اعتبار، متابعت اور شاہد
اعتبار :
لغت میں
اعْتَبَرَ سے مصدر ہے۔مراد کہ معاملہ میں غوروفکر کرنا کہ اسی کی جنس کی کوئی شے معلوم ہوجائے۔
اصطلاحاً:
اس کی تعریف یہ کی گئی ہے:
تَتَبُّعُ طُرُقِ حَدِیْثٍ انْفَرَدَ بِرِوَایَتِہِ رَاوٍ، لِیُعْرَفَ ہَلْ شَارَکَہُ فِیْ رِوَایَتِہِ غَیْرُہُ أَوْ لَا۔
ایک ایسی حدیث کی اسانید کو تلاش کرنا جسے ایک ہی راوی نے روایت کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیا اس کی روایت میں کوئی اور بھی شریک ہے یا نہیں۔
جب کسی روایت کا راوی اکیلاہو تو محدثین ذخائرحدیث میں کسی اور راوی کو بھی تلاش کرتے ہیں جس نے یہی حدیث روایت کی ہو۔۔اس طرح یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ منفرد راوی ہے یا اس کے ساتھ کوئی اور بھی شریک ہے یا کسی نے اس کی متابعت کی ہے یااس کا کوئی شاہد بھی ہے۔محدث کی یہ بحث وتفتیش اعتبار کہلاتی ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ:
… اس حدیث کا راوی منفرد ثقہ ہے اور کوئی بھی اسے روایت نہیں کررہا۔ تو اسے فرد مطلق یا غریب مطلق کہہ دیتے ہیں۔
…اگر کوئی اور راوی مل جائے تو اس سند کو متابعت کہتے ہیں۔
… اور اگر یہ علم ہوجائے کہ حدیث کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہے تو ایسی حدیث شاہد کہلاتی ہے۔
اسی لئے محدثین کا یہ کہنا:
اعْتَبَرْنَا ھَذَا الْحَدِیثَ۔ اس حدیث کو ہم نے اعتبار کیا۔ یہ اعتبار ہے۔ پھر اعتبار کا نتیجہ بیان کیا جاتا ہے۔مثلاً: ابوبکر الخطیبؒ فرمایا کرتے: میں نے عبد اللہ بن خیران کی بہت سی احادیث کا اعتبار کیا تو میں نے انہیں مستقیم پایا۔یہ احادیث ان کی ثقاہت کی شاہد بن گئیں۔
متابعت:
لغت میں :
تَابَعَ سے اسم فاعل ہے اور
وَافَقَ کے معنی میں آتا ہے۔اسے
تَابِعٌ بھی کہتے ہیں۔
اصطلاحاً:
حَدِیْثٌ شَارَك. فِیْہِ رُوَاتُہُ رُوَاةَ الْحَدِیْثِ الْفَرْدِ لَفْظاً وَمَعْنیً أَو مَعْنًی فَقَطْ، مَعَ الاِتِّحَادِ فِی الصَّحَابِیِّ۔ ایک حدیث جس کے راوی حدیث فرد کے راویوں سے لفظی ومعنوی اعتبار سے یا صرف معنوی اعتبار سے شریک ہوجائیںاور اوپر صحابی میں متفق ہوں۔
جب راوی ایک ہی حدیث کی روایت میں کسی دوسرے راوی کے ساتھ شریک ہوجائے تویہ شراکت دو طریقوں سے ہوتی ہے:
أ۔ تامہ: شروع اسناد میں راوی کو دوسرے راوی کی مشارکت مل جائے تو اسے متابعت تامہ کہہ دیتے ہیں۔نیچے دی گئی مثال دیکھئے۔
ب۔قاصرہ: اثناء سند میں راوی کو دوسرے راوی کی مشارکت مل جائے تو اسے متابعت قاصرہ کہتے ہیں۔مثلاً:
حَدَّثَنا أَبو أُسامةَ عَن عُبَیدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَن نافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے۔ مگراس کے آخری الفاظ یوں ہیں:
فَإِنْ أُغْمِیَ عَلَیْکُم فَاقْدُرُوا لَہُ ثَلاثِینَ۔ یہ حدیث امام ابن خزیمۃ نے
