ایسی روایات اور اہلِ حدیثیت آپ ہی کو مبارک ہو کہ محض ایک ثقہ راوی کی ثقاہت پر آپ کو یقین کامل ہے مگر اللہ تعالٰی قرآن میں حضرت ابراہیم ؑ کو صدیق فرما رہا ہے اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ اللہ تعالٰی کہہ رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ صدیق ہے مگر محض ایک روایت کے بل پہ ایک نبیؑ کو نعوذ باللہ ۔۔۔۔۔۔
برصغیر میں جس طرح سے انکار حدیث کا فتنہ عروج پر ہے ہر ذی شعور اس بات کا معترف ہے۔ آخر ایک رسول کو ماننے والے مسلمان رسول کی کیوں نہیں مانتا؟ یہ ایک اہم ترین سوالیہ نشان ہے، جو آج تک امت کے ارد گرد موجود ہے۔ چند صدیاں قبل انکار حدیث کی مختلف صورتیں تھیں اور آج کے اس دور میں فتنہ انکار حدیث نے کچھ اور طریقے سے اس باطل نظریئے کو اجاگر کیا ہے۔ لیکن اگر گہری نظر اور تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو علامات مختلف ہیں ، مگر مقاصد یکجا ہیں۔
اس فتنے کی بنیادی وجوہات دین سے دوری ، مغربی تعلیم اور اس کی مادی تحقیق سے متاثر غیر مسلم تھذیب سے مرعوبیت اور سیاسی و فکری محکومی سر فہرست دکھائی دے گی۔ آج کے نت نئے گلابی منکرین حدیث اتنے جذباتی بہاؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ غیروں کی فکر اور سوچ اس قدر غالب ہو جاتی ہے کہ وہ شعارِ اسلام کی بغیر پرواہ کیے ہوئے عقل کی کٹ پتلیاں کو بروئے کار لا کر عقائد کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔ بر صغیر میں اس فتنہ کی ابتداء سر سید احمد خان کی مرہون منت ہے۔ جس کی آبیاری آج یہ گلابی منکر حدیث کر رہے ہیں۔ پاکستان میں انکار حدیث کو ایک مشن کا نام دے کر اسے اسلامی اورقرآنی نظام کا جامہ پہنا کر پھیلانے میں پرویز کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جو انگریز حکومت کا ملازم اور فکری طور پر ان کی علمی برتری کا حامل تھا۔
موجودہ دور میں بھی جتنے انکار حدیث کے حامل ہیں آپ ان میں بھی اسی سوچ کو پائیں گے جس عقائد کو غلام پرویز نے پھیلایا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ایسے محدثین کو پیدا فرمایا کہ جنہوں نے ایسے فتنوں کا صدر اسلام میں یہی قلعہ کمہ کیا اور ان کی بھر پور کوششوں سے ان فتنوں کا استصال ہوا۔
اگر ہم تیرہویں صدی کا مطالعہ کریں تو یہ واضح انکشاف ہوتا ہے یورپ کی یلغار کے بعد فتنہ انکار حدیث نے دوبارہ اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ جنم لیا۔
عقل وحی کے تابع یا وحی عقل کے ؟
انکار معجزہ، انکار حدیث ان باطل عقائد کےپیچھے جو اہم وجہ چھپی ہے وہ ہے ہی یہی کہ اپنی عقل کو اس قدر مقام دے دیا گیا کہ اسے وحی الہٰی کے جانچنے کا اصل معیار قرار دے دیا گیا۔ ایمان کی برتری کا سب بڑا دشمن ہی یہی غلط عقیدے کا جال ہے کہ وحی الہٰی عقل کے تابع ہے اور تمام وحی کا انحصار عقل کی سمجھ بوجھ پر ہے۔ انکار حدیث کے فتنے میں عقل پرستی کا جو بھوت سوار ہے دراصل یہ بھی مغرب کی علمی مرعوبیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لیے یہاں بھی عقل ہی کو کل سمجھ لیا گیا ہے، اور جب عقل کو کل سمجھ لیا جائے گا تو نظریات کا وہی جال ہوگا جوجال عقل پرستوں کا یعنی ڈارون کا ہوا ان کی (Theory) اس قدر تار عنکبوت سے بھی ابتر تھی کہ چند سالوں بعد ہی ان کی عقل کے نتائج کو زمین بوس کر دیا گیا اور آج اسی سائینس کو ماننے والے اس نظریے کو غلط بھی سمجھ رہے ہیں اور لوگوں کو اس غلط نظریہ کا رد کرنے پر بھی اپیل کر رہے ہیں۔
