اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت :
۔۔۔ وہی ہے جس کا کچھ تذکرہ سطوربالا میں بھی کیا گیا ہے یعنی ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکار کرنا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔
اوریہ اصول منکرین حدیث کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے
یعنی آج جوصحیح احادیث منکرین حدیث کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپر قابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!
منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔
منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جس کی ایک واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر والے دھاگے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کسی
T.O. صاحب کی تحقیق کے ذریعے تاریخ و سیرت کی کتب کے بےسند حوالہ جات کو صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔
منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں
ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں
اور
محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی
مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :
سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ٭
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ٭
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )
اﷲ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پر نہیں جو اﷲ سے ڈرتے ہیں ، ( اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں
صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کاایک لازمی جزو ہے
پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکور ظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لاگو کرنا محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ محض ظن کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پر ہی کیا جاتا ہے اور گواہی کا ظنی ہونا اظہرمن الشمس ہے
پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے اس کے باوجود جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے اور نافذ العمل سمجھا جاتا ہے
جبکہ رواۃ حدیث کا جھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہوا کہ اصولی طورپر احکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کو ثابت اورغالب کرنے کےلئے قابل قبول اورمفید ہے یعنی احادیث کو اگر ظنی کہا بھی جائے تب بھی احادیث امور دین میں دلیل و حجت ہیں۔
منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں
اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں
بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ : یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں
ثبوت کے طورپر غلام احمد پرویز صاحب کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ:
بحوالہ : قرآنی فیصلے ص:506
کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کو کچھ واسطہ نہیں ہوتا اس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہا جا سکتا، ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواس طرح حفظ کیا ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے، فلاں امام نے کیا کہا ہے ، فلاں مفسر کا کیا قول ہے ، فلاں محدث کا کیا ارشاد ہے اور جو کچھ انہیں ان کتابوں میں لکھا ملتا ہے وہ اسے حرفاً حرفاً نقل کر دیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کو قطعاً دخل نہیں دینے دیتے اس لئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے Catalogur یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول :
' فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا '
قرآن نے اس کو 'حمل اسفار' یعنی کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیا ہے یہ اپنے محدود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے
منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے اس لئے یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کا پردہ بھی چاک کر دیا جائے
تاکہ معلوم ہو جائے کہ
- قرآن نے عقل کا استعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیا ہے
- اور کہاں ہرمسلمان عقل کے بجائے اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے ؟
اولاً : عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
[ARABIC]قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ،کیا تم عقل نہیںرکھتے۔
( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا اﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں
اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
[ARABIC]إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ[/ARABIC]
بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف اﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً
سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
[ARABIC]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے
( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے
اسی طرح عقل کااستعمال کرنے کامشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیاہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پرکمربستہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ برائی کاانجام برا نہیں ہوتا
مثلاً سورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ :
[ARABIC]قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤمیںبتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیاحرام کیاہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤخواہ وہ کھلاہو یا چھپاہواورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲنے حرام کیاہویہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )
یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیاجارہاہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں او ر مذاہب میں بھی موجود رہیں تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہےتاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپرکوئی بوجھ نہ سمجھیں
اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کا تضاد بھی ہے ،اسکے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ:
[ARABIC]أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہوپس کیاتم عقل نہیں رکھتے
[ARABIC]( سورة البقرة : 2 ، آیت : 44 )[/ARABIC]
یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یاتوجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکانہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کودے رہاہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے
