• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآنی اور حدیثی تعویذ لٹکانا شرک ہے؟

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
مندرجہ بالا پوسٹ کے بعد مجھے شیخ موصوف کا ایک اور فتویٰ نظر آیا ،جس میں اس کے بر عکس قرآنی تعویذوں کو بھی حرام قرار دیا ہے؛ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کی آخری راے کون سی ہے؛ بہ ہر حال اسے بھی ملاحظہ فرمائیں:


س :ما حكم تعليق التمائم ووضعها على الصدر أو تحت الوسادة ؟ مع العلم أن هذه التمائم فيها آيات قرآنية فقط ؟
ج: الصحيح أن تعليق التمائم ولو من القرآن ومن الأحاديث النبوية أنه محرم وذلك لأنه لم يرد عن النبي عليه الصلاة والسلام ، وكل شيء لم يرد عن الرسول عليه الصلاة والسلام فيما يتخذ سبباً فإنه لاغ غير معتبر . لأن مسبب الأسباب هو الله عز وجل فإذا لم نعلم هذا السبب لا من جهة الشرع ولا من جهة التجارب والحس والواقع فإنه لا يجوز أن نعتقده سبباً فالتمائم على القول الراجح محرمة سواء كانت من القرآن أو من غير القرآن . وإذا أصيب الإنسان بشيء فليتخذ أحداً يقرأ عليه كما كان جبريل عليه السلام يرقي النبي صلى الله عليه وسلم وكان الرسول صلى الله عليه وسلم يرقي أصحابه أيضاً . هذا هو المشروع .
الشيخ ابن عثيمين
* * *
كتاب فتاوى اسلامية ج1 ص99

اس کا ترجمہ فتاویٰ اسلامیہ اردو،جلد اول صفحہ149 ،طبع دارالسلام پر دیکھا جا سکتا ہے،جو محدث لائبریری پر موجود ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
قرآنی تعویذوں کے بارے میں اصل اختلاف جواز یا عدم جواز کا ہے؛اسے شرک کوئی بھی نہیں کہتا؛سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے بھی یہی راے اختیار کی ہے،بل کہ کمیٹی کے مطابق اگر کوئی تعویذوں کو محض اسباب سمجھتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ،تو وہ شرک اصغر کا مرتکب ہے؛قرآنی تعویذوں کا استعمال شرک ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ انھیں پہننے والا قرآن میں تاثیر وبرکت کا اعتقاد رکھتا ہے،جو کہ کلام الٰہی اورخدا کی صفت ہے؛علاوہ ازیں عبداللہ بن عمروؓ،ام المومنین عائشہؓ،امام ابو جعفر الباقرؒ اور امام احمدؒ بھی انھیں جائز سمجھتے ہیں اور ممانعت کی حدیثوں کو انھوں نے ایسے تعویذوں پر محمول کیا ہے،جو شرکیہ ہوں۔(فتاویٰ اسلامیہ اردو،جلد1،صفحہ52،54ملخصاً)
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم

آپ اگر اس سوال پر جواب بھائی سے ہی پوچھتے تو بہتر تھا بہن یا باجی کو پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟



رحم پر باندھنا کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مڈوائف کی مدد سے اسے رحم پر باندھا جائے گا بلکہ

رحم پر باندھنا : پیٹ کے اوپر ناف کے قریب باندھنا ہوتا ہے۔

والسلام

اس سے آپ کا اعتراض؟؟؟

منسلک کردہ امیجز میں کچھ قرآنی تعویذ لکھے ہوئے ہیں (افسوس حدیثی تعویذ نہیں مل سکے مجھے شاید حافظ عمران بھائی وہ ڈھونڈھنے میں میری مدد کر سکیں)
مجھے حافظ عمران الٰہی بھائی اور دعا باجی سے معلوم کرنا ہے کہ ان تعویذات کو لکھنے اور بتائے گئے مسائل کے لیے ان کو تجویز کردہ جگہوں پر باندھنے یا پہننے میں کوئی قباحت تو نہیں ہے نا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

5352 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں5353 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