مگر ایک مسلمان اور غیر مسلم کے زاویہ فکر اور تفکر خوض و فکر میں ایک نمایاں فرق موجود ہے وہ یہ ہے کہ اسلام عقل کے استعمال کو بڑھاوا دیتا ہے مگر عقل کی کمزوریاں اور اس کی بعض کوتاہ حدود کا معترف بھی ہے۔ اسی لیے ایک مسلمان وحی کے مقابلے میں ہر گز عقل کو بروئے کار نہیں لاتا۔ جیسے ہی اسے قرآن و صحیح حدیث سے کوئی حکم ملتا ہے وہ سر تسلیم اپنے سر کو خم کر دیتا ہے اور اپنی ناقص عقل کو خالق کائنات کے تابع کر دیتا ہے مگر ایک غیر مسلم وحی کے ہوتے ہوئے بھی وہ اسی بات پر اڑا رہتا ہے کہ جدید تحقیق کے تناظر میں جوبات ثابت ہوگی وہی قابل قبول ہوگی۔ تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم مغربی محققین کی یہ روش پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر عیاں ہوتی ہے کہ ان کی کتب میں عقل پرستی کو وحی پر غالب رکھا ہے اور ایمانی طور پر ان کی مذہبی کتابوں نے انہیں اس قدر محدودیت اور احساس کمتری کا نشانہ بنایا کہ آج وہ خود اسی ششو پنج میں مبتلا ہیں کہ آیا حق کیا ہے۔۔۔
مگر اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جو ضابطہ حیات بخشا ہے اسی تعلیم کی پاداش میں ایک مسلم اپنی سمجھ اور عقل پر وحی کو فوقیت دیتا ہے اور وہ اس فعل پر اطمینان ، یقین اور قلب سلیم جیسی نعمت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ عقلی تشریحات و توجیہات ، معروضی حد بندیاں اور منطقی صغرے اور کبرے مزید فائدے کے لیے تو ہو سکتے ہیں اور اسلام میں ان کی ایک حد تک اجازت بی ہے مگر اسلام میں جو اصل کسوٹی قرار پائی ہے وہ بنیادی طور پر وحی الہٰی قرآن و صحیح حدیث ہی ہے۔
انکار حدیث کے فتنے نے سب سے بڑا گل ہی یہی کھلایا کہ اس نے ہر فرد کو اتنا تعقل پسند بنا دیا کہ ہر شخص جس آیت کو چاہتا ہے اس کی من مانی تشریح کرتا ہے اور جس حدیث کی چاہتا ہے بناوٹی تاویل دے کر اس کا رد کر دیتا ہے، اور دراصل یہی تعقل پسندی کا دوسرا نام انکار حدیث ہے۔ لہٰذا دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی زیر نگرانی میں انسان تدبر اور تفکر کے سمندر میں غوطے لگائے اگر اس سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا تو اسی سمندر میں وہ اپنی جان کھو بیٹھے گا۔
عقل کی وجہ سے بے عقلی کا ثبوت:
جو عقل کا استعمال اس حد تک اپنے اوپر لاگو کر دے کہ عقل کو وحی کے مقابل کھڑا دے تو یقیناً ایسی عقل ہی بے عقلی کا ثبوت مہیّا کرتی ہے، کیونکہ محدود لا محدود میں سما سکتا ہے، لیکن لا محدود ، محدود میں کبھی بھی سما نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر عقل انسانی پر اتنا اندھا اعتماد قائم ہو جائے تو یہ عقل حدیث رسول ﷺ کو چیلنج کرتی ہے اور پھر اسی عقل کی اندھی تقلید بندے کو عقل کا اندھا بنا دیتی ہے۔ موجودہ منکرین حدیث یہ بیان تراشتے ہیں کہ متعدد احادیث صحیحہ ہماری عقل سے بالاتر ہیں جس کی وجہ سے ہم ان احادیث کا انکار کر تے ہیں جو جدید تحقیقات یا عقل عام (Common Sense) سے متصادم ہوتی ہیں۔ اسلام کو چھوڑ کر باقی ادیان کے ماننے والوں کو یہ عقل پسندی کا نعرہ گوارہ ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے ہاں الہامی ہدایات نہ صرف تحریف شدہ ہیں بلکہ ان پر عمل کرنا ہر دور میں خصوصاً آج کے دور میں محال ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ محرف الہامی تعلیمات پر ایمان کم لاتے ہیں اور اس کی جگہ پر اپنی عقل کے گھوڑے زیادہ دوڑاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں دین اسلام نہ صرف ایک مکمل دین و ضابطہ حیات ہے بلکہ وہ تحقیق و بہترین دین کے اعتبار سے غیر محرف اور اعلیٰ تحقیقی معیاروں پر بھی محفوظ ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت کے ماننے والوں کو عقل برتری پر مبنی رجحانات ہر گز زیب نہیں دیتے۔
وہ احادیث جن کا انکار کیا گیا صرف عقل کی وجہ سے
حالت حیض میں مباشرت:
وحی کے مقابلے میں عقل کا استعمال قرآن شریف میں مذکور ہے کہ:
