ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں
حَدِيث: مثل الَّذِي يحجّ من أمتِي عَن أمتِي كَمثل أم مُوسَى كَانَت ترْضِعه، وَتَأْخُذ الْكِرَاء من فِرْعَوْن. رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش: عَن صَفْوَان بن عَمْرو، عَن عبد الرَّحْمَن بن جُبَير بن نفير، عَن أَبِيه، عَن معَاذ.
وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.
اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا
عام طور سے ثقہ کی صحیح سند روایت اگر اپنے اپ سے بہتر ثقہ کی مخالف ہو تو شاذ ہوتی ہے اور قبول نہیں کی جاتی
’’ منکر ‘‘ سے مراد حدیث کا ’’ غریب ‘‘ ہونا ہے ۔ گویا امام ابن عدی (القیسرانی ناقل ہیں) اس روایت کو تفرد کی وجہ سے ضعیف قرار دے رہے ہیں ۔ (الکامل ج1ص436)
اور یہ کوئی عجیب یا انوکھی بات نہیں بعض راویوں کے اندر اس قدر اہلیت نہیں ہوتی کہ ان کی تفرد والی روایات قبول کی جائیں ۔
ابن الجوزی کے مطابق یہ حدیث بیان کرنے میں ’’ اسماعیل بن عیاش ‘‘ سے غلطی ہوئی ہے ۔(تلخیص الموضوعات ص 212) کیونکہ یہ سچے تھے لیکن بعض دفعہ روایات بیان کرنے میں ان کو وہم ہو جاتا تھا ۔
بہرصورت خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث کے متن پر علماء نے کلام کیا ہے ان کی اسانید میں بھی ضعف ہے ، اسانید بالکل ٹھیک ہوں اور متن کو محدثین نہ مانیں یہ مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔
ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں
حَدِيث: مثل الَّذِي يحجّ من أمتِي عَن أمتِي كَمثل أم مُوسَى كَانَت ترْضِعه، وَتَأْخُذ الْكِرَاء من فِرْعَوْن. رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش: عَن صَفْوَان بن عَمْرو، عَن عبد الرَّحْمَن بن جُبَير بن نفير، عَن أَبِيه، عَن معَاذ.
وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.
اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا
عام طور سے ثقہ کی صحیح سند روایت اگر اپنے اپ سے بہتر ثقہ کی مخالف ہو تو شاذ ہوتی ہے اور قبول نہیں کی جاتی
محدثین کی کتب العلل میں بھی ایسی روایات پر بحث ملتی ہے
ایک روایت ہے
لا تحل الصدقة لمن كان عنده خمسون درهماً
صدقه واجب نہیں ہوتا الا کہ پچاس درہم ہوں
اس کو یحیی ابن معین منکر کہتے ہیں
جبکہ راوی ثقہ ہیں
تاريخ ابن معين (رواية الدوري)
سَمِعت يحيى وَسَأَلته عَن حَدِيث حَكِيم بن جُبَير حَدِيث بن مَسْعُود لَا تحل الصَّدَقَة لمن كَانَ عِنْده خَمْسُونَ درهما يرويهِ أحد غير حَكِيم فَقَالَ يحيى بن معِين نعم يرويهِ يحيى بن آدم عَن سُفْيَان عَن زبيد وَلَا نعلم أحدا يرويهِ إِلَّا يحيى بن آدم وَهَذَا وهم لَو كَانَ هَذَا هَكَذَا لحَدث بِهِ النَّاس جَمِيعًا عَن سُفْيَان وَلكنه حَدِيث مُنكر هَذَا الْكَلَام قَالَه يحيى أَو نَحوه
ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں
أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ
محمّد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ایک حلقہ میں سنا جس میں احمد بن حنبل ، یحیی بن معین ابو خَيْثَمَةَ اور وَالْمُعَيْطِيَّ تھے اور روایت يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَة عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا -
ذکر ہوا سب نے کہا اس سلسلے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں
اسی کتاب میں یہ بات بھی لکھی ہے
سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا
عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ حدیثوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں
اس روایت کی ١٨ اسناد تو مسند احمد میں موجود ہیں اور امام احمد کے نزدیک صحیح مسلم کی اس روایت کی سند بھی معلول ہے
محدثین کا اپس میں بعض حدیث کی تصحیح پر اختلاف رہا ہے
راویوں کے ثقہ ہونے سے روایت کی صحت لازم نہیں آتی ، اسی طرح کسی سند میں راوی ضعیف ہیں تو ضروری متن بھی ضعیف ہوگا یہ ضروری نہیں ۔
محدثین کے نزدیک حدیث ضعیف کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ’’ شاذ ‘‘ اس کے راوی ثقہ ہوتے ہیں لیکن حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ حدیث حسن لغیرہ ہے اس کے راوی ضعیف ہوتے ہیں لیکن حدیث مقبول ہوتی ہے ۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ محدثین صرف سند کو ہی نہیں بلکہ متن کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