محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
ایک اور نصیحت سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر دین کے ہر طالب علم کو !
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :238
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :18/ ربیع الآخر 1435 ھ، م 18،فروری 2014م
میرا کرنٹ اکاونٹ؟
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُحديث نمبر :238
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :18/ ربیع الآخر 1435 ھ، م 18،فروری 2014م
میرا کرنٹ اکاونٹ؟
(صحيح مسلم : 1631، الوصية – سنن أبوداؤد : 2880 ، الوصايا – سنن الترمذي: 1376 , الأحكام )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ، سوا تین چیزوں کے ، صدقہ جاریہ ، یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو ، یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعاء کرے ۔
{ صحیح مسلم ، سنن ابو داود ، سنن الترمذی }
تشریح :
یہ دنیا دار العمل ہے اس میں انسان و ہ نیک اور برا عمل کرتا ہے جس کا بدلہ اسے دار الجزاء یعنی آخرت میں ملنے والا ہے ، وہ وقت دور نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوتاہی کرنے والے جنہوں نے اپنی آخرت کے لئے کوئی نیک عمل نہیں کیا ہے شرمندہ ہوں گے ، لیکن وہاں یہ شرمندگی کام نہ آئے گی ، وہاں بندہ نہ تو اپنی نیکیوں میں ایک ذرے کا اضافہ کرسکے گا اور نہ ہی اپنی بدیوں میں کوئی کمی کرسکے گا ، یعنی جب اسے موت آجائے گے تو اس کی نیکیوں اور بدیوں کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا ، البتہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے تین ایسے عمل رکھے ہیں جن کا سلسلہ وفات کے بعد بھی چلتا رہتا ہے ، زیر بحث حدیث میں انہی تینوں کا ذکر ہے ۔
[۱] صدقہ جاریہ :
صدقہ جاریہ سے مراد اپنی زندگی میں نکالا گیاوہ صدقہ ہے جس سے وفات کے بعد بھی لوگ مستفید ہورہے ہیں ، جیسے ایسے مکان و زمین وغیرہ جس کی آمدنی سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے ، یا ایسے برتن جن کے استعمال سے مستفید ہوا جارہا ہے ، یا ایسے جانور جن پر سواری یا ان کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے ، یا دینی کتابیں اور قرآن مجید کے نسخے جنہیں پڑھ کر لوگ مستفید ہورہے ہیں ، یا مسجدیں اور مدرسے وغیرہ جن سے اللہ کے بندے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔
ان تمام چیزوں سے جب تک فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا اس کا اجر بندے کو پہنچتا رہے گا ، اللہ تعالی کے راستے میں وقف کرنے کا یہ عظیم فائدہ ہے ، خصوصا وقف کردہ وہ چیزیں جن سے دینی امور جیسے علم ، جہاد اور عبادت میں مدد لی جاتی ہے ۔
[۲] مفید علم :
یعنی انسان ایسا علم چھوڑ کر جائے جس سے اس کے بعد بھی فائدہ اٹھایا جائے ، جیسے وہ علم جسے طالب علموں کو سکھایا ہے ، یا وہ علم جسے لوگوں میں دعوت وغیرہ کے ذریعہ عام کیا ہے یا دینی علوم میں کتابیں تالیف کی ہیں ، اس طرح جس علم کا فائدہ مسلسل جاری ہے تو اس کا اجر بھی جاری رہے گا ، چنانچہ آج کتنے عالم ہیں جو سینکڑوں سال پہلے وفات پاچکے ہیں لیکن ان کی کتابیں پڑھی جارہی ہیں اور ان کے طلبہ کا سلسلہ جاری و ساری ہے ، اس طرح ان کے نیک عمل کا سلسلہ بھی بفضلہ تعالی جاری ہے ۔
[۳] نیک اولاد :
خواہ بیٹا ہو ، یا پوتا ہو یا نواسا ، خواہ مرد ہو یا عورت ،اگر نیک ہیں تو ان کے والد کو ان کی نیکی اور دعا کا اجر ملتا رہتا ہے ، اولاد اگر نیک ہے تو وہ ہر وقت اپنے والدین کے لئے مغفرت ور حمت اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہے ۔
زیر بحث حدیث میں جو کچھ مذکور ہے اس کا بیان اس فرمان الہی میں ہے :
[إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي المَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآَثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ] {يس:12}
بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ وہ اعمال بھی جن کو لوگ بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے ۔
آیت میں " ما قدموا " [ ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں ] سے مراد وہ نیک اور برے اعمال ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور " و آثارھم " [ اور ان کے وہ اعمال جو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ] سے مراد وہ اعمال ہیں جن کے عملی نمونے وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اقتدا میں یا اس کے سکھانے سے لوگ بجا لاتے ہیں ۔
اس اعتبار سے مردوں کے لئے ایصال ثواب کا مسئلہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ صدقہ ، یا میت کی طرف سے صدقہ جاریہ ، علم نافع اور دعا ایصال ثواب کے یہ مسنون طریقے ہیں ان کے علاوہ میت کے ذمہ اگر حج اور فرض روزے ہیں تو حدیثوں سے ان ک ادائیگی کا بھی ثبوت ہوتا ہے ، اسی طرح میت کے اوپر اگر قرض ہے تو اس کی ادائیگی کا بھی میت کو فائدہ پہنچتا ہے،ان کے علاوہ کسی بھی بدنی عبادت کا اجر میت کو نہیں پہنچتا اور نہ ہی ایصال ثواب کا کوئی اور طریقہ شریعت سے ثابت ہے ۔
فوائد :
1) ہر مسلمان کو اپنے اخروی اکاونٹ کی فکر کرنی چاہئے ۔
2) کچھ ایسے بھی ذرائع آمدنی اختیار کریں کہ موت کے بعد بھی آمدنی جاری رہے ۔
3) صدقہ جاریہ کیلئے علم کی ترویج و اشاعت میں حصہ لینا چاہئے ۔
4) ایصال ثواب کیلئے وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو مسنون ہے ۔
الحمدللہ : انٹرویو اختتام ہوا -
محدث فورم کو بہت بہت شکریہ جنھوں نے مجھے اس قابل سمجھا -
Last edited: