السلام علیکم
اگر مجھے کسی بیماری کی وجہ سے ان میں سے کوئی خواب میں آ کر گلے لگاتی ہیں تو وہ میری مائیں ہیں۔ اگر آپ انہیں غیر محرم سمجھتے ہیں تو یہ آپکی سوچ ھے
اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
والسلام
صحابیات کا حضور سے پردہ
احکامِ حجاب کے نزول کے بعد صحابیات پردہ کا بہت اہتمام کرتی تھیں' حتی کہ حضورا سے بھی پردہ کرتی تھیں اور بے حجاب آپ ا کے سامنے بھی نہیں آتی تھیں' کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا یا کوئی چیز دینی لینی ہوتی تب بھی پردہ کے پیچھے ہی سے بات کرتی تھیں' چنانچہ ایک طویل حدیث کے ذیل
میں حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ:
"عن عائشہ نہی اللہ عنہا قالت او مأت امراء ة من وراء ستر بیدہا کتاب الی رسول اللہا' فقبض النبی ا یدہ' فقال ما ادری اید رجل ام ید امرأة؟ قالت بل ید امرأة۔ قال: لو کنت امرأة لغیرت اظفارک یعنی بالحناء"۔
(ابوداؤد:ص:۵۷۴' ج:۲)
ترجمہ:-ایک عورت کے ہاتھ میں پرچہ تھا اس نے پرچہ دینے کے لئے پردہ کے پیچھے سے آنحضرت ا کی طرف ہاتھ بڑھایا' آپ ا نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ: نہ معلوم مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ اس نے کہا کہ یہ عورت کا ہاتھ ہے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: اگر تم عورت ہوتیں تو اپنے ناخنوں پر مہندی لگاتیں۔
یہ حدیث واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ صحابیات آنحضرت ا سے بھی پردہ کرتی تھیں' اس لئے اس عورت نے پردہ کے پیچھے سے پرچہ دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اگر بے پردہ سامنے آنے کی اجازت ہوتی تو پردہ کی کیا ضرورت تھی' نیز اگر پردہ جو اس عورت نے کیا ہوا تھا شریعت کے خلاف ہوتا تو حضور ا اسے ضرور ٹوکتے کہ اس کی حرکت آگے چل کر بڑی گمراہی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ازواج مطہرات کا صحابہ کرام سے پردہ
حضرات صحابیات پردہ کا بہت اہتمام کرتی تھیں' حتی کہ آنحضرت ا سے بھی پردہ کرتیں تھیں' اس طرح ازواج مطہرات بھی باوجود اس کے کہ وہ قرآنی حکم کے مطابق امت کی مائیں ہیں اور وہ امت کے ہر ہر فرد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہیں' تمام صحابہ کرام سے پردہ کرتیں تھیں' چنانچہ واقعہ افک کی تفصیلی حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے:
ترجمہ:․․․
میں آنحضرت ا کے ساتھ نزول حجاب کے بعد غزوہ میں شریک ہوئی جب انہوں نے اونٹ کھڑا کیا اور اس کو لے کر چلے گئے تب میں لشکر گاہ واپس پہنچی' وہاں اس وقت نہ کوئی آواز لگانے والا باقی تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا' سب لوگ لشکر کے ساتھ جاچکے تھے' میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اسی جگہ لیٹ گئی' تھوڑی دیر بعد وہاں سے صفوان بن معطل گزرے' وہ اپنی کسی ضرورت کی بنا پر لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے اور انہوں نے رات عام لوگوں کے ساتھ نہیں گزاری تھی' انہوں نے میرا ہیولہ دیکھا تو پہچان گئے' انہوں نے مجھے نزول سے پہلے دیکھا تھا' انہوں نے زور سے "انا للہ وانا الیہ راجعون" پڑھا' میں ان کی آواز سن کر جاگ گئی اور فوراً چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
(صحیح مسلم'ج:۲ص:۳۶۴)
