• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو محترم محمد عامر یونس صاحب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
10۔ ایسا کون سا کام ہےجس کو سرانجام دیکر آپ کو قلبی مسرت ہوتی ہے؟
اسلام کی دعوت پیش کر کے دلی خوشی ہوتی ہے ، خاص طور پر جب کوئی شخص صحیح منہج پر پلٹتا ہے تو اس سے بھی دلی خوشی ہوتی ہے - اور جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے اس سے بھی دلی خوشی ہوتی ہے - خاص طور پر ڈاکٹر ذاکر نائک جب کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھاتے ہیں تو اس سے دلی خوشی ہوتی ہے -

جیسے کہ یہ ویڈیو :

ایک ہندو لڑکی جو پورے دو سال تک پانچ وقت کی نماز بھی پڑھتی رہی اور روزے بھی رکھتی رہی اب باقاعدہ اسلام قبول کرنا چاہتی ہے ..

اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر....


بیشک اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا (ان شاءاللہ)


11۔فرصت اور پریشان کن لمحات کن امور پر صرف کرتے ہیں؟ آپ کے روز مرہ کے مشاغل کیا ہیں؟

فیس بک اور محدث فورم پر ،فرصت کے لمحات دین کی دعوت پیش کرنے میں صرف کرتا ہوں - اس کے علاوہ علماء کی تقاریر سننا - حق بات لوگوں تک پہنچانا ،چاہےفیس بک پر یا محدث فورم پر یا پھر آفس جاتے ہوئے علماء کی تقاریر لوگوں کو سنوانا۔ پریشانی میں اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا کرنا اور اللہ سبحان و تعالیٰ سے مدد مانگنا -

میرے روزمرہ کے مشاغل فجر کی جماعت پڑھنے کے بعد فیس بک اور محدث فورم پر دین کی باتیں پوسٹ کرنا، اس کے بعد ناشتہ بنانا، بچوں کو اسکول ڈراپ کرنا ، 8 سے نو بجے تک کا ٹائم ہوم منسٹر کو دینا، اس کے بعد آفس کی تیاری، راستے میں لوگوں کو لفٹ دینا سفر کے دوران کسی بھی موضوع پر علماء کا درس سنوانا، آفس کی مصروفیت کے باوجود فیس بک اور محدث فورم پر دین کی باتیں شیئر کرنا، واپسی پر آفس کے دوستوں کو راستے میں ڈراپ کرنا اس دوران علماء کی تقاریر سننا ، عشاء محلے کی مسجد میں بچوں کو لے جا کر پڑھنا، عشاء کی نماز کے بعد کھانا کھا کر بچوں کو باہر گھمانا، آنے کے بعد کچھ ٹائم فیس بک اور محدث فورم پر دینا - چھٹی کا پورا دن گھر والوں کے ساتھ گزارنا-

لہذا جتنا بھی آپ کو فارغ مت ملیں اس اللہ کے دین کو سیکھنے اور اللہ کے دین کو سیکھانے میں گزارے

علم کا راستہ !



حوالہ:

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من سلك طريقا يلتمس به علما سهل الله له طريقا إلى الجنة

(سنن الترمذی:2646،باب فضل طلب العلم)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
12-آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟

میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ میں اور میرے اہل و عیال، بلکے ہم سب جہنم سے بچ کر اللہ سبحان و تعالیٰ کی رحمت سے جنت کے وارث بن جائیں - میں جب سے اللہ سبحان و تعالیٰ کی رحمت سے گناہوں کی دنیا سے دین کی طرف پلٹا ہوں، تب سے ایک ہی عزم میرے دل میں ہے کہ اسلام کی دعوت علماء کرام کی رہبری میں لوگوں تک پہنچاؤں ۔یہی میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے ۔

کچھ نصیحتیں قرآن و حدیث سے ! ہماری زندگی کا مقصد :

ویسے بھی اللہ سبحان و تعالیٰ نے ہماری زندگی کا مقصد طے کر دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾

ترجمہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے (سورۃ الذاریات،آیت56)

ہمارے رب نے اس دنیا کو دار العمل بنایا ،اس میں ہر چیز ایک خاص مدت تک ہے۔ اور آخرت کو دار الجزاء بنایا۔ اس دنیا میں جس کے اعمال اچھے ہونگے اس کا بدلہ بھی اچھا ہوگا اور جس کے اعمال برے ہوں گے اس کی سزا بھی بُری ہوگی۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى [النجم: 31]

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے (جس کا تقاضا یہ ہے) کہ وہ برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے اچھے عمل کئے انہیں اچھا بدلہ دے۔

ایک مقام پر فرمایا:

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا [الكهف: 7]

جو کچھ زمین پر موجود ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انھیں آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔

اگر انسان غور و فکر کرےتو اللہ کی نعمتیں جان لےاور عطا کردہ خوبیوں کا ادراک کر لے، جو نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے دور رہنے کی طاقت اللہ نے دی ہے اس کو سمجھ لے، اس کے ذہن میں یہ بھی آجائے کہ آخرت کی زندگی نہ ختم ہونے والی ہے۔ یا وہ دائمی نعمتوں کی شکل میں ہوگی یا پھر سخت ترین عذاب کی شکل میں۔ تو یقینا انسان اپنے وقت کی حفاظت کرے، اس کا پوراخیال رکھے، اپنی پوری زندگی کو اعمال صالحہ سے معمور کر لے اور شریعت اسلامیہ کے مطابق بنالےاور اس کی یہ دنیاوی زندگی اپنے اور دوسروں کیلئے بہتری کا باعث ہو اور اس کا انجام بھی اچھا ہو۔

بلا شبہ ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں جس کا کنٹرول دین قیم کے پاس نہ ہو، ایسی زندگی بالکل بے فائدہ ہے جس کی نگرانی اسلام کے ہاتھ میں نہ ہو-

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (19) كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا [الإسراء: 18- 20]

جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں، دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کردی ہے جس میں وہ بدحال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہوگا[18] اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی[19] ہم ہر طرح کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں خواہ یہ ہوں یا وہ ہوں اور یہ بات آپ کے پروردگار کا عطیہ ہے اور آپ کے پروردگار کا یہ عطیہ (کسی پر) بند نہیں۔