عَنْ عَاصِمٍ بْنِ مُحَمدِ بْنِ زَیدٍ عَن أبِیہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھُمَا سے روایت کی ہے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں:
فَإنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَکَمِّلُوا ثَلَاثِیْنَ۔ اس حدیث میں راوی کو متابعت جا کر سیدنا ابن عمر ؓسے ملی ہے اور آخری لفظ حدیث بھی مختلف ہیں اس لئے اسے متابعہ قاصرہ کہتے ہیں۔ (النکت: ۳؍۶۸۴)
شاہد:
اسم فاعل ہے شہادۃ سے۔ کیونکہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس حدیث فرد کی کوئی اصل وبنیاد ہے جس سے حدیث قوی ہوجاتی ہے۔جیسے ایک گواہ مدعی کی بات کو گواہی دے کر قوی کردیتا ہے۔
اصطلاحاً:
حَدِیْثٌ یُشَارِكُ فِیْہِ رُوَاتُہُ رُوَاةَ الْحَدِیْثِ الْفَرْدِ لَفْظاً وَمَعْنًی أَوْ مَعْنًی فَقَطْ، مَعَ الاِخْتِلَافِ فِی الصَّحَابِیِّ
ساری کوشش کے باوجود حدیث فرد ہی رہی۔ پھر کوئی اور ایسی حدیث ملی جواسی حدیث کا معنی پیش کررہی تھی تو دوسری حدیث پہلی حدیث کی شاہد کہلائے گی۔ شاہددراصل صحابی ہوتے ہیں جو اصل حدیث کی روایت میں لفظاً شریک نہیں ہوتے بلکہ مفہوم حدیث کی تائید ان سے مل جاتی ہے۔مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ قول:
وَفِی الْباَبِ عَنْ فُلَان وَفلَانٍ۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ محدثین اس قول پر یوں تبصرہ کرتے ہیں: اس سے مراد اصل حدیث ہے نہ کہ بعینہ یہ حدیث۔ علماء نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول پر احادیث کو ڈھونڈا اور ان کی تخریج کی ہے۔اور کتب لکھی ہیں۔
ایک جامع مثال:
جس میں اعتبار ، متابعت اور شاہد کو بخوبی سمجھا جاسکے: امام شافعی رحمہ اللہ کتاب الام میں ایک حدیث بہ سند: امام شافعی ؒ عن مالک عن عبد اللہ بن دینار عن عمر سے روایت کرتے ہیں:
الشَّھْرُ تِسْعٌ وَّعِشْرُونَ، فَلَا تَصُوموا حَتّٰی تَرَوُا الْھِلالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتّٰی تَرَوْہُ، فَإِنْ غُمَّ علَیکمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّةَۃ ثَلاثِینَ۔ (الام: ۲؍۹۴) مہینہ انتیس کا ہوتا ہے جب تک چاند نہ دیکھو روزہ نہ رکھو اور افطار بھی نہ کرو۔ اگر بادل تم پر چھائے ہوئے ہوں تو گنتی تیس پوری کرو۔
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں موطا کے تمام نسخوں میں امام مالکؒ سے یہ حدیث فَإنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوا لَہُ کے الفاظ سے ہے۔مگر متن کے ایک جملے
فإِنْ غُمَّ عَلَیکُم فَأَکْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاثِینَ۔میں امام شافعیؒ اپنے دیگر ساتھیوں سے
فَاقْدُرُوا لَہُ روایت کرکے منفرد ہوجاتے ہیں جب کہ سب کے شیخ امام مالکؒ تھے۔
اس کی مزید اسانید تلاش کی گئیں توصحیح بخاری میں یہ حدیث اس سند سے ملی:
