• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
مئی 18، 2011
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
34
اجتہاد جس عمل کا نام ہے اس کا تعلق جسمانی بناوٹ سے نہیں علم و عقل سے ہے،کسی شخصیت کے مجتہد ہونے اور نہ ہونے کا انحصار اس کی صلاحیتوں اور علم پر ہے نہ کہ اس کے جسمانی بناوٹ پر اس لیے اجتہاد کے متعلق جنس کے حوالہ سے گفتگو کرنا فضول ہے ۔
ائمہ اصول اور فقہاء امت نے مجتہد کے جو شروط بیان فرماِئے ہیں ان سب کا تعلق فکر و نظر کی قوتوں اور استدلال و استنباط کی صلاحیتوں سے ہے لہذا کسی شخصیت کے متعلق مجتہد ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ انہی قوتوں اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ اس کے جنس کی بنیادپر۔
بہت ہی خوبصورت، ماشااللہ انتہائی خوبصورت جواب۔ بالکل ٹو دی پوائنٹ۔
میں یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا مگر آپ نے کہہ دیں۔ میرا خیال ہے کہ اس خوبصورت لاجیکل دلیل کے بعد اس موضوع پر بات ختم ہو جانی چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
4. فقہ و اجتہاد کے علمی منصب ہونے کے حوالہ سے ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد دونوں کو علم کے حصول کی اجازت بلکہ حکم دیا ہے ۔ لہذا خواتین کے تعلق سے آپ کا یہ تحدید کرنا کہ وہ صرف اتنا علم حاصل کریں جس وہ مجتہد یا فقیہ نہ بن پائیں کس دلیل کی بنیاد پر ہے ؟
بہت خوبصورت بات کی آپ نے، یعنی فقہ و اجتہاد کے علمی منصب ہونے کے ہم دونوں قائل، عورت کے تحصیل علم یا دوسرے معنوں میں جزوی اجتہاد اور فقاہت کے بھی قائل لیکن اس کے مجتہد اور فقیہ ہونے میں ہمارا اختلاف کیوں؟ بہت ہی خوب ! بہترین مکالمہ وہی ہوتا ہے کہ جس میں فریق مخالف کے موقف کا تجزیہ کرتے ہوئے پہلے اتفاقی بنیادوں کو تلاش کیا جاتا ہے اور پھر اتفاق سے ہوتے ہوئے اختلافی نکتہ کو نکھارا جاتا ہے۔
بھائی مختصر جواب تو یہی ہے کہ میرے نزدیک حدیث کے الفاظ ولوا امرھم میں سیاسی یا غیر سیاسی ہر قسم کا منصب شامل ہے۔ اور اب اختلاف اس میںہو جائے گا کہ جنہیں آپ مناصب قرار دیتے ہیں، وہ میرے نزدیک منصب نہیں ہے کیونکہ منصب کا تعلق اتھارٹی سے ہے۔ تفصیلی جواب ان شاء اللہ مستقل مضمون میں دینا چاہوں گا۔