اس حدیث سے ازواج مطہرات کا پردہ کرنا کئی طرح سے ثابت ہوتا ہے اول تو اس واقعہ میں جو سبب حضرت عائشہ کے جنگل میں رہ جانے کا پیش آیا تھا' وہ یہی تھا کہ ازواج مطہرات کا پردہ صرف برقع یا چادر ہی کا نہیں تھا' بلکہ سفر میں بھی اپنے ہودج (کجاوہ) میں رہتی تھیں یہ ہودج کمرے کی طرح ہوتاتھا جو پورا کا پورا اونٹ کے اوپر رکھ دیا جاتا تھا اور اس طرح اتار دیا جاتا تھا' ہودج مسافر کے مکان کی طرح ہوتا ہے۔ جب قافلہ چلنے لگا تو حسبِ عادت خادموں نے ہودج کو یہ سمجھ کر اونٹ پر سوار کردیا کہ ام المؤمنین اس کے اندر موجود ہیں' حالانکہ وہ اس کے اندر موجود نہیں تھیں' بلکہ طبعی ضرورت کے لئے باہر گئی ہوئی تھیں' اس مغالطہ میں قافلہ روانہ ہوگیا اور ام المؤمنین جنگل میں تنہا رہ گئیں' خدام اندر جھانک کر اس لئے نہیں دیکھ سکتے تھے کہ نزول حجاب کے بعد ایسا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ یہ واقعہ اس بات کا بھی قوی شاہد ہے کہ حضور ا کے زمانہ میں عورتیں بالعموم اپنے گھروں میں رہا کرتی تھیں اور خود سفر میں بھی ہودج کا اہتمام کرتی تھیں جو عارضی طور پر چار دیواری کا کام دیتا تھا پھر حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ضرورت سے فارغ ہوکر جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا تو میں بیٹھ گئی' یہ سوچ کر کہ جب حضورا کو پتہ چلے گا تو میری تلاش میں واپس تشریف لائیں گے' نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی' صبح کو حضرت صفوان بن معطل وہاں سے گزرے تو دور سے کسی کو پڑا دیکھ کر ادھر آئے تو وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے' کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے' مجھے پہچان کر انہوں نے" انا للہ وانا الیہ راجعون" پڑھا تو ان کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا۔
اب اس حدیث میں حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ انہوں نے مجھے نزول حجاب سے پہلے دیکھا تھا' خود بتارہاہے کہ نزولِ حجاب کے بعد کسی بھی غیر شخص کے لئے ام المؤمنین کو دیکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ پھر یہاں بھی حضرت عائشہ نے حضرت صفوان کو دیکھ کر فوراً ہی چادر سے منہ کو چھپا لیا تھا' جس سے معلوم ہوا کہ آپ پردہ کا بہت اہتمام کرتی تھیں اور یہ کہ پردہ میں خود چہرہ چھپانا بھی لازمی ہے' ورنہ حضرت عائشہ محض چادر اوڑھ لینے پر اکتفاء کرلے تیں۔ ازواج مطہرات کے مسلمانوں کی ماں ہونے کے باوجود امت سے پردہ کا اہتمام حضرت صفیہ کے نکاح کے واقعہ سے بھی معلوم ہوتاہے' چنانچہ
سعید بن ابومریم، محمد بن جعفر بن ابی کثیر، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ اور خیبر کے راستہ میں تین دن فروکش رہے جہاں آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلوت فرمائی چنانچہ میں نے آپ کے ولیمہ میں مسلمانوں کو بلایا اور اس ولیمہ میں نہ روٹی تھی نہ گوشت اس میں صرف یہ ہوا تھا آپ نے (حضرت) بلال کو دسترخوان بچھانے کا حکم دیاچنانچہ وہ بچھا دیئے گئے تو آپ نے اس پر (چھوہارے) پنیر اور گھی رکھ دیا تو مسلمان آپس میں کہنے لگے کہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امہات المومنین میں سے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیز ہیں؟ تو لوگوں نے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پردہ کرائیں گے تو امہات المومنین میں سے ہوں گی اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر کنیز ہیں جب آپ نے کوچ کیا تو ان کے لئے اپنے پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور پردہ کھینچ دیا۔
