• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علما و حکمرانوں کے تعلقات کی نوعیت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فوج ، علما اور حکمران
فوج کسی بھی ملک کا واحد ادارہ ہوتا ہے، جو ملک کی سرحدوں کا حقیقی محافظ ہوتا ہے۔
حکمران جیسا بھی ہو جو بھی ہو، کچھ عرصے کے لیے آتا ہے، اپنی پارٹی وغیرہ کے مفادات کو مقدم رکھتا ہے، اس کے لیے اسے ملک اور عوام کی قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔
اس لیے فوج اگر قومی مصلحت کے لیے حکمرانوں کی بات نہ مانے، تو انہیں خارجی یا باغی وغیرہ نہیں کہا جاسکتا... إلا یہ کہ کوئی خر دماغ فوجی اقتدار کا لالچ کرلے، جیسا کہ مشرف نے کیا، تو اس کی اس صنیع کو درست نہیں کہا جاسکتا۔
جس طرح فوج سرحدوں اور جغرافیے کی حفاظت کرتی ہے، اسی طرح علماء اسلامی سلطنت میں اسلامی نظریات کے محافظ ہوتے ہیں، اگر وقت کا حکمران اسلامی نظریات کا خیال نہ رکھے، یا کوی بھی ادارہ اسلامی ملک میں اسلام مخالف نظریات کا پشتیبان بن جائے، تو علماء کا ایسی صورت حال میں خاموش رہنا درست نہیں، کیونکہ باقی سب کا تو یہ عذر ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا دار لوگ تھے، دین کی انہیں سمجھ نہ تھی، وغیرہ وغیرہ لیکن علماء کے لیے اس صورت حال میں لا علمی عذر نہیں بن سکتی۔
یہ ہے علماء و فوج کے بارے میں ہمارا موقف۔
ایک دوسرا موقف بعض مضطرب و پریشان لوگوں کا ہے، جنہوں نے حاکم کے خلاف جانے والی فوج کے لیے الگ حکم رکھا ہے، اور علماء کے لیے الگ. فوج ان کے نزدیک محافظ وطن ہی رہے گی، البتہ علماء خارجی و باغی اور منہج سے ہٹے ہوئے قرار پائیں گے۔
ہمارے نزدیک یہ پریشان خیالی کسی علمی دلیل یا منطق پر مبنی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے أگر کوئی دلیل ہوسکتی ہے تو وہ صرف ’وردی‘ یعنی ڈنڈا ہے، جس سے ڈرتے ہوئے یہ لوگ فوج کے لیے دلیلیں نکالتے ہیں، اور دوسری طرف علما کے گریبانوں کو آتے ہیں۔
ورنہ جن احادیث کے سوء فہم سے یہ غلط باتوں کی تشہیر کر رہے ہیں، خود ان کے فہم کے مطابق ان احادیث میں بھی اس پریشانی خیالی اور اضطراب کی کوئی دلیل موجود نہیں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حکومتوں کا مقصد، سنت طریقہ اور بعد میں لوگوں کی بے راہ روی
ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
فَالْمَقْصُودُ الْوَاجِبُ بِالْوِلَايَاتِ: إصْلَاحُ دِينِ الْخَلْقِ الذيِ مَتَى فَاتَهُمْ خَسِرُوا خُسْرَانًا مُبِينًا، وَلَمْ يَنْفَعْهُمْ مَا نَعِمُوا بِهِ فِي الدُّنْيَا؛ وَإِصْلَاحُ مَا لَا يَقُومُ الدِّينُ إلَّا بِهِ مِنْ أَمْرِ دُنْيَاهُمْ.
