• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبروں میں مدفون مردے نہیں سنتے۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
علامہ عمادالدین ابن کثیر لکھتے ہیں:
انک لا تسمع الموتیٰ یعنی تم انہیں کوئی ایسی شے نہیں سنا سکتے جو انہیں نفع پہنچائے ، لہذا اسی طرح یہ کفار جو کہ مردوں کی طرح ہیں جن کے دلوں پر پردے ہیں اور جن کے کانوں میں کفر والا ثقل اور بھاری پن ہے، اسی لئے فرمایا ولا تسمع الصم الدعا اذا ولو مدبرین کیونکہ وہ سننا چاہتے ہی نہیں، انہوں نے دیدہ دانستہ اپنے آپ کو بہرہ بنا رکھا ہے، ان تسمع الا من یومن الخ یعنی آپ کی ہر بات کو وہ لوگ قبول کریں گے جن کے دلوں کے اندر نفع دینے والے حواس (کان اور آنکھیں) موجود ہیں اور وہ لوگ ایسی بصیرت کے مالک ہیں جو اللہ تعالیٰ اور جو کچھ اس کی طرف سے اس کے رسولوں کی زبانی معلوم ہوا ہے، اس کی اطاعت واتباع کے لئے آمادہ اور کمر بستہ ہیں۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
abi hatam 2.JPG
abi hatam 1.jpg
bagvi 1.jpg
bagvi 2.JPG
durmansoor 1.jpg
durmansoor 3.jpg
kaseer 1.JPG
kaseer 2.JPG
kashaaf 1.jpg
kashaaf 2.jpg
یہ آیات کفار کے بارے میں ہیں ،انک لا تسمع الموتیٰ اور وماانت بمسمع من فی القبور میں کفارکو اموات اور اہل قبور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے،کیونکہ وہ اپنے سنے ہوئے آیات اور احکامات نبویہ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔جیسا کی تفاسیر میں ہے ، حوالے اور تفاسیر میں بھی ہیں، لیکن چند حوالے درج ذیل ہیں۔
abi hatam 1.jpg
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
منکرین سماع موتیٰ کا دعویٰ یہ ہے کہ اموات اور اہل قبور نہیں سنتے ، تو قرآن کریم کی عبارت یوں ہونی چاہئے لا یسمع الموتیٰ یا لا یسمع من فی القبور ، لیکن قرآن کریم میں ان کا کہیں ذکر نہیں۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
علامہ عمادالدین ابن کثیر لکھتے ہیں:
انک لا تسمع الموتیٰ یعنی تم انہیں کوئی ایسی شے نہیں سنا سکتے جو انہیں نفع پہنچائے ، لہذا اسی طرح یہ کفار جو کہ مردوں کی طرح ہیں جن کے دلوں پر پردے ہیں اور جن کے کانوں میں کفر والا ثقل اور بھاری پن ہے، اسی لئے فرمایا ولا تسمع الصم الدعا اذا ولو مدبرین کیونکہ وہ سننا چاہتے ہی نہیں، انہوں نے دیدہ دانستہ اپنے آپ کو بہرہ بنا رکھا ہے، ان تسمع الا من یومن الخ یعنی آپ کی ہر بات کو وہ لوگ قبول کریں گے جن کے دلوں کے اندر نفع دینے والے حواس (کان اور آنکھیں) موجود ہیں اور وہ لوگ ایسی بصیرت کے مالک ہیں جو اللہ تعالیٰ اور جو کچھ اس کی طرف سے اس کے رسولوں کی زبانی معلوم ہوا ہے، اس کی اطاعت واتباع کے لئے آمادہ اور کمر بستہ ہیں۔
اس کا ایک جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے-

ابن کثیر سماع الموتی کے قائل ہیں – قرآن میں جب الله تعالی مثال دیتے ہیں تو وہ مثال سچی ہونی چاہیے ورنہ کلام کا عیب ہو جائے گا
الله نے کفار کی مثال مردوں سے دی اب ابن کثیر یا یہ لوگ کہتے ہیں مردہ سنتا ہے لیکن کافر نہیں سنتا
ابن کثیر اس عقیدہ میں صحیح نہیں ہیں اور ان کی بات صحیح نہیں ہے کہ ہے کہا ” تم انہیں کوئی ایسی شے نہیں سنا سکتے جو انہیں نفع پہنچائے” تو کیا ایسی بات سنا سکتے ہیں جس میں نقصان ہو؟
بحث سماع کی ہے بات اچھی یا بری ہے اس کی نہیں ہے​



آلات سماع کان اور دماغ گوشت کے ہیں جو سڑ جاتے ہیں زمین کی سطح پر انسان میں سے کسی کا کان خراب ہو جائے تو وہ سن نہیں پاتا اور یہ لوگ کہہ رہے ہیں وہ زمین میں سنتا ہی رہتا ہے

