• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب آپ نے شیخ کفایت اللہ صاحب کے حوالے سے جو روایت پیش کی ہے ،،، (بفرض صحت ) اس پرشاید آپ نے غور نہیں کیا ،اس میں جناب زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا کھرا علوی کیمپ تک جاتا ہے ،،قاتل اگر جناب علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کا نہیں تھا تو سیدنا زبیر کا سر ان کے پاس کیوں لے گیا ؟؟
اور سیدنا علی نے قاتل کو جہنم کی بشارت تو سنادی ۔۔تاہم اس سے قتل زبیر کا بدلہ نہیں لیا ،کوئی سزا نہیں دی ؟؟
اور جب یہی بات کی جاتی ہے کہ اگر امام حسین کا قاتل یزید نہیں تھا تو پھر کیوں صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ان کا سر یزید کے گورنر کوفہ کےدربار میں پیش کیا گیا اس پر لمبی خاموشی ہوجاتی ہے
شاید آپ نے احنف بن قیس کے حالات کا مطالعہ نہیں کیا اگر حضرت علی پر نعوذباللہ آپ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے زبیر کے قتل کا بدلہ نہیں لیا تو یہ الزام تو معاویہ بن ابوسفیان کے سر بھی جائے گا کہ معاویہ نے اپنے سب سے بڑے حمایتی زبیر کے قتل کا بدلا لینے کی بجائے احنف بن قیس کو اپنا مشیر خاص بنایا اور یہی نہیں بلکہ زبیر کے فرزند عبداللہ بن زبیر کے سر بھی یہ الزام جائے گا کہ انھوں نے بھی اس کی حمایت کی بلکہ عبداللہ بن زبیر کے بھائی مصعب والی کوفہ کے ساتھ احنف بن قیس کے دوستانہ مراسم بھی تھے
اور پھر اس فورم پر عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت زبیر کے قاتل احنف بن قیس کی تعریف بھی کی جارہی ہے مندرجہ لنک پر
http://forum.mohaddis.com/threads/میں-قرآن-کریم-میں-کہاں-ہوں-؟.26860/#post-214979
اور ایسے رحمہ اللہ کی دعائیں بھی دی جارہی ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ حضرت زبیر کا قتل کوئی برائی نہیں پھر آپ کا شیر خدا فاتح خیبر حضرت علی کے بارے میں اس طرح زبان درازی کرنا مناسب نہیں لگتا
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ویسے تو یہ روایات اس موضوع سے غیر متعلق ہے لیکن اس سے شیر خدا حضرت علی کے اعلیٰ کردار اور اخلاق کی عکسی ہوتی
میں نے جو کفایت اللہ صاحب کی جانب سے پیش کی گئی روایت پیش کی جس میں حضرت زبیر کے قاتل کا ذکر ہے کیا آپ اس بات سے متفق ہیں اور حضرت طلحہ کے قتل کے بارے کہا جاتا ہے انہیں لعنتی مروان نے قتل کیا اس بات میں کہاں تک صداقت ہے ؟؟
حضرت طلحہ کا قاتل کون تھا؟

بعض تاریخی روایات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو مروان بن حکم نے شہید کیا۔ ان روایات کا مقصد سوائے مروان کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ مروان کی شخصیت کو خاص طور پر تعصب اور کردار کشی کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ بنو امیہ کی حکومت دراصل بنو مروان ہی کی حکومت تھی جسے عباسی اور علوی گرانا چاہتے تھے۔ کے بارے میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کزن تھے اور ان کے پرجوش حامی تھے۔ ایک موقع پر حضرت عثمان کی حفاظت کرتے ہوئے باغیوں کے ہاتھوں زخمی ہو چکے تھے۔ حضرت طلحہ، انہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ لے کر اٹھے تھے اور مروان ان کے لشکر میں شامل تھے۔ اس وجہ سے مروان کے ان کو قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اگر یہ کہا جائے کہ ان کے خیال میں حضرت طلحہ ، حضرت عثمان کے خلاف باغیوں کو اکسانے والے تھے تو یہ بات بھی بالکل غلط تھی۔ باغیوں نے یہ کوشش البتہ ضرور کی تھی کہ اکابر صحابہ کو بدنام کرنے کے لیے قتل عثمان کی تہمت ان پر لگائی جائے لیکن مروان آخر دم تک حضرت عثمان کی حفاظت کرتے رہے تھے اور حالات سے بخوبی آگاہ تھے۔ دوسرے یہ کہ اگر وہ معاذ اللہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ہی کو ذمہ دار سمجھ کر انہیں مارنا چاہتے تھے تو اس وقت سے پہلے بھی بہت سے مواقع انہیں مل سکے تھے۔ وہ مکہ سے لے کر بصرہ تک آئے تھے اور درمیان میں باغیوں سے کئی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اگر مروان انہیں شہید کرنا چاہتے تو پہلے بھی کر سکتے تھے۔