اسی طرح ہروہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہواس پر اصرار کرنے والوں کوبھی قرآن نے عقل کے استعمال کامشورہ دیاہے
مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہواکہ:
[ARABIC]يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے) بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 65 )
یہاں اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کررہاہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں
اس لئے قرآن اسکی مذمت کررہاہے
یعنی
عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود اﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے
بلکہ اسکی تشریح اﷲتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے
جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے فرمایا:
[ARABIC]فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ[/ARABIC]
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے
( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )
اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرناچاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں
البتہ سورۃ بقرۃ کی ایک آیت ہے جہاں کسی کواس قسم کااشکال ہوسکتاہے اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
[ARABIC]يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ[/ARABIC]
یہ لو گ جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے یہ بڑے گناہ ہیں اوراس میں لوگوں کوکچھ منفعت بھی ہے لیکن ان کاگناہ انکے نفع سے کہیں بڑھ کر ہے اوروہ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ (اﷲ کی راہ میں ) کیاخرچ کریں، کہہ دیجئے کہ وہ سب جوتمہاری ضرورت سے زائد ہے ،اس طرح ہم اپنی آیات کوکھول کربیان کردیتے ہیں تاکہ یہ لوگ غور وفکر کریں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 219 )
یہاں اس آیت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے شراب اور جوئے کے ممانعت کی حکمت بیان کی ہے اوراس کے بالمقابل صدقہ کاحکم دیا ہے تاکہ لوگ ان معاملات میں تھوڑے اورظاہر ی فائدے کونہ دیکھیں بلکہ اس کے گناہ اور نقصان کومدنظر رکھیں جو نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اوراس کے بعد غور فکر کی دعوت اس لئے دی گئی ہے تاکہ لوگ دین کے باقی احکامات پر بھی یہ یقین رکھتے ہوئے عمل کریں کہ ان سب احکامات کی کوئی نہ کوئی وجہ اورحکمت ضرور ہے اگرچہ ہم جانتے نہ ہوں
اور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ جولوگ ان احکامات پرغور فکرکریں گے ان کواس میں سے بعض احکامات کی حکمت معلوم بھی ہوجائے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان احکامات پرعمل کرناسب کے لئے فرض ہے مگر انکی حکمت کو جاننا ہر ایک پر فرض نہیں کیونکہ یہاں لفظ
"لعلکم" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں
شاید کہ تم ،
امید ہے کہ تم یا
توقع ہے کہ تم غوروفکرکرو گے ۔
لیکن منکرین حدیث کے سرخیل پرویز صاحب نے صرف اسی کوعلم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اورکتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیا ہے جوتمام کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے حالانکہ لفظ ''علم '' کے معنی ہی'' جاننا '' ہیں
اورعلامہ کامطلب ہے بہت زیادہ جاننے والا
یعنی عالم دین اسی شخص کوکہاجائےگاجوقرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کوجانتاہوکیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوں اقوال ،افعال و اعمال کے استفادہ سے جن پراﷲ تعالیٰ کاانعام ہوا اور جو قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ،شہداء اورصالحین ہیں ۔
اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اورعلمیت مشروط ہے عقل سے تو پھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ، مدبراورعلم منطق کے ماہرافراد کے راستےکوصراط مستقیم ہوناچاہیے تھاجبکہ ایسانہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات صرف حدیث کے منکر نہیں بلکہ علوم اورحصول علم کے طریقوں کے بھی منکرہیں !!
ورنہ پرویز صاحب علماء کرام کے متعلق
حوالہ جات کی فہرست اور
محض حافظ جیسے الفاظ استعمال کرکے اہل علم سے بدظن نہ کرتے !
اوراب اس کانتیجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کے پیروکارحضرات اپنے گھر میں کبھی کوئی قرآن کی تفسیر یا حدیث کی کتاب یااس کی شرح نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔
انجام کار جو پرویز صاحب نے کہا پرویز صاحب کی روحانی اولاد بھی آج وہی کہہ رہی ہے
اور جس کے حوالے یہیں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح اپنے ہی دینِ حنیف کے علماء کرام کو مولوی / ملا کہہ کر اپنی عقل کو برتر اور علماء کو پستی کا شکار بتایا جا رہا ہے !!
اپنی عقلی برتری کی تصدیق یا تردید کا کوئی بھی ذریعہ جناب پرویز اور ان کے متبعین کے پاس نہیں ہے اس طرح بے علمی کے ساتھ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہو رہے ہیں اوردوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
منکرین حدیث کی ایک چھٹی شناختی علامت بھی ہے :
جو صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جوانکار حدیث کے ضمن میں انتہاء درجہ پرنہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پر ہیں
ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یا بعض احادیث کی اقسام کومانتے ہیں اوربعض کونہیں ماننے
مثلاً بعض حضرات اپنے آپ کومنکرحدیث تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اطیعواﷲ سے مراد اﷲ کے احکام کی پابندی کرنااور اطیعوا لرسول سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ اوراحادیث پرعمل ہے ، لہذا جہاں قال اﷲ تعالیٰ کا لفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ حدیث نبوی ہوگی
ان صاحبان نے قرآنی آیت اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طورپر نامکمل اورغلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں بلکہ حدیث ، اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اورتقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہاجاتاہے
یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اوراﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تنبیہ نہیں کی بلکہ ان کوبرقرار رکھا مزید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کوبھی حدیث کہا جاتا ہے اوراس کے لئے
حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
اسی طرح ہروہ بات جو قال اﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اورمحدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو "
حدیث قدسی" کہاجاتا ہے۔
پس معلو م ہوا کہ منکرین حدیث کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔
(تمام شد)