مزید فرمایا:

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ [التوبة: 55]

ان لوگوں کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں دنیا کی زندگی میں سزا دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت یہ کافر ہی ہوں۔

اورفرمایا:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ [الأعراف: 32]

آپ ان سے پوچھئے کہ ''اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کردیا؟''آپ کہیے کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ایمان لائے اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔

کیا ابھی بھی تمہیں اس میں شک ہے کہ دنیا کی زندگی ختم ہونے والی ہے؟ ابھی بھی اس غفلت میں ہو تو سابقہ قوموں سے عبرت حاصل کرو، عقلمندوں کیلئے اس میں عبرت کا بہت سا سامان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے:

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى [الأعلى: 16، 17]

بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو[16]حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

تو اب ہمیشہ کی زندگی کیلئے عمل کرو، نہ ختم ہونیوالی نعمتوں کو پانے کیلئے محنت کرو، تا کہ انتہائی گہری کھائی اور دہکتی آگ سے بچ جاؤ،جہاں کھانے کو کانٹوں والا تھوہر، پینے کو کھولتا ہوا گرم پانی اور پیپ ملے گی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (19) يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ (20) وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ (21) كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ [الحج: 19- 22]

جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے اور ان کے سروں پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا[19] جس سے ان کی کھالیں گل جائیں گی اور وہ کچھ بھی جو ان کے بطنوں میں ہے[20]نیز ان کے لئے لوہے کے ہنٹر ہوں گے[21]جب بھی وہ رنج کے مارے دوزخ سے نکلناچاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے (اور انھیں کہا جائے گا کہ) چکھو اب جلانے والے عذاب کا مزا۔

انس رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«يُؤتَى بأنعَم أهل الدنيا من أهل النار فيُصبَغُ في النار صبغَةً، ثم يُقال له: يا ابنَ آدم! هل رأيتَ خيرًا قط؟ هل مرَّ بك من نعيمٍ قط؟ فيقول: لا والله يا ربِّ، ما رأيتُ نعيمًا قط، ويُؤتَى بأشدِّ الناس بُؤسًا من أهل الجنة، فيُصبَغُ صبغةً في الجنة، فيُقال له: يا ابنَ آدم! هل رأيتَ بُؤسًا قط؟ هل مرَّ بك من شدَّةٍ قط؟ فيقول: لا والله يا ربِّ، ما مرَّ بي بُؤسٌ قط، ولا رأيتُ شدَّةً قط»

قیامت کے دن دنیا کے امیر ترین آسائشوں میں پلنے والے جہنمی انسان کو لایا جائے گا اور اس کو جہنم میں صرف ایک بار غوطہ دے کر پوچھا جائے گا: اے ابن آدم!کیا تو نے کبھی سکھ اور چین دیکھا بھی تھا؟ کیا تمھیں کبھی کوئی نعمت بھی نصیب ہوئی تھی؟ تو جواب میں وہ کہے گا: نہیں اللہ کی قسم!میں نے تو کبھی بھی کوئی نعمت دیکھی ہی نہیں تھی۔ اسی طرح ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس کی زندگی تنگی اور تکلیف ہی میں گزری تھی اس کو جنت کا ایک غوطہ لگوا کر پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا کبھی کوئی تنگی دیکھی تھی؟ کوئی تکلیف تمہیں کبھی پہنچی ہو؟ تو وہ کہے گا: نہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے نہ کبھی تنگی دیکھی اور نہ ہی مجھے کبھی کوئی تکلیف پہنچی۔[صحیح مسلم]

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نجات کا راستہ بھی بتا دیا ہے، فرمایا:

’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ، اگر تم پر کسی غلام کو بھی حاکم بنا دیا جائے تو اسکی اطاعت کرنا، اور جو زندہ رہا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٍذا تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو انتہائی مضبوطی اور طاقت سے تھامے رکھنا ، اور اپنے آپ کو دین میں نئے کاموں سے بچانا؛ اس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘[جامع ترمذی]

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ یا اللہ جب بھی ہماری اس دنیاوی زندگی کا خاتمہ ہو تو ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کرنا اور ہم سب کے گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کر دینا -

آمین یا رب العالمین !
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
13- وہ کون سی ایسی خواہش یا خواب ہے جو اب تک پورا نہ ہو سکا؟

10849939_757951370926945_5399277692954700529_n.jpg


الحمدللہ، اللہ سبحان و تعالیٰ سے جس چیز کی بھی خواہش کی اللہ سبحان و تعالیٰ نے پوری کی ہے -

اور ایسی نعمتیں بھی عطا کیں جن کا نہ خواب دیکھا نہ خواہش کی۔

مثال کے طور پر :

1- الحمدللہ مجھے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اسلام کی نعمت سے نوازا


2 - جس کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے دین کی صحیح سمجھ دے دی ،سمجھو !اس کی دنیا کی ہر خواہش پوری ہو گئی -

3 - صحیح منہج کی پہچان خاص طور پر اس پر فطن دور میں یہ بھی اللہ سبحان و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔

4- نیک والدین جو میرے لئے دعا کرتے ہیں -

5- نیک بہنیں جو میرے ہر غم میں میرا ساتھ دیتی ہیں -

6- نیک بیوی جو کہ میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے

7 - اللہ کی دو نعمتیں ،بیٹے اور بیٹیاں

8 - اس فورم پر موجود علماء کرام کا قرب ان کی رہبری میں دین کا سیکھنا اور اس فورم کے ممبران جن کے بغیر اب دل کہیں نہیں لگتا

9 - اچھی جوب اور آفس کی طرف سے گاڑی ، اپنا گھر ، عزت اور بہت کچھ - الحمدللہ

10 - دین کی خدمت کے لئے چن لینا - یہ بھی اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ہے

اللہ سبحان و تعالیٰ کی کچھ نعمتوں کا ذکر قرآن و حدیث سے :

