• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب، نکتہ اتفاق؟

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان تمام تفصیلات سے بچتے ہوئے میں نے عبد اللہ حیدر بھائی سے مختصرا عرض کیا تھا کہ جن آیات (میں نے چار پانچ آیات اوپر کوٹ کی ہیں) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ ہر ایک سے علم الغیب کی نفی کی ہے، ان کا مفہوم ہم کیا بیان کریں گے؟ کیا وہ اپنے مفہوم میں قطعی الدلالہ اور صریح آیات قرآن کریم کی نہیں؟ کیا وہ آیات کریمہ ہم سب کیلئے حجت نہیں؟
السلام علیکم بھائی انس۔
میں نے سورۃ الجن کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے، التفسیر المیسر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
وهو سبحانه عالم بما غاب عن الأبصار، فلا يظهر على غيبه أحدًا من خلقه، إلا من اختاره الله لرسالته وارتضاه، فإنه يُطلعهم على بعض الغيب
التفسير الميسر (1 / 573)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم بھائی انس۔
میں نے سورۃ الجن کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے، التفسیر المیسر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
وهو سبحانه عالم بما غاب عن الأبصار، فلا يظهر على غيبه أحدًا من خلقه، إلا من اختاره الله لرسالته وارتضاه، فإنه يُطلعهم على بعض الغيب
التفسير الميسر (1 / 573)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم اور عزیز بھائی! میں اس آیت کریمہ اور اس کے مفہوم میں دیگر آیات کریمہ پر بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنی پیش کردہ آیات کے متعلّق آپ سے وضاحت چاہتا ہوں، اسی لئے پہلے بھی عرض کیا تھا، دوبارہ کر رہا ہوں:
اگر میری پیش کی گئی آیات اور ان سے لئے گئے مفہوم پر آپ کو اتفاق ہے تو پھر آگے بڑھتے ہیں، براہِ کرام! آپ واضح کر دیں کہ آپ کے نزدیک میری پیش کی گئی آیات کا کیا مفہوم ہے؟
کیا ان آیات کریمہ میں موجود جس غیب کی بات ہو رہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی جانتا ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم،
انس بھائی! آپ کی توجہ شاید اس طرف نہیں گئی ورنہ مندرجہ بالا اقتباس کے بعد طویل بحث کر کے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے اس کی طرف پہلے ہی اشارہ کیا جا چکا ہے
وعلیکم السلام ورحمۃ للہ وبرکاتہ!
بھائی! میں پیر صاحب کی مکمل عبارت پڑھنے کے بعد درج بالا عبارت سے آپ کے نکالے گئے نتیجے سے متفق نہیں، اسی لئے کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے علاوہ دیگر کچھ پوائنٹس بھی بیان کیے تھے، ان پر آپ نے کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اس لیے حضور پرنور امام الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم کا علم مبارک خداوند کریم کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔ خداوند کریم کے علم کی طرح غیر متناہی اور محدود نہیں بلکہ متناہی اور محدود ہے۔ اور اللہ تعالٰ کے علم محیط کے ساتھ حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی نسبت اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
عبداللہ حیدر بھائی جان،
یہ عبارت اگر اسی طرح سے بطور عقیدہ تسلیم کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا بطور متبع کتاب و سنت بھی یہی عقیدہ ہے جو ان سطور میں بیان ہوا۔ باقی باریک باتیں تو اہل علم ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ علم غیب کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا ہی درست نہیں۔ عطائی تسلیم کیا جائے یا نہ۔ کیونکہ جب موصوف کا اپنا وجود ہی ذاتی نہ ہو تو پھر اس کی کسی صفت میں یہ احتمال کیسے پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ بھی بالذات ہو سکتی ہے۔ یا مثال کے طور پر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطائی طور پر معبود سمجھ لیا جائے کہ بالذات تو اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے لیکن اللہ کے عطا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی معبود ہو گئے ہیں۔ اور یہ صفت معبودیت عطائی، حادث، متناہی اور محدود بھی ہے۔ تو کیا ایسی صفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ماننا شرک ہو جائے گا کہ نہیں؟ لہٰذا جو صفت قرآن نے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے بیان کی ہے اور دوسروں سے نفی بھی کی ہے یعنی علم غیب اور صفت معبودیت۔ ان کو ایسی صفات پر قیاس کرنا جن میں غیر اللہ سے نفی ثابت نہیں ، بدیہی طور پر باطل ہے۔اور ایسی اللہ کیلئے خاص صفات میں دوسروں کو عطائی، غیر مستقل ، متناہی اور حادث تسلیم کرنا بھی شرک کے درجہ تک لے جاتا ہے۔

نیز میں نے جو تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں اس عبارت کی تشریح میں اصل اختلاف ہے۔ یعنی بریلوی احباب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ علم غیب اگرچہ عطائی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت ان کی ذات میں ودیعت کر دی ہے کہ وہ جب چاہیں کسی چیز کو معلوم کر لیں اور ایک مرتبہ یہ علم عطا کر دئے جانے یا یہ صفت ودیعت ہونے کے بعد اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں افعال اختیاریہ کی طرح تصرف کرنے میں مستقل ہیں ۔۔ اور جزئی اشیاء میں وہ اس کے محتاج نہیں ہیں کہ فیضان الٰہی ہو تو ہی انہیں کچھ علم ہو۔۔ جب کہ درست عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی بہت سی باتیں بتائی گئیں۔ لیکن وہ ان غیب کی باتوں میں وحی الٰہی کے محتاج ہوا کرتے تھے ۔

ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔
اب جب یہ حضرات اس محدود علم غیب کے حدود کی تشریح پر اترتے ہیں تو ’اولین و آخرین‘ ، ’جمیع علم ماکان ومایکون‘ ، ’ علم ما فی السّمٰوٰت وما فی الارض‘ کا اثبات کر گزرتے ہیں۔ جبکہ حق بات یہ ہے کہ جمیع ماکان ومایکون کا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم الا بما شاء میں داخل ہے۔

اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس عطائی، محدود، متناہی اور حادث علم کی ان کے نزدیک ایسی اہمیت ہے کہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عالم غیب کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں اور دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم غیب ہونے سے انکار پر کفر کا فتویٰ ہے کہ منکر علم غیب منکر نبی ہے۔
آخری بات یہ کہ چلیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض علم غیب پر مطلع ہونے پر اتفاق ہو بھی جائے ، تو بھی بریلوی احباب کے لئے تو یہ نکتہ آغاز ہے۔وہ ان کے لئے علم غیب ثابت کرتے ہیں تو پھر تمام اولیاءاللہ، بزرگان دین، صوفیاء کے لئے بھی لازم سمجھتے ہیں۔ اور کسی کو عالم غیب سمجھے بغیر ولی سمجھنے کا غالباً وہاں کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔

مختصراً یہ کہ اس عبارت میں الفاظ خوب احتیاط سے استعمال کئے گئے ہیں۔ اور بے شک یہ عبارت حق ہے لیکن اس سے مراد لیا جانے والا مفہوم جو کہ بریلوی علماء و عوام میں رائج ہے، باطل ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اس ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ فریق ثانی کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے بھی تسلیم کر رکھا ہے کہ
علم جب کہ مطلق بولا جائے ۔ خصوصا جب کہ غیب کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے۔ (ملفوظات،حصہ سوم:ص٢٨٣، مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور)
اسی نقطہ کو سمجھ لیا جائے تو میرے خیال میں کافی اختلاف ختم ہو سکتا ہے۔ جب یہ تسلیم ہے کہ علم غیب کا لفظ جب مطلق استعمال کیا جائے تو اس سے زاتی علم سمجھا جاتا ہے تو پھر اس لفظ کا استعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کس طرح جائز ہوا؟ قرآن پاک میں بھی کئی ایک جگہ پر علم غیب کی غیر اللہ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نفی کی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں کسی ایک جگہ بھی علم غیب کا اطلاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا غیر اللہ کے لئے نہیں کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کو بیان کرنے کے لئے جو بھی آیات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ اطلاق نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی اطلاع دی گئی، آپ پر غیب کی بات ظاہر کی گئی۔ اگر غیب کی اطلاع پانے والے یا غیب کی بات سے واقف ہو جانے والے پر علم غیب کا اطلاق صحیح ہے تو اس صورت میں تو ساری امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بہت سی اطلاعات غیب پر واقف ہے۔ کیا اس صورت مین تمام امت علم غیب رکھتی ہے کا عقیدہ درست ہے؟ بات پھر وہی ہے کہ علم غیب کا اطلاق ہوتا ہی ذاتی پر ہے اور یہ صرف اللہ ہی کی شان ہے۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اگر غیب کی اطلاع پانے والے یا غیب کی بات سے واقف ہو جانے والے پر علم غیب کا اطلاق صحیح ہے تو اس صورت میں تو ساری امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بہت سی اطلاعات غیب پر واقف ہے۔ کیا اس صورت مین تمام امت علم غیب رکھتی ہے کا عقیدہ درست ہے؟
جزاک اللہ خیرا طالب بھائی !
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
إلى غير هذا من الآيات التي تدل على أن الله سبحانه استأثر بعلم الغيب، لكن يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات، فيعلمون منها بقدر ما أعلمهم الله فقط،
مجموع فتاوى اللجنة الدائمة بالسعودية - المجلد العاشر (العقيدة).
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
إلى غير هذا من الآيات التي تدل على أن الله سبحانه استأثر بعلم الغيب، لكن يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات، فيعلمون منها بقدر ما أعلمهم الله فقط،
مجموع فتاوى اللجنة الدائمة بالسعودية - المجلد العاشر (العقيدة).
اگر غیب کی اطلاع پانے والے یا غیب کی بات سے واقف ہو جانے والے پر علم غیب کا اطلاق صحیح ہے تو اس صورت میں تو ساری امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بہت سی اطلاعات غیب پر واقف ہے۔ کیا اس صورت مین تمام امت علم غیب رکھتی ہے کا عقیدہ درست ہے؟


يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات
کیا ملائکہ کے پاس بھی ’’علم غیب‘‘ عطائی ، حادث اورمحدود ہے؟؟؟؟؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
علم غیب کے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اگر ان دروس کو سن لیا جائے تو میرے خیال میں کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا ، کیونکہ ان کے ذریعہ بہت سوں کے اشکالات واعتراضات کو دور کیا جا چکا ہے
وہ دروس یہ ہیں:
http://www.deenekhalis.net/play.php?catsmktba=57
http://www.deenekhalis.net/play.php?catsmktba=959
جلد ہی ان دروس کو یونیکوڈ میں پیش کیا جا رہا ہے جو کہ امید ہے کہ زیادہ مفید چیز ثابت ہوگی بالخصوص نیٹ کی دنیا پر ۔
 
Top