درست بات یہی ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو باغیوں نے شہید کیا۔ گھمسان کی جنگ میں ایک تیر ان کے پاؤں پر لگا اور خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ شہید ہوئے۔ جنگ میں جب ہزاروں تیر برس رہے ہوں تو اس بات کا تعین ممکن نہیں ہوتا کہ کس کا تیر کسے لگا ہے؟ مروان سے تعصب رکھنے والے کسی راوی نے ان پر الزام عائد کر دیا ہے۔ بلاذری نے اس الزام کی جو اسناد بیان کی ہیں، وہ یہ ہیں:

1۔ حدثنا عبد الله بن محمد بن أبي شيبة، حدثنا وكيع عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن حازم.

2۔ حدثني عمرو بن محمد الناقد وأحمد بن إبراهيم الدورقي، قالا: حدثنا أبو أسامة عن إسماعيل، عن قيس.

یہ دونوں روایتیں بنیادی طور پر ایک ہی روایت ہے جس کے راوی قیس بن حازم کوفی ہیں۔ ان صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی بیان کردہ روایتیں ’’منکر‘‘ کے درجے پر ہوتی تھیں ۔ یہ حضرت علی کے بارے میں کچھ تعصب رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کوفہ کے اہل علم ان کی روایتوں سے اجتناب کرتے تھے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اگر امام حسین کا قاتل یزید نہیں تھا تو پھر کیوں صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ان کا سر یزید کے گورنر کوفہ کےدربار میں پیش کیا گیا
کوفہ کے جس گورنر کے رو برو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک پیش کیا گیا ،اسے تو ہم پرلے درجہ کا بد بخت سمجھتے ہیں
ذرا اس کا دفاع کرنے والا سامنے تو لائو۔۔۔
ویسے کتنا گھٹیا موازنہ کیا ہے آپ نے ۔۔کہاں کوفے کا گورنر اور کہاں جناب علی ۔۔۔۔۔
اسد اللہ سے تو عظیم عمل کی توقع کی جاتی ہے،جو آنے والوں کےلئے مثال بنے۔۔۔۔۔۔۔

معاویہ نے اپنے سب سے بڑے حمایتی زبیر کے قتل
بڑے پتے کی بات بتائی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کا ٹکٹ جس کے ہاتھ میں ہے ،نبی اکرم ﷺ جس کے متعلق فرمائیں :
‏"‏ إن لكل نبي حواريا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإن حواري الزبير بن العوام ‏"‏‏.ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام (رضی اللہ عنہ) ہیں۔۔
جس کی عظمت یہ ہو کہ رسول اعظم ﷺ اسے فرمائیں۔۔"‏ فداك أبي وأمي ‏"‏‏. ۔ ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔“
ایسا عظیم شخصیت بھی جناب علی رضی اللہ عنہ کے مد مقابل کھڑی ہے ۔۔۔
تو امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی کی بیعت نہ کر کے اتنے ہدف طعن کیوں ؟؟

شیعہ مصنف صحابہ دشمنی میں ڈوب کر لکھتا ہے :
وان حب الدنيا والرئاسة وطلب الشهرة والمقام ايضا تسببت في اغواء الزبير وجعله من مخالفي امير المؤمنين عليه السلام ‘‘
دنیا پرستی،ریاست کی ہوس ،اور شہرت کی طلب نے زبیر کو خراب کردیا تھا (معاذ اللہ )،اور وہ امیر المومنین علی کے مخالف کیمپ چلے گئے تھے ‘‘
http://www.aqaed.com/faq/4323/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
میرے خیال سے جنگ کے اصول و قوائد کے مطابق حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جو کہ 92 سال کے تھے ان کو ساتھ لے کر جانا مطلب انہین جان بوجھ کر موت کی طرف بھیجنا ہے ۔

