فتوى نمبر:4519
س: ایک شخص ریاض شہر کی بلدیہ کی آفس میں یہ درخواست لے کر پہنچا کہ اس کو بازار میں تعویذ اور ڈوریاں بیچنے کی اجازت دیجئے، جب کہ اس شخص سے "اچھائی کا حکم اور برائیوں سے روکنے والے" ٹیم کے ممبران نے بلدیہ کا لائیسنس لانے اس کو کہا ہے، اور بلدیہ کے ذمہ داروں نے یہ تجویز ہمارے سامنے رکھی کہ اس درخواست گزار کی شخصیت سے اطمینان بخش رپورٹ آجانے کے بعد، اورعام شہریوں کو اس شخص کے استحصال سے دور رکھنے کے اصول وضوابط طے پانے کے بعد آپ مفتیان کرام کی طرف سے اس شخص کو لائسنس جاری کیا جائے۔ میں آپ سے یہ امید کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی آراء سے نوازیں گے، اور اس مسئلے کے متعلق وضع کردہ شرائط پر پورا اترنے والے شخص کو اس جیسی دوکان کھولنے کا لائسنس دینے کے بارے میں شرعی حکم بیان کریں گے۔ ہماری نیک تمنائیں ہر وقت آپ کے ساتھـ ہیں؟
ج: کاغذ یا تختی وغیرہ پر
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 258)
قرآن کریم یا اوراد ووظائف لکھنے اور پھر اس کو بیمار اپنی بیماری سے شفاء کی امید سے پی جانے کے بارے میں اس سے پہلے ایک فتوی صادر ہو چکا ہے، جس میں یہ لکھاجا چکا ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہيں، نہ آپ کے خلفائے راشدین سے، اور نہ آپ کے تمام صحابہ میں سے کسی ایک صحابی رضی الله عنهم سے اس طرح کی کوئی چیز ہمارے علم کے مطابق ثابت ہے، اور مکمل ہدایت کا دار ومدار حضور اکرم صلى الله عليه وسلم، خلفاء راشدین، اور صحابہ رضی الله عنهم کے طریقے کی اتباع پر ہيں، اس فتوی کی نص درجِ ذیل ہے: قرآن، اوراد ووظائف اور دعاوں سے تعویذ لکھنے کی آپ صلى الله عليه وسلم نے اجازت دی ہے، بشرطیکہ یہ لکھے جانے كوئى چیز شرک یا غیر مفہوم کلام نہيں ہے، اس لئے کہ امام مسلم نے اپنی صحيح ميں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کی ہے، اس نے كہا ہے کہ: ہم زمانہ جاہلیت میں تعویذ لکھا کرتے تھے، چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا کہ آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كہا کہ پہلے تم اپنی تعویذ میرے سامنے پیش کرو، اور جب تک تعويذ ميں شرکیہ کلام نہيں ہے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔اورعلماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر تعویذ مذکورہ بالا طریقے کے مطابق لکھی جائے، اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ ایک سبب ہے، جب کہ تاثیر تو صرف اللہ کی قدرت واجازت ہی سے ہوتی ہے، تو یہ تعویذ جائز ہے، اور جہاں تک انسان کی گردن یا کسی اور جگہ پر تعویذ کو لٹکانے کا سوال ہے، تو اگر یہ لکھی ہوئی تعویذ قرآن سے ہٹ کر کوئی اور چیز ہے، تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ شرک ہے، اس لئے کہ امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت عمران بن حصین رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ: بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھـ میں ايک پتيل کا چھلا دیکھا، تو آپ نے اس سے كہا کہ: یہ کیا ہے؟ اس نے كہا یہ "واھنہ" (بخار) سے ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اس کو نکال كر پھینکو، اس سے تمہیں سوائے زياده کمزوری کے کچھـ حاصل ہونے والا نہیں ہے، اور اگر تم مرجاتے، اور یہ چهلا تمہارے ہاتھـ ہی میں ہوتا، تو کبھی تم فلاح یاب نہیں ہوتے۔ اور وہ حدیث جس کو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے آپ صلى الله عليه وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: جس نے تعویذ لٹكايا ہے، اللہ اس کے لئے کوئی کام مكمل نہیں کرے گا، اور جس نے سمندرى سيپى اپنے گلے میں لٹکائی ہے، اللہ اس کو سكون نہ بخشے گا۔ اور امام احمد کی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ: جس نے دم يا تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ نیز وہ حدیث جس کو امام احمد اور ابو داود نے حضرت ابن مسعود رضی الله عنه سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كو يہ كہتے ہوئے سنا کہ:
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 259)
جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈا اور جادو شرک ہے۔ اور اگر جو چیز گلے وغیرہ میں لٹکائی جا رہی ہے، وہ اگر قرآن کی آیات وغیرہ ہیں، تو علماء کے صحیح قول کے مطابق یہ بھی تین اسباب کی بنا پر ممنوع ہے:
پہلا: حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے تعویذ لٹکانے سے متعلق جو احادیث مروی ہیں وہ سب عام ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی دوسری ایسی حدیث نہیں ہے جو اس حدیث کے عام مفہوم کوئى خاص نہيں کرتی ہے۔
دوسرا: وسیلے سے روکنا ہے، تاکہ اس سے انسان اس کے علاوہ اور چیزوں کی طرف نہ جانے لگے۔
تيسرا: جو چیز تعویذ وغیرہ بنا کر لگائی جاتی ہے، اس کی بے حرمتی کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ استنجا کے وقت، بیت الخلا میں، اور ہمبستری کے وقت جیسے حالات میں یہ چیز انسان کے ساتھـ ہوتی ہے۔
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 260)
اور جہاں تک کاغذ یا تختی یا پلیٹ پر قرآنی آیات یا مکمل سورت لکھنے، اور پھر اس کو زعفران یا پانی سے دھو کر برکت، یا علم سے استفادہ یا آمدنی کے وسائل کی فراوانی، یا صحت وعافیت وغیرہ کی امید اس دھلے پانی کو پینے کا سوال ہے، تو اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس طرح اپنے لئے یا کسی اور کے لئے کیا ہو، اور نہ آپ نے اپنے صحابہ میں کسی کو اس طرح کرنے کی اجازت دی ہے، اور نہ آپ نے اپنی امت کو اس میں چھوٹ دی ہے، جب کہ اس طرح کئے جانے کے بہت سے اسباب موجود تھے، نیز ہمارے علم کے مطابق صحابہ رضی الله عنهم سے منقول صحیح اقوال میں کسی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے اس طرح کیا ہے اور کسی کو اس کی چھوٹ دی ہے، اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس کام کو چھوڑنا ہی بہتر ہے، اور اس جیسی چیزوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے شریعت سے ثابت شدہ امور جیسے قرآن، اسماء حسنی، اذکار ووظائف اور وہ دعائیں جس کے معنی معروف ہے اور جن میں شرک کا شبہ نہيں ہے، ایسی چیزوں کا اختیار کرنا چاہئے، ثواب کی امید کے ساتھـ، رنج وغم کی دوری اور علم نافع کی طلب کے ساتھـ اللہ کی قربت کی کوشش کی جائے، یہی سب کے لئے کافی ہے، اور جس شخص نے اللہ کی طرف سے بیان کردہ امور پر اکتفاء کر لے گا، تو اللہ تعالی اس کو اس کے علاوہ ہر چیز سے بے نیاز کر دے گا۔ و اللہ تعالی الموفق۔
اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس جیسے شخص کو تعویذ اور ڈوریاں بیچنے کے لئے لائسنس نہ دیا جائے، بلکہ اس کو اسے بيچنے سے منع کیا جاتا ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=130&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=217130216177216162217134219140032216170216185217136219140216176#firstKeyWordFound