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’الوہاب‘ اور اس کی ایک صفت ’الکرم‘ ہے۔ اسی صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ لوگوں کو نعمتیں عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایسی نعمتوں سے بھی سرفراز فرما دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی عطا کرتاہے جواس نے مانگی بھی نہیں ہوتیں۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ

’’اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں نے تم کو عنایت کیا۔‘‘(ابراہیم : 34)


ساتھ ہی ارشاد فرمایا:

وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا

’’اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو ۔‘‘ (ابراہیم : 34)


اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ دراصل اس کے شکر، توحید کے اقرار اور عبادت کا جذبہ پیدا کرتا ہےاور یہی اخروی کامیابی کا حقیقی سبب ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ نجات حاصل کرو۔‘‘ (الاعراف : 69)

اور دین ہی کی بدولت انسان پر اللہ کی نعمتوں کی تکمیل ممکن ہے۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا [المائدة: 3]

’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘


جو شخص یہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت کے ساتھ جنت کا وارث بنا دیا اور کوئی دوسرا اس سے محروم ہوگیا تو اس کے دل میں اللہ کی نعمتوں کی قدر و قیمت میں بے حد و حساب اضافہ ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں، جس نے اپنے ساتھی کو جہنم میں جلتے ہوئے دیکھا تھا، کے الفاظ کو یوں بیان فرمایا:

تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ (56) وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ [الصافات: 56، 57]

’’ اللہ کی قسم، تُو تو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا (56) میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو آج میں بھی اُن لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں ‘‘


اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا جائے تو وہ باقی نہیں رہتیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ [إبراهيم: 7].

’’ اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے ‘‘


آدمی جب کوئی گناہ کرتا ہے تواس کے گناہ کے مطابق کوئی نعمت زائل ہو جاتی ہے ۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’نافرمانیاں نعمت کو یوں کھا جاتی ہیں جیسے آگ لکڑی کو۔ جب تو دیکھے کہ نافرمانی کے باوجود تم پر نعمتیں پوری طرح نازل ہو رہی ہیں تو تجھے ڈرنا چاہیے کہ یہ استدراج ہو سکتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (182) وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [الأعراف: 182، 183].

’’ ہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی (182) میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے ‘‘


نبی کریمﷺ نے فرمایا :

جب تو دیکھے کہ نافرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ بندے کو نعمتیں عطا فرما رہا ہے تو وہ استدراج ہے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ [الأنعام: 44]؛ رواه أحمد.

’’ہر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ ‘‘


ہر نعمت کے بار ے میں انسان کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے اور شکر بجالانا چاہیے بصورت دیگر یہی نعمت ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔ علاوہ بریں انسانوں سے ہر عطا کردہ نعمت کے بارے میں دریافت کیا جائے گاکہ آیا اس نے اس کی قدردانی کی یا ناقدری کی۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«إن أولَ ما يُسألُ عنه العبدُ يوم القيامةِ - أي: من النِّعَم -: أن يُقال له: ألم نُصِحَّ لك جسمَك ونرويكَ من الماء البارِد؟»؛ رواه الترمذي.

’’قیامت کے دن بندے کو سب سے پہلے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا کیا ہم نے تمھیں صحیح سالم جسم نہ دیا تھا اور ٹھنڈے پانی سے سیراب نہ کیا تھا۔‘‘


کچھ بدنصیب تو ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے نعمت عذاب کا باعث بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ [سبأ: 37]

’’ یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جن کے لیے اُن کے عمل کی دہری جزا ہے، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے ۔‘‘


یہ چیز انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جو بھی اس کے ساتھ احسان کرے دل اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی احسان کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ کی مخلوق ہر وقت اس نعمتوں سے سے مستفید ہوتی ہے اورجس شخص نے نافرمانی پر تعاون بھی کیا گویا اس نے نا شکری کی اور نعمتوں کی اکثریت کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ [سبأ: 13]

’’اور میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہیں۔‘‘


اور کامیاب وہ ہے جو اللہ کی نعمتیں چاہے تھوڑی ہوں یا زیادہ اس کا شکر ادا کرتا رہے۔

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ ہم سب کو اللہ کی ہر نعمت پر شکر کرنے والا بنائے -

آمین یا رب العالمین!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم:
أحبك ياأخينا ،بارك الله في عمرك وعملك، الله يحفظك من كل الشرور والفتن
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اللهم زد فزد والله أحبك ياأخينا ،بارك الله في عمرك وعملك، الله يحفظك من كل الشرور والفتن
آمین یا رب العالمین

بھائی اس کا ترجمہ بھی کر دے - کیونکہ مجھے عربی اتنی نہیں آتی
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آمین یا رب العالمین