حَدَّثَنا عَبدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِیُّ، ثَنَا مَالِكٌ ۔ آگے اسناد اور لفظ بھی وہی ہیں جو امام شافعیؒ نے اپنی روایت میں ذکر کئے ہیں۔ اس طرح امام شافعیؒ کی متابعت ، عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبیؒ سے ہوگئی جوصحیح ترین حدیث کی علامت ہے۔اسے متابعت تامہ کہتے ہیں۔
مزید تحقیق کی تو یہی حدیث صحیح ابن خزیمہ میں بہ روایت
عاصمُ بْنُ مُحمدٍ عَن أَبیہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضی اللہ عَنھُمَا بہ لفظ فأَکْمِلُوا ثَلاثِینَ کی ملی۔ یہ متابعت قاصرہ ہوئی۔اور صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث بروایت
حَدَّثَنَا أَبو أُسامَةَ عَنْ عُبَیدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ بہ الفاظ
فَاقْدُرُوا ثَلَاثینَ ملی۔یہ بھی متابعت قاصرہ ہوئی۔ اسی حدیث کی ایک شاہد حدیث بروایت
محمدُ بنُ حُنَینٍ عَنِ ابْنِ عَباسٍ عَنِ النبِیِّ ﷺ سنن نسائی میں ملی۔ انہوں نے بھی اسے
عبدُ اللہِ بْنُ دِینارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ والی حدیث کی مانند بعینہ انہی الفاظ میں بیان کیا ہے۔امام بخاری ؒ نے بھی بروایت
محمدُ بْنُ زِیادٍ عَن اَبِی ھُریرةَ سے ان الفاظ میں یہ حدیث بیان کی ہے:
فَإنُ غُمِّیَ عَلَیْکُم فَأَکْمِلُوا عِدّةَۃَ شَعْبَانَ ثَلاثِینَ۔ یہ حدیث بھی معناً شاہد کی حیثیت رکھتی ہے۔
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
متابعت اور شاہد کے انکشاف کی جو صورت و ہیئت بنتی ہے اسے اعتبار کہتے ہیں۔انہوں نے امام ابن الصلاحؒ کی اس تقسیم کا تعاقب کیا ہے جس میں انہوں نے اعتبار کو متابعت اور شاہد کی ایک قسم قرار دیا ۔
اعتبار کے درج ذیل مقاصد ہیں:۔
٭…راوی اگر ثقہ ہے تو اس پر تفرد کا الزام دور کیا جاسکے۔
٭… اگر ایک راوی ضعیف ہے تواس عمل سے حدیث کو تقویت مل سکے۔
٭… اسے دیگر احادیث پر ترجیح دی جاسکے۔
٭… جوامع، معاجم اور مسانید جیسی کتب میں اسی حدیث کی مزید اسانید وغیرہ تلاش کی جاسکیں ۔
متابعت کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ کسی راوی کی حدیث کی مزید تحقیق ہوجائے۔ مثلاً: حماد بن سلمۃ ایک حدیث کو
عَنْ أَیُّوبَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِی ہُرَیرَةَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ روایت کرتے ہیں۔ محدثین اس حدیث کی تحقیق مزید کے لئے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کسی اور ثقہ نے یہی حدیث ایوب سے روایت کی ہے؟ اگر ایسی روایت مل جائے تو وہ اسے متابعت تامہ کہہ دیتے ہیں۔ اور اگر نہ ملے تو پھر یہ تلاش کرتے ہیں کہ ایوب کے سوا کسی اور ثقہ نے یہی حدیث ابن سیرین سے روایت کی ہے اگر وہ مل جائے تو اسے متابعت قاصرہ کہہ دیتے ہیں اور اگر یہ بھی نہ ملے تو پھر اس تلاش میں لگ جاتے ہیں کہ ابن سیرین کے سوا کسی اور ثقہ نے یہی حدیث ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ اگر وہ مل جائے تو بھی اسے متابعت قاصرہ کا نام دیتے ہیں اور اگر نہ ملے تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ایسی حدیث مل جائے جسے ابوہریرہ کے علاوہ کسی اور صحابی نے آپ ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہو۔اگر ایسی روایت مل جائے تو یہ بھی متابعت قاصرہ کہلاتی ہے ورنہ ایسی حدیث فرد یا غریب ہوگی۔جیسے یہ حدیث:
أَحْبِبْ حَبِیبَكَ هَوْنًا مَّا۔۔۔اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے بہ سند سابق حماد بن سلمۃ روایت کرکے کہا ہے:
غَریبٌ لَا نَعْرِفُهَ بِھٰذَا الإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ ھذَا الْوَجْہِ۔ یہ حدیث غریب ہے جسے ہم سوائے اسی اسناد کے کہیں اور نہیں جانتے۔امام سیوطی تدریب میں اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
أیْ مِنْ وَجْہ یَثْبُتُ وَإِلَّا فَقَدْ رَوَاہُ الْحَسنُ بْنُ دِینارٍ عَنِ ابنِ سِیرینَ، وَالْحَسَنُ مَتْرُوكُ الْحَدیثِ لَا یَصْلُحُ لِلْمُتَابَعَاتِ۔ یعنی ایسی سند سے جو ثابت ہے۔ورنہ اس حدیث کو حسن بن دینار نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے ۔ یہی حسن متروک ہے جو متابعات کے لائق نہیں۔
شاہد کو پیش کرنے کا مقصد: یہ ہوتا ہے کہ:
٭… صحابہ کرام کے بارے میں یہ علم ہو تا ہے کہ وہ بھی اسی معنی کی حدیث کو تواتر کے ساتھ روایت کرتے رہے ہیں۔
٭…کبھی متن میں موجوداضافہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔
٭…کبھی حدیث کو تقویت مل جاتی ہے جب اس میں معمولی ضعف کا احتمال ہو ۔ ضعف شدید کی صورت میں توایسی حدیث سے استشہاد نہیں لیا جاسکتا۔ مثلاً راوی متہم ومتروک ہو۔
٭…کبھی متن میں ابہام کو دور کرنے اور اس کی وضاحت کے لئے شاہد کی ضرورت پڑتی ہے۔
٭…کبھی زمان ومکان کی وضاحت کے لئے بھی ضرورت پڑتی ہے۔
قدیم محدثین، متابع وشاہد کا استعمال ایک دوسرے کے لئے کیا کرتے۔ وَالاَمْرُ فِیہِ یُسْرٌ۔ بقول امام ابن حجرؒاس معاملہ میں آسانی ہے۔ اصطلاحا ت کے استقرار کے بعد زیادہ مناسب یہی ہے کہ ان کا مفہوم وہی لیا جائے جو متعین ہوچکا ہے۔
چنداصول:
متابعت اور شاہد میں یہ شرط نہیں کہ اس کا راوی ثقہ ہو بلکہ ثقہ سے کم تر بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس کی حدیث معتبر ہوگی۔ یعنی اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ محدثین کے اس قول: لَا یُعْتبََرُ بِہِ، اس سے اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔کا یہی مطلب ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کے بڑے ماہرتھے جیسا کہ سنن میں دیکھا جاسکتا ہے۔
