- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
فوج ، علما اور حکمران
فوج کسی بھی ملک کا واحد ادارہ ہوتا ہے، جو ملک کی سرحدوں کا حقیقی محافظ ہوتا ہے۔
حکمران جیسا بھی ہو جو بھی ہو، کچھ عرصے کے لیے آتا ہے، اپنی پارٹی وغیرہ کے مفادات کو مقدم رکھتا ہے، اس کے لیے اسے ملک اور عوام کی قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔
اس لیے فوج اگر قومی مصلحت کے لیے حکمرانوں کی بات نہ مانے، تو انہیں خارجی یا باغی وغیرہ نہیں کہا جاسکتا... إلا یہ کہ کوئی خر دماغ فوجی اقتدار کا لالچ کرلے، جیسا کہ مشرف نے کیا، تو اس کی اس صنیع کو درست نہیں کہا جاسکتا۔
جس طرح فوج سرحدوں اور جغرافیے کی حفاظت کرتی ہے، اسی طرح علماء اسلامی سلطنت میں اسلامی نظریات کے محافظ ہوتے ہیں، اگر وقت کا حکمران اسلامی نظریات کا خیال نہ رکھے، یا کوی بھی ادارہ اسلامی ملک میں اسلام مخالف نظریات کا پشتیبان بن جائے، تو علماء کا ایسی صورت حال میں خاموش رہنا درست نہیں، کیونکہ باقی سب کا تو یہ عذر ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا دار لوگ تھے، دین کی انہیں سمجھ نہ تھی، وغیرہ وغیرہ لیکن علماء کے لیے اس صورت حال میں لا علمی عذر نہیں بن سکتی۔
یہ ہے علماء و فوج کے بارے میں ہمارا موقف۔
ایک دوسرا موقف بعض مضطرب و پریشان لوگوں کا ہے، جنہوں نے حاکم کے خلاف جانے والی فوج کے لیے الگ حکم رکھا ہے، اور علماء کے لیے الگ. فوج ان کے نزدیک محافظ وطن ہی رہے گی، البتہ علماء خارجی و باغی اور منہج سے ہٹے ہوئے قرار پائیں گے۔
ہمارے نزدیک یہ پریشان خیالی کسی علمی دلیل یا منطق پر مبنی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے أگر کوئی دلیل ہوسکتی ہے تو وہ صرف ’وردی‘ یعنی ڈنڈا ہے، جس سے ڈرتے ہوئے یہ لوگ فوج کے لیے دلیلیں نکالتے ہیں، اور دوسری طرف علما کے گریبانوں کو آتے ہیں۔
ورنہ جن احادیث کے سوء فہم سے یہ غلط باتوں کی تشہیر کر رہے ہیں، خود ان کے فہم کے مطابق ان احادیث میں بھی اس پریشانی خیالی اور اضطراب کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
حکمران جیسا بھی ہو جو بھی ہو، کچھ عرصے کے لیے آتا ہے، اپنی پارٹی وغیرہ کے مفادات کو مقدم رکھتا ہے، اس کے لیے اسے ملک اور عوام کی قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔
اس لیے فوج اگر قومی مصلحت کے لیے حکمرانوں کی بات نہ مانے، تو انہیں خارجی یا باغی وغیرہ نہیں کہا جاسکتا... إلا یہ کہ کوئی خر دماغ فوجی اقتدار کا لالچ کرلے، جیسا کہ مشرف نے کیا، تو اس کی اس صنیع کو درست نہیں کہا جاسکتا۔
جس طرح فوج سرحدوں اور جغرافیے کی حفاظت کرتی ہے، اسی طرح علماء اسلامی سلطنت میں اسلامی نظریات کے محافظ ہوتے ہیں، اگر وقت کا حکمران اسلامی نظریات کا خیال نہ رکھے، یا کوی بھی ادارہ اسلامی ملک میں اسلام مخالف نظریات کا پشتیبان بن جائے، تو علماء کا ایسی صورت حال میں خاموش رہنا درست نہیں، کیونکہ باقی سب کا تو یہ عذر ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا دار لوگ تھے، دین کی انہیں سمجھ نہ تھی، وغیرہ وغیرہ لیکن علماء کے لیے اس صورت حال میں لا علمی عذر نہیں بن سکتی۔
یہ ہے علماء و فوج کے بارے میں ہمارا موقف۔
ایک دوسرا موقف بعض مضطرب و پریشان لوگوں کا ہے، جنہوں نے حاکم کے خلاف جانے والی فوج کے لیے الگ حکم رکھا ہے، اور علماء کے لیے الگ. فوج ان کے نزدیک محافظ وطن ہی رہے گی، البتہ علماء خارجی و باغی اور منہج سے ہٹے ہوئے قرار پائیں گے۔
ہمارے نزدیک یہ پریشان خیالی کسی علمی دلیل یا منطق پر مبنی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے أگر کوئی دلیل ہوسکتی ہے تو وہ صرف ’وردی‘ یعنی ڈنڈا ہے، جس سے ڈرتے ہوئے یہ لوگ فوج کے لیے دلیلیں نکالتے ہیں، اور دوسری طرف علما کے گریبانوں کو آتے ہیں۔
ورنہ جن احادیث کے سوء فہم سے یہ غلط باتوں کی تشہیر کر رہے ہیں، خود ان کے فہم کے مطابق ان احادیث میں بھی اس پریشانی خیالی اور اضطراب کی کوئی دلیل موجود نہیں۔