• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے

شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
السلام علیکم
@اسحاق سلفی بھائی
میرہ مطلب تھا کہ علماء اہل سنت نے حضرت طلحہ و زبیر رضوان اللہ علہم اجمعین کے قتل کو سبائیوں کے سر لگا دیا بعض علماء اسے حضرت علی رضہ کی فوج کی جانب سے قتل ہوئے کہتے ہیں لیکن ااس کے ساتھ کہتے ہیں کہ قتل جائز تھا کہ وہ خلیفہ بر حق کے خلاف اٹھے تھے اس لئے حضرت علی رضہ پر اس کا الزام لگانا درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی میں صرف اب اس بات کی تحقیق کرنی ہے کہ کی واقعی میں وہ حضرت علی رضہ کے خلاف خروج کر رہے تھے اور حضرت علی رضہ ان سے جنگ کے لئے مدینہ سے تشریف لے گئے تھے۔(اس پر میں نے ایک بریلوی بھائی کو جواب لکھا تھا اگر کہیں تو شیئر کرسکتا ہوں)۔۔۔ اس پر بھی علماء نے تحقیق کرلی ہے لیکن اس میں ابھی بھی کچھ نہ کچھ کیا جاسکتا ہے۔ رہی بات حضرت عمار بن یاسر رضہ کی تو بھائی ان کے ہی قتل کے بنیاد پر سیدنا معاویہ رضہ کو علی الاعلان باغی بھی کہا گیا علماء اہل سنت کی طرف سے۔ اور پھر روایات گھڑ کر یہ باور بھی کرایا گیا کہ سیدنا معاویہ رضہ یہ جاننے کے باوجود کہ عمار رضہ کے قتل سے علی رضہ کا حق پر ہونا ثابت ہو گیا ہے پھر بھی عبداللہ بن عمر و بن العاص رضہ کو چپ رہنے کے لئے کہتے ہیں اور حق جاننے کے باوجود علی رضہ سے جنگ جاری رکھتے ہیں۔ ۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمد علی بھائی اگر صرف عمار بن یاسر کی شہادت کا مسئلہ حل ہو جائے تو ہماری تاریخ کے بہت سے بدنما داغ دور ہو سکتے ہیں لیکن ہم یہ داغ دور کرنا نہیں چاہتے اور اس کی وجہ مجھے اگر میں غلط نہیں ہوں تو کسی حد تک شخصیت پرستی کا ہے
محترم فیض الابرار صاحب -

متفق -

میں نے شید پہلے بھی بیان کیا تھا کہ تاریخی تجزیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کے معاملے میں متعصب ہو، اس کی اس شخص کے بارے میں بات کو قبول نہ کیا جائے۔ قتل عمار رضی الله عنہ اور اس قسم کے دوسرے واقعیات کی تفصیل ہمیں تاریخ طبری، یا البدایہ و النھیۂ یا تاریخ ابن سعد وغیرہ میں ہی ملتی ہے- اور ان واقعات کا متن مورخین ہشام کلبی، محمّد بن عمر الواقدی اور ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی تاریخی روایات کا ہی ماخذ ہے- یہ تینوں موصوف نہ صرف کذاب مشہور ہیں بلکہ غالی شیعہ تھے - بعد کے معتدل مورخین ابن جریر طبری رح ، ابن اثیر رح وغیرہ نے زیادہ تر انہی تینوں سے روایات کو اخذ کیا ہے لیکن ان روایات کے صحیح ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی-