ابن داود بھائی کے لیے گزارش ہے کہ مجتہدہ اور فقیہ کے عرفی معنی سے مراد اس کا اصولی اور اصطلاحی معنی ہی ہے۔ ہمارے اس مکالمے میں بعض لوگوں نے اسے لغوی معنی میں لیتےہوئے دلائل نقل کر دیے تھے تو میں نے وضاحت مناسب سمجھی۔
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
قال أبو عمر: لم ينكح صلى الله عليه وسلم بكراً غيرها واستأذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في الكنية فقال لها: " اكتنى بابنك عبد الله بن الزبير " . يعني ابن أختها. وكان مسروق إذا حدث عن عائشة يقول: حدثتني الصادقة ابنة الصديق البرية المبرأة بكذا وكذا ذكره الشعبي عن مسروق وقال أبو الضحى عن مسروق: رأيت مشيخة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الأكابر يسألونها عن الفرائض وقال عطاء بن أبي رباح: كانت عائشة أفقه الناس وأعلم الناس وأحسن الناس رأياً في العامة وقال هشام بن عروة عن أبيه: ما رأيت أحداً أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة.
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
عورت فقیہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اسے مفتی بننے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اجتھاد کر سکتی ہے یا نہیں ؟
امت اسلامیہ میں کون سی عزت مآب خواتین فقیہ تھیں اور انکے شاگرد کون سے محترم مرد حضرات تھے ؟ اور پھر ان سے کن عزت مآب خواتین نے فقاہت سیکھی اور آگے مردوں کو سکھائی ؟
ان سب باتوں کا جواب اور خالصتاً علمی مضمون آپ عنقریب شائع ہونے والے رسالہ "" اشاعۃ السنہ "" میں ملاحظہ کریں ۔ جس کے لیے یقیناً آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔
موضوع کے مولف محمد ابرار شاہ اسدی ہیں ۔
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ ہونا تاریخی واقعہ ہے شرعی دلیل نہیں۔

رضیہ سلطانہ کا بادشاہ ہونا تاریخی واقعہ ہے شرعی دلیل نہیں۔

ان دوباتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں ۔
  • رضیہ سلطانہ کابادشاہ بننا گرچہ ایک واقعہ ہے مگر رضیا کا ایسا بننا جائز نہیں تھا اس نے ناجائز کام کیا ، کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟؟
  • اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ بننا ایک واقعہ ہے مگر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ایسا بن کر ناجائز کام کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
  • اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ بننا ناجائز ہے تو پھر ان کے فقیہ بننے کو اماں کی عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجتہادی غلطی بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اجتہادی غلطی اس کی متصور ہوگی جس کے لئے مجتہد کا جواز موجود ہوگا ، اب جس کے لئے مجتہد بننا ہی جائز نہیں تو اس کی غلطی کو اجتہادی غلطی نہیں کہہ سکتے ، پھر آخر اسے کیا کہیں گے؟؟؟؟؟





جی ہاں ایسی اجازت عورت کے لئے بھی سنت سے ثابت ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے اجتہاد کی بھی تائید کی ہے بلکہ ایک ہی مسئلہ میں مرد اور عورت دونوں کے مختلف اجتہادات میں سے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا جبکہ اسی مسئلہ سے متعلق عورت کے اجتہاد کی تائید کی اوراسے صحیح قرار دیا ، دلیل ملاحظہ ہو:

امام ابویعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي طَلِيقٍ ، أَنَّ امْرَأَتَهَ ، قَالَتْ لَهُ : وَلَهُ جَمَلٌ وَنَاقَةٌ أَعْطِنِي جَمَلَكَ أَحُجُّ عَلَيْهِ فَقَالَ : هُوَ حَبْسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تعالى ، قَالَتْ : إِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ أَحُجَّ عَلَيْهِ ، فَأَبَى ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي النَّاقَةَ ، وَحُجَّ عَلَى جَمَلِكَ ، قَالَ : لا أُوثِرُ عَلَى نَفْسِي أَحَدًا ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي مِنْ نَفَقَتِكَ قَالَ : مَا عِنْدِي فَضْلٌ عَمَّا أَخْرُجُ بِهِ ، وَلَوْ كَانَ مَعِي لأَعْطَيْتُكِ قَالَتْ : فَإِذَا فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ ، فَأَقْرِئْ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنِّي السَّلامَ إِذَا أَتَيْتَهُ ، وَقُلْ لَهُ الَّذِي قُلْتُ لَكَ فَلَمَّا لَقِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَقْرَأَهُ مِنْهَا السَّلامَ ، وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَتْ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : صَدَقَتْ أُمُّ طَلِيقٍ ، لَوْ أَعْطَيْتَهَا جَمَلَكَ كَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَلَوْ أَعْطَيْتَهَا نَاقَتَكَ كَانَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَإِنْ أَعْطَيْتَهَا مِنْ نَفَقَتِكَ أَخْلَفَهَا اللَّهُ لَكَ ، فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، وَمَا يَعْدِلُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : عَمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 1/ 406 قال الالبانی: أخرجه الدولابي في " الكنى والأسماء " ( ١ / ٤١ ) بسند صحيح وقال الحافظ في " الإصابة " بعد أن ساقه من هذا الوجه : " وأخرجه ابن أبي شيبة وابن السكن وابن منده وسنده جيد " . وذكره بنحوه في " المجمع " ( ٣ / ٢٨٠ ) وقال : " رواه الطبراني في الكبير والبزار باختصار : ورجال البزار رجال الصحيح " . وقال المنذري في " الترغيب " ( ٢ / ١١٥ ) : " إسناد الطبراني جيد "(إرواء الغليل ٣/ ٣٧٦)]۔