بھائی اس کا ترجمہ بھی کر دے - کیونکہ مجھے عربی اتنی نہیں آتی
ذیل میں اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے ؛
اللهم زد فزد والله أحبك ياأخينا ،بارك الله في عمرك وعملك، الله يحفظك من كل الشرور والفتن
اے اللہ ! ہمارے بھائی کی توفیق خیر میں مزید اضافہ فرما۔۔اور اے پیارے بھائی ہمیں آپ سے لوجہ اللہ محبت ہے ،اللہ آپ کی عمر ،اور علم میں برکات عطا فرمائے ،اور آپ کو ہر شر اور تمام فتنوں سے محفوظ رکھے ۔آمین
اور اس ضمن میں ایک اہم حدیث مبارکہ بھی پیش خدمت ہے ؛
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ثَوْرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ وَقَدْ كَانَ أَدْرَكَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:‏‏‏‏"إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے بھائی سے محبت رکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت رکھتا ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الزہد ۵۳ (۲۳۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۰) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح" ( إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح. يحيى بن سعيد: هو القطان.
وأخرجه احمد في المسند (رقم 17171 ) و الخطيب في "تاريخ بغداد" 4/59، من طريق الإمام أحمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري في "الأدب المفرد" (542) ، وأبو داود (5124) ، والترمذي بإثر الحديث (2391) ، والنسائي في "الكبرى" (10034) - وهو في "عمل اليوم والليلة" (206) - وابنُ أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (2440) ، وابنُ حبان (570) ، والطبراني في "الكبير" 20/ (661) ، وفي "مسند الشاميين" (491)
__________
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ذیل میں اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے ؛
اللهم زد فزد والله أحبك ياأخينا ،بارك الله في عمرك وعملك، الله يحفظك من كل الشرور والفتن
اے اللہ ! ہمارے بھائی کی توفیق خیر میں مزید اضافہ فرما۔۔اور اے پیارے بھائی ہمیں آپ سے لوجہ اللہ محبت ہے ،اللہ آپ کی عمر ،اور علم میں برکات عطا فرمائے ،اور آپ کو ہر شر اور تمام فتنوں سے محفوظ رکھے ۔آمین
اور اس ضمن میں ایک اہم حدیث مبارکہ بھی پیش خدمت ہے ؛
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ثَوْرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ وَقَدْ كَانَ أَدْرَكَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:‏‏‏‏"إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے بھائی سے محبت رکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت رکھتا ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الزہد ۵۳ (۲۳۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۰) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح" ( إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح. يحيى بن سعيد: هو القطان.
وأخرجه احمد في المسند (رقم 17171 ) و الخطيب في "تاريخ بغداد" 4/59، من طريق الإمام أحمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري في "الأدب المفرد" (542) ، وأبو داود (5124) ، والترمذي بإثر الحديث (2391) ، والنسائي في "الكبرى" (10034) - وهو في "عمل اليوم والليلة" (206) - وابنُ أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (2440) ، وابنُ حبان (570) ، والطبراني في "الكبير" 20/ (661) ، وفي "مسند الشاميين" (491)
__________

مجھے بھی اس فورم کی انتیظامیہ اور اس فورم کے تمام ممبران سے محبت ہے !!!


1897706_730412387027033_6415735705740833547_n.jpg

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

”جب آدمی اپنے (مسلمان) بھائی سے محبت رکھے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اِسے بتا دے کہ وہ اِس سے محبت رکھتا ہے“

-----------------------------------------------------
( سنن أبي داود : 5124 ، ، الصحيح المسند : 1160 ، ،
المقاصد الحسنة : 24 ، ، تخريج مشكاة المصابيح (الألباني) :4943 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
14۔کس چیز سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں؟

10858510_389627471197099_2223557019940277024_n.jpg


موت کے وقت کو یاد کرکے،کیونکہ موت کا فرشتہ جب ہماری روح قبض کرے گا تو اپنے انجام کا پتا لگے گا - یا تو ہمیں جنت کی خوشخبری ملے گی یا پھر جہنم کی وعید :

جیسا کہ


اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَوْمَ يَرَ‌وْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَ‌ىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِ‌مِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرً‌ا مَّحْجُورً‌ا ﴿٢٢﴾

جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی (۱) اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے (۲)


۲۲۔۱ اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں

اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار جان کنی کے وقت یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جاں فزا سناتے ہیں جیسا کہ


اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{یٰٓأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْ إِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o} [الفجر: ۲۷ تا ۳۰]

'' اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش، پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں چلی جا۔ ''


جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:

{واقعى جن لوگوں نے كہا ہمارا پروردگار اللہ ہے، اور پھر اسى پر قائم رہے ان كے پاس فرشتے ( يہ كہتے ہوئے ) آتے ہيں كہ تم كچھ بھى انديشہ اور غم نہ كرو بلكہ اس كى جنت كى بشارت سن لو جس كا تم سے وعدہ كيا جاتا رہا ہے} فصلت ( 30 ).

تو يہ بشارت مومنوں كو ان كى موت كے وقت ملتى ہے.

اور اس معنى پر مندرجہ ذيل حديث بھى دلالت كرتى ہے:

ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص اللہ تعالى سے ملاقات كرنا پسند كرتا ہے، اللہ تعالى بھى اس سے ملنا پسند كرتا، اور جو شخص اللہ تعالى سے ملنا ناپسند كرتا ہے، تو اللہ تعالى بھى اس سے ملنا ناپسند كرتا ہے"

ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كيا موت كو ناپسند كرتے ہوئے، پھر تو ہم سب موت كو ناپسند كرتے ہيں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" معاملہ ايسا نہيں، ليكن جب مومن شخص كو اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى رضامندى و خوشنودى اور اس كى جنت كى خوشخبرى ملتى ہے تو وہ اللہ تعالى كى ملاقات سے محبت كرنے لگتا ہے، اور بلا شبہ جب كافر شخص كو اللہ تعالى كے عذاب اور اس كى ناراضگى كى خبر دى جاتى ہے تو وہ اللہ تعالى كى ملاقات كو ناپسند كرنے لگتا ہے، اور اللہ تعالى بھى اس سے ملنے كو ناپسند كرتا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6507 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2683 )


حسن خاتم کے بارے میں :

حسن خاتمہ يہ ہے كہ: بندے كو موت سے قبل ايسے افعال سے دور رہنے كى توفيق مل جائے جو اللہ رب العزت كو ناراض اورغضبناك كرتے ہيں، اور پچھلے كيے ہوئے گناہوں اور معاصى سے توبہ و استغفار كى توفيق حاصل ہو جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ اعمال خير كرنا شروع كردے، تو پھر اس حالت كے بعد اسے موت آئے تو يہ حسن خاتمہ ہو گا.

اس معنى پر دلالت كرنے والى مندرجہ ذيل صحيح حديث ہے.


انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" جب اللہ تعالى اپنے بندے سے خير اور بھلائى چاہتا ہے تو اسے استعمال كر ليتا ہے"

تو صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے عرض كيا: اسے كيسے استعمال كر ليتا ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسے موت سے قبل اعمال صالحہ كى توفيق عطا فرما ديتا ہے"

مسند احمد حديث نمبر ( 11625 ) جامع ترمذى حديث نمبر ( 2142 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1334 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب اللہ تعالى كسى بندے كےساتھ خير اور بھلائى كا ارادہ كرتا ہے تو اسے توشہ ديتا ہے"

كہا گيا كہ: اسے كيا توشہ ديتا ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس كى موت سے قبل اللہ تعالى اس كے ليےاعمال صالحہ آسان كر ديتا ہے، اور پھر ان اعمال صالحہ پر ہى اس كى روح قبض كرتا ہے"

مسند احمد حديث نمبر ( 17330 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1114 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

آخر میں اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا :

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کریں اور جب فرشتے ہماری روح قبض کر رہے ہوں تو وہ ہمیں اس طرح خوشخبری دے -

{یٰٓأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْ إِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o} [الفجر: ۲۷ تا ۳۰]


'' اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش، پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں چلی جا۔ ''


آمین یا رب العالمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
15۔مستقبل میں ایسا کیا کرنا چاہتے ہیں ، جو ابھی تک نہیں کیا؟


1230082_600052196696741_611690421_n (1).jpg

  • حج کا فریضہ!جلد از جلد، ان شاء اللہ۔
  • اس کے علاوہ بچوں کی دین اور دنیا کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکوں تا کہ وہ ایک اچھے مسلمان بن کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کر سکیں -
دین کی تعلیم اولاد کی بنیادی ضرورت :

دین کی تعلیم جو کہ ہر انسان کو حاصل کرنا لازمی ہے اور خاص طور پر بچوں کی دینی تربیت اور والدین کی شرعی ذمہ داری کے عنوان پر بحیثیت مسلمان ہمارے دین نے جو اُصول بیان کئے ہیں اس حوالے سے تحریر پیش خدمت ہے۔۔۔

دوستو! ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کے اولاد اللہ رب العزت کا نہایت ہی قیمتی انعام ہے۔۔۔ رب نے اپنے کلام میں انہیں زینت اور دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے لیکن یہ رونق وبہار اور زینت وکمال اسی وقت ہے جب اس نعمت کی قدر کی جائے دین واخلاق اور تعلیم کے زیور سے انہیں آراستہ کیا جائے بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما ہو دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھایا جائے والدین پر اولاد کے جو حقوق ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہ اور اس پر اخروی فلاح وکامیابی کا دارومدار ہے اللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے!۔


اللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے!۔

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں

(التحریم ٦)۔۔۔

اس لیےیہ جاننا بے حد ضروری ہے کے اس جہنم کی آگ سے بچاؤ کیونکر ہوگا۔۔۔ جب تک دین کی بنیادی تعلیم سے اگاہی اور اس پر عمل نہ ہو؟؟؟۔۔۔ توحید، رسالت، اور آخرت پر صحیح ایمان نہ ہو یا نماز روزہ سے اور روز مرہ زندگی میں احکام شریعت سے غفلت ہو؟؟؟۔۔۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے آج والدین دنیاوی زندگی کی حدتک بچوں کے بہتر مستقبل کی خوب فکر اور کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ میں سرخرو رہیں اور آرام وراحت کی زندگی گزار سکیں لیکن دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد آخرت کی جولامحدود زندگی ہے وہاں کی سرخروئی اور سرفرازی سے خود بھی غافل ہیں اور بچوں کی تربیت میں بھی اس پہلو کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔

بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط وپائیدار ہوتی ہے ۔۔۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بچپن میں بچے کے لئے علم کا حصول پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے یعنی جس طرح پتھر کی لکیر اور پتھر پر کیا ہوا نقش مضبوط وپائیدار ہوتا ہے اسی طرح بچپن میں جو چیز ذہن ودماغ میں بیٹھ جائے (یا بٹھادی جائے) وہ پائیدار ہوتی ہے جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کی طرح بچوں کے خیالات، فکر اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے باآسانی موڑا جاسکتا ہے جب وہ بڑے ہوجائیں اور اُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے اسلئے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔۔۔

قرآن وحدیث میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کے ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے

ہر نومولود فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہےپھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔۔۔

یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔۔۔

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے والدین کو یہ وصیت کی کہ بچوں کو قرآن پاک احادیث مبارکہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور ضروری دینی احکام کی تعلیم دیں بچہ والدین کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کا پاکیزہ دل ایک نفیس جوہر اور موتی کی طرح ہے اگر اسے خیر کا عادی بنایا جائے اور بھلے کام سکھائے جائیں تو وہ انہیں سیکھتا ہوا بڑھتا اور پلتا ہے پھر دنیاوآخرت دونوں جگہ خوش نصیب رہتا ہے اگر اسے برے کاموں کا عادی بنایا جائے یا مہمل چھوڑ دیا جائے تو بدبختی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے اسکی حفاظت کا طریقہ یہی ہے کے اسے علم وادب سکھایا جائے اچھے اخلاق سکھائے جائیں اور مہذب بنایا جائے۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟؟؟۔۔۔

اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ماروایت کرتے ہیں۔۔۔


ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے بچے (بیٹے) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں تم اللہ کے حقوق اللہ کا خیال رکھو تو اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے اور جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو اور اس بات کو جان لو کے اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں صرف وہی فائدہ پہنچاسکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے

(ترمذی)۔۔۔
غور کیجئے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ذہن میں کس طرح دینی حقائق نقش فرمایا کرتے تھے۔۔۔

عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ

(رواہ مسلم)
حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔۔۔

ایک روز اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔۔۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا۔۔۔ سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا

(رواہ ابوداؤد وبہیقی)

