محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
27۔دین اسلام کی ترقی و بلندی کے لیے ، مسلمانوں میں کس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟؟
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ۔
بلاشبہ اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو عروج عطا کرتا ہے اور کچھ کو اس کے ذریعے سے ذلیل کرتا ہے۔
مزید وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِالسَّلامِ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا > فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: < بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَائٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ، وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ >، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ:< حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ >۔
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں''، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ''وہن'' ڈال دے گا''، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے ''۔
پہلا سبب
دین و علم دین سے دوری ہے۔ مسلمان نہ ان کو چھوڑتے نہ انہیں یہ دن دیکھنے کو ملتے۔ قرآن عظیم میں اللہ تبارک و تعالٰی نے صاف صاف اعلان فرما دیا کہ
“نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران آیت139)
ایمان شرط اور اس کی جزاء برتری و سر بلندی ہے۔ شرط چھوڑ کر جزاء کا طالب ہونا انتہائی بھول ہے۔ نری نادانی ہے۔ صاحب نورالعرفان اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
“اللہ تعالٰی کا وعدہ بالکل سچا ہے ہم نا اہلوں نے شرط پوری نہ کی جس کی وجہ سے پست ہوگئے اور صحابہ کرام، خصوصاً خلفائے راشدین سچے اور مخلص مسلمان تھے کیونکہ رب نے ایمان کی شرط پر سر بلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور انہیں سربلندی خلافت و حکومت سب کچھ بخشی، معلوم ہوا کہ ان میں وہ شرط موجود تھی۔“
مگر ہمارا حال یہ ہے کہ اپنی پہچان تک برقرار نہیں رکھ پاتے آج کے مسلمان کو دیکھنے کے بعد یہ امتیاز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ مسلمان ہے یا کوئی اور۔ اور جس قوم نے اپنا مذہبی شعار کھو دیا یا زمانہ نے اس کو ایسی ٹھوکر ماری ہے کہ روئے زمین سے اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
دوسرا سبب
آپسی اختلافات اور گروہ بندی ہے۔ آج مسلم دنیا کا جائزہ لیجئے تو کوئی آپ کو باہم متفق و متحد نظر نہیں آئے گا ایک ملک دوسرے ملک کے درپے آزار تو ہے ہی۔ لیکن گھریلو زندگی میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
تیسرا سبب
مسلمانوں کی بے حسی ہے۔ کیونکہ جس قوم کا احساس مر جاتا ہے دنیا اسے اپنے قدموں تلے روند دیتی ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ دنیا کے کسی خطے میں اگر کسی نصرانی یا یہودی کا قتل ہو جاتا ہے تو پوری عیسائیت و یہودیت اس کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے لیکن دنیا کے اکثر خطوں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے مگر مسلمانوں کی بے حسی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ایک عرصہ سے فلسطین و افغانستان اور چیچنیا و عراق نیز لبنان میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اور مسلم حکمراں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
چوتھا سبب
اقتصادی زبوں حالی ہے۔ مجموعی طور پر مسلم دنیا کی اقتصادی حالت نہایت کمزور ہے۔ جو ترقی کیلئے اہم رکاوٹ اور ذلت و خواری کا سبب بنی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت تو یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ اور اس میں سے آدھی سے زیادہ نصارٰی کے پاس ہے۔ اور پھر بقیہ دولت میں قوم مسلم و دیگر قومیں مشترک ہیں۔
پانچواں سبب
سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری پسماندگی ہے۔ مسلم دنیا میں سوائے چند کے نہ تو کوئی ماہر سائنس ہے اور نہ علمی دانشگاہیں۔ حالت یہ ہے کہ آج تنہا جاپان میں جتنی یونیورسٹیاں ہیں پوری مسلم دنیا میں اتنی نہیں۔ کیا یہ مسلمانوں کے علم سے بے توجہی نہیں ؟؟
چھٹا سبب
صنعت و حرفت میں مسلم دنیا کا پیچھے رہ جانا آج جتنے بھی ممالک اپنی ترقی پر نازاں اور معاشیات پر خوش ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ صنعت و حرفت میں پیش پیش ہیں۔ مگر مسلم ممالک اس میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
ساتواں سبب