(صحیح بخاری)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ حضرات صحابہ کرام میں یہ بات عام معروف تھی کہ آزاد عورت کے لئے پردہ کرنا لازم ہے اور یہ کہ اگر آنحضرت نے حضرت صفیہ کو پردہ میں رکھا تو وہ بیوی ہوں گی ورنہ باندی' اور جب ان پر پردہ کرایا گیا تو سمجھ گئے کہ یہ بیوی ہیں' اگر اس وقت تک پردہ کا عام رواج نہ ہو چکا ہوتا تو حضرات صحابہ کرام کے دلوں میں یہ سوال پیدا نہ ہوتا۔
بیعت کے وقت پردہ کا اہتمام
خود حضور پاک ا بھی نامحرم عورتوں سے پردہ کے احکام کا لحاظ کرتے تھے' آپ ا جس طرح مردوں سے بیعت لیا کرتے تھے' اسی طرح عورتیں بھی آپ ا سے بیعت کیا کرتی تھیں' مردوں کو آپ ا ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت فرمایا کرتے تھے' مگر عورتوں کو پردے کے پیچھے سے بغیر ہاتھ میں ہاتھ لئے بیعت فرماتے تھے' کیونکہ غیر محرم کو جس طرح دیکھنا ناجائز ہے اسی طرح مصافحہ کرنا بھی ناجائز ہے۔
حدیث میں ہے:
"عن امیمہ بنت رقیقة انہا قالت اتیت رسول اللہ ا فی نسوة بایعنہ علی الاسلام' فقلن لہ یا رسول اللہ ا! نبایعک علی ان لانشرک باللہ شیئا' ولانسرق' ولانزنی ولانقتل اولادنا' ولاناتی ببہتان نفتریہ بین ایدینا وارجلنا' ولانعصیک فی معروف۔ قال رسول اللہ ا: فیما استطعتن واطقتن قال: فقلن: اللہ ورسولہ ارحم بنا من انفسنا' ہلم نبایعک یا رسول اللہ! فقال
رسول اللہ ا: انی لااصافح النساء' انما قولی لمائة امرأة کقولی لامرأة واحدة او مثل قولی لامرأة واحدة"۔
(موطأ امام مالک' ص:۷۳۱' باب ما جاء فی البیعة)
ترجمہ:-
حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اور چند دیگر عورتیں حضورا کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئیں' عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ا! ہم آپ ا سے ان شرطوں پر بیعت ہوتی ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لائیں گی' جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان ڈالیں (اور اپنے شوہر کی اولاد بتائیں) اور نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی' یہ سن کر آنحضرت ا نے فرمایا اور کہہ دو کہ ہم اپنی طاقت کے مطابق پورا عمل کریں گی' یہ سن کر عورتوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہم پر اس سے زیادہ مہربان ہیں' جتنا ہم اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہیں' اس کے بعد ان عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! زبانی اقرار تو ہم نے کرلیاہے لایئے آپ سے بیعت کرلیں' یہ سن کر حضور ا نے فرمایا: میں نے عورتوں سے مصافحہ نہیں کرنا' جو میں نے زبان سے کہہ دیاسب کے لئے لازم ہوگیا' اور الگ الگ بیعت کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے' کیونکہ سب عورتوں سے بھی میرا وہی کہنا ہے جو ایک عورت سے کہنا ہے"۔
مصیبت کے وقت بھی پردہ لازم ہے
حدیث میں ہے
"عن قیس بن شماس قال: جاء ت امرأة الی النبی ا یقال لہا ام خلاد وہی متنقبة تسأل عن ابنہا وہو مقتول ' فقال لہا بعض اصحاب النبی ا جئت تسألین عن ابنک وانت متنقبة' فقال ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی' فقال رسول اللہ ا ابنک لہ اجر شہیدین قالت ولم ذاک یا رسول اللہ ! قال: لانہ قتلہ اہل الکتاب"۔