غور کیجئے کے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے آج بعض سرپرست بچوں سے بلاتکلف جھوٹ کہلواتے ہیں ہیں مثلا کوئی ملاقات کیلئے گھر پر دستک دے اور اس سے ملنے کا ارادہ نہ ہو تو بچوں سے کہلوا دیا جاتا ہے کہ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں کیا اس طرح بچوں کے دل ودماغ میں جھوٹ سے نفرت پیدا ہوگی؟؟؟۔۔۔کیا وہ بڑے ہوکر جھوٹ جیسی بداخلاقی کو برا جانیں گے؟؟؟۔۔۔ جھوٹ کا گناہ وبال اور نقصان نیز بچوں کی غلط تربیت کے علاوہ کبھی باپ کو اس وقت نقدشرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے جب بچے بھولے پن میں اس حقیقت سے پردہ اُٹھادیتے ہیں کہ ابو نے کہا ہے وہ گھر پر نہیں ہیں۔۔۔
ڈاکٹر مصطفٰی سباعی نے اپنی ایک کتاب میں یہ واقعہ لکھا کے ایک شرعی عدالت نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی تو ہاتھ کاٹنے جانے سے قبل اس نے بلند آواز سے کہا کہ میرا ہاتھ کاٹنے سے پہلے میری ماں کی زبان کاٹ دو اسلئے کہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے پڑوس کے یہاں سے ایک انڈہ چوری کیا تھا تو میری ماں نے اس جرم پر مجھے تنبیہ نہ کی بلکہ خوشی کا اظہار کیا تھا اگر مجھے اس وقت روکا جاتا تو آج معاشرہ میں چور نہ بنتا واقعہ یہ ہے کہ اولاد کے اچھے یا برے بننے میں والدین کی تربیت اور اُن کی نگرانی کو بہت بڑا دخل ہے اور یہ والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی دینی واسلامی تربیت کا خاص خیال رکھیں انہیں بچپن ہی سے اچھے اخلاق وکردار کا حامل بنائیں اور دین سے تعلق ان کے ذہنوں میں راسخ کردیں۔۔۔

آخر میں ایک واقعہ :
ایک واقعہ دینی تعلیم کے سلسلے میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہو گزشتہ جمعہ کو قاری بشیر صاحب جو کہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہے اور جمعہ کی نماز دوسرے قاری صاحب پڑھاتے ہیں - خطبہ کے اختیام پر قاری بشیر صاحب نے بتایا کہ قاری صاحب جو کہ جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں وہ اب نہیں پڑھائیں گے کیونکہ ان کو دوسری جگہ سے اچھی آفر آ گئی ہے ھم ان کو 8 ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارا بجٹ اجازت نہیں دیتا - جب میں نے ان قاری صاحب کی تنخواہ سنی تو مجھے بڑا دکھ ہوا کہ اس مہنگائی کے دور میں ایک قاری قران جو کہ نماز بھی پڑھاتا ہے اور بچوں کو قرآن کی تعلیم بھی دیتا ہے وہ کس طرح گزارہ کرتا ہو گا - ایک عالم دین شیخ محمودالحسن حفظہ اللہ جو کہ کراچی کی ایک درسگاہ جس کا نام جامعہ ستاریہ ہے اس میں بچوں کو حدیثیں پڑھاتے ہیں، انکی تنخواہ آج بھی 10 ہزار سے زیادہ نہیں۔

جبکہ ایک دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والا ایم بی اے کے بعد ہماری کمپنی میں 35 سے 40 ہزار کے درمیان اپنی ملازمت کا آغازکرتا ہے
تو میں یہاں پر ایک بات کہوں گا کہ بچوں کو دین کی تعلیم بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اور دنیا کی تعلیم بھی اعلیٰ سے اعلیٰ دینی چاھیے تاکہ دنیاوی تعلیم سے وہ اپنا روزگار حاصل کریں اور دین کی تعلیم سے مسلمان معاشرے کو جہنم سے بچائیں -
آخر میں اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ ہم کو سچا اور پکا مسلمان بننے کی توفیق عطاء فرمائے -

آمین ثم آمین۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
16۔ کسی کے ساتھ پہلی مُلاقات میں آپ سامنے والے میں کیا ملاحظہ کرتے ہیں ؟

پہلی ملاقات پر سب سے پہلی نظر چہرے پر پڑتی ہے اس لئے اگر اس شخص کا چہرہ سنت سےمزین ہوتا ہے یعنی سنت کے مطابق مکمل داڑھی ہوتو دل خوش ہو جاتا ہے اس کے بعد اس کے لباس پر نظر پڑتی ہے اگر اس کے کپڑے ٹخنوں سے اوپر ہوں تو اس سے بھی دلی خوشی ہوتی ہے - اور اگر وہ اپنا موحد بھائی ہوتا ہے تو اس سے ملنے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے -


17-اِس پُرفتن دور میں دُنیا کے مجموعی حالات کو دیکھ کر آپ کیا سوچتے ہیں؟

دل دکھتا ہے کہ اس پر فتن دور میں یہ امت کس طرح تباہی کی طرف گامزن ہے - کس طرح یہود اور نصارا نے ہم کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے -

وطنیت، Nationalism

وطنیت کے اس طاغوت نے مسلم امت کے ٹکڑے کر دیے ہیں، میں پاکستانی، میں ہندستانی، میں بنگلادیشی، میں عرب، میں فلاں اور میں فلاں۔ یہ قبائل تو صرف تعارف کے لیے تھے، فخر کے لیے نہیں۔

وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَ‌فُوا ﴿سورة الحجرات، ١۳﴾

آج دشمن طاقتیں اسی لیے اس امت پہ حملہ آور ہیں کہ یہ امت بٹ چکی ہے ٹکڑوں میں۔ اور ان کے دلوں میں مسلم امت کا ڈر نکل گیا ہے۔

فرمان رسول ﷲ ﷺ ہے، کہ یہ امت ایک جسم کی مانند ہے، اگر کوئی حصہ دکھے تو سارا جسم دکھتا ہے، کما قال رسول اﷲﷺ

اگر اس امت کو دوبارہ جوڑنا ہے تو وطنیت کے اس طاغوت کو توڑنا ہو گا۔

جس کا اندازہ آپ اس ویڈیو سے بھی سمجھ سکتے ہیں


ہم سب نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن چھوڑ دیا ہے - کہ کس طرح انھوں نے ہر مسئلے میں ہماری رہنمائی کی اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے بھی لگا سکتے ہیں

1470251_501438586620377_885522810_n (1).jpg

مگر ہم ہیں کہ ان کی نصیحت کو پش پشت ڈال دیا ہے اور مغرب کی اندھی تقلید میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں -


فرقہ پرستی :

