- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ریسرچ کا شروع ہی سے شوق تھا کیونکہ ایک تو گھر کے ماحول میں ایک سے زیادہ مسالک کے اجتماع نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا دوسرا کچھ طبیعت اور مزاج بھی سنی سنائی باتوں پر عمل کا عادی نہ تھا۔ ۱۹۹۷ میں ایف ایس سی کی طالب علمی کے زمانہ میں مسلکی مسائل کے بارے تحقیق شروع کی اور یہ تحقیق صرف مطالعہ کی حد تک محدود تھی۔ ہمارے محلے میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث تینوں کی مساجد ہیں، بلکہ ایک امام بارگاہ سجادیہ بھی ہے لیکن میں کبھی اہل حدیث کی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں گیا تھا۔ والد صاحب کے دیوبندی ہونے کی وجہ سے گھر کا ماحول دیوبندی مسلک کے مطابق تھا اور میں نے حفظ بھی دیوبندی مدرسے ہی سے کیا تھا۔ غالبا ۱۹۹۷ کی بات ہے کہ میں اہل حدیث مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گیا، اور مغرب کی نماز تھی، نماز کے بعد امام مسجد حاجی سلطان صاحب نے ترجمہ والی مشکوۃ کی حدیث کی کتاب مجھے تھما دی کہ بیٹا اس کتاب میں نماز کا طریقہ لکھا ہوا ہے، وہ پڑھ لو۔ میں نے جب مشکوۃ شریف سے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کیا تو یہ احساس پیدا ہوا کہ میری نماز تو اس کے مطابق نہیں ہے تو یہاں سے پہلی تحقیق کا آغاز ہوا جو مسلکی مسائل میں تحقیق تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جبکہ عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا لیکن مسجد کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سنن ابو داود، سنن الترمذی، المغنی اور مجموع الفتاوی کی عربی عبارات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔اپنی کوئی ریسرچ پر بھی روشنی ڈالیں۔
دسمبر 2004 میں قرآن اکیڈمی، لاہور میں شعبہ تحقیق اسلامی کو جوائن کیا اور غالبا پہلا مضمون "نکاح کا صحیح اور شرعی طریق کار" تھا جو ماہنامہ میثاق میں اپریل ۲۰۰۵ میں شائع ہوا۔ کچھ ذہن میں دھندلا سا نقش یہ بھی ہے کہ شاید اس سے پہلے بھی کسی عربی مضمون کا ترجمہ دو قسطوں میں شائع ہو چکا تھا اور شاید پہلی تحریر کوئی مستقل مضمون نہیں بلکہ کسی عربی آرٹیکل کا ترجمہ تھا جو شاید فروری، مارچ ۲۰۰۵ میں شائع ہوا تھا۔ باقاعدہ تحقیق کا آغاز میں شعبہ تحقیق اسلامی، قرآن اکیڈمی، لاہور سے وابستگی کو سمجھتا ہے اور اس میدان میں اب ۱۰ سال مکمل ہونے کو ہیں۔
شعبہ تحقیق اسلامی، قرآن اکیڈمی سے ۸ سالہ وابستگی کے دوران بہت کچھ لکھنے لکھانے کا موقع ملا، تربیت ہوئی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔ ماہنامہ میثاق لاہور، ماہنامہ وسہ ماہی حکمت قرآن لاہور، ماہنامہ محدث لاہور، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، ماہنامہ الاحرار ملتان میں باقاعدہ مضامین شائع ہوتے رہے بلکہ اس کے علاوہ ماہنامہ الاحیاء لاہور، سہ ماہی نظریات لاہور، سہ ماہی اجتہاد اسلام آباد، ششماہی منہاج لاہور، ماہنامہ اشراق لاہور، معارف فیچر کراچی، ہفت روزہ الاعتصام لاہور اور ماہنامہ مجلہ اہل حدیث نیو دہلی وغیرہ نے بھی مضامین شائع کیے ہیں۔
قرآن اکیڈمی کے ساتھ اس تحقیقی وابستگی کے عرصہ میں اس میدان میں کافی گرومنگ ہوئی، تقریبا ۱۰۰ کے قریب اصلاحی، فکری اور تحقیقی مضامین لکھے جو مختلف مجلات میں شائع ہوئے۔ کچھ میں دوسروں کی فکر کی اصلاح کی کوشش کی اور کچھ دوسرے میری بھی اصلاح بلکہ تربیت کا بھی ذریعہ بنے۔ شروع میں مزاج میں شدت اور سختی تھی جو اللہ کے فضل، حافظ وحید صاحب کی ایڈیٹنگ، دوستوں کے فیڈ بیک اور تجربات و مشاہدات سے سبق حاصل کرنے کے نتیجے میں کم ہوتی گئی۔
قرآن اکیڈمی میں بارہا ایسا ہوا کہ کچھ لوگ میری تحریر پڑھ کر مجھے ملنے آئے لیکن شاید بیسیوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ نہ کہا ہو کہ آپ کی تحریر دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ کی عمر اتنی کم ہو گی۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ کوئی شیخ بمعنی بزرگ ہیں، کوئی جبہ قبہ ہو گا، کوئی عمامہ ہو گا، کوئی سفید داڑھی ہو گی۔ بہر حال اس معاملے میں لوگوں کو مایوسی کہیں یا کیا کہیں، مجھے نہیں معلوم کیا کہا جا سکتا ہے، ہوتی تھی۔ اور مجھے بھی اس پر شرمندگی ہوتی تھی کہ ایک شخص اتنے جذبے سے ملنے آیا ہے اور ملنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ میں اس کے ذہنی امیج کے مطابق نہیں تھا۔ کچھ لوگ خطوط، ٹیلی فون اور ای میلز کے ذریعے بھی تحریروں کو سراہتے تھے اور عموما شروع میں تو یہ پہلو سراہا جاتا تھا کہ آپ پوری محنت سے لکھتے ہیں یعنی کسی موضوع پر لکھنے کا حق ادا کرنے کی ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بعد کی تحریروں میں ایک اور پہلو کی حوصلہ افزائی ہونا شروع ہو گئی کہ اعتدال کا دامن تھامنے کی ممکن کوشش کرتے ہیں۔ واللہ اعلم
