سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
مولوی اس معاشرے کا ’’اچھو‘‘ بن چکا ھے
.
.
ایک اسکول میں ایک بچہ پڑھا کرتا تھا اس کا اصل نام تو اشرف تھا لیکن اس کی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے لڑکے اس کا مذاق اڑاتے اور اس کی کچھ شراتوں کی وجہ سے سب اسے ’’اچھو پہلوان‘‘ ہی کہا کرتے تھے۔
.
اچھو پہلوان کا مسئلہ یہ تھا کہ اسکول کا نلکا ٹوٹ جائے تو استاد صاحب انکوئری بعد میں کرتے اور پوچھتے اچھو پہلوان کہاں ہے؟
اور جیسے ہی اچھو سامنےآتا ڈنڈے سے شاندارچھترول شروع کر دیتے بعد میں معلوم ہوتا کہ وہ نلکا تو پلمبر سے ٹوٹا تھا۔..... استاد صاحب کا پین نہیں ملتا تو اچھو کی شامت آجاتی اوراسے مرغا بننے کا حکم دے دیا جاتا بعد میں معلوم ہوتا کہ یہ پین تو خود استاد صاحب نے میز کی دراز میں رکھا تھا۔
.
کلاس کے لڑکے بھی اتنے ہی ہو شیار تھے اگر کسی سےکوئی غلطی ہو بھی جاتی تو الزام اچھو کے سر ہی لگا دیتا یوں اچھو پورے اسکول میں مشہور ہوگیا ....ٔ. ہر شرارت خواہ وہ کوئی بھی کرے الزام اچھو ہی کے سر آتا تھا۔
.
ایک دفعہ ایک بچے نے آ کر استاد صا حب کو بتا یاکہ سر! باہر دو بسوں میں تصادم ہو گیا ہے کافی لوگ ز خمی ہو گئی ہیں۔
.
اچھو نے جب یہ سنا تو خاموشی سے اٹھا اور جا کر مرغا بن گیا۔........ استاد صاحب نےدو لگائے اور کہا:
’’باہر بندے مررہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رہی ہیں۔‘‘
.
اچھو نے بھول پن کے ساتھ کہا: ’’استاد جی آخر میں قصور تواچھو ہی کا نکلے گا نا!ِِ
.
تو بس مولوی بھی اس معاشرے کا اچھو بن چکا ہے ..... ہر کوتاہی اسی کے کھاتے میں ..... ترقی نہ کر سکے ..... مجرم کون؟ مولوی.
ملک کرپشن کے سبب پیچھے جا رہا ہے ..... مجرم کون ہے ؟ مولوی
بے حیائی وعریانیت کے سبب ریپ کے واقعات میں ہولناک اضافہ ..... مجرم کو ن ہے ؟مولوی.
سائنس میں مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں ..... مجرم کون ؟ مولوی
لوگوں کو انصاف میسر نہیں آرہا ..... مجرم کون ؟ مولوی
.
.
ہر جرم مولوی کے سر پر رکھ کر جاہلوں کے چوراہے پر جملوں کے تیروں اور پھبتیوں کے نیزے اور طعن و وتشنیع کے نشتر سے مذہب اسلام کو چھلنی کرنا چاہو تو کر دو ہم باخلاق بھی رہیں گے اور با کردار بھی رہیں گے۔
.
کالجز اور یونیورسٹیز پر جو اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں وہ سائنٹسٹ پیدا کیوں نہیں کر رہے؟؟
جب کہ ان کے مقابلے میں مولوی نے تو یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ وہ سائنٹسٹ بنا رہا ہے۔
.
الٹا سائنسدان ہونے کے دعوے دار سائنسی ایجادات کے بجائے میڈیا پر اسلام کے خلاف ٹاک شو کرتے نظر آتے ہیں.
.
ملک میں کرپشن کا ذمہ دار مولوی نہیں ..... اس پر کوئی آواز نہیں ..... عدل و انصاف کی دھجیاں بکھر کر رہ گئیں ہر طرف خاموشی مگر سب خاموش.
.
کوئی ایک بے وقوف احمق شخص محض ڈاڑھی رکھ کر گالیاں بک دے تو سارا دن میڈیا اس جعلی عامل کی پٹائی دکھاتا رہتا ہے لیکن یہی ’’آزاد‘‘ میڈیا لاکھوں انسانوں کی خدمت کرتے انسانیت کے خدمتگاروں کو نہیں دکھاتا... الٹا فلاحی کاموں پر پابندیاں ضرور لگواتا ھے.