میں یہاں عامر یونس بھائی کی ایک پوسٹ پیش کر رہی ہوں

کیا یہ جائز ہے کا ہم دھاگہ وغیرہ پر قرآن پڑھ کر بچے کی کلائی پر باندھیں تاکہ وہ نظر بد اور بیماریوں سے بچا رہے؟
یا اس کے بدلہ میں قرآنی آیات لکھ کر اسے کسی معدنیاتی تعویذ میں بند کرکے مسلمان کی کلائی کے گرد باندھنا جائز ہے تاکہ نظر بد اور مصائب سے بچا جاسکے؟
یہ دونوں کام ہمارے رہائشی محلہ میں لوگ کثرت سے کرتے ہیں۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام انکے محلہ کی مسجد کا امام سر انجام دے۔ اور میں اپنے بچے کے لئے یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ اسکا کوئی شرعی اور قابل قبول سبب نہ ہو۔ امید ہے کہ آپ حقیقت تک پہنچنے کے لئے میری مدد کریں گے۔
الحمدللہ :
یہ دھاگے اور پٹے وغیرہ باندھنے جائز نہیں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(جس نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اسکے کام کو پورا نہ کرے)
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کردیا گیا۔)
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کاٹنے کا حکم دیا جیسا کہ حدیث میں ہے عمران بن حصین کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا تو اسے کہا کہ یہ کڑا کیسا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یہ کمزوری کی وجہ سے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دے کیونکہ یہ تیری بیماری اور کمزوری میں اور اضافہ کرے گا۔
اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ .
الشیخ ولید الفریان۔
http://islamqa.info/ur/11788

نوٹ!
ابو عبد اللہ بھائی شرک نہ ہونے سے جائز کا جواز مت نکالیں۔اس موقف سے میں بری ہوں! اور یہ وضاحت سے اپنی سابقہ پوسٹس میں بیان کر چکی ہوں۔
اور عبدہ بھائی ایک ہی بات کے تکرار سے بہتر ہے کہ اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کریں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
قرآنی تعویذوں کے بارے میں اصل اختلاف جواز یا عدم جواز کا ہے؛اسے شرک کوئی بھی نہیں کہتا؛سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے بھی یہی راے اختیار کی ہے،بل کہ کمیٹی کے مطابق اگر کوئی تعویذوں کو محض اسباب سمجھتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ،تو وہ شرک اصغر کا مرتکب ہے؛قرآنی تعویذوں کا استعمال شرک ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ انھیں پہننے والا قرآن میں تاثیر وبرکت کا اعتقاد رکھتا ہے،جو کہ کلام الٰہی اورخدا کی صفت ہے؛علاوہ ازیں عبداللہ بن عمروؓ،ام المومنین عائشہؓ،امام ابو جعفر الباقرؒ اور امام احمدؒ بھی انھیں جائز سمجھتے ہیں اور ممانعت کی حدیثوں کو انھوں نے ایسے تعویذوں پر محمول کیا ہے،جو شرکیہ ہوں۔(فتاویٰ اسلامیہ اردو،جلد1،صفحہ52،54ملخصاً)

کاش یہ ایک نقطہ ان اعتراض کرنے والوں کو سمجھ آ جائے جو شرک نہ ہونے سے جواز کی بات پر مصر ہیں!
حالانکہ یہ بلکل ہی الگ بات ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میری معلومات کے مطابق مجتہد زماں حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑیؒ تعویذ دیاکرتے تھے؛اسی طرح مولانا معین الدین لکھویؒ کا بھی یہی معمول تھا اور اب ان کے فرزند تعویذ لکھ کر خلق ِ خدا کی خدمت کر رہے ہیں؛اگر کسی کو اس راے پر اعتماد نہیں ،تو وہ اپنی راے رکھے،لیکن خدارا شرک کا فتویٰ لگا کر اپنی عاقبت برباد نہ کرے کہ اس کی زد موحد علما پر بھی پڑتی ہے،جو شاید آپ سے بھی بڑھ کر توحید کے والا و شیدا تھے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کاش یہ ایک نقطہ ان اعتراض کرنے والوں کو سمجھ آ جائے جو شرک نہ ہونے سے جواز کی بات پر مصر ہیں!
حالانکہ یہ بلکل ہی الگ بات ہے۔
قرآنی تعویذوں کا شرکیہ نہ ہونا ہی جواز کی واحد اور اصل دلیل نہیں ہے،بل کہ صحابہ کرام ؓ اور اسلاف کا طرز عمل ،شریعت سے صریح عدم ممانعت اور تجربات سے اس کی افادیت استدلال کی بنیاد ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
فتوى نمبر:4519