ایک دفعہ بریلوی مکتبہ فکر کے ممتاز عالم دین اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کا فون آیا کہ ہماری غامدی صاحب کے فکر کے بارے ایک مجلس ہونی ہے اور آپ کی اس موضوع پر کچھ علمی تحریر ہے، وہ مجھے ای میل کر دیں۔ میں نے ای میل کر دیں۔ اسی طرح مجلس تحقیق اسلامی ماڈل ٹاون لاہور میں ایک دفعہ ارشاد الحق اثری صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنے بازووں میں لے کر اپنے ساتھ لگا کر بٹھایا اور غامدی فکر کے بارے میری تحریر پر تبصرہ کیا کہ بہت خوبصورت نقد ہے۔ ایک فاضل دوست جواد حیدر صاحب نے بتلایا کہ ان کی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تھی اور درمیان میں میرا ذکر آیا جواد صاحب نے بتلایا کہ میں قرآن اکیڈمی کے ساتھ وابستہ ہوں تو زبیر علی زئی صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ میں اس کی تحریریں بڑے غور سے پڑھتا ہوں۔ تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذ شریعت کے حوالہ سے ایک کتاب مرتب کی اور کچھ علماء کو بھجوائی، جن میں دیوبندی مکتبہ فکر کے ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب بھی شامل تھے۔ کچھ ہفتوں بعد ان کا فون آیا اور فرمانے لگے کہ میرے پاس بیسیوں کتابیں آتی ہیں لیکن کوئی کوئی کتاب پڑھتا ہوں۔ آپ کی کتاب کا موضوع دیکھ کر پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست میں اس کا اکثر حصہ پڑھ لیا ہے۔ آپ کو مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے کہ ایک نازک موضوع پر بہت ہی معتدل موقف آپ نے بیان کیا ہے۔ ابھی یہ کتاب شائع بھی نہیں ہوئی تھی کہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے ایک طالب علم کا فون آیا کہ انہیں ارشاد الحق اثری صاحب نے تجویز دی تھی کہ وہ اس موضوع پر میری اس کتاب کا مطالعہ کریں۔ جناب مولانا وحید الدین خان صاحب پر کچھ مضامین لکھے تو ان کے قریبی ساتھی مولانا ذکوان ندوی صاحب نے انہیں پسند فرمایا اگرچہ یہ بھی کہا کہ انہیں بعض مقامات پر اختلاف بھی ہے۔ ان کی ای میل کا عنوان ھل اتبعک علی ان تعلمنی مما علمت رشدا تھا، میں ان کی ای میل کے اس عنوان پر دل سے بہت ہی شرمندہ ہوا اور جب انہیں اپنی عمر کے بارے بتلایا تو انہیں کچھ وضاحت ہوگئی کیونکہ وہ بھی مجھے کوئی شیخ ہی سمجھ رہے تھے۔ استاذ محترم مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب نے نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کے موضوع پر ایک تحریر دیکھی تو بہت سراہا اور کہا کہ علم بلاغت کا خوب استعمال کیا ہے، لوگوں علوم پڑھ تو لیتے ہیں لیکن انہیں اپلائی کرنے نہیں آتے۔ ایک اور موقع پر تفویض اور ائمہ اربعہ والے مقالے کی بہت تعریف کی۔ استاذ محترم کی تعریف کی زیادہ خوشی اس لیے بھی ہوئی کہ ان کے شاگرد جانتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بہت محتاط ہیں یعنی بالکل تعریف نہیں کرتے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن صاحب صاحبزادہ عبد الغفار حسن صاحب رحمہ اللہ نے ایک دفعہ بتلایا کہ ہمارے چشتی صاحب تو آپ کی تحریروں کو بہت پسند فرماتے ہیں۔
اسی طرح اور بہت سے پروفیسرز، علماء، فضلاء، طلباء اور دوستوں کا مثبت فیڈ بیک ملتا ہے جس سے دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ محنت سے کام کیا ہے۔ اسی قسم کے فیڈ بیک نے اس خیال کو تقویت بخشی کہ میں ریسرچر ہوں یا میرا اصل میدان ریسرچ ہے اگرچہ کوئی اعلی پائے کا تو نہیں لیکن اوسط درجے کا ہوں۔ چونکہ سوسائٹی میں تحقیق کا لیول اس قدر گر چکا ہے لہذا اس لیے ایک اوسط درجے کی تحقیق پر بھی اس قدر حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بعض لوگ تحقیق سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں، ان سے بھی سیکھنے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