مذکورہ حدیث میں بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت نے اجتہاد کیا اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتہاد کی تائید کی ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ :
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے ایک مرد کے اجتہاد کے برخلاف الگ اجتہاد کیا ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا اور عورت کے اجتہاد کی تائید کی ۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت نہ صرف مجتہد ہوسکتی ہے بلکہ اجتہاد و فقاہت میں مرد سے بڑھ بھی سکتی ہے ۔

اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو الصحیحہ میں نقل کیا تو یہ حدیث درج کرنے سے پہلے یہ باب قائم کیا:


امرأة أفقه من رجل

یعنی ایک عورت جو مرد سے بڑی فقیہ تھی



علامہ البانی رحمہ اللہ مذکورہ باب قائم کرنے کے بعد اس کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
(صَدَقت أمُّ طُلَيْقٍ؛ لو أعطيتَها الجمَلَ كان في سبيلِ اللهِ، ولو أعطيتها ناقتكَ كانت وكنتَ في سبيلِ اللهِ، ولو أعطيتها من نفقتِكَ أَخْلَفَكَها اللهُ) .

أخرجه الدولابي في "الأسماء والكنى" (١/ ٤١) : حدثنا إبراهيم بن يعقوب قال: حدثني عمر بن حفص بن غياث قال: ثنا أبي قال: حدثني المختار بن فُلْفُلٍ قال: حدثني طلق بن حبيب البصري أن أبا طليق حدثهم:
أن امرأته أم طليق أتته، فقالت له: حضر الحج يا أبا طليق! وكان له جمل وناقة، يحج على الناقة، ويغزو على الجمل، فسأَلَته أن يعطيها الجمل تحج عليه؟ فقال: ألم تعلمي أني حبسته في سبيل الله؟! قالت: إن الحج من سبيل الله؛ فأعطنيه يرحمك الله! قال: ما أريد أن أعطيَكِ. قالت: فأعطني ناقتك وحج أنت على الجمل. قال: لا أوثركِ بها على نفسي. قالت: فأعطني من نفقتك. قال: ما عندي فضل عني وعن عيالي ما أخرج به وما أترك (الأصل: أنزل) لكم، قالت: إنك لو أعطيتني أخلفكها الله.
قال: فلما أَبَيْتُ عليها، قالت: فإذا أتيت رسول الله- صلى الله عليه وسلم - فأَقْرِئْهُ مني السلام، وأخبره بالذي قلت لك.
قال: فأتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فأقرأته منها السلام، وأخبرته بالذي قالت أم طليق، قال ... فذ كره.
قال: وإنها تسألك يا رسول الله! ما يعدل الحج [معك] ؟ قال: " عمرة في رمضان ".