حکومتوں کا اصل مقصد، لوگوں کے دین کی اصلاح ہے، اور دنیا کا اس قدر خیال رکھنا ہے، جتنی انہیں بطور متدین زندگی گزارے کی ضرورت ہے۔ اگر دین ضائع ہوجائے، تو دنیا کی نعمتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
مزید لکھتے ہیں:
لَمَّا غَلَبَ عَلَى أَكْثَرِ الْمُلُوكِ قَصْدُ الدُّنْيَا، دُونَ الدِّينِ؛ قَدَّمُوا فِي وِلَايَتِهِمْ مَنْ يُعِينُهُمْ عَلَى تِلْكَ الْمَقَاصِدِ، وَكَانَ مَنْ يَطْلُبُ رِئَاسَةَ نَفْسِهِ، يُؤْثِرُ تَقْدِيمَ مَنْ يُقِيمُ رِئَاسَتَهُ؛ وَقَدْ كَانَتْ السُّنَّةُ أَنَّ الَّذِي يُصَلِّي بِالْمُسْلِمِينَ الْجُمُعَةَ وَالْجَمَاعَةَ وَيَخْطُبُ بِهِمْ: هُمْ أُمَرَاءُ الْحَرْبِ، الَّذِينَ هم نواب ذي السلطان على الأجناد؛ وَلِهَذَا لَمَّا قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، قَدَّمَهُ الْمُسْلِمُونَ فِي إمَارَةِ الْحَرْبِ وَغَيْرِهَا. وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى حَرْبٍ، كَانَ هُوَ الَّذِي يُؤَمِّرُهُ لِلصَّلَاةِ بِأَصْحَابِهِ، وَكَذَلِكَ إذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلًا نَائِبًا عَلَى مَدِينَةٍ، كما استعمل عتاب ابن أَسِيدٍ عَلَى مَكَّةَ، وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ عَلَى الطَّائِفِ، وَعَلِيًّا وَمُعَاذًا وَأَبَا مُوسَى عَلَى الْيَمَنِ، وعمرَو بْنَ حَزْمٍ عَلَى نَجْرَانَ: كَانَ نَائِبُهُ هُوَ الَّذِي يُصَلِّي بِهِمْ، وَيُقِيمُ فِيهِمْ الْحُدُودَ وَغَيْرَهَا مِمَّا يَفْعَلُهُ أَمِيرُ الْحَرْبِ، وَكَذَلِكَ خُلَفَاؤُهُ بَعْدَهُ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْمُلُوكِ الْأُمَوِيِّينَ وَبَعْضِ الْعَبَّاسِيِّينَ؛ وَذَلِكَ لِأَنَّ أَهَمَّ أَمْرِ الدِّينِ الصَّلَاةُ وَالْجِهَادُ؛ وَلِهَذَا كَانَتْ أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ وَالْجِهَادِ، «وَكَانَ إذَا عَادَ مَرِيضًا يَقُولُ: اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَك، يَشْهَدُ لَك صَلَاةً، وَيَنْكَأُ لَك عَدُوًّا» .(السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية (ص: 20)
جب اكثر بادشاه دین سے بے پرواہ ہو کر حب دنیا میں مبتلاہوئے، تو اپنے معاونین بھی وہی اختیار کیے، جو ان کے اس مقصد میں کارآمد ثابت ہوں، ان کی ریاست اور جاہ وحشم کی حفاظت کرین، حالانکہ سنت یہ تھی کہ جو جمعے جماعتیں کرواتے تھے، وہی امیر جہاد ہوا کرتے تھے، اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے اختیار کیے جاتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کو نماز کے لیے منتخب کیا تو مسلمانوں نے بعد میں جنگ کے لیے بھی انہیں ہی اختیار کیا، اس کے علاوہ بھی حضور جب بھی کسی کوامیر بنا کر بھیجتے، امام مسجد بھی وہی ہوتا، جیسا کہ عتاب بن أبی اسید مکہ کے، عثمان بن أبی العاص طائف کے، علی و معاذ اور ابو موسے یمن کی طرف اور عمرو بن حزم نجران بھیجے گئے، تو ان میں امامت نماز، اقامت حدود وغیرہ تمام ذمہ داریاں وہی شخصیت ادا کرتی، جنہیں حضور نے اپنا نائب مقرر کیا ہوتا تھا. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا کا بھی یہی منہج رہا، اموی اور بعض عباسی بادشاہوں کا بھی یہی طرز رہا، کیونکہ نماز اور جہاد یہ سب سے اہم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی عبادت کے وقت دعا میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ ! اپنے بندے کو شفا دے تاکہ یہ نماز کے لیے حاضری دے سکے، اور دشمن پر ضرب کاری لگانے کے قابل ہوجائے۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اقامت حدود ہر صورت ضروری ہے۔ یہ مدد و نصرت اور حصول رزق کا ذریعہ ہے۔ اس میں سستی کرنے والا ملعون ہے۔
لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ إمَارَةٍ: بَرَّةً كَانَتْ أَوْ فَاجِرَةً. فَقِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذِهِ الْبَرَّةُ قَدْ عَرَفْنَاهَا. فَمَا بَالُ الْفَاجِرَةِ؛ فَقَالَ: يُقَامُ بِهَا الْحُدُودُ، وَتَأْمَنُ بِهَا السُّبُلُ، وَيُجَاهَدُ بِهَا الْعَدُوُّ، وَيُقْسَمُ بِهَا الْفَيْءُ. وَهَذَا الْقِسْمُ يَجِبُ عَلَى الْوُلَاةِ الْبَحْثُ عَنْهُ، وَإِقَامَتُهُ مِنْ غَيْرِ دَعْوَى أَحَدٍ بِهِ.
(السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية (ص: 51)
امیر المؤمنین نے فرمایا: حکومت کا ہونا ضروری ہے، چاہے نیک و صالح ہو یا فاجر وفاسق. پوچھا گیا: فاجر و فاسق حکومت کا کیا فائدہ؟ فرمایا: اس کے ذریعے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
1۔ حدود کا نفاذ ہوتا ہے.
2۔ رستے محفوظ ہوتے ہیں.
3۔ دشمن سے جہاد کیا جاتا ہے۔ اور مال غنیمت کی تقسیم ہوتی ہے۔
ان امور کا نفاذ حکومت پر واجب ہے، چاہے کوئی مطالبہ کرے یا نہ کرے۔
کسی اسلامی حکومت کے متعلق یہ تصور بھی سیاسۃ شرعیہ میں موجود نہیں کہ اس میں یہ تین کام نہ ہوتے ہوں۔
آگے فرماتے ہیں:
ومن عطلہ لذلک وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى إقَامَتِهِ- فَعَلَيْهِ لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَهُوَ ممن اشترى؛ بآيات الله ثمنا قليلاً.
حاکم وقت قدرت کے باوجود نفاذ حدود میں پہلو تہی کرے تو اس بر اللہ ، فرشتوں، تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں، یہ ان بدبخت لوگوں میں سے ہے، جو اللہ کی کتاب کے بدلے میں چند ٹکوں پر راضی ہوجاتے ہیں۔
پھر آگے فرمایا:
فَإِذَا أُقِيمَتْ الْحُدُودُ، ظَهَرَتْ طَاعَةُ اللَّهِ، وَنَقَصَتْ مَعْصِيَةُ اللَّهِ تَعَالَى،فَحَصَلَ الرِّزْقُ وَالنَّصْرُ.(ص: 54)
اقامت حدود سے اطاعت الہی کا رححان پیدا ہوتا ہے، برائیاں کم ہوتی ہیں، رزق کے دروازے کھلتے اور نصرت وتائید ملتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نفاد حدود میں کوتاہی، فساد وفتنہ کا ذریعہ اور حاکم کی ذلت ورسوائی کا سبب ہے۔
وكثير مِمَّا يُوجِدُ مِنْ فَسَادِ أُمُورِ النَّاسِ، إنَّمَا هو لتعطيل الْحَدِّ بِمَالٍ أَوْ جَاهٍ، وَهَذَا مِنْ أَكْبَرِ الْأَسْبَابِ الَّتِي هِيَ فَسَادُ أَهْلِ الْبَوَادِي وَالْقُرَى وَالْأَمْصَارِ: مِنْ الْأَعْرَابِ، وَالتُّرْكُمَانِ، وَالْأَكْرَادِ، وَالْفَلَّاحِينَ، وَأَهْلِ الْأَهْوَاءِ كَقَيْسٍ، وَيَمَنٍ، وَأَهْلِ الْحَاضِرَةِ مِنْ رُؤَسَاءِ الناس وأغنيائهم وَفُقَرَائِهِمْ، وَأُمَرَاءِ النَّاسِ وَمُقَدَّمَيْهِمْ وَجُنْدِهِمْ، وَهُوَ سَبَبُ سُقُوطِ حُرْمَةِ الْمُتَوَلِّي، وَسُقُوطِ قَدْرِهِ مِنْ الْقُلُوبِ، وَانْحِلَالِ أَمْرِهِ.(السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية (ص: 56)