فرقے بنانے والوں کو شیطان نے گمراہ کر رکھا ہے، انہوں نے ایسے ایسے عقیدے بنا لیے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
  • جب کہا جائے بھائی قرآن و حدیث کی طرف آؤ جواب ملتا ہے " فقہ حنفی قرآن و حدیث کا "نچوڑ" ہے"
  • جب کہا جائے بھائی قرآن و حدیث کی طرف آؤ جواب ملتا ہے " ھدایہ بھی قرآن کی طرح ہے"
  • جب کہا جائے بھائی قرآن و حدیث کی طرف آؤ جواب ملتا ہے "احمد رضا خاں نے کہا کہ میری باتوں کو تھامنا ہر فرض سے اہم فرض ہے"
اب ایمانداری سے بتائیں جن کو شیطان نے اس قدر گمراہ کر دیا ہو وہ کیا قرآن و حدیث کی دعوت پر لبیک کہیں گے۔

صحیح فرمایا جہانوں کے رب نے:


ٱلَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِى ٱلْحَيَو‌ٰةِ ٱلدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾۔۔۔سورۃ الکہف

ترجمہ: وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں

1474524_595078223878698_1107886849_n (1).jpg

شرک :

شرک سب سے بڑی جہالت ہے۔اور شرک ناقابل معافی ہے،کاش یہ بت پرست اور قبر پرست لوگ اس بات کو سمجھ سکیں:

1795653_528091470637536_1173348683_n (1) (1).png



تکفیر کا فتنہ :

اس پر فتن دور میں ایک بڑا مسلہ تکفیر کا ہے جو اس امت کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے -

حدیث مبارک ہے کہ

أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لأَخِيهِ يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ (صحيح مسلم ـ (1/ 56)

جب کوئی شخص دوسرے کو ’’کافر‘‘ کہتاہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کا مستوجب ضرور ہوگا، اگر تو مخاطب کافر ہے تو ٹھیک ورنہ کہنے والا کافر ٹھہرتاہے۔‘‘

تکفیری سوچ کے بُرے نتائج :

یہ غلط سوچ اور یہ بے راہ نظریہ کہ جس کے نتیجے میں ناجائز خون ہی خون، عصمتوں کی پامالی،مالی لوٹ کھسوٹ، ذاتی اور ملی املاک کا ضیاع، ٹرانسپورٹ اور تعمیرات کا جلاؤ گھیراؤ، کارخانوں فیکٹریوں اور صنعتی اداروں کی تباہ کاری، ملک وقوم کی چولیں ہلا دینے والے ناگفتہ بہ حالات، افراتفری کی خوفناک فضاء اور اس جیسا مزید بہت کچھ امت کا منہ چِڑائے ... تو یہ سب بالاجماع شرعاً حرام کام ہیں کیونکہ اس میں بے گناہ جانوں کی حرمت کی پامالی ہے، املاک واموال کی حرمت کی پامالی ہے، امن واستقرار کی حرمت کی پامالی ہے ، پرامن اور بے ضرر گھروں تک محدود، اپنے معاش کی فکر لیے، اپنی صبحیں اور اپنی شامیں خاموشی سے جینے والے معصوم انسانوں کی زندگیوں کی حرمت کی پامالی ہے، اور ہر کس وناکس کی بنیادی ضروریات اور عمومی مصالح کی حرمت کی پامالی ہے۔

برادرانِ امت !کیا ہم یہودیوں سے بھی بُرے ہیں کہ جو اپنے گھر کو مومنوں کے ہاتھوں اور خود آگ لگا لگا خاکستر کر بیٹھتے ہیں۔ کہ ہماری صفوں میں ٹوٹ پھوٹ اور انتشار اس خطر ناک حد کو جا چُھولے کہ ہم ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوں، دشمنی اور بغض ونفرت کانشان بن کر رہ جائیں ، جیسے جناب عثمان غنی t نے کہا تھا :

واللہ ! اگر تم مجھے قتل کر دینے کے درپے ہو ہی گئے ہوتو سن لو کہ میرے بعد تمہارے دلوں سے آپس کی محبتیں اچک لی جائیں گی تم ایک ساتھ نماز باجماعت بھی نہ پڑھو گے، مشترکہ دشمن سے بھی اکٹھے نبرد آزما نہ ہوسکو گے۔

ہمارا بنیادی مقصد مسلم امہ میں پھیلتی اس انارکی کی نشاندہی کرنا ہے ، بالخصوص ان حالات میں کہ جب بوجہ اندرونی وبیرونی عوامل واسباب کے مسلمان کی دین پر گرفت ڈھیلی پڑچکی ہے ، ایسے میں غلط افکار ونظریات دلوں میں راہ پکڑتے ہیں ، اور جاگزیں ہوکر معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں ، اب بیچاری عقلیں اور غافل دل ان افکار کی آماجگاہ اور ان کا شکار ہوکے رہ جاتی ہیں ۔

شاعر نے اسیر محبت ہونے کی کہانی یوں کہی :

أَتاني هواها قَبْلَ أَنْ أَعْرِفَ الهوى
فصادفَ قلباً خالياً فتمكنا

عشق سے نابلد تھا کہ اس کی محبت نے مجھے آگھیرا
دل خالی مِلا تو ڈیرے جما لیئے

یہ مٹھی بھر بیچارے مسلمان اس علمی بیچارگی کاشکار ہیں تو محض اس لیے کہ علم صحیح سے عاری اور علمائے راسخین سے استفادہ سے محروم رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ مخصوص فکر لا علم طبقوں میں فروغ پاتی ہے کہ جہاں اس کا توڑ پیش کرنے والوں کا فقدان ہوتاہے ، اور یہ بیچارے سادہ لوح مسلمان ان اسباب وانداز سے نابلد ہوتے ہیں کہ جو اہل علم کا خاصہ اور پہچان ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ہر کہی سنی بات اور پیش آنے والی ہر صورت وکیفیت کو ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کریں، اگر تو اس سے موافق ہے تو عین حق ہے اور اگر ان سے ٹکرا رہی ہے تو بلاشک وہ باطل ہے ۔ یہی وہ پیمانہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر قول وفعل اور ہر عقیدہ ونظریہ کو پرکھا جائے گا ۔ کہنے والا کوئی بھی ہو .. .۔