جہاں تک میرہ خیال ہے سیدنا زبیر رضہ اللہ عنہ کا قتل ابن جرموز نے کیا تھا اور وہی آپ کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آیا تھا اسی بات کو ہی اکثر مورخین نے اختیار کیا ہے۔ واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بہرام صاحب آپ نے شیخ کفایت اللہ صاحب کے حوالے سے جو روایت پیش کی ہے ،،، (بفرض صحت ) اس پرشاید آپ نے غور نہیں کیا ،اس میں جناب زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا کھرا علوی کیمپ تک جاتا ہے ،،قاتل اگر جناب علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کا نہیں تھا تو سیدنا زبیر کا سر ان کے پاس کیوں لے گیا ؟؟
اور سیدنا علی نے قاتل کو جہنم کی بشارت تو سنادی ۔۔تاہم اس سے قتل زبیر کا بدلہ نہیں لیا ،کوئی سزا نہیں دی ؟؟


آپ کی پیش کردہ روایت ایک دفعہ ملاحظہ کیلئے مکرر پیش ہے

عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے والد محترم اورجنت کی بشارت یافتہ عظیم المرتبت صحابی زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا اورقاتل ان کے سر کو لیکرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرحاضرہوا، چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الْوَالِبِيَّ قَالَ : دَعَا الأَحْنَفُ بَنِي تَمِيمٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، ثُمَّ دَعَا بَنِي سَعْدٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، فَاعْتَزَلَ فِي رَهْطٍ ، فَمَرَّ الزُّبَيْرُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : ذُو النِّعَالِ ، فَقَالَ الأَحْنَفُ : هَذَا الَّذِي كَانَ يُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَاتَّبَعَهُ رَجُلاَنِ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ أَحَدُهُمَا فَطَعَنَهُ ، وَحَمَلَ عَلَيْهِ الْآخَرُ فَقَتَلَهُ ، وَجَاءَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْبَابِ فَقَالَ : ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِ ، فَسَمِعَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : بَشِّرْ قَاتَلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ ، فَأَلْقَاهُ وَذَهَبَ.
ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل زبیر کو اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ،
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کوفہ کے جس گورنر کے رو برو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک پیش کیا گیا ،اسے تو ہم پرلے درجہ کا بد بخت سمجھتے ہیں
ذرا اس کا دفاع کرنے والا سامنے تو لائو۔۔۔
ویسے کتنا گھٹیا موازنہ کیا ہے آپ نے ۔۔کہاں کوفے کا گورنر اور کہاں جناب علی ۔۔۔۔۔
اسد اللہ سے تو عظیم عمل کی توقع کی جاتی ہے،جو آنے والوں کےلئے مثال بنے۔۔۔۔۔۔۔


بڑے پتے کی بات بتائی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کا ٹکٹ جس کے ہاتھ میں ہے ،نبی اکرم ﷺ جس کے متعلق فرمائیں :
‏"‏ إن لكل نبي حواريا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإن حواري الزبير بن العوام ‏"‏‏.ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام (رضی اللہ عنہ) ہیں۔۔
جس کی عظمت یہ ہو کہ رسول اعظم ﷺ اسے فرمائیں۔۔"‏ فداك أبي وأمي ‏"‏‏. ۔ ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔“
ایسا عظیم شخصیت بھی جناب علی رضی اللہ عنہ کے مد مقابل کھڑی ہے ۔۔۔
تو امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی کی بیعت نہ کر کے اتنے ہدف طعن کیوں ؟؟

شیعہ مصنف صحابہ دشمنی میں ڈوب کر لکھتا ہے :
وان حب الدنيا والرئاسة وطلب الشهرة والمقام ايضا تسببت في اغواء الزبير وجعله من مخالفي امير المؤمنين عليه السلام ‘‘
دنیا پرستی،ریاست کی ہوس ،اور شہرت کی طلب نے زبیر کو خراب کردیا تھا (معاذ اللہ )،اور وہ امیر المومنین علی کے مخالف کیمپ چلے گئے تھے ‘‘
http://www.aqaed.com/faq/4323/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میرے خیال سے جنگ کے اصول و قوائد کے مطابق حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جو کہ 92 سال کے تھے ان کو ساتھ لے کر جانا مطلب انہین جان بوجھ کر موت کی طرف بھیجنا ہے ۔