رشوت خوری کرکے حدود کے نفاذ میں کوتاہی بہت سارے فتنہ و فساد کا ذریعہ ہے، لوگوں کے مختلف طبقات عموما اسی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں، حاکم وقت لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے، اور دلوں سے اتر جاتا ہے۔ لوگوں کےہاں اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہتی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فسق و فجور کی سرپرستی کرنے والے حکمرانوں اور ذمہ داروں کی مثال
وَوَلِيُّ الْأَمْرِ إذَا تَرَكَ إنْكَارَ الْمُنْكَرَاتِ وإقامة الحدود عليهما بِمَالٍ يَأْخُذُهُ: كَانَ بِمَنْزِلَةِ مُقَدَّمِ الْحَرَامِيَّةِ، الَّذِي يُقَاسِمُ الْمُحَارِبِينَ عَلَى الْأَخِيذَةِ، وَبِمَنْزِلَةِ الْقَوَّادِ الَّذِي يَأْخُذُ مَا يَأْخُذُهُ؛ لِيَجْمَعَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَلَى فَاحِشَةٍ، وَكَانَ حَالُهُ شَبِيهًا بِحَالِ عَجُوزِ السُّوءِ امْرَأَةِ لُوطٍ، الَّتِي كَانَتْ تَدُلُّ الْفُجَّارَ عَلَى ضَيْفِهِ، الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا: {فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ} [الأعراف: 83] (سورة الأعراف: الآية 83) . وَقَالَ تَعَالَى: {فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ} [هود: 81] (سورة هود: من الآية 18) . فَعَذَّبَ اللَّهُ عَجُوزَ السُّوءِ الْقَوَّادَةَ بِمِثْلِ مَا عَذَّبَ قَوْمَ السُّوءِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ الْخَبَائِثَ، وَهَذَا لِأَنَّ هَذَا جَمِيعَهُ أَخْذُ مَالٍ لِلْإِعَانَةِ على الإثم والعدوان، وولي الأمر إنما نُصِبَ لِيَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَى عَنْ الْمُنْكَرِ، وَهَذَا هُوَ مَقْصُودُ الْوِلَايَةِ. فَإِذَا كَانَ الْوَالِي يُمَكِّنُ مِنْ الْمُنْكَرِ بِمَالٍ يَأْخُذُهُ، كَانَ قَدْ أَتَى بضد المقصود، مثل مَنْ نَصَّبْتَهُ لِيُعِينَكَ عَلَى عَدُوِّكَ، فَأَعَانَ عَدُوَّكَ عَلَيْكَ. وَبِمَنْزِلَةِ مَنْ أَخَذَ مَالًا لِيُجَاهِدَ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَاتَلَ بِهِ الْمُسْلِمِينَ. يُوَضِّحُ ذَلِكَ أَنَّ صَلَاحَ الْعِبَادِ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ؛ فَإِنَّ صَلَاحَ الْمَعَاشِ وَالْعِبَادِ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَا يَتِمُّ ذَلِكَ إلَّا بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ، وَبِهِ صَارَتْ هَذِهِ الْأَمَةُ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} [آل عمران: 110] (سورة أل عمران: من الآية 110) . وَقَالَ تَعَالَى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} [آل عمران: 104] (سورة آل عمران: من الآية 104) .
(السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية (ص: 58)
حاکم وقت یا ذمہ دار رشوت خوری کرکے برائیوں پر زبر وتوبیخ چھوڑدے تو اس کی مثال اس دلال اور فحش و فجور کے اس ٹھیکہ دار کی سی ہے، جو پیسے لے کر لوگوں کے لیے فحش کاری کا انتظام کردیتا ہے، ایسا شخص تو اس بری عورت جیسا ہے، جس نے فحش کاروں کو حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی طرف رہنمائی کی۔
ولی الأمر کی تو ذمہ داری ہی امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے، حکومت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے، جبکہ منکرات کی سرپرستی کرنے والے تو اس کے باکل الٹ چلتے ہیں، یہ تو ایسے ہی ہے، آپ کسی سے تعاون کریں کہ وہ دشمن کے مقابلے میں آپ کی مدد کرے، لیکن وہ الٹا دشمن کی آپ کے خلاف مدد کرنا شروع ہوجائے، یا وہ مجاہد جو فنڈ تو فی سبیل اللہ کے نام پر اکٹھا کرے، لیکن پھر مسلمانوں سے ہی لڑنا شروع ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اور معیشت کی بہتری ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہے، اور یہ تب تک ممکن نہیں، جب تکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کما حقہ سرانجام نہ دیا جائے۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
برائی پر سکوت، پورے معاشرے کے بگاڑ کا سبب ہے.
إن المعصية إذا خفيت لَمْ تَضُرَّ إلَّا صَاحِبَهَا، وَلَكِنْ إذَا ظَهَرَتْ فلم تنكر ضرت الْعَامَّةَ. (السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية (ص: 59)
معصيت جب تک پوشیدہ ہو تو عاصی کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن جب وہ عام ہوجائے، اور پھر اس کا رد نہ کیا جائے، تو یہ معاشرے کے بیگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ سُئِلَ: الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَاجِبٌ، عَلَى الْمُسْلِمِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنْ خَشِيَ؟ قَالَ: «هُوَ وَاجِبٌ عَلَيْهِ حَتَّى يَخَافَ، فَإِذَا خَشِيَ عَلَى نَفْسِهِ فَلَا يَفْعَلُ»
(الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال (ص: 16)
امام احمد سے پوچھا گیا، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہر مسلمان پر واجب ہے؟ فرمایا: ہاں۔ سائل نے کہا: اگر انسان خوف میں مبتلا ہو تب بھی؟ فرمایا: حالت خوف میں بھی واجب ہے، ہاں اگر جانے جانے کا خطرہ ہو، تو پھر اسے یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
«لَوْلَا السَّيْفُ، وَالسَّوْطُ، وَأَشْبَاهُ هَذَا لَأَمَرْنَا وَنَهَيْنَا، فَإِنْ قَوِيتَ فَأْمُرْ وَانْهِ»
(الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال (ص: 16)
شعيب بن حرب فرماتے ہیں، اگر ہمیں تلوار اور کوڑکے کا ڈر نہ ہونا،تو ہم بھی اچھائی کا حکم اور برائی سے روکتے، اگر آپ یہ مار کٹائی برداشت کرسکتے ہیں، تو آپ کو یہ کام کرتے رہنا چاہیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
