السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تقریبا اٹھارہ سال قبل، تین سالہ بیٹی کو گود میں اُٹھائے ہوئے بیگم کے ہمراہ پارک میں داخل ہوا اور بیٹی کو گود سے اُتارا اور اُسے پیار سے کہا کہ اب آپ پیدل چلو!!
چند قدم چلنے کے بعد بیٹی نے کہا:
پاپا جی!! مجھے گود اُٹھا لیں!!
میں نے کہا:
بیٹا جی!! ہم یہاں پیدل گھومنے پھرنے آئے ہیں..آپ بھی پیدل چلو!!
تھوڑی دیر بعد پھر بولی:
مجھے گود اُٹھا لیں!!
میں بولا:
وہ دیکھیں سب بچے پیدل چل رہے ہیں..آپ بھی پیدل چلیں!!
چند قدم مزید چلنے پر پھر اس نے کہا:
پاپا جی!! مجھے گود اُٹھا لیں!!
میں نے پھر وہی نصیحت کی..
لیکن بیگم بچی کی جانب اُسے اُٹھانے کے لیے بڑھی تو میں نے اشارے سے منع کر دیا اور بیٹی سے کہا:
اب اگر آپ نے کہا کہ مجھے گود اُٹھا لیں تو میں واقعی آپ کو گود میں اُٹھا لوں گا اور سیدھا گھر لے جاؤں گا...
خیر...پہلے کی نسبت کچھ مزید قدم چلنے کے بعد بیٹی نے پھر وہی مطالبہ کر دیا...ابتسامہ!
میں نے اُسے گود اُٹھایا اور یو ٹرن لیتے ہوئے بیگم سے کہا:
چلیں واپس!!
بیگم: ہائیں!! آپ تو بچی کے ساتھ ضد میں آگئے ہیں..اتنی دور سے آئے ہیں..گھومے بغیر ہی واپسی..عجیب ہیں آپ بھی..وغیرہ...وغیرہ..
بہرحال..یاد نہیں کہ کیا کیا سننا پڑا تھا...لیکن کون ایسی باتیں یاد رکھتا ہے....اور پھر ہم گھر واپس لوٹ آئے بے نیل مرام... ابتسامہ!
خیر...قصہ مختصر...کہ اس عمل کا ردعمل یہ ہوا کہ دو تین دن کے بعد دفتر سے واپس آیا تو بیگم نے مطلع کیا:
آج آپ کی بیٹی صحن میں کھڑی ہو کر باآواز بلند کہہ رہی تھی:
پاپا جی اب میں کبھی نہیں پارک میں کہوں گی..مجھے گود اُٹھا لیں..مجھے پارک میں لے جائیں..
اُسی دن ہم دوبارہ پارک میں گئے..اور پھر بے شمار مرتبہ گئے لیکن اُس نے پھر کبھی گود والا مطالبہ نہ کیا..اُس معصوم کو سمجھ آگئی تھی کہ پاپا جی جو بات سنجیدگی سے کہتے ہیں اُس پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے...ابتسامہ!
اس قصے کا ذکر اس لیے کیا کہ بچوں کو سنجیدہ بات سمجھانے کے لیے بعض اوقات کوئی عملی قدم بھی اُٹھانا پڑتا ہے گو کہ کام مشکل ہوتا ہے لیکن مثبت نتائج کی اُمید بھی ہوتی ہے..