اہل حدیث تصور کر سکتے ہیں؟ حاشا وکلا بلکہ یہ جاہل مقلدین کا ہی کام ہے جو عقل سے پیدل ہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگ اللہ کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہوگئے ہو اور مخالفین کو مطعون کرنے کے لئے کثرت سے دروغ گوئی کرتے ہو جیسے جھوٹ حنفی مذہب میں جائز ہو۔
ماشاء اللہ کیا خوب انداز بیان ہے جناب شاھد نزیر صاحب غیر مقلد صاحب کا ۔ داد دیتا ہوں آپ کو کہ ایسی باتیں کرتے ہیں آپ کہ دیکھنے پڑھنے والا آپ کی باتوں کو سچ مان لے ۔آپ نے ہمیں الزام دینے کے لئے عنوان بھی جان بوجھ کر ادھورا نقل کیا جس سے عبارت کے معنی ہی بدل گئے۔ آپ نے جو عنوان لکھا ہے وہ یہ ہے:صحابہ کی درایت معتبر نہیں ہوتی
اب میں آپ کی غلط فہمی دور کردیتا ہوں جو آپ کو لاحق ہوگئی ھے یا پھر دوسروں کو فریب دینے اور چکر میں ڈالنے کی عادت ہے جناب کی ؟
دیکھئیے یہ اسکین ہے اس عبارت کا جو میں نے پیش کی
اسی اسکین کے نیچے بلکل نیچے ، ہیڈنگز کے بارے میں وضاحت فرمائی تھی میں نے کہ ،
اور اس مراسلہ کے بعد بھائی عامر نے بھی کچھ چھوٹی سی وضاحت کی تھی جسے آپ بھی دیکھ لیںمزید یہ کہ "صحابہ کی درایت (بسا اوقات) معتبر نہیں ہوتی " اس عبارت میں موجود (بسا اوقات) کو بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ اسی کتاب کا یہی صفحہ مجھے کہیں اور سے میں دیکھنے کو ملا ہے جس میں (بسا اوقات ) کے بغیر ایسا لکھا ہوا ہے "صحابہ کی درایت معتبر نہیں ہوتی"۔
یہ دیکھیں
“لگایا تو گیا ““ بتارہا ہے کہ کم از کم یہ تو تسلیم ہوچکا کہ اصل عبارت میں ، بعد میں کسی غیر مقلد نے ہی تبدیلی کی ۔یعنی پہلے صحابی کا فہم حجت بلکل نہیں تھا ، اور بعد میں کبھی کبھی حجت ہوجاتا ہے۔"بہت خوب"۔ اب آتے ہیں آپ کے اک کمنٹ کی جانب جو آپ نے اس عبارت یعنی ہیڈنگ سے متعلق کی تھی۔کم سے کم "بسااوقات" کا لفظ لگایا تو گیا، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اہل حدیث حضرت اپنی غلطی کی اصلاح کرتے رہتے ہے، .
تو جناب اب یہ بھی آپ ہی بتادیجئے جو عقیدہ یہ بتارہا ہو کہ “صحابہ کی درایت معتبر نہیں ہوتی“ اور اسکی “تشریح“ بھی ماشاء اللہ آپ شاھد نزیر صاحب نے خود ہی کرکے معاملہ آسان کردیا ہے کہ “آپکی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی درایت کبھی بھی معتبر نہیں ہوتی“ ۔ تو ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص یا گروہ گستاخ صحابہ قرار پائے گا ؟یا نہیں؟کہتا ہو کہ صحابہ کی درایت ہر حال میں معتبر ہے تو وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ہے کیونکہ ایسا شخص صحابہ کرام کی درایت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درایت سے بہتر سمجھتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ یہ عبارت میری نہیں ، اک غیر مقلد عالم صاحب کی ہے، میں نے صرف اسے پیش کیا ہے ۔
سوال غلط کیا ہے آپ نے اور “ہر حال “ سے کیا مراد ہے ؟ کیا یہ مراد ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے اندر مسئلہ موجود ہوتے ہوئے بھی ؟ لیکن پھر بھی اسکا جواب دے دیتا ھوں کہ اگر آپ کی مراد اس سوال سے یہ ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیع دیتے ہیں تو جواب ہے“ نہیں “ ۔اب میں سہج صاحب سے گزارش کرونگا کہ آپ اپنا موقف بیان فرمادیں کہ کیا آپ کے نزدیک صحابہ کرام کے اقوال و درایت ہر حال میں حجت ہیں؟
لیکن ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ “صحابی کی درایت معتبر نہیں “ یا “ صحابی رسول نے موٹے موٹے مسائل میں غلطئ کی “ یا “ ایسی بے ادب بلکہ گستاخ عبارت لکھیں کہ ““ فہم عمر رضی اللہ عنہ پوری ہوکر نہ رہی ““ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ یہی ناں کہ لکھاری صاحب خوش ہیں کہ دیکھا “فہم عمر پوری ہوکر نہ رہی “؟یعنی ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے معاذ اللہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر چاہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے برعکس اپنا فہم پیش کریں ۔
امید ہے کچھ سمجھ شریف میں آیا ہو گا اور اسکین کے بارے میں ضرور آگاہ فرمائیے گا ۔
شکریہ