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر اہل سلف سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے اس قسم کے واقعات جن میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے باہمی اجتہادی اختلافات یا مشجرات جو احادیث کی کتب مسند احمد ، بخاری، مسلم وغیرہ میں بھی پاے گئے - ان کو بھی سند و متن کے اعتبار سے وہی درجہ دے دیا جو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے اقوال و افعال کا تھا - اور ان واقعات کو جھٹلانے والوں پر بھی منکر حدیث کا الزام عائد کردیا -جس کا اثر یہ ہوا کہ اکثریت کی طرف سے ان تاریخی واقعات و مشجرات کو من و عن قبول کرلیا گیا- جب کہ ان تاریخی واقعات جو نبی کریم کی وفات کے بعد پیش آے اور نبی کریم کی اقوال و افعال والی احادیث جن کا تعلق نبی کریم کے اپنے زمانے سے تھا اس میں درجہ کے لحاظ سے فرق ہے - راویوں نے تاریخی معاملات کے معاملے میں اگرچہ محنت ضرور کی لیکن اس کی اسطرح چھان بین نہیں کی جس طرح احادیث نبوی صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے اقوال و افعال کی کی گئی کیوں کہ نبی کریم کی احادیث پر یقین کرنا ہمارے ایمان کا حصّہ ہے- جب کہ تاریخی واقعات کے معامله مخلتلف ہے- اس بنا پر اس میں راویوں کی طرف سے نا صرف بد احتیاطی برتی برتی گئی بلکہ اکثر راویوں کے تعصب کی بنا پر صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے متعلق ان تاریخی واقعات میں سند و متن کے لحاظ سے کافی تضاد پایا گیا- (واللہ اعلم)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم
بھائی صرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ نہیں بلکہ سیدنا طلحہ رضہ و زبیر رضہ کے قتل اور حضرت علی رضہ و معاویہ رضہ کے دور میں صحابہ کے قتل ہوئے ان کا معاملہ بھی ہے جمل کا حادثہ اور ام المومنین کو قتل کرنے کی کوشش اور بصرہ میں ان سے ناروا سلوک ان کومعاذاللہ باندی بنانے کے مطالبے ان سب پر اگر صحیح سے تحقیق کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں جمل ایک جنگ نہیں حادثہ تھا حضرت زبیر و طلحہ رضوان اللہ علہم اجمعین کے قتل کا حل تو علماء اہل سنت نے نکال لیا لیکن حضرت عمار بن یاسر رضہ کے قتل کو حضرت معاویہ رضہ و عمرو بن العاص رضہ کے گلے میں فٹ رہنے دیا۔۔ اس جنگ عمار ضہ کی عمر 92 برس تھی کیا علی رضہ ان کو ساتھ لے سکتے تھے اس عمر میں جنگ کے لئے یہ سوچنے کی بات ہے۔اور اسی طرح حضرت حسین رضہ کی شہادت اور اس کے بعد تاریخی کہانیوں میں بھی عصبیت کا بہت سا عمل دخل ہے ۔ یہاں تک رئیس المورخین کہلانے والے ابن خلدون بھی اسی عصبیت کا شکر ہوگئے۔۔ مزید اللہ ہی بہتر جانتا ہے
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ہماری تاریخ ایسے ہی مغالطات سے بھری ہوئی ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے
جیسا کہ واقعہ کربلا میں دمشق، کوفہ، مکہ کے درمیان خط و کتابت کا معاملہ ہے کیا اس دور کے وسائل نقل و اتصال کے لیے اتنی محدود مدت میں ممکن تھا کہ یہ ساری خط و کتابت ہو سکے اگر 08 ذوالحجۃ سے 10 محرم تک 31 یا 32 دن بنتے ہیں اور ان شہروں کی جغرافیائی حدبندیاں آج بھی وہی ہیں ۔ میرا تو خیال ہے اس فاصلے کے ساتھ ایک مرتبہ ہی ابن زیاد کا خط دمشق پہنچ سکتا ہے کجا کے بار بار رابطے ہو رہے تھے
اسی طرح جنگ جمل کو سمجھنے کے لیے مدینہ ، مکہ، کوفہ اور بصرہ کے محل وقوع کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایک لشکر مکہ سے نکلتا ہے اور مدینہ کے پاس سے ہوتا ہوا بصرہ پہنچتا ہے اور وہاں یہ جنگ ہوتی ہے کیا ساری منظر کشی حقیقت اور سچ پر مبنی ہے یا رواۃ نے قصہ گوئی انداز میں اسلام کی خوبصورتی کو داغدار ہی کیا ہے
متفق-

