• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو محترم ابو الحسن علوی صاحب ( علمی نگران )

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اپنی کوئی ریسرچ پر بھی روشنی ڈالیں۔
ریسرچ کا شروع ہی سے شوق تھا کیونکہ ایک تو گھر کے ماحول میں ایک سے زیادہ مسالک کے اجتماع نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا دوسرا کچھ طبیعت اور مزاج بھی سنی سنائی باتوں پر عمل کا عادی نہ تھا۔ ۱۹۹۷ میں ایف ایس سی کی طالب علمی کے زمانہ میں مسلکی مسائل کے بارے تحقیق شروع کی اور یہ تحقیق صرف مطالعہ کی حد تک محدود تھی۔ ہمارے محلے میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث تینوں کی مساجد ہیں، بلکہ ایک امام بارگاہ سجادیہ بھی ہے لیکن میں کبھی اہل حدیث کی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں گیا تھا۔ والد صاحب کے دیوبندی ہونے کی وجہ سے گھر کا ماحول دیوبندی مسلک کے مطابق تھا اور میں نے حفظ بھی دیوبندی مدرسے ہی سے کیا تھا۔ غالبا ۱۹۹۷ کی بات ہے کہ میں اہل حدیث مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گیا، اور مغرب کی نماز تھی، نماز کے بعد امام مسجد حاجی سلطان صاحب نے ترجمہ والی مشکوۃ کی حدیث کی کتاب مجھے تھما دی کہ بیٹا اس کتاب میں نماز کا طریقہ لکھا ہوا ہے، وہ پڑھ لو۔ میں نے جب مشکوۃ شریف سے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کیا تو یہ احساس پیدا ہوا کہ میری نماز تو اس کے مطابق نہیں ہے تو یہاں سے پہلی تحقیق کا آغاز ہوا جو مسلکی مسائل میں تحقیق تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جبکہ عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا لیکن مسجد کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سنن ابو داود، سنن الترمذی، المغنی اور مجموع الفتاوی کی عربی عبارات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔

دسمبر 2004 میں قرآن اکیڈمی، لاہور میں شعبہ تحقیق اسلامی کو جوائن کیا اور غالبا پہلا مضمون "نکاح کا صحیح اور شرعی طریق کار" تھا جو ماہنامہ میثاق میں اپریل ۲۰۰۵ میں شائع ہوا۔ کچھ ذہن میں دھندلا سا نقش یہ بھی ہے کہ شاید اس سے پہلے بھی کسی عربی مضمون کا ترجمہ دو قسطوں میں شائع ہو چکا تھا اور شاید پہلی تحریر کوئی مستقل مضمون نہیں بلکہ کسی عربی آرٹیکل کا ترجمہ تھا جو شاید فروری، مارچ ۲۰۰۵ میں شائع ہوا تھا۔ باقاعدہ تحقیق کا آغاز میں شعبہ تحقیق اسلامی، قرآن اکیڈمی، لاہور سے وابستگی کو سمجھتا ہے اور اس میدان میں اب ۱۰ سال مکمل ہونے کو ہیں۔

شعبہ تحقیق اسلامی، قرآن اکیڈمی سے ۸ سالہ وابستگی کے دوران بہت کچھ لکھنے لکھانے کا موقع ملا، تربیت ہوئی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔ ماہنامہ میثاق لاہور، ماہنامہ وسہ ماہی حکمت قرآن لاہور، ماہنامہ محدث لاہور، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، ماہنامہ الاحرار ملتان میں باقاعدہ مضامین شائع ہوتے رہے بلکہ اس کے علاوہ ماہنامہ الاحیاء لاہور، سہ ماہی نظریات لاہور، سہ ماہی اجتہاد اسلام آباد، ششماہی منہاج لاہور، ماہنامہ اشراق لاہور، معارف فیچر کراچی، ہفت روزہ الاعتصام لاہور اور ماہنامہ مجلہ اہل حدیث نیو دہلی وغیرہ نے بھی مضامین شائع کیے ہیں۔