.
جہاں آپ کا میڈیا سارا دن ایک کھلاڑی کو ہیرو کے روپ میں پیش کرتا ہو ..... جہاں ایک بچے کے ذہن میں آئیڈیل ایک کھلاڑی ہو ..... وہاں نسل نو اسکالر، پروفیسر، ڈاکٹر اور انجنئیر بننے کے بجائے کھیل کو ترجیح دے گی.....
.
جہاں میچ جیتنے کی خوشی میں کھلاڑی کا شاندار اور فقید المثال استقبال کیا جاتا ہو ..... اور جہاں ایک سائنس دان جو باہر ملک سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن واپس آئےاسے وطن میں نوکری ملی کہ نہیں اس کی کسی کو پرواہ بھی نہیں ہوتی.....
.
ایک بات پر غور کیجیے اگر ہم یہ کہیں کہ
’’دیکھو! دنیا چاند پر پہنچ گئی اور یہ درزی آج بھی کپڑے سی رہا ہے‘‘
توآپ کو حیرت نہیں ہو گی.
.
لیکن مولوی کا تذکرہ آجائےتو فورا مولوی پر تنقید شروع ..... مولوی نے کب دعویٰ کیا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے؟؟؟؟
.
یہ تنقید ان سائنسدانوں پر ہونی چاہیے جو سائنس پر تحقیق کے بجائے میڈیا پر آکر اسلام پر بات کررہے ہوتے ہیں.
.
یہ تنقید ان تعلیمی اداروں پر ھونی چاہیے... جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں یہ بنائیں گے وہ بنائیں گے..... اکثریت کلرکوں سے بڑھ کر کچھ نہیں بن پاتے.
.
حقیقت یہ ہے کہ ان کے نزدیک مسئلہ مولوی ہے ہی نہیں .....
یہ تو لاکھوں لوگوں کو بھی دو چارسو کہہ کر نہیں دکھاتے اکثریت کی بات تو محض ایک بہلاوا ہے اصل مسئلہ تو اسلام ہے اور اسلام کو برا کہنے کی یہ جرأت نہیں کر سکتے اس لیے ایک بے چارہ مولوی ہی ہے گالیاں دینے کے لیے.
(منقول)
Sent from my SM-G360H using Tapatalk
.
.
ایک اسکول میں ایک بچہ پڑھا کرتا تھا اس کا اصل نام تو اشرف تھا لیکن اس کی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے لڑکے اس کا مذاق اڑاتے اور اس کی کچھ شراتوں کی وجہ سے سب اسے ’’اچھو پہلوان‘‘ ہی کہا کرتے تھے۔
.
اچھو پہلوان کا مسئلہ یہ تھا کہ اسکول کا نلکا ٹوٹ جائے تو استاد صاحب انکوئری بعد میں کرتے اور پوچھتے اچھو پہلوان کہاں ہے؟
اور جیسے ہی اچھو سامنےآتا ڈنڈے سے شاندارچھترول شروع کر دیتے بعد میں معلوم ہوتا کہ وہ نلکا تو پلمبر سے ٹوٹا تھا۔..... استاد صاحب کا پین نہیں ملتا تو اچھو کی شامت آجاتی اوراسے مرغا بننے کا حکم دے دیا جاتا بعد میں معلوم ہوتا کہ یہ پین تو خود استاد صاحب نے میز کی دراز میں رکھا تھا۔
.
کلاس کے لڑکے بھی اتنے ہی ہو شیار تھے اگر کسی سےکوئی غلطی ہو بھی جاتی تو الزام اچھو کے سر ہی لگا دیتا یوں اچھو پورے اسکول میں مشہور ہوگیا ....ٔ. ہر شرارت خواہ وہ کوئی بھی کرے الزام اچھو ہی کے سر آتا تھا۔
.
ایک دفعہ ایک بچے نے آ کر استاد صا حب کو بتا یاکہ سر! باہر دو بسوں میں تصادم ہو گیا ہے کافی لوگ ز خمی ہو گئی ہیں۔
.
اچھو نے جب یہ سنا تو خاموشی سے اٹھا اور جا کر مرغا بن گیا۔........ استاد صاحب نےدو لگائے اور کہا:
’’باہر بندے مررہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رہی ہیں۔‘‘
.
اچھو نے بھول پن کے ساتھ کہا: ’’استاد جی آخر میں قصور تواچھو ہی کا نکلے گا نا!ِِ
.