س: ایک شخص ریاض شہر کی بلدیہ کی آفس میں یہ درخواست لے کر پہنچا کہ اس کو بازار میں تعویذ اور ڈوریاں بیچنے کی اجازت دیجئے، جب کہ اس شخص سے "اچھائی کا حکم اور برائیوں سے روکنے والے" ٹیم کے ممبران نے بلدیہ کا لائیسنس لانے اس کو کہا ہے، اور بلدیہ کے ذمہ داروں نے یہ تجویز ہمارے سامنے رکھی کہ اس درخواست گزار کی شخصیت سے اطمینان بخش رپورٹ آجانے کے بعد، اورعام شہریوں کو اس شخص کے استحصال سے دور رکھنے کے اصول وضوابط طے پانے کے بعد آپ مفتیان کرام کی طرف سے اس شخص کو لائسنس جاری کیا جائے۔ میں آپ سے یہ امید کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی آراء سے نوازیں گے، اور اس مسئلے کے متعلق وضع کردہ شرائط پر پورا اترنے والے شخص کو اس جیسی دوکان کھولنے کا لائسنس دینے کے بارے میں شرعی حکم بیان کریں گے۔ ہماری نیک تمنائیں ہر وقت آپ کے ساتھـ ہیں؟
ج: کاغذ یا تختی وغیرہ پر
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 258)

قرآن کریم یا اوراد ووظائف لکھنے اور پھر اس کو بیمار اپنی بیماری سے شفاء کی امید سے پی جانے کے بارے میں اس سے پہلے ایک فتوی صادر ہو چکا ہے، جس میں یہ لکھاجا چکا ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہيں، نہ آپ کے خلفائے راشدین سے، اور نہ آپ کے تمام صحابہ میں سے کسی ایک صحابی رضی الله عنهم سے اس طرح کی کوئی چیز ہمارے علم کے مطابق ثابت ہے، اور مکمل ہدایت کا دار ومدار حضور اکرم صلى الله عليه وسلم، خلفاء راشدین، اور صحابہ رضی الله عنهم کے طریقے کی اتباع پر ہيں، اس فتوی کی نص درجِ ذیل ہے: قرآن، اوراد ووظائف اور دعاوں سے تعویذ لکھنے کی آپ صلى الله عليه وسلم نے اجازت دی ہے، بشرطیکہ یہ لکھے جانے كوئى چیز شرک یا غیر مفہوم کلام نہيں ہے، اس لئے کہ امام مسلم نے اپنی صحيح ميں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کی ہے، اس نے كہا ہے کہ: ہم زمانہ جاہلیت میں تعویذ لکھا کرتے تھے، چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا کہ آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كہا کہ پہلے تم اپنی تعویذ میرے سامنے پیش کرو، اور جب تک تعويذ ميں شرکیہ کلام نہيں ہے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔اورعلماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر تعویذ مذکورہ بالا طریقے کے مطابق لکھی جائے، اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ ایک سبب ہے، جب کہ تاثیر تو صرف اللہ کی قدرت واجازت ہی سے ہوتی ہے، تو یہ تعویذ جائز ہے، اور جہاں تک انسان کی گردن یا کسی اور جگہ پر تعویذ کو لٹکانے کا سوال ہے، تو اگر یہ لکھی ہوئی تعویذ قرآن سے ہٹ کر کوئی اور چیز ہے، تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ شرک ہے، اس لئے کہ امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت عمران بن حصین رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ: بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھـ میں ايک پتيل کا چھلا دیکھا، تو آپ نے اس سے كہا کہ: یہ کیا ہے؟ اس نے كہا یہ "واھنہ" (بخار) سے ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اس کو نکال كر پھینکو، اس سے تمہیں سوائے زياده کمزوری کے کچھـ حاصل ہونے والا نہیں ہے، اور اگر تم مرجاتے، اور یہ چهلا تمہارے ہاتھـ ہی میں ہوتا، تو کبھی تم فلاح یاب نہیں ہوتے۔ اور وہ حدیث جس کو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے آپ صلى الله عليه وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: جس نے تعویذ لٹكايا ہے، اللہ اس کے لئے کوئی کام مكمل نہیں کرے گا، اور جس نے سمندرى سيپى اپنے گلے میں لٹکائی ہے، اللہ اس کو سكون نہ بخشے گا۔ اور امام احمد کی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ: جس نے دم يا تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ نیز وہ حدیث جس کو امام احمد اور ابو داود نے حضرت ابن مسعود رضی الله عنه سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كو يہ كہتے ہوئے سنا کہ:
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 259)

جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈا اور جادو شرک ہے۔ اور اگر جو چیز گلے وغیرہ میں لٹکائی جا رہی ہے، وہ اگر قرآن کی آیات وغیرہ ہیں، تو علماء کے صحیح قول کے مطابق یہ بھی تین اسباب کی بنا پر ممنوع ہے:

پہلا: حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے تعویذ لٹکانے سے متعلق جو احادیث مروی ہیں وہ سب عام ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی دوسری ایسی حدیث نہیں ہے جو اس حدیث کے عام مفہوم کوئى خاص نہيں کرتی ہے۔

دوسرا: وسیلے سے روکنا ہے، تاکہ اس سے انسان اس کے علاوہ اور چیزوں کی طرف نہ جانے لگے۔

تيسرا: جو چیز تعویذ وغیرہ بنا کر لگائی جاتی ہے، اس کی بے حرمتی کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ استنجا کے وقت، بیت الخلا میں، اور ہمبستری کے وقت جیسے حالات میں یہ چیز انسان کے ساتھـ ہوتی ہے۔
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 260)

اور جہاں تک کاغذ یا تختی یا پلیٹ پر قرآنی آیات یا مکمل سورت لکھنے، اور پھر اس کو زعفران یا پانی سے دھو کر برکت، یا علم سے استفادہ یا آمدنی کے وسائل کی فراوانی، یا صحت وعافیت وغیرہ کی امید اس دھلے پانی کو پینے کا سوال ہے، تو اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس طرح اپنے لئے یا کسی اور کے لئے کیا ہو، اور نہ آپ نے اپنے صحابہ میں کسی کو اس طرح کرنے کی اجازت دی ہے، اور نہ آپ نے اپنی امت کو اس میں چھوٹ دی ہے، جب کہ اس طرح کئے جانے کے بہت سے اسباب موجود تھے، نیز ہمارے علم کے مطابق صحابہ رضی الله عنهم سے منقول صحیح اقوال میں کسی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے اس طرح کیا ہے اور کسی کو اس کی چھوٹ دی ہے، اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس کام کو چھوڑنا ہی بہتر ہے، اور اس جیسی چیزوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے شریعت سے ثابت شدہ امور جیسے قرآن، اسماء حسنی، اذکار ووظائف اور وہ دعائیں جس کے معنی معروف ہے اور جن میں شرک کا شبہ نہيں ہے، ایسی چیزوں کا اختیار کرنا چاہئے، ثواب کی امید کے ساتھـ، رنج وغم کی دوری اور علم نافع کی طلب کے ساتھـ اللہ کی قربت کی کوشش کی جائے، یہی سب کے لئے کافی ہے، اور جس شخص نے اللہ کی طرف سے بیان کردہ امور پر اکتفاء کر لے گا، تو اللہ تعالی اس کو اس کے علاوہ ہر چیز سے بے نیاز کر دے گا۔ و اللہ تعالی الموفق۔

اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس جیسے شخص کو تعویذ اور ڈوریاں بیچنے کے لئے لائسنس نہ دیا جائے، بلکہ اس کو اسے بيچنے سے منع کیا جاتا ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=130&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=217130216177216162217134219140032216170216185217136219140216176#firstKeyWordFound
 
Top