مصنف محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب "خلافت معاویہ یزید رضی الله عنہ" میں تو یہ تک ثابت کردیا کہ اگر حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو واقعہ کربلا نہ تو کربلا میں پیش آیا اور نہ ١٠ محرم کو یہ سانحہ انجام پذیر ہوا - بلکہ تاریخی حقائق کے مطابق یہ واقعہ نینوا (بابل) میں ٢٠-٢١ صفر کے لگھ بھگ پیش آیا -(واللہ اعلم)-
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تحقیق سے آپ کی مراد کہیں یہ تو نہیں ان صحابہ کے قتل میں جو لوگ ملوث ہیں ان کو بچالیا جائے اور ان کا قتل کا الزام ایک فرضی سبائی تحریک کے سر ڈال دیا جائے جبکہ حضرت زبیر کے قتل کے حوالے سے جناب کفایت اللہ صاحب نے ایک صحیح حدیث پیش کی ہے وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم کوفہ کی مسجد میں حضرت علی بن ابی طالب کے پاس تھے اور آپ کے ہاتھ میں فریکچر تھا۔ عثمان، طلحہ اور زبیر کا ذکر شروع ہوا گیا۔ آپ نے پوچھا: "آپ لوگ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟" ہم نے کہا: "ہم عثمان، طلحہ اور زبیر کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور ہمارا خیال تھا کہ آپ آرام کر رہے ہیں۔" علی نے یہ آیت پڑھی: "یقیناً جن لوگوں کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہو گا، وہ یقیناً اس (جہنم) سے دور رکھے جائیں گے۔" فرمایا کہ یہ معاملہ میرا، عثمان، طلحہ اور زبیر کا ہے۔ پھر فرمایا: "میں بھی عثمان، طلحہ اور زبیر کے شیعوں (پارٹی) میں شامل ہوں۔" پھر یہ آیت پڑھی: "ہم ان کے دلوں میں کچھ رنجش بھی ہو گی تو ہم اسے ختم کر دیں گے اور وہ بھائی بھائی بن کر پلنگوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں گے۔ " فرمایا: "یہ عثمان، طلحہ اور زبیر سے متعلق ہے۔ میں بھی عثمان، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین کی پارٹی میں شامل ہوں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم کوفہ کی مسجد میں حضرت علی بن ابی طالب کے پاس تھے اور آپ کے ہاتھ میں فریکچر تھا۔ عثمان، طلحہ اور زبیر کا ذکر شروع ہوا گیا۔ آپ نے پوچھا: "آپ لوگ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟" ہم نے کہا: "ہم عثمان، طلحہ اور زبیر کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور ہمارا خیال تھا کہ آپ آرام کر رہے ہیں۔" علی نے یہ آیت پڑھی: "یقیناً جن لوگوں کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہو گا، وہ یقیناً اس (جہنم) سے دور رکھے جائیں گے۔" فرمایا کہ یہ معاملہ میرا، عثمان، طلحہ اور زبیر کا ہے۔ پھر فرمایا: "میں بھی عثمان، طلحہ اور زبیر کے شیعوں (پارٹی) میں شامل ہوں۔" پھر یہ آیت پڑھی: "ہم ان کے دلوں میں کچھ رنجش بھی ہو گی تو ہم اسے ختم کر دیں گے اور وہ بھائی بھائی بن کر پلنگوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں گے۔ " فرمایا: "یہ عثمان، طلحہ اور زبیر سے متعلق ہے۔ میں بھی عثمان، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین کی پارٹی میں شامل ہوں۔
ویسے تو یہ روایات اس موضوع سے غیر متعلق ہے لیکن اس سے شیر خدا حضرت علی کے اعلیٰ کردار اور اخلاق کی عکسی ہوتی
میں نے جو کفایت اللہ صاحب کی جانب سے پیش کی گئی روایت پیش کی جس میں حضرت زبیر کے قاتل کا ذکر ہے کیا آپ اس بات سے متفق ہیں اور حضرت طلحہ کے قتل کے بارے کہا جاتا ہے انہیں لعنتی مروان نے قتل کیا اس بات میں کہاں تک صداقت ہے ؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
متفق-

مصنف محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب "خلافت معاویہ یزید رضی الله عنہ" میں تو یہ تک ثابت کردیا کہ اگر حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو واقعہ کربلا نہ تو کربلا میں پیش آیا اور نہ ١٠ محرم کو یہ سانحہ انجام پذیر ہوا - بلکہ تاریخی حقائق کے مطابق یہ واقعہ نینوا (بابل) میں ٢٠-٢١ صفر کے لگھ بھگ پیش آیا -(واللہ اعلم)-
اب جس محمود احمد عباسی کو وہابیہ نجدیہ خود ہی ناصبی کہیں اس کی تحقیق کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
لیکن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والا معاملہ تو ابھی تک تحقیق طلب ہے
اگر آپ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے میں اہل سنت کی کتب سے مواد آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں جس سے اس معاملے کی تحقیق میں آپ بہت مدد ملے گی
"‏ ويح عمار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ تقتله الفئة الباغية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عمار يدعوهم إلى الله ويدعونه إلى النار ‏"‏‏.‏
صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 2812
صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 447

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ' یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔
مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوگا کہ یہ باغی گروہ کون سا تھا جس نے حضرت عمار کو قتل کیا

حضرت عبدالله بن عمرو سے روایت ہے کہ میں معاویہ کے پاس تھا کہ اتنے میں دو آدمی تکرار کرتے ہوئے آئے اور دونوں یہ دعوئ کر رھے تھے کہ حضرت عمار کو انہوں نے شھید کیا، اس پر عبداللہ بن عمرو نے ان دونوں سے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک دو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے کہ عمار کو باغی گروہ ھلاک کرے گا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ اے عمرو (یعنی ان کے والد سے کہا)! آپ اپنے اس دیوانےسے ھمیں آزاد کیوں نہیں کرا دیتے? یہ ھمارے ساتھ کیا کر رھا ھے? اس پر عبدالله بن عمرو نے کہا کہ ایک دفعہ میرے والد نے میری نبی پاک سے شکایت کی، جس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ والد کی اطاعت کرنا، نافرمانی نہ کرنا، اس وجہ سے میں آپ کے ساتھ ھوں مگر لڑا نہیں ۔
مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 7/247 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
إتحاف الخيرة المهرةالصفحة أو الرقم: 8/15 خلاصة حكم المحدث : صحيح

