ماشاء اللہ امام غزالی کے فتوہ کا حوالہ دیا جارہا ہے یزید کے بارے میں تو کیا امام غزالی کے دیگر اقوال بھی آپ ایسی طرح قبول فرمالیں گے جیسے اس قول کوپڑھا تو آپ نے بہت بس اللہ سے دُعا ہے آپ کو سمجھ عطاء فرمائیں۔۔۔ تاکہ کوئلے اور کافور کے فرق کو سمجھ سکیں۔۔۔
امام غزالی کا پورا فتوٰی ملاحظہ کیجئے۔۔۔
امام غزالی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا۔۔۔ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو یزید پر لعنت کرتا ہے؟؟؟۔۔۔ کیا اُس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ کیا اُس پر لعنت کا جواز ہے؟؟؟۔۔۔ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ یا اس کا مقصد صرف اپنی مدافعت تھا؟؟؟۔۔۔ اس کو رحمہ اللہ علیہ کہنا بہتر ہے یا اس سے سکوت افضل۔۔۔
امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے جواب دیا۔۔۔
مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعا کوئی جواز نہیں جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔۔۔ علاوہ ازین ہمیں تو ساری شریعت اسلامیہ نے جانوروں تک پر لعنت کرنے سے روکا ہے تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح جائز ہوجائے گا؟؟؟۔۔۔ یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں روایت ہوئی ہے)۔۔۔
یزید کا اسلام صحیح طور پر ثابت ہے جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واقعے کا تعلق ہے سو اس بارے میں کوئی ثبوت موجود نہیں کے یزید نے انہیں قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضامندی ظاہر کی جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایہ ثبوت ہی کو نہیں پہنچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیونکہ جائز ہوگی؟؟؟۔۔۔
جبکہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے تم خواہ مخواہ بدگمانی کرنے سے بچو کے بعض دفعہ بدگمانی بھی گناہ کے دائرے میں آجاتی ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔۔۔
اللہ تعالٰی مسلمان کے خون، مال، عزت اور آبرو اور اس کے ساتھ بدگمانی کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔
جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا اُن کے قتل کو پسند کیا وہ پرلے درجے کا احمق ہے کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا تھا وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسند کیا دراں عالیکہ ان کے قتل اس کے بالکل قرب میں اور اس کے زمانے میں ہوئے اور اس نے ان کا خود مشاہدہ کیا پھر اس قتل کے متعلق (یقینی اور حمتی طور پر) کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا اور جس پر چار سو سال (امام غزالی رحمہ اللہ علیہ کے دور تک) کی مدت بھی گذر چکی ہے۔۔۔
علاوہ ازین اس سانحے پر تعصب وگروہ بندی کی دبیز تہیں چڑھ گئی ہیں اور روایتوں کے انبار لگا دیئے گئے ہیں جس کی بناء پر اصل حقیقت کا سراغ لگانا ناممکن ہے جب واقعہ یہ ہے کے حقیقت کی نقاب کشائی ممکن ہی نہیں تو ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے پھر اہل حق (اہلسنت والجماعت) کا مذہب یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان کافر نہیں ہوگا۔۔۔ اس لئے کے جرم قتل کفر نہیں ایک معصیت (گناہ) ہے پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل مرنے سے پہلے پہلے اکثر توبہ کر ہی لیتا ہے اور شریعت کا حکم تو ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کرلے اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کے لئے کیوں کر جائز ہوگی جس ن مرنے سے پہلے جرم قتل سے توبہ کرلی ہو؟؟؟۔۔۔
آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کئے بغیر ہی مرگیا ہے جب کہ اللہ کا در توبہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔۔۔
وَهُوَ ٱلَّذِى يَقْبَلُ ٱلتَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِۦ
وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے (الشوری)۔۔۔
بہرحال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں جو مرچکا ہو جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے گا وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے۔۔۔
اگر (بالفرض) لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کی بجائے سکوت اختیار کئے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کے تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی؟؟؟۔۔۔
البتہ اگر کسی مسلمان پر لعنت کی تو قیامت کے روز اس سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ تو نے اس پر لعنت کیوں کی تھی؟؟؟۔۔۔ اور تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوگیا تھا وہ ملعون اور راندہ درگاہ ہے؟؟؟۔۔۔
جب کے کسی کے کفروایمان کا مسئلہ امور غیب سے ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہاں شریعت کے ذریعے ہمیں یہ ضرور معلوم ہوا کے جو شخص کفر کی حالت میں مرے وہ ملعون ہے۔۔۔
جہاں تک یزید کو رحمہ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہنے کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب (اچھا فعل) ہے بلکہ وہ از خود ہماری ان دعاؤں میں شامل ہے جو ہم مسلمانوں کی مغفرت کیلئے کرتے ہیں۔۔۔
اللھم اغفرللمومنین والمومنات
یا اللہ تمام مومن مرد اور مومن عورتوں کو بخش دے اس لئے کے یزید بھی یقینا مومن تھا (وفیات الاعیان٣\٢٨٨ طبع بیروت)۔۔۔