وهذا إسناد جيد؛ كما قال الحافظ في " الإصابة" , وعزاه لابن أبي شيبة أيضاً، والبغوي، وابن السكن، وابن منده.
وعزاه في "المطالب " (١/ ٣٢٠) لأبي يعلى. يعني: في "المسند الكبير". وأخرجه الطبراني في "المعجم الكبير" (٢٢/ ٣٢٤/٨١٦ و٢٥ /١٧٣/٤٢٥) مطولاً ومختصراً بإسناد واحد من طريق عبد الرحيم بن سليمان عن المختار بن فلفل به، والزيادة له.
وأخرجه البزار (٢/٣٨/١١٥١) من طريق محمد بن فضيل عن المختار به مختصراً.
وقد وقع مثل هذه القصة لأم معقل مع زوجها أبي معقل، وهو مخرج في "الإرواء" (٣/٣٧٥) عنها برواية أحمد.
ورواه ابن خزيمة في "صحيحه " (٣٠٧٧) ، والحاكم وغيرهما من حديث ابن عباس نحوه، وفيه الزيادة بلفظ:
".... تعدل حجة معي ".
وهو مخرج في "الإرواء " (٦/٣٢/١٥٨٧) .
وهي في "صحيح البخاري " أيضاً (١٨٦٣) . انظر " مختصر البخاري " (٢٨- جزاء الصيد/٢٥ باب) .


دیکھئے: [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها :٧/ ١٩٢]۔






اس حدیث میں صرف سربراہی کی بات ہے یعنی عورت مردوں کی سربراہ نہیں بن سکتی ، فقہ و اجتہاد سے اس حدیث کا کیا تعلق ؟؟؟؟
فقہ و اجتہاد سے مسائل شرعیہ بیان کے جاتے ہیں نہ کہ کسی پر حکمرانی کی جاتی ہے۔



یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ، دیکھیں:
اللہ تعالیٰ سب کو علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا عنی و عن ابنائ ام المو منین عائشہ صدیقہ فقیھا حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
عورت فقیہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اسے مفتی بننے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اجتھاد کر سکتی ہے یا نہیں ؟
امت اسلامیہ میں کون سی عزت مآب خواتین فقیہ تھیں اور انکے شاگرد کون سے محترم مرد حضرات تھے ؟ اور پھر ان سے کن عزت مآب خواتین نے فقاہت سیکھی اور آگے مردوں کو سکھائی ؟
ان سب باتوں کا جواب اور خالصتاً علمی مضمون آپ عنقریب شائع ہونے والے رسالہ "" اشاعۃ السنہ "" میں ملاحظہ کریں ۔ جس کے لیے یقیناً آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔
موضوع کے مولف محمد ابرار شاہ اسدی ہیں ۔
وعلیکم السلام
بھائی جان جب یہ مضمون شائع ہو جائے تو ہمیں ضرور بتانا۔
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
وعلیکم السلام
بھائی جان جب یہ مضمون شائع ہو جائے تو ہمیں ضرور بتانا۔
ان شاء اللہ ۔ جب رسالہ شائع ہوگا تو اسی فورم پر اطلاع کردی جائے گی۔ آپ سب سے خصوصی دعاوں کی درخواست ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق تلاش کرنے ، جاننے ، پہچاننے ، قبول کرنے ، اس پر ثابت قدم رہنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مجبوری

اس بحث میں میرے لیےیہ بڑا مسئلہ رہا کہ میں اب تک علوی بھائی کا موقف نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ ابتدا میں ایسا لگا کہ وہ سرے سے عورت کے اجتہاد اور فقاہت کے مخالف ہیں ۔ حتی کہ حضرت عائشہ کو بھی مجتہدہ نہیں مانتے ۔پھر ان کی تحریروں سے محسوس ہوا کہ وہ حضرت عائشہ کو مجتہد تو مانتے پر ان کے مجتہد ہونے کو محض ایک استثنائی واقعہ سمجھتے ہیں اور اس سے کسی شرعی مسئلہ کے استنباط کے خلاف ہیں ۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ خواتین کے جزوی اجتہاد اورفقاہت کے بھی قائل ہیں ۔
بہر حال کسی موقف کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ٹھہراو ہو تاکہ اس کی بنیادوں میں کجی کہاں آئی ہے پتہ لگایا جاسکے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top