عن هارون بن إسحاق أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قُلْتُ رَجُلٌ تَكَلَّمَ بِكَلَامِ سُوءٍ يَجِبُ عَلَيَّ فِيهِ أَنْ أُغَيِّرَهُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ فَلَا أَقْدِرُ عَلَى تَغْيِيِرِهِ، وَلَيْسَ لِي أَعْوَانٌ يُعِينُوننِي عَلَيْهِ؟ قَالَ: «إِذَا عَلِمَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ أَنَّكَ مُنْكِرٌ لِذَلِكَ فَأَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ عَلَيْكَ شَيْءٌ»
(الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال (ص: 18)
ہارون بن اسحاق نے امام احمد سے پوچھا: میری بری بات کرنے والو کو سنتا ہوں، لیکن میں اس وقت اسے منع نہیں کرسکتا، اور نہ ہی میری مدد کرنے والا کوئی ہوتا ہے، تو امام صاحب نےفرمایا: اگر اللہ تعالی کو معلوم ہوا کہ تم دل سے اس کو برا جانتے ہو، تو تمہاری اوپر کوئی حرج نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مثنی بن جامع الانباری بیان کرتے ہیں:
سَلَّمْتُ عَلَى أَحْمَدَ، وَوَضَعْتُ عِنْدَهُ قِرْطَاسًا، وَقُلْتُ: انْظُرْ فِيهَا، وَاكْتُبْ لِي جَوَابَهَا، وَفِيهَا: مَا تَقُولُ إِنْ رَأَى الرَّجُلُ الطُّنْبُورَ تُبَاعُ فِي سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمُسْلِمِينَ مَكْشُوفَةً، فَأَيُّهُمَا أَحَبُّ إِلَيْكَ ذِهَابُهُ إِلَى السُّلْطَانِ فِيهَا، أَوْ يَكُونَ مَعَهُ مَنْ يَعْنِي السُّلْطَانُ بِأَمْرِهِ فَيُنَادِي السُّلْطَانُ فِيهَا، أَوْ يَأْمُرُ بِكَسْرِهَا، أَوْ يَكُونُ مِنْهُ فِيهَا بَعْضُ التَّغْيِيرِ، أَوْ جُلُوسُهُ عَنِ الذَّهَابِ إِلَى السُّلْطَانِ وَهُوَ يَأْمُرُ بِلِسَانِهِ وَيُنْكِرُ بِقَلْبِهِ؟ فَكَتَبَ: «يُغَيِّرُ ذَلِكَ إِذَا لَمْ يَخَفْ، فَإِنْ خَافَ أَنْكَرَ بِقَلْبِهِ، وَأَرْجُو أَنْ يَسْلَمَ عَلَى إِنْكَارِهِ»
(الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال (ص: 19)
میں امام احمد کے پاس حاضر ہوا، ایک ورقہ ان کے سامنے رکھا، اور عرض کیا، اس کا جواب ارشاد فرمادیں، کہ ایک شخص بازار میں آلات موسیقی رکھے ہوئے دیکھتا ہے، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ یہ مسئلہ حکمران کے پاس لے کر جائے، یا اس سلسلے میں کسی سے مدد طلب کرے، یا پھر سلطان کے پاس جانے کی بجائے، خود ہی اس کو ہٹائے، یا زبان سے کہہ دیے یا پھر دل سے برا جانے؟ امام احمد نے فرمایا: اگر اسے خوف نہ ہو تو اسے ہاتھ سے اس منکر کو ہٹانا چاہیے، ورنہ دل سے کم از کم برا جاننا چاہیے۔
اسی طرح کا ایک اور سوال بھی امام احمد سے منقول ہے،
قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: يَكُونُ لَنَا الْجَارُ يَضْرِبُ بِالطُّنْبُورِ وَالطَّبْلِ؟ قَالَ: " انْهِهِ، قُلْتُ: أَذْهَبُ بِهِ إِلَى السُّلْطَانِ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَلَمْ يَنْتَهِ، يُجْزِئُنِي نَهْيِي لَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّمَا يَكْفِيكَ أَنْ تَنْهَاهُ "
(الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال (ص: 30)
امام صاحب سے کہا گیا کہ کسی کا پڑوسی اگر طبلہ سرنگی بجاتا ہو، تو فرمایا: اس کو منع کرے، سائل نے کہا: اس کی شکایت حکمران کے پاس لے کر جاؤں؟ فرمایا: نہیں، سائل نے کہا: کہ وہ باز نہیں آتا، تو کیا صرف میرا منع کرنا اس کو کفایت کرجائےگا؟، فرمایا: ہاں آپ کا اس کو منع کرتے رہنا ہی کافی ہے۔
 
Last edited:
Top