﴿وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ﴾
(البقرة: ۲۲۲)
''یہ آپ سے حیض کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیے یہ ایک تکلیف ہے پس دور رہو دوران حیض اپنی عورتوں سے۔''
آیت مبارکہ میں دو حکم ہیں:
اول: حیض کی حالت میں عورتوں سےدور رہیے۔
دوم: اور ان کے قریب بھی نہ جائیں۔۔
مگر حدیث میں اس آیت کی واضح خلاف ورزی ہے کہ:
''عن عائشة کان یامرنی فاتزر فیباشرنی وانا حائض۔''
(صیح بخاری، کتاب الحیض، رقم الحدیث ۲۹۰)
''سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : مجھے آپ ﷺ حکم دیتے میں ازار باندھ لیتی ، پھر مجھ سے مباشرت کرتے اور میں اس وقت حیض سے ہوتی۔''
مندرہ بالا قرآن مجید کی آیت اور حدیث کو آپس میں متصادم ٹھہرا کر اس کی من مانی تشریح کر دی گئی، اور پھر اس امر کا تقاضا کر دیا کہ حدیث من گھڑت اور عقل کی کسوٹی سے کوسوں دور ہے۔ انہی اسباب کے تحت بخاری شریف کی حدیث نا قابل یقین ہوگئی۔
قارئین کرام! عقل کو کسوٹی بنا کر اور اپنی سمجھ بوجھ کو وحی الہٰی کے تابع نہ کر کے اللہ کے فرمان اور اس کے رسول کے فرمان کو الگ الگ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا ، مگر حقیقت میں حدیث رسول ﷺ پر ہر گز قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے۔
وحی کے تابع عقل:
اگر یہاں بھی ہم وحی کے تابع اپنی عقل کو کرتے ہیں تو یہ انکار ان شاء اللہ اقرار میں اور بے سمجھی سمجھداری میں تبدیل ہوگی۔
مندرجہ بالا حدیث پر سب سے زیادہ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس میں حالت حیض میں مباشرت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ قرآن میں اس امر سے اجتناب کا حکم صادر فرمایا گیا ہے۔ اسی غلط فہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مباشرت مطلب اردو زبان میں مجامعت سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس عربی میں مباشرت کا اور معنی بنتا ہے اور وہ ہے جلد کا جلد سے لگنا ، چھونا وغیرہ۔ عربی میں ہر گز مباشرت کا مطلب صحبت کرنا یا مجامعت کرنا نہیں ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ان المباشرة فی الاصل التقاء البشرتین''
(نیل الاوطار ، شرح منتقی الاخبار، باب تقبیل الصائم، ج۳)
''مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں۔''
صاحب عون المعبود نے بھی اسی معنی کو راجح قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
'' معنی المباشرة ھٰھنا المسّ بالیدین من التقاء البشرتین''
''یعنی مباشرت سے یہاں صرف ہاتھ سے چھونا اور دو جسموں کا ملنا ہے۔''
عربی لغت کی مایہ ناز تصنیف لسان العرب ج۱، صفحہ ۴۱۳ میں ابن منظور نے واضح طور پر فرمایا کہ :
''جس حدیث میں مباشرت کا لفظ یا بوسہ و کنار کے الفاظ موجود ہیں اس سے اصل مراد مس کرنا ہے اور اس سے مراد صحبت وغیرہ کرنا نہیں ہے۔''
لہٰذا مباشرت کا اصلی اور حقیقی معنی یہی ہوگا کہ جسم سے جسم کا چھونا اور یہ بات ہر گز قرآنِ مجید کے خلاف نہیں ہے قرآن نے جس چیز سے روکا وہ جماع کرنا ہے اور حدیث میں واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے نفس پر قابو رکھتے اور تم میں سے کون ہے کہ اتنا اپنے نفس پر قابو رکھے؟ لہٰذا یہاں سے بھی یہ واضح ہوا کہ مباشرت بمعنی (مس) چھونے کے ہیں ۔ صحیح البخاری میں کئی ایک ایسے مقامات ہیں جن میں یہ لفظ اپنے اصلی معنی مستعمل ہوا ہے۔ مثلاً کتاب النکاح کے باب کے عنوان امام بخاری نے یوں قائم فرمایا کہ :
''لا مباشرة المراة المراة''
یعنی کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ نہ سوئے یا اس کے ساتھ نہ چمٹے۔
لہٰذا واضح ہوا کہ صحیح حدیث قرآن مجید سے ہر گز متصادم نہیں ہے۔