٭…کبار ائمہ محدثین کو متابع کی ضرورت نہیں ہوتی۔الزعفرانی کہتے ہیں: میں نے امام احمدؒ بن حنبل سے عرض کی: اس حدیث میں عفان کی کس نے متابعت کی؟ مجھے فرمانے لگے: کیا عفان کو کسی متابع کی ضرورت ہے؟(سیر اعلام النبلاء ۱۰؍۲۴۷)
٭…اگر ایک راوی ثقات کی متابعت کرتا ہے تو یہ اس کی تقویت کا باعث ہے۔عفانؒ کہتے ہیں: یحییؒ بن سعید، ہمام کی بیشتر احادیث پر اعتراض کیا کرتے۔ جب معاذ ؒبن ہشام تشریف لائے اور ہم نے ان کتب کو بغور دیکھا تو وہ بہت سی احادیث میں ہمام کی روایات کے موافقت کررہے ہیں۔ اس کے بعد یحییٰ بھی اعتراض سے رک گئے۔
اہمیت متابعات:
اختلاف رواۃ کے وقت راجح کا متابعات سے پتہ چل جاتا ہے۔عباسؒ دوری کہتے ہیں میں نے یحییؒ بن معین سے پوچھا: اعمشؒ کی وہ حدیث جس میں وکیعؒ اور ابومعاویہؒ اختلاف کریں تو؟ فرمانے لگے: توقف کرو یہاں تک کہ ان میں سے کسی کا متابع مل جائے۔ مثالیں اوپر گذر چکیں ہیں۔
…ایسے رواۃ جن کا حدیثی اعتبار تو کیا جاتا ہے مگر احتجاج نہیں۔جیسے امام احمدؒ ، عمرو بن شعیب کی روایت میں بہت سی مناکیرپاتے ہیں مگرانہیں صرف اعتبار کے لئے لکھنے کا فرماتے ہیں باقی وہ حجت ہوں ایسا نہیں۔
…سیدنا انسؒ بن مالک کے وہ شاگرد جو ثقہ ہیں ۱۵۰ھ تک باقی رہے۔ ان کا اعتبار کیا جاتا ہے۔جو۱۹۰ھ تک زندہ رہے وہ ضعیف ٹھہرے ۔ اس لئے ان کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کچھ اور بھی رہے جو ناقابل اعتماد اور غیر مقبول ٹھہرے۔جیسے ابراہیم بن ہدبۃ، ابومیس دینار، خراش بن عبد اللہ، موسیٰ الطویل، وغیرہ۔ یہ لوگ دو سو ہجری کے بعد تک کچھ عرصہ رہے مگر ان کی روایت کا اعتبار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
٭٭٭٭٭
حیران کن رویے
ختم المرسلین ہی کے ذریعے رب کریم نے یہ الجھن دور کرکے امتیاز قائم کیا کہ:
ایمان کیا ہے اور کفر کیا؟ نفع کیا ہے اور نقصان کیا؟۔ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا؟۔نجات کیا ہے اور عذاب کیا؟ سرکشی کیا ہے اور رشد کیا؟ راہ راست کیا ہے اور ٹیڑھ پن کیا؟ جنتی کون ہیں اور جہنمی کون؟ متقی کون ہیں اور فاجر کون؟ اور وہ کون ہیں جنہوں نے انعام یافتہ : انبیاء، صدیق، شہداء اورصالحین کے راستوں پر چلنے میں ہر اس راہ کوچھوڑا جو غضب الٰہی کا یا گمراہی وضلالت کا موجب تھی۔
جسم انسانی جس طرح کھانے پینے کا محتاج ہے اس سے کہیں زیادہ جو رسول محترم لائے وہ اس کی معرفت اور اطاعت کا محتاج ہے۔ کیونکہ اگر کھانا پینا اسے نہ مل سکا تو زیادہ سے زیادہ اسے موت آجائے گی مگر یہ معرفت اور اطاعت نصیب نہ ہوئی تو عذاب رب کو بھگتنا پڑے گا۔اس لئے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی بساط بھر کوشش وہمت کرکے رسول محترم کے عطا کردہ دین کی اور اس کی اطاعت کی معرفت حاصل کرے کیونکہ عذاب الیم سے بچنے اور آخرت میں نعمتوں بھری زندگی کی یہی کنجی ہے۔