بہر حال آپ کا حکم ہے تو میں آپ کے احترام میں عرض کرتا ہوں کہ اجماع بھی ادلہ شرعیہ کی ایک قسم ہے اور اجماع کا ثبوت خود قرآن و سنت سے ہے۔
مسئلہ یہ ہے:۔
اس مسئلہ کی دلیل یہ ہے کہ ہر وہ نجاست جو سبیلین یعنی قبل و دبر سے نکلے اس سے وضو ٹوٹنے پر اجماع ہے۔
قلت: الحاصل أنه أجمع العلماء على أن الخارج المعتاد من أحد السبيلين كالغائط والريح من الدبر، والبول، والمذي من القبل ناقض للوضوء
البنایۃ 1۔257 ط العلمیۃ
"میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ سبیلین میں سے کسی ایک سے جو معتاد چیز نکلے جیسے پاخانہ اور ہوا دبر سے اور پیشاب اور مذی قبل سے ناقض وضو ہیں۔"
انگلی ڈالی تو اگر وہ سوکھی نکلی تو اس پر نجاست نہیں ہے لہذا نجاست نہیں نکلنے کی وجہ سے وضو قائم ہے اور اگر وہ گیلی نکلی تو نجاست دبر سے نکل آئی اس لیے وضو ٹوٹ گیا۔
یہی بات تو ہم نے بھی کہی تھی کہ اجماع بذات خود ایک شرعی دلیل ہے اور کتاب و سنت سے ثابت ہے اس لئے اس کی موجودگی میں مزید کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور اس پر علمائے اہل حدیث اور دیوبندی اکابرین کا یہ اجماع پیش کیا تھا۔ صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے‘‘ لیکن اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اجماع کا دعویٰ علیحدہ چیز ہے اور اور اسکا ثبوت علیحدہ چیز ہے۔ جب تک اس کا ثبوت پیش نہیں کردیا جاتا آپ اس اجماع کو تسلیم نہیں کرینگے۔
اب آپ خود ہی انصاف فرمائیے اور بتائیے کہ جب تک آپ اس اجماع کا ثبوت پیش نہ کردیں اس وقت تک ہم آپکے زبانی کلامی اجماع کو کیسے تسلیم کریں؟؟؟ آپ بتائیں کس صدی میں کس شخص نے سب سے پہلے اس اجماع کو نقل کیا؟ اور کیا اس شخص کے زمانے سے پہلے بھی اجماع تھا؟ چونکہ وضو اور وضو ٹوٹنے کا مسئلہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہے اس لئے اس اجماع کا پہلا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے پیش کیا جانا چاہیے۔ ورنہ یہ اشکال پیدا ہوگا کہ صحابہ نے اس پر اجماع کیوں نہیں کیا پھر اس اجماع کی حیثیت اور صحت بھی مشکوک ہوجائے گی۔
اسکے علاوہ آپ کی اجماع کی جو عبارت ہے یعنی ’’ہر وہ نجاست جو سبیلین یعنی قبل و دبر سے نکلے اس سے وضو ٹوٹنے پر اجماع ہے۔‘‘ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ فطرتاً جو نجاستیں سبیلین سے نکلتی ہیں ان کی بات کی جارہی ہے جبکہ انگلی تو خود بخود نہیں نکلتی بلکہ پہلے دبر میں زبردستی داخل کی جاتی ہے پھر نکالی جاتی ہے۔ اس لئے آپ کا اس نامعلوم اجماع سے فقہ حنفی کے مسئلہ پر استدلال کرنا باطل معلوم ہوتا ہے۔ نجاست کا دبر سے خارج ہونا علیحدہ بات ہے اور زبردستی انگلی ڈال کر دبر سے نجاست نکالنا بالکل ہی علیحدہ مسئلہ ہے اس لئے آپ سے درخواست کہ فقہ حنفی کے مسئلہ پر کوئی صریح دلیل پیش فرمائیں۔
دبر ایک نجس جگہ ہے اب اس نجس جگہ میں کوئی غیر نجس چیز ڈالی جائیگی تو لازماً وہ نجاست کو لے کر ہی لوٹے گی۔ اس لئے اگر انگلی دبر سے گیلی نہ بھی نکلے تب بھی آپ کے اصول کے مطابق نجس ہو کر لوٹنے کی وجہ سے وضو قائم نہیں رہے گا۔ اگر آپ دبر سے نکلنے والی انگلی پر اگر اس پر واضح نجاست نہ لگی ہو اسے پاک سمجھتے ہیں تو بتائیے کہ اپنی دبر میں انگلی داخل کرنے کے بعد اگر وہ سوکھی نکلی کیا آپ اسی انگلی کے ساتھ کھانا کھائیگے؟؟؟
آپ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دبر کے اندر کے حصہ کو بھی نجس نہیں جانتے بلکہ اسکے اندر موجود نجس چیز کو ہی جیسے پخانہ یا گندی ہوا کو ہی نجس مانتے ہیں۔ اس لئے اگر وہ گندی چیزیں دبر سے باہر آئیں تو آپ کے نزدیک وضو ٹوٹتا ہے اور اگر اپنی انگلی دبر میں داخل کی جائے اور وہ سوکھی نکلے یعنی دبر میں موجود نجاست کو لے کر نہ نکلے تو آپ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا۔ کیا آپ کے پاس اس کی دلیل ہے کہ دبر کا اندرونی حصہ نجس نہیں بلکہ پاک ہے؟؟؟؟
یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب حنفی کو وضو چیک کرنے کے لئے اپنی دبر میں انگلی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔ تو کیا اگر کوئی حنفی اپنا عضو تناسل کسی دوسرے حنفی کی دبر میں داخل کرے اور وہ عضو تناسل سوکھا واپس آئے تو کیا اس حنفی کا وضو ٹوٹے گا جس کی دبر میں عضو تناسل داخل کیا گیا تھا؟؟؟
اشماریہ صاحب آپ سے درخواست ہے کہ اگر ہماری پوسٹ کا جواب دینے کا آپ کا ارادہ ہوتو برائے مہربانی تمام باتوں کا جواب دیجئے گا۔