قرآن اکیڈمی کے ساتھ اس تحقیقی وابستگی کے عرصہ میں اس میدان میں کافی گرومنگ ہوئی، تقریبا ۱۰۰ کے قریب اصلاحی، فکری اور تحقیقی مضامین لکھے جو مختلف مجلات میں شائع ہوئے۔ کچھ میں دوسروں کی فکر کی اصلاح کی کوشش کی اور کچھ دوسرے میری بھی اصلاح بلکہ تربیت کا بھی ذریعہ بنے۔ شروع میں مزاج میں شدت اور سختی تھی جو اللہ کے فضل، حافظ وحید صاحب کی ایڈیٹنگ، دوستوں کے فیڈ بیک اور تجربات و مشاہدات سے سبق حاصل کرنے کے نتیجے میں کم ہوتی گئی۔

قرآن اکیڈمی میں بارہا ایسا ہوا کہ کچھ لوگ میری تحریر پڑھ کر مجھے ملنے آئے لیکن شاید بیسیوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ نہ کہا ہو کہ آپ کی تحریر دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ کی عمر اتنی کم ہو گی۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ کوئی شیخ بمعنی بزرگ ہیں، کوئی جبہ قبہ ہو گا، کوئی عمامہ ہو گا، کوئی سفید داڑھی ہو گی۔ بہر حال اس معاملے میں لوگوں کو مایوسی کہیں یا کیا کہیں، مجھے نہیں معلوم کیا کہا جا سکتا ہے، ہوتی تھی۔ اور مجھے بھی اس پر شرمندگی ہوتی تھی کہ ایک شخص اتنے جذبے سے ملنے آیا ہے اور ملنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ میں اس کے ذہنی امیج کے مطابق نہیں تھا۔ کچھ لوگ خطوط، ٹیلی فون اور ای میلز کے ذریعے بھی تحریروں کو سراہتے تھے اور عموما شروع میں تو یہ پہلو سراہا جاتا تھا کہ آپ پوری محنت سے لکھتے ہیں یعنی کسی موضوع پر لکھنے کا حق ادا کرنے کی ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بعد کی تحریروں میں ایک اور پہلو کی حوصلہ افزائی ہونا شروع ہو گئی کہ اعتدال کا دامن تھامنے کی ممکن کوشش کرتے ہیں۔ واللہ اعلم