تو بس مولوی بھی اس معاشرے کا اچھو بن چکا ہے ..... ہر کوتاہی اسی کے کھاتے میں ..... ترقی نہ کر سکے ..... مجرم کون؟ مولوی.
ملک کرپشن کے سبب پیچھے جا رہا ہے ..... مجرم کون ہے ؟ مولوی
بے حیائی وعریانیت کے سبب ریپ کے واقعات میں ہولناک اضافہ ..... مجرم کو ن ہے ؟مولوی.
سائنس میں مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں ..... مجرم کون ؟ مولوی
لوگوں کو انصاف میسر نہیں آرہا ..... مجرم کون ؟ مولوی
.
.
ہر جرم مولوی کے سر پر رکھ کر جاہلوں کے چوراہے پر جملوں کے تیروں اور پھبتیوں کے نیزے اور طعن و وتشنیع کے نشتر سے مذہب اسلام کو چھلنی کرنا چاہو تو کر دو ہم باخلاق بھی رہیں گے اور با کردار بھی رہیں گے۔
.
کالجز اور یونیورسٹیز پر جو اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں وہ سائنٹسٹ پیدا کیوں نہیں کر رہے؟؟
جب کہ ان کے مقابلے میں مولوی نے تو یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ وہ سائنٹسٹ بنا رہا ہے۔
.
الٹا سائنسدان ہونے کے دعوے دار سائنسی ایجادات کے بجائے میڈیا پر اسلام کے خلاف ٹاک شو کرتے نظر آتے ہیں.
.
ملک میں کرپشن کا ذمہ دار مولوی نہیں ..... اس پر کوئی آواز نہیں ..... عدل و انصاف کی دھجیاں بکھر کر رہ گئیں ہر طرف خاموشی مگر سب خاموش.
.
کوئی ایک بے وقوف احمق شخص محض ڈاڑھی رکھ کر گالیاں بک دے تو سارا دن میڈیا اس جعلی عامل کی پٹائی دکھاتا رہتا ہے لیکن یہی ’’آزاد‘‘ میڈیا لاکھوں انسانوں کی خدمت کرتے انسانیت کے خدمتگاروں کو نہیں دکھاتا... الٹا فلاحی کاموں پر پابندیاں ضرور لگواتا ھے.
.
جہاں آپ کا میڈیا سارا دن ایک کھلاڑی کو ہیرو کے روپ میں پیش کرتا ہو ..... جہاں ایک بچے کے ذہن میں آئیڈیل ایک کھلاڑی ہو ..... وہاں نسل نو اسکالر، پروفیسر، ڈاکٹر اور انجنئیر بننے کے بجائے کھیل کو ترجیح دے گی.....
.
جہاں میچ جیتنے کی خوشی میں کھلاڑی کا شاندار اور فقید المثال استقبال کیا جاتا ہو ..... اور جہاں ایک سائنس دان جو باہر ملک سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن واپس آئےاسے وطن میں نوکری ملی کہ نہیں اس کی کسی کو پرواہ بھی نہیں ہوتی.....
.
ایک بات پر غور کیجیے اگر ہم یہ کہیں کہ
’’دیکھو! دنیا چاند پر پہنچ گئی اور یہ درزی آج بھی کپڑے سی رہا ہے‘‘
توآپ کو حیرت نہیں ہو گی.
.
لیکن مولوی کا تذکرہ آجائےتو فورا مولوی پر تنقید شروع ..... مولوی نے کب دعویٰ کیا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے؟؟؟؟
.
یہ تنقید ان سائنسدانوں پر ہونی چاہیے جو سائنس پر تحقیق کے بجائے میڈیا پر آکر اسلام پر بات کررہے ہوتے ہیں.
.
یہ تنقید ان تعلیمی اداروں پر ھونی چاہیے... جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں یہ بنائیں گے وہ بنائیں گے..... اکثریت کلرکوں سے بڑھ کر کچھ نہیں بن پاتے.
.
حقیقت یہ ہے کہ ان کے نزدیک مسئلہ مولوی ہے ہی نہیں .....
یہ تو لاکھوں لوگوں کو بھی دو چارسو کہہ کر نہیں دکھاتے اکثریت کی بات تو محض ایک بہلاوا ہے اصل مسئلہ تو اسلام ہے اور اسلام کو برا کہنے کی یہ جرأت نہیں کر سکتے اس لیے ایک بے چارہ مولوی ہی ہے گالیاں دینے کے لیے.
(منقول)
Sent from my SM-G360H using Tapatalk