اللہ کی توفیق وتائید سے اہل السنۃ کی یہی پہچان ہے ، یہی امتیاز ہے کہ وہ اقوال وعقائد کو کتاب اللہ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر پرکھتے ہیں، تو یہی تا روزِ قیامت حق پر قائم جماعت ہے۔

ہم یہ کہنے میں کوئی باک نہیں رکھتے کہ ایسے تکفیری نظریات وآراء سے اسلام بالکل مبرأ ہے یعنی کتاب اللہ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید اور دلیل کے بغیر تکفیر کردینے سے اسلام بری ہے ، کیونکہ یہ نِرے شر ہی شر اور برائی ہی برائی کا سرچشمہ ہے، اور جہاں جہاں بھی بے گناہ لوگ ناجائز مارے جارہے ہیں ، آبادیاں تباہ کی جارہی ہیں ، یہ ایسی دہشتگردی ہے کہ اللہ اور رسول نے اس کی کہیں اجازت نہیں دی، اور اسلام ایسی کسی بھی کارروائی سے مبرأ ہے ، بلکہ اللہ ورسول پر ایمان رکھنے والا ہر مسلمان اس سے بری ہے ، اس جرم کا مرتکب اپنے اس عمل کو ہرگز ہرگز نیکی اور اسلامی عمل سمجھنے کے دھوکے میں نہ رہے ، نہ ہی اسے اسلام اور ان اہل اسلام پر احسان شمار کرے کہ جو ہدایت دینی کے شاہکار ہیں ، کتاب وسنت کے سچے پیرو ہیں اور حبل اللہ المتین کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ، اسلامی شریعت اور فطرت سلیمہ اس کے اس عمل کو قطعاً قبول نہیں کرتے ۔

سب مسلمانوں پر خواہ کہیں بھی ہوں ، کتنے بھی ہوں یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو حق پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہیں ، البر والتقویٰ کی نصیحتوں کا تبادلہ کرتے رہیں، دانائی،نصیحت بھری دعوت اور مجادلۃ بالتی ھی أحسن کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں۔


اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ

’’وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى‘‘

نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی معاونت کرو۔ (سورۃ المائدۃ 2)


ہم بارگاہ الٰہیہ میں اس کے اسمائے حسنی اور صفات علیا کے ذریعہ دعاگو ہیں کہ سب مسلمانوں کو مشکلات ومعضلات سے محفوظ رکھے، ان کے احوال کی اصلاح اور معاملات کی درستگی فرمائے۔ ان کے ہاتھوں حق کو سرفراز کرے ، وہ یہ سب کرنے کا اہل ہے ، اس پر قادر ہے ۔ آمین

آخر میں ایک نصیحت سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپنے جیسے طالب علموں کو :

فتنوں کے ایام میں مسلمان کے خلاف زبان اور ہاتھ کو روک لینا :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی جنگوں کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک صحابی (احبان بن صیفی الغفاری رضی اللہ عنہ)کے پاس آئے اور کہا کہ میرے ساتھ میدان جنگ میں چلو۔
اس صحابی نے کہا:
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فتنوں کے دور میں تم لکڑی کی تلوار بنا لینا ( اور اب جبکہ دو مسلمان گروہ باہم برسرپیکار ہیں ) اور میرے پاس لکڑی کی تلوار ہی ہے، اگراسی طرح پسند کرتے ہیں تو چل پڑتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کو چھوڑ کر چلے گئے ۔


(الجامع الصحیح سنن ترمذی ، باب ماجاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنۃ عن عدیشۃ بنت اھبان بن صیفی الغفاری)

کسی مسلمان شخص یا جماعت یا ادارہ کی تکفیر سے اجتناب کرنا:

اگر آپ کو کسی شخص کے بارے میں کسی بات یا عمل کا علم ہوتا ہے تو آپ اس شخص یا ادارہ یا جماعت پر کفر کا حکم لگانے کی بجائے اس کے کفر یہ قول یا فعل پر حکم رکھیں ۔کہ اس کا فلاں کام یا بات کفر یہ یاشرکیہ ہے یعنی حکم عمل پر رکھیں، افراد پر نہیں! یہ سب سے محتاط انداز ہے اور اس معیّن شخص وغیرہ کی تکفیر سے اجتناب کریں ۔کیونکہ یہ آپکے ذمے نہیں !

فتنہ پرور لوگوں کی محافل سے کلی اجتناب:

کم علم تکفیری اورگمراہ کن نظریات کے حامل لوگوں کی مجالس اور ان کے ساتھ بحث سے اجتناب کرنا-

اس کے علاوہ گمراہ علماء کس طرح امت کو جہنم کی طرف گامزن کر رہے ہیں

گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ان سے بچنا !!!

، قَالَ:


كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "

"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"
آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ"


( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335] ۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا (مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999 ء 35:21, 296-97 ) میں) -

کیا آپنے کبھی سوچا ہے کہ وہ رسول ﷺ جو دن رات اپنی امّت کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتے رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟


تو وضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:

تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے نہ کودنے کو مسلسل خبردار کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔

ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:


"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين

" کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اسے بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجائےکچھ اور ہوگا-"

[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نی بھی روایت کیا ہے]

اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں:

قلت:

وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كلفقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً
?يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة


" میں کہتا ہوں : یہ حدیث رسول الله ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے انکو آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول الله ﷺ سے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟

[ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]

آخر میں ہم دعا گوہیں کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس تباہ کن فتنوں سے محفوظ فرمائے اور اگر کسی مسئلہ کی سمجھ میں دشواری ہو تو اسے علماء سے رجوع کرتے ہوئے سلف صالحین کے فہم پر موقوف کریں تا کہ معاملے کی اصلیت کو پہچان سکیں اور سیدھی راہ پر چلتے رہیں ۔

اللہ ہمیں زندہ اسلام پر رکھے اور کفار کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت کی موت نصیب فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین
 
Last edited:
Top