ایک دفعہ بریلوی مکتبہ فکر کے ممتاز عالم دین اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کا فون آیا کہ ہماری غامدی صاحب کے فکر کے بارے ایک مجلس ہونی ہے اور آپ کی اس موضوع پر کچھ علمی تحریر ہے، وہ مجھے ای میل کر دیں۔ میں نے ای میل کر دیں۔ اسی طرح مجلس تحقیق اسلامی ماڈل ٹاون لاہور میں ایک دفعہ ارشاد الحق اثری صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنے بازووں میں لے کر اپنے ساتھ لگا کر بٹھایا اور غامدی فکر کے بارے میری تحریر پر تبصرہ کیا کہ بہت خوبصورت نقد ہے۔ ایک فاضل دوست جواد حیدر صاحب نے بتلایا کہ ان کی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تھی اور درمیان میں میرا ذکر آیا جواد صاحب نے بتلایا کہ میں قرآن اکیڈمی کے ساتھ وابستہ ہوں تو زبیر علی زئی صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ میں اس کی تحریریں بڑے غور سے پڑھتا ہوں۔ تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذ شریعت کے حوالہ سے ایک کتاب مرتب کی اور کچھ علماء کو بھجوائی، جن میں دیوبندی مکتبہ فکر کے ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب بھی شامل تھے۔ کچھ ہفتوں بعد ان کا فون آیا اور فرمانے لگے کہ میرے پاس بیسیوں کتابیں آتی ہیں لیکن کوئی کوئی کتاب پڑھتا ہوں۔ آپ کی کتاب کا موضوع دیکھ کر پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست میں اس کا اکثر حصہ پڑھ لیا ہے۔ آپ کو مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے کہ ایک نازک موضوع پر بہت ہی معتدل موقف آپ نے بیان کیا ہے۔ ابھی یہ کتاب شائع بھی نہیں ہوئی تھی کہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے ایک طالب علم کا فون آیا کہ انہیں ارشاد الحق اثری صاحب نے تجویز دی تھی کہ وہ اس موضوع پر میری اس کتاب کا مطالعہ کریں۔ جناب مولانا وحید الدین خان صاحب پر کچھ مضامین لکھے تو ان کے قریبی ساتھی مولانا ذکوان ندوی صاحب نے انہیں پسند فرمایا اگرچہ یہ بھی کہا کہ انہیں بعض مقامات پر اختلاف بھی ہے۔ ان کی ای میل کا عنوان ھل اتبعک علی ان تعلمنی مما علمت رشدا تھا، میں ان کی ای میل کے اس عنوان پر دل سے بہت ہی شرمندہ ہوا اور جب انہیں اپنی عمر کے بارے بتلایا تو انہیں کچھ وضاحت ہوگئی کیونکہ وہ بھی مجھے کوئی شیخ ہی سمجھ رہے تھے۔ استاذ محترم مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب نے نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کے موضوع پر ایک تحریر دیکھی تو بہت سراہا اور کہا کہ علم بلاغت کا خوب استعمال کیا ہے، لوگوں علوم پڑھ تو لیتے ہیں لیکن انہیں اپلائی کرنے نہیں آتے۔ ایک اور موقع پر تفویض اور ائمہ اربعہ والے مقالے کی بہت تعریف کی۔ استاذ محترم کی تعریف کی زیادہ خوشی اس لیے بھی ہوئی کہ ان کے شاگرد جانتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بہت محتاط ہیں یعنی بالکل تعریف نہیں کرتے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن صاحب صاحبزادہ عبد الغفار حسن صاحب رحمہ اللہ نے ایک دفعہ بتلایا کہ ہمارے چشتی صاحب تو آپ کی تحریروں کو بہت پسند فرماتے ہیں۔