یہی روایت مسند احمد میں بھی بیان ہوئی لیکن اس روایت کا ابتدائی حصے کا ذکر نہیں کیا گیا
مسند أحمد الصفحة أو الرقم:11/139 خلاصة حكم المحدث :إسناده صحيح
یعنی حضرت عمار کو قتل کرنے والے انعام کے لالچ میں معاویہ بن ابی سفیان کے پاس آئے اور دونوں یہ دعویٰ کررہے تھے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو اس نے قتل کیا ہے اس لئے وہ انعام کا حقدار ہے لیکن اللہ بھلا کر حضرت عبداللہ بن عمرو کا انھوں نے کلمہ حق معاویہ کی مجلس میں برملہ کہہ دیا عمار کو" باغی گروہ ھلاک کرے گا" اس پر بجائے اس کے کہ حضرت عمار کے قتل پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جاتا الٹا کلمہ حق کہنے کی پاداش میں ابن عمرو نے مجنوں کا خطاب پایا معاویہ کے دربار سے لیجیئے عبداللہ بن عمرو کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بھی ملاحظہ فرمالیں

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے ارشاد فرمایا کہ " اے عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے "
( صحیح بخاری حدیث نمبر480 ترجمہ داؤد راز )
حضرت عمار کی بارے ابن کثیر کہتے ہیں
" آپ صفین میں 91 سال کی عمر میں قتل ہوئے "

تاریخ ابن کثیرترجمہ البدایہ والنہایہ ۔جلد7 صفحہ 408

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
گزارش ہے کہ ایک ہی بات کو جگہ جگہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، کسی جگہ کوئی موضوع شروع ہوتا ہے تواس کے تمام پہلؤوں پر اسی جگہ گفتگو کرلیا کریں ۔ تاکہ پڑھنے والے کو بھی کوئی فائدہ ہو جائے ۔
بلکہ موضوع شروع کرنے سے پہلے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے متعلق پہلے کوئی تھریڈ موجود ہے یا نہیں ۔
حالیہ موضوع اس سے پہلے بھی کئی جگہ زیر بحث رہ چکا ہے :
http://forum.mohaddis.com/threads/حضرت-عمار-بن-یاسر-رضی-اللہ-عنہ.9472/page-6
http://forum.mohaddis.com/threads/سنی-معاویہ-نام-کیوں-نہیں-رکھتے-؟.9471/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
تحقیق سے آپ کی مراد کہیں یہ تو نہیں ان صحابہ کے قتل میں جو لوگ ملوث ہیں ان کو بچالیا جائے اور ان کا قتل کا الزام ایک فرضی سبائی تحریک کے سر ڈال دیا جائے جبکہ حضرت زبیر کے قتل کے حوالے سے جناب کفایت اللہ صاحب نے ایک صحیح حدیث پیش کی ہے وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں
بہرام صاحب آپ نے شیخ کفایت اللہ صاحب کے حوالے سے جو روایت پیش کی ہے ،،، (بفرض صحت ) اس پرشاید آپ نے غور نہیں کیا ،اس میں جناب زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا کھرا علوی کیمپ تک جاتا ہے ،،قاتل اگر جناب علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کا نہیں تھا تو سیدنا زبیر کا سر ان کے پاس کیوں لے گیا ؟؟
اور سیدنا علی نے قاتل کو جہنم کی بشارت تو سنادی ۔۔تاہم اس سے قتل زبیر کا بدلہ نہیں لیا ،کوئی سزا نہیں دی ؟؟


آپ کی پیش کردہ روایت ایک دفعہ ملاحظہ کیلئے مکرر پیش ہے

عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے والد محترم اورجنت کی بشارت یافتہ عظیم المرتبت صحابی زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا اورقاتل ان کے سر کو لیکرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرحاضرہوا، چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الْوَالِبِيَّ قَالَ : دَعَا الأَحْنَفُ بَنِي تَمِيمٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، ثُمَّ دَعَا بَنِي سَعْدٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، فَاعْتَزَلَ فِي رَهْطٍ ، فَمَرَّ الزُّبَيْرُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : ذُو النِّعَالِ ، فَقَالَ الأَحْنَفُ : هَذَا الَّذِي كَانَ يُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَاتَّبَعَهُ رَجُلاَنِ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ أَحَدُهُمَا فَطَعَنَهُ ، وَحَمَلَ عَلَيْهِ الْآخَرُ فَقَتَلَهُ ، وَجَاءَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْبَابِ فَقَالَ : ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِ ، فَسَمِعَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : بَشِّرْ قَاتَلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ ، فَأَلْقَاهُ وَذَهَبَ.
ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل زبیر کو اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ،
 
Top