اہل حدیث کہتے ہیں مردہ کو قیامت تک قبر میں عذاب ہو رہا ہے اور یہ مردہ جس کا کان نہیں چیخ مارتا ہے (گویا اس کا گلا اور پھیپھڑا ہے) جب وہ چیخ خود ہی نہیں سن سکے گا تو چیخ کیوں مارتا رہے گا
دیوبندی اور بریلوی کہتے ہیں مردہ ہر وقت سنتا ہے قبروں سے فیض لو ان مردوں سے بات کرو
سنیں گے
قرآن کی مثال سے ظاہر ہے مردہ کو سنانا ممکن نہیں



 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ(النمل:80)
"بیشک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جبکہ وه پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں"
یہ ترجمہ میں نے اسی تھریڈ سے لیا ہے، سوال یہ ہے کہ
ترجمہ میں لفظ’’سنا سکتے‘‘ میں یہ ’’سکتے‘‘ ترجمہ کس لفظ کی کیا جاتا ہے، میرے خیال میں تو اس کا ترجمہ ’’سناتے‘‘ ہے، یعنی بے شک آپ نہ مردوں کو سناتے ہیں اور نہ بہروں کو۔
’’یعنی آپ کی تبلیغ توان زندہ لوگوں کے لئے ہے جو کہ بات کو سنتے ہیں اور آپ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
اس سے وھابیہ کا یہ استدلال ہی ختم ہوجاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے۔
اس کا یہ جواب بھی دیا گیا -


یہ بات اس وقت صحیح ہوتی اگر عربی بولنے والے عمر اور عائشہ رضی الله عنہما بھی اس کا مطلب یہی لیتے
سوره النمل کی مکی سورت کی تلاوت کرنے کے بعد قلیب بدر پر انہوں نے کہا
آپ مردوں سے کلام کر رہے ہیں
اگر سماع ممکن تھا تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

عائشہ رضی الله عنہا توسرے سے سماع کی قائل ہی نہیں وہ قلیب بدر کو معجزہ تک نہیں مانتیں​
اب ہم تو وہی مانیں گے جو صحابہ نے سمجھا اور سمجھایا​


اور ساتھ یہ اس سکیں پیج کا بھی حوالہ دے رہے ہیں -
kiya hazray aisha razi allah deen say na waqif thian.jpg

 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل الفاظ سے کیا آپ کو اختلاف ہے؟
«مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا عَلَيَّ شَيْئًا»
اس کا صحیح ترجمہ تو کر دیں بھائی - تا کہ ہم جیسے بندوں کو بھی سمجھ آ جایے - الله آپ کو جزا خیر دے - امین.
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
4.jpg
kitabur rooh sma 2.JPG
kitabur rooh sma 1.JPG
3.jpg
2.jpg
1.jpg
4.jpg
3.jpg
2.jpg
1.jpg
1.jpg
2.jpg
3.jpg
4.jpg
1.jpg
2.jpg
3.jpg
kitabur rooh sma 1.JPG
kitabur rooh sma 2.JPG
4.jpg
کسی پتھر ،دیوار کو سلام کرنا جائز نہیں، اسی طرح کسی سوئے ہوئے آدمی کو سلام کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ اُن میں جواب دینے کی صلاحیت نہیں،تو عرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کو فضول بات کی تلقین نہیں فرماسکتے، قبر والوں کو سلام کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سنتے ہیں، یہی اہل اسلام کا عقیدہ ہے۔زیادہ بحث کی ضرورت ہی نہیں۔
1.jpg
2.jpg
3.jpg
1.jpg
2.jpg
kitabur rooh sma 1.JPG
kitabur rooh sma 2.JPG
4.jpg
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس کا صحیح ترجمہ تو کر دیں بھائی - تا کہ ہم جیسے بندوں کو بھی سمجھ آ جایے - الله آپ کو جزا خیر دے - امین.
قَالَ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم): «مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا عَلَيَّ شَيْئًا»
قَالَ
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم): «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا»
صحیح مسلم میں بیان شدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کا یہ فرمان ہے جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشکال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس کا ترجمہ کوئی بھائی کردے۔ شکریہ
اصل احادیث یہ ہیں؛
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: كُنْتُ مَعَ عُمَرَ، ح وَحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ - وَاللَّفْظُ لَهُ - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ، وَكُنْتُ رَجُلًا حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَآهُ غَيْرِي، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ، أَمَا تَرَاهُ؟ فَجَعَلَ لَا يَرَاهُ، قَالَ: يَقُولُ عُمَرُ: سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ، بِالْأَمْسِ، يَقُولُ: «هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللهُ» ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا الْحُدُودَ الَّتِي حَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللهُ حَقًّا» ، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا؟ قَالَ: «مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا عَلَيَّ شَيْئًا»
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: «يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا» فَسَمِعَ عُمَرُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ يَسْمَعُوا وَأَنَّى يُجِيبُوا وَقَدْ جَيَّفُوا؟ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا» ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا، فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top