اسی طرح اور بہت سے پروفیسرز، علماء، فضلاء، طلباء اور دوستوں کا مثبت فیڈ بیک ملتا ہے جس سے دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ محنت سے کام کیا ہے۔ اسی قسم کے فیڈ بیک نے اس خیال کو تقویت بخشی کہ میں ریسرچر ہوں یا میرا اصل میدان ریسرچ ہے اگرچہ کوئی اعلی پائے کا تو نہیں لیکن اوسط درجے کا ہوں۔ چونکہ سوسائٹی میں تحقیق کا لیول اس قدر گر چکا ہے لہذا اس لیے ایک اوسط درجے کی تحقیق پر بھی اس قدر حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بعض لوگ تحقیق سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں، ان سے بھی سیکھنے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اپنی کوئی ریسرچ پر بھی روشنی ڈالیں۔
ایسا بارہا ہوا کہ کئی ایک رسائل وجرائد نے میرے مضامین کو اپنے طور دوبارہ شائع کیا۔ ایک دفعہ حقوق الزوجین پر ایک کتابچے کا ترجمہ کیا جو ماہنامہ میثاق میں دو قسطوں میں شائع ہوا اور یہ شروع کی تحریروں میں سے تھا کہ انڈیا سے کسی صاحب نے ان دو مضامین کو ایک کتابچے کی صورت میں اردو اور ہندی دونوں زبان میں شائع کیا اور مفت تقسیم کیا اور قرآن اکیڈمی میں بھی نمونے کی ایک کاپی بھیجی۔ ایک دفعہ ایک صاحب کا افغانستان سے فون آیا کہ ہم نے آپ کی کتاب "چہرے کا پردہ: واجب، مستحب یا بدعت" کا پشتو میں ترجمہ کیا ہے اور ہم اسے یہاں سے شائع کر رہے ہیں۔ فون اس لیے کیا کہ اس پر آپ کا یہ فون نمبر درج تھا لہذا کنفرم کرنا مقصود تھا۔ ماہنامہ میثاق میں غالبا 2006 میں محرمات: حرام امور کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کی کچھ اقساط بعد ازاں مجلہ اہل حدیث نیو دہلی نے شائع کیں۔ معارف فیچر نے جہاد کے بارے الشریعہ میں شائع ہونے والے مضامین کو دوبارہ اپنے ہاں شائع کیا۔ ششماہی منہاج اور سہ ماہی اجتہاد نے بھی بعض مضامین کو دوبارہ شائع کیا۔ دو ہفتہ پہلے کراچی سے ایک فون آیا کہ انڈیا میں کوئی صاحب مولانا وحید الدین خان صاحب پر آپ کی کتاب کو شائع کرنا چاہ رہے تھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے دوست بعض اوقات بتلاتے رہتے ہیں کہ آپ کے مضامین فلاں فلاں جگہ مجلات یا کتابچوں یا کتب کی صورت میں شائع ہو رہے ہیں۔ ایک دفعہ تو استاذ محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے بھائی ڈاکٹر ابصار احمد، سابقہ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف فلاسفی، پنجاب یونیورسٹی نے کہا: حافظ صاحب کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ آپ کہاں کہاں چھپ رہے ہیں؟ تو اللہ کا بہت فضل ہے کہ جو کچھ لکھا ہے، اللہ نے اسے قبولیت عطا کی اور وہ آگے پھیل رہا ہے۔ بس اللہ تعالی اسے اپنا شکر ادا کرنے کا ذریعہ بنایا۔ آمین یا رب العالمین۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
آپ کے انٹرویو میں آپ نے جنات کے بارے میں ذکر کیا ہے، آپ اس پر تفصیل سے بتائے کہ آپ کو جنات سے کیا پریشانی ہے اور جنات آپ ہی کو کیوں پریشان کرتے ہے؟ اس کے پیچھے کی وجہ بتائے۔
تاخیر سے جواب کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ جنات سے واسطے کا ایک سبب تو شاید یہ ہے کہ ہمارے ایک قریبی دوست تھے جنہوں نے جنات کو قابو کرنے کے لیے کچھ چلے غیرہ کاٹے تھے۔ اس دوست کی صحبت کا شاید اثر تھا کہ 2000ء میں پہلی مرتبہ جنات کی طرف سے خواب وغیرہ میں اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ جن رشتہ داروں یا دوستوں یا شاگردوں پر کوئی جادو یا آسیب کے اثرات ہوتے تھے تو شروع میں انہیں بلا دھڑک لمبا چوڑا دم کر دیتا تھا۔ شاید اس کے رد عمل میں بھی کچھ نے تنگ کرنا شروع کیا۔ واللہ اعلم، اللہ بہتر جانتا ہے، ہو سکتا کہ کوئی اور وجہ بھی ہو۔ میرا احساس فی الحال انہی دو وجوہات تک محدود ہے۔ اگرچہ اب ایک تیسری وجہ کا بھی شبہہ ہونے لگا ہے۔