جہاں تک میرہ خیال ہے سیدنا زبیر رضہ اللہ عنہ کا قتل ابن جرموز نے کیا تھا اور وہی آپ کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آیا تھا اسی بات کو ہی اکثر مورخین نے اختیار کیا ہے۔ واللہ اعلم
متفق
 

sabm90

مبتدی
شمولیت
فروری 11، 2015
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
9
ٌْْْْْاس موضوع پر کتاب ہے مولانا مہر محمد صاحب نے لکھی ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ویسے کتنا گھٹیا موازنہ کیا ہے آپ نے ۔۔کہاں کوفے کا گورنر اور کہاں جناب علی ۔۔۔۔۔
ویسے یہ گھٹیا موازنہ کفایت اللہ صاحب میں بھی کیا ہوا ہے جب ان کو صحیح بخاری کی روایت کہ حضرت امام حسین کا سر مبارکہ جب یزید کے گورنر کے دربار میں پیش کیا گیا کوٹ کی گئی تو جواب میں مذکورہ بلا روایت کہ جس میں بیان کیا گیا حضرت زبیر کا قتل احنف بن قیس نے کیا کو گھٹیا موازنے کے طور پر پیش کی
بڑے پتے کی بات بتائی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کا ٹکٹ جس کے ہاتھ میں ہے ،نبی اکرم ﷺ جس کے متعلق فرمائیں :
یہ بھی بڑے پتے کی بات بتائی کہ جنت کا ٹکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہے جیسے چاہیں یہ ٹکٹ عنایت فرمادیں اسی لئے کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں

صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم
جس کی عظمت یہ ہو کہ رسول اعظم ﷺ اسے فرمائیں۔۔
اورجس کی عظمت یہ ہو کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دے چکا ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتا ۔وہ حضرت علی کی بیعت کرتے ہیں اور حضرت علی کے مخالفوں سے قتال کرتے ہیں
وہ کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائیں کہ "جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو یہ دیکھوں کہ ابن سمیہ کس جماعت میں ہے پھر اسی جماعت سے چپکے رہو " اور یہ ابن سمیہ یعنی حضرت عمار بن یاسر لوگوں میں اختلاف کے وقت حضرت علی کی جماعت میں تھے
وہ کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمائیں کہ " اے ابو یقظان تم اس وقت تک نہیں مروگے جب تک تمہیں ایک باغی جماعت قتل نہ کردے"
اور یہی ابو یقظان یعنی حضرت عمار بن یاسر جنگ صفین میں معاویہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوجاتے ہیں پھر جانے کیوں لوگ اس گروہ کو باغی گروہ ماننے میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں اور صحیح احادیث کے مقابلے اپنے اماموں کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اللہ ھدایت نصیب کرے

اور وہ کہ جن کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائیں کہ" عمار سے دشمنی اللہ سے دشمنی ہے اور عمار سے بغض رکھنا اللہ سے بغض رکھنا ہے "

خیر یہ تو ضمنی باتیں تھیں میرا سوال تو اصل یہ تھا کہ
حضرت زبیر کے قاتل احنف بن قیس سے معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے ساتھی کا قتل کا بدلہ لینے کی بجائے احنف بن قیس کو اپنا مشیر خاص کیوں بنایا ؟؟
اور دوسری عرض یہ تھی کہ حضرت زبیر کے قاتل احنف بن قیس کی وہابیہ اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں ؟
اگر آپ ان پوائنٹ پر کچھ ارشاد فرمائیں تو مجھ کم علم کے علم میں اضافہ ہو
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جہاں تک میرہ خیال ہے
آپ اپنا خیال اپنے پاس رکھیں کیونکہ ایک صحیح السند روایت کفایت اللہ صاحب نے پیش فرمادی ہے اس کے مطابق احنف بن قیس ہی حضرت زبیر کا قاتل ہے
 
Top