مسلمانوں اور یہود و نصارٰی کا باہمی اختلاط حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک عہد میں مسلمانوں نے یروشلم پر اپنا علم فتح بلند کیا۔ آپ نے وہاں کے لوگوں کیلئے ایک پالیسی مرتب فرمائی۔ جس میں دیگر امور کے علاوہ یہودیوں سے عدم اختلاط کا معمولی اظہار بھی تھا۔ لیکن زمانے نے کروٹیں بدلیں مسلمانوں نے حدیث رسول “اخرجوا لیھود والنصاری من جزیرۃ العرب“ کو فراموش کردیا اور“علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین“ پر عمل پیرا نہ ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1948ء میں یروشلم میں ایک ظالم ریاست اسرائیل کے نام سے وجود میں آئی۔ جس نے 1967ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول کو ان کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ اور مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ بیت المقدس کے در و دیوار پھر عمر فاروق اعظم، خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدین اسلام کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
یہ ایک پریشان کُن حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمان حکمران غیر مسلموں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں. مسلمان حکومتیں اپنے چھپے ہوئے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں. اور دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آپس میں ہی لڑ مر رہے ہیں. اور دنیا کے ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں وہاں ان کی حالت دگرگوں ہے اور ان کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے .
دنیا کے قدرتی وسائل کا 60 سے 70 فیصد حصہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں ہے یا کہہ لیں کہ مسلمان ملکوں میں ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں کی حالت نہایت خراب ہے. آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس یعنی او آئی سی جس میں اس وقت 57 مسلمان ملک شامل ہے کا کردار بھی کچھ خاص نہیں بلکہ قابل رحم ہے.دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا کوئی ایشو سامنے آتا ہے وہاں پہ او آئی سی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی ہوئی نظر آتی ہے . جب اس کے برعکس یورپین یونین جس کے ممبر ممالک کی تعداد صرف 27 ہے ان سب کی کرنسی ایک ہے اور ان کا ویزا سسٹم ایک ہے . اور جہاں کہیں ان ممالک کا کوئی بھی مسلہ کھڑا ہوتا ہے یورپی یونین مکمل طور پہ ان کا ساتھ دیتی ہے.جبکہ تمام مسلمان ممالک و مسلمانوں کو پوری دنیا میں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے.اور یہ ممالک اپنے جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد حصہ تعلیم پہ خرچ کررہے ہیں جس وجہ سے یہ تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی میں پوری دنیا سے پیچھے ہیں.
کافر آج بھی اسی پرانے طریقہ کار پہ عمل کررہے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑائو ان میں ناتفاقی بڑھائو اور ان پہ حکومت کرو اور کچھ ہمارے اپنے ہی ان کو یہ مقصد حاصل کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں.بعض سامراجی قوتیں خصوصا امریکہ یہی طریقہ کار استعمال کرکے مشرق وسطی کے ممالک کے قدرتی وسائل پہ قبضہ جمانے کا خواہاں ہے.اور مسلمان دنیا بھر کی سب سے زیادہ قدرتی وسائل اور سب سے زرخیز زمین رکھنے کے باوجود ان سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہیں.اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو سمجھنا ہوگا ورنہ وہ اسی طرح سے تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنتے رہیں گے.
اللہ پاک ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے کی اور اپنے اور پرائے کو پرکھنے کی توفیق دے. آمین
دین اسلام میں مسلمانوں کو ترقی و بلندی اصل کے طرف پلٹنے سے مل سکتی ہیں -
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
دین اسلام میں مسلمانوں کی ترقی و بلندی کیلئے مسلمانوں کو واپس اپنے اصل دین کی طرف پلٹنا ہو گا ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کریں، جن میں سرفہرست شرک اور بدعت ہیں امت میں شرک اور بدعت کے خاتمہ کے لئے امت میں قرآن و سنت کی تعلیم عام کریں ۔ مغربی کلچر و ثقافت چھوڑ کر محمدی کلچر پر عمل پیرا ہوں، خواتین پردہ کریں اور اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں داخل نہ کروائیں جہاں ان کے عقیدے و ایمان برباد ہونے کا اندیشہ ہو۔
فرقہ واریت امت مسلمہ کیلئے زہر قاتل ہے امت کے وجود کو مستحکم کرنے کیلئے اس ناسور سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے، اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے امت مسلم میں لاالہ الا اللہ کا پیغام عام کریں، فرقہ واریت کے خاتمے کے لئےمسلمانوں میں قرآن و سنت کی تعلیم عام کی جائے تو فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ !
امت مسلمہ کی کامیابی و بقا اسلامی تعلیمات پر عمل میں پوشیدہ ہے ۔
مسلمانان عالم کے مسائل کا حل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہے جبکہ درپیش مسائل سے نجات حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کو قدم قدم دین اسلام کے مطابق چلنا ہو گا۔
اگر آج بھی اجتماعی طور پر مسلمان خشوع و خضوع کے ساتھ قرآن مجید اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جوڑ لیں تو انہیں روشن مستقبل کی ضمانت مل سکتی ہے ۔
ہمیں اپنی کامیابی اور فلاح کیلئے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن ماننے والے ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائیں ۔
آخر میں ایک نصیحت سب سے پہلے اپنے آپکو اور پھر دین کے ہر طالب علم کو :
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ۔
بلاشبہ اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو عروج عطا کرتا ہے اور کچھ کو اس کے ذریعے سے ذلیل کرتا ہے۔
مزید وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِالسَّلامِ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا > فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: < بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَائٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ، وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ >، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ:< حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۹۱)، وقد أخرجہ: حم ( ۵/۲۷۸) (صحیح)
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں''، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ''وہن'' ڈال دے گا''، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے ''۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4297
سب سے پہلے ھم یہ دیکھیں کہ مسلمان کی زوال کے اسباب کیا ہیں
مسلمانوں کی تباہی و بربادی کے چند اہم اسباب
قارئین کرام ! دنیا آج جن افسوس ناک حالات سے گزر رہی ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ عیسائیت و یہودیت جس ملک کو چاہتی ہے اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے اور مسلم دنیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتی رہتی ہے۔ یورپ و امریکہ کے صلیب بردار مسلمانوں کو لقمہ تر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ فلسطین و لبنان اور افغانستان و عراق اس کی زندہ اور تازہ مثالیں ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم قوم اس قدر لاچار و بے بس ہے۔ جبکہ تعداد کے اعتبار سے مسلمان ہی دنیا کی دوسری بڑی قوم ہے۔ غور و غرض کے بعد کچھ اسباب سامنے آئے جو مختصراً پیش ہیں۔پہلا سبب
“نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران آیت139)
“اللہ تعالٰی کا وعدہ بالکل سچا ہے ہم نا اہلوں نے شرط پوری نہ کی جس کی وجہ سے پست ہوگئے اور صحابہ کرام، خصوصاً خلفائے راشدین سچے اور مخلص مسلمان تھے کیونکہ رب نے ایمان کی شرط پر سر بلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور انہیں سربلندی خلافت و حکومت سب کچھ بخشی، معلوم ہوا کہ ان میں وہ شرط موجود تھی۔“
مگر ہمارا حال یہ ہے کہ اپنی پہچان تک برقرار نہیں رکھ پاتے آج کے مسلمان کو دیکھنے کے بعد یہ امتیاز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ مسلمان ہے یا کوئی اور۔ اور جس قوم نے اپنا مذہبی شعار کھو دیا یا زمانہ نے اس کو ایسی ٹھوکر ماری ہے کہ روئے زمین سے اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
دوسرا سبب
تیسرا سبب
چوتھا سبب
پانچواں سبب
چھٹا سبب
ساتواں سبب
آٹھواں سبب
یہ ایک پریشان کُن حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمان حکمران غیر مسلموں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں. مسلمان حکومتیں اپنے چھپے ہوئے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں. اور دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آپس میں ہی لڑ مر رہے ہیں. اور دنیا کے ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں وہاں ان کی حالت دگرگوں ہے اور ان کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے .
دنیا کے قدرتی وسائل کا 60 سے 70 فیصد حصہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں ہے یا کہہ لیں کہ مسلمان ملکوں میں ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں کی حالت نہایت خراب ہے. آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس یعنی او آئی سی جس میں اس وقت 57 مسلمان ملک شامل ہے کا کردار بھی کچھ خاص نہیں بلکہ قابل رحم ہے.دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا کوئی ایشو سامنے آتا ہے وہاں پہ او آئی سی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی ہوئی نظر آتی ہے . جب اس کے برعکس یورپین یونین جس کے ممبر ممالک کی تعداد صرف 27 ہے ان سب کی کرنسی ایک ہے اور ان کا ویزا سسٹم ایک ہے . اور جہاں کہیں ان ممالک کا کوئی بھی مسلہ کھڑا ہوتا ہے یورپی یونین مکمل طور پہ ان کا ساتھ دیتی ہے.جبکہ تمام مسلمان ممالک و مسلمانوں کو پوری دنیا میں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے.اور یہ ممالک اپنے جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد حصہ تعلیم پہ خرچ کررہے ہیں جس وجہ سے یہ تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی میں پوری دنیا سے پیچھے ہیں.
نواں سبب :
کافر آج بھی اسی پرانے طریقہ کار پہ عمل کررہے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑائو ان میں ناتفاقی بڑھائو اور ان پہ حکومت کرو اور کچھ ہمارے اپنے ہی ان کو یہ مقصد حاصل کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں.بعض سامراجی قوتیں خصوصا امریکہ یہی طریقہ کار استعمال کرکے مشرق وسطی کے ممالک کے قدرتی وسائل پہ قبضہ جمانے کا خواہاں ہے.اور مسلمان دنیا بھر کی سب سے زیادہ قدرتی وسائل اور سب سے زرخیز زمین رکھنے کے باوجود ان سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہیں.اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو سمجھنا ہوگا ورنہ وہ اسی طرح سے تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنتے رہیں گے.
اللہ پاک ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے کی اور اپنے اور پرائے کو پرکھنے کی توفیق دے. آمین
دین اسلام میں مسلمانوں کو ترقی و بلندی اصل کے طرف پلٹنے سے مل سکتی ہیں -
اصل کیا ہیں :
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
دین اسلام میں مسلمانوں کی ترقی و بلندی کیلئے مسلمانوں کو واپس اپنے اصل دین کی طرف پلٹنا ہو گا ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کریں، جن میں سرفہرست شرک اور بدعت ہیں امت میں شرک اور بدعت کے خاتمہ کے لئے امت میں قرآن و سنت کی تعلیم عام کریں ۔ مغربی کلچر و ثقافت چھوڑ کر محمدی کلچر پر عمل پیرا ہوں، خواتین پردہ کریں اور اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں داخل نہ کروائیں جہاں ان کے عقیدے و ایمان برباد ہونے کا اندیشہ ہو۔
فرقہ واریت امت مسلمہ کیلئے زہر قاتل ہے امت کے وجود کو مستحکم کرنے کیلئے اس ناسور سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے، اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے امت مسلم میں لاالہ الا اللہ کا پیغام عام کریں، فرقہ واریت کے خاتمے کے لئےمسلمانوں میں قرآن و سنت کی تعلیم عام کی جائے تو فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ !
امت مسلمہ کی کامیابی و بقا اسلامی تعلیمات پر عمل میں پوشیدہ ہے ۔
مسلمانان عالم کے مسائل کا حل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہے جبکہ درپیش مسائل سے نجات حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کو قدم قدم دین اسلام کے مطابق چلنا ہو گا۔
اگر آج بھی اجتماعی طور پر مسلمان خشوع و خضوع کے ساتھ قرآن مجید اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جوڑ لیں تو انہیں روشن مستقبل کی ضمانت مل سکتی ہے ۔
ہمیں اپنی کامیابی اور فلاح کیلئے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن ماننے والے ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائیں ۔
آخر میں ایک نصیحت سب سے پہلے اپنے آپکو اور پھر دین کے ہر طالب علم کو :