جہاں تک اثرات کی نوعیت ہے تو اس میں اذیت کی ایک صورت تو ذہنی ہے جو وہ خواب میں پہنچاتے تھے۔ ایسے خواب جو آپ کے ڈیپریشن میں اضافے کا سبب بنیں یا مثلا آپ کو خواب میں کسی وجہ سے رونا بہت آئے اور ایسا تسلسل سے ہو۔ یا خواب میں کوئی آپ کو قتل کرنے کے لیے آپ کا تعاقب کرے۔ یا ایسے خواب جن میں مختلف صورتوں اور شکلوں میں آ کر وہ آپ کو ڈرانے کی کوشش کریں جیسے آپ خواب میں اپنے آپ کو سانپوں یا شیروں کے مابین گھرا ہوا دیکھیں۔ اس میں بعض اوقات لڑائی بھی ہوتی ہے۔ شروع میں وہ خواب میں ہی اذیت دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آیت الکرسی، معوذتین وغیرہ پڑھنے سے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن اب میں نے تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ صرف پڑھائی نہ کی جائے بلکہ جو چیز آپ کو اذیت دے رہی ہو آپ اس پر پھونک بھی ماریں اور اپنے لاشعور کو سونے سے پہلے یہ میسج بار بار دیں کہ وہ آیات پڑھنے کے ساتھ متعلقہ چیز کو پھونک مارے اور اگر اس سے زیادہ کی کچھ ہمت ہو تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے کے اوپر پوری قوت سے ملانے کی کوشش کریں یہاں تک کہ وہ آپس میں مل جائیں۔ نیند میں ایسا کرنا اسی صورت ممکن ہے جبکہ آپ نے متعلقہ شیطان کے خلاف بذریعہ دعا اللہ سے مدد طلب کی ہو اور ذہن کو یہ میسج دیا ہو کہ میں نے اسے چھوڑنا نہیں ہے۔ اس سے اللہ نے چاہا، تو ان شاء اللہ، وہ جن جل جائے گا، مرجائے گا، معذور ہو جائے گا یا کم از کم دوبارہ آنے کی ہمت نہیں کرنے گا۔

جاگتے میں ان کے تنگ کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک زور کی ہوا کی طرح آتے ہیں اور دل پر ہیبت طاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا بعض اوقات دل کی حرکت کو مس کر دیتے ہیں یا دل میں بہت زیادہ اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے وغیرہ۔ یہ عموما اس وقت ہوتا ہے کہ جب آپ کسی متاثر شخص کو دم کریں۔ عمومی طور اسے ہیبت یا خوف طاری کرنے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ خوف نفسیاتی مرض میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر اثرات تو باقی نہیں رہتے لیکن نفسیاتی مرض باقی رہ جاتا ہے۔

خوابوں کی دنیا کے بارے جاننے سے کافی دلچسپی رہی ہے۔ کل ہی خوابوں کے بارے کراچی یونیورسٹی سے مکمل کیے گئے پی ایچ ڈی کے مقالے کا مطالعہ کیا ہے۔ خوابوں کو شریعت، تعبیر رویا کے ساتھ علم نفسیات کی روشنی میں مطالعہ کرنے سے ایک نئی دنیا سامنے آتی ہے کہ خواب ہماری شخصیت، ہمارے باطن، ہمارے لاشعور کا تصویری اور رمزی پہلو سے اظہار ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ابوالحسن علوی بھائی آپ نے میرے سوال پر دو مراسلے کوٹ کئے ہیں مگر ان میں ریسرچ پر ایک بھی ذکر نہیں ماسوائے آپ کی اپنی تعریف کے۔

آیت الکرسی، معوذتین وغیرہ پڑھنے سے بھاگ جاتے ہیں
آیت الکرسی پڑھنے سے جنات بھاگ جاتے ہیں اس پر کوئی ذاتی ریسرچ ہو تو پیش کریں کہ اس میں ایسا کیا ھے؟ جبکہ کچھ جنات بھاگنے کی بجائے خود قرآن پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