(ابوداؤد ج:۱' ص: ۳۳۷)
ترجمہ:․․․"
حضرت قیس بن شماس کا بیان ہے کہ ایک صحابیہ جس کا نام ام خلاد تھا' حضور اقدس ا کی خدمت میں اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئیں' ان کا بیٹا کسی غزوہ میں شہید ہوگیا تھا' وہ جب آئیں تو اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں' ان کا یہ حال دیکھ کر کسی صحابی نے کہا تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے آئی ہو اور نقاب ڈالے ہوئے ہو' حضرت ام خلاد نے جواب دیا اگر میں بیٹے کی وجہ سے مصیبت زدہ ہوں تو اپنی شرم وحیا کھو کر ہرگز مصیبت زدہ نہ بنوں گی' حضرت ام خلاد کے پوچھنے پر حضورا نے جواب دیا کہ تمہارے بیٹے کے لئے دو شہیدوں کا ثواب ہے' انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ا کیوں؟ آپ ا نے فرمایا: "اس لئے کہ اسے اہل کتاب نے قتل کیا ہے " ۔
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ
حضرت ام خلاد نے موقع پر موجود تمام لوگوں سے جن میں حضور ا بھی شامل تھے' نقاب ڈال کر پردہ کیا' وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات صحابیات میں حیا کا کس قدر بلند معیار پیدا ہو چکا تھا کہ اس خاتون نے کسی بھی عورت کے لئے دنیاوی اعتبار سے سب سے بڑے صدمہ کے موقع پر بھی احکام شرع کی پوری پوری پاسداری فرمائی اور
جب ایک شخص نے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر بیٹے کے جاتے رہنے کا صدمہ پڑا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میری حیا بھی جاتی رہی' گویا حیا جانے کی مصیبت بیٹے کے مرنے کی مصیبت سے کم نہیں۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ کا حکم ہرحال میں لازم ہے' رنج ہو یا خوشی کسی صورت میں بھی نامحرم مرد کے سامنے آنا جائز نہیں۔ بعض لوگ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رنج وغم اور مصیبت یا شادی ' بیاہ اور خوشی کے وقت انسان احکام شریعت سے مستثنیٰ رہتا ہے' بڑی جہالت ہے۔ اب بعض عورتوں کا جنازہ کے وقت گھر سے دروازوں پر نکل آنا' بلکہ بسا اوقات قبرستان تک جانا' یا شادی بیاہ کے وقت پردہ کا اہتمام نہ کرنا یا سفر میں پورے طور پر پردہ نہ کرنا' سب ناجائز کام ہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ شریعت میں چہرے کا پردہ بھی لازم ہے' کیونکہ اس عورت نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی۔
اب ساری احادیث آپ کے سامنے ہیں
کہ حضور صلی اللہ وسلم
کی ازواج مطہرات اور صحابیات پردے کا کتنا خیال رکھتی تھیں
اور یہاں پر کچھ لوگ انہی ازواج اور صحابیات کے بارے میں کہہ رھے ہیں کہ
اگر مجھے کسی بیماری کی وجہ سے ان میں سے کوئی خواب میں آ کر گلے لگاتی ہیں تو وہ میری مائیں ہیں۔ اگر آپ انہیں غیر محرم سمجھتے ہیں تو یہ آپکی سوچ ھے
اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
والسلام
کیا ان لوگوں کی بیماری حضرت ام خلاد سے زیادہ درد ناک ہے - ازواج مطہرات اور صحابیات نہیں چاہتی تھیں کہ دنیا میں کوئی نا محرم ان کو دیکھے -
لکن اب کچھ ظالم لوگ یہ خواب لکھتے اور سناتے پھر رھے ہیں کہ یہ خواب میں آ کر ہمیں گلے لگا سکتی ہیں
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل مبارک میں شیطان لعین ہرگز نہیں آ سکتا
کیا شیطان
دوسری شکل میں آ کر کذب بیانی سے اسے کسی مؤمن اور صالح شخص کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