والسلام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ابوالحسن علوی بھائی آپ نے میرے سوال پر دو مراسلے کوٹ کئے ہیں مگر ان میں ریسرچ پر ایک بھی ذکر نہیں ماسوائے آپ کی اپنی تعریف کے۔
  1. آپ کی ایک بات درست ہے کہ میں نے اپنی تعریف بیان کی ہے۔ اسے آپ تحدیث نعمت یا عجب پسندی کوئی بھی عنوان دے دیں، مجھے اپنا کوئی دفاع نہیں کرنا ۔اپنے لیے خود سے بھی دعا کرنی ہے اور آپ سے دعا کی درخواست کرنی ہے کہ اگر آپ اسے تحدیث نعمت سمجھیں تو دعا فرما دیں کہ اللہ تعالی عجب سے بجائے اور اگرعجب پسندی سمجھیں تب تو لازم دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی اصلاح فرمائے۔اللہ تعالی آپ کی دعا کی برکت سے ہر دوممکن صورتوں میں بھلائی کا معاملہ فرمائیں گے۔
  2. جبکہ دوسری بات غلط ہے کہ اس جواب میں اپنی ریسرچ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس جواب میں ان مضامین، رسائل اور کتب وغیرہ کا بیان ہے جنہیں میں اپنے تحقیقی سفر کا نشان راہ یعنی مائل سٹون سمجھتا ہوں۔ہو سکتا ہے کہ آپ کے سوال کی نوعیت فرق ہو، اگر ایسا ہے تو اس کی وضاحت کر دیں۔ مجھے آپ کے سوال سے جو بات سمجھ میں آئی ہےوہ یہ ہے کہ آپ نے کیا ریسرچ کی ہے؟ یعنی کن موضوعات پر لکھا ہے؟ اور وہ ریسرچ کس درجہ کی ہے؟تو دونوں کا ذکر میں نے کر دیا۔
آیت الکرسی پڑھنے سے جنات بھاگ جاتے ہیں اس پر کوئی ذاتی ریسرچ ہو تو پیش کریں کہ اس میں ایسا کیا ھے؟ جبکہ کچھ جنات بھاگنے کی بجائے خود قرآن پڑھنا شروع کر دیتے ہیں
ذاتی تجربات اور مشاہدات ہیں جسے ریسرچ تو نہیں لیکن سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز میں ریسرچ ایپروچ کہتے ہیں۔​
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی آپ کا قول ریسرچر ہیں جس سے آپ کے تعلیمی مضامین کی پیش نظر میں نے کنفرمیشن کے لئے پوچھا تھا تاکہ مل کر دوسرں کو اس پر فائدہ پہنچایا جائے مگر آپ اس پر کوئی بھی ایک ریسرچ پیش نہیں کر پائے، اگر ایسا ہوتا تو شائد میں بھی آپ کو بہت سے ریسرچ پیش کرتا، اور جسے آپ کہہ رہے ہیں ریسرچ ھے تو پھر مزید بات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم اب اس رسرچ کو یہیں ختم کرتے ہیں۔

والسلام
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
میرا خیال ہے کہ انٹرویو پورا ہونے سے پہلے ہی اصول و ضوابط کو توڑ دیا گیا ہے اس لیے بات میں اشتعال بھی پیدا ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ انٹرویو مکمل ہونے دیا جائے۔شکریہ
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم

بھائی آپ کا قول ریسرچر ہیں جس سے آپ کے تعلیمی مضامین کی پیش نظر میں نے کنفرمیشن کے لئے پوچھا تھا تاکہ مل کر دوسرں کو اس پر فائدہ پہنچایا جائے مگر آپ اس پر کوئی بھی ایک ریسرچ پیش نہیں کر پائے، اگر ایسا ہوتا تو شائد میں بھی آپ کو بہت سے ریسرچ پیش کرتا، اور جسے آپ کہہ رہے ہیں ریسرچ ھے تو پھر مزید بات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم اب اس رسرچ کو یہیں ختم کرتے ہیں۔

والسلام
بھائی آپ کی نظر میں ری سرچ کس بلا کا نام ہے؟ذرا روشنی ڈال دیں تا کہ ہم بھی جان سکیں،شکریہ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میرا خیال ہے کہ انٹرویو پورا ہونے سے پہلے ہی اصول و ضوابط کو توڑ دیا گیا ہے اس لیے بات میں اشتعال بھی پیدا ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انٹرویو مکمل ہونے دیا جائے۔ شکریہ


والسلام
 
Top