"دیکھا مسز عنبر کو۔۔شاہانہ مزاج اور زندگی۔۔ہائے جی۔۔بس لوگوں کے نصیب۔۔مٹی میں ہاتھ ڈالو تو سونا نکلے۔۔۔" وہ کھڑکی کے کواڑ میں کھڑی انہیں ٹیرس میں بیٹوں کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ رہی تھی"اور ایک ہم جیسے۔۔۔بس ناں"وہ بد دلی سے کھڑکی چھوڑ کر پیچھے ہوئی۔
ضمیر اسے مگن بڑبڑاتا دیکھ کر ادھر سے گزرتے گزرتے رک گیا۔"اہاں!مسز عنبر۔۔اچھی ہیں بہت۔۔اچھی بات ہے کہ انہوں نےسکھ کا سانس لیا بالآخر"وہ کھڑکی سے جھانکتا زیر لب مسکرا رہا تھا۔سن کر ان سنی کرنا کہاں سے اس کا شیوہ تھا۔
اسکے چہرے کے زاویے بدلنے لگے،چہرہ سرخ پڑا۔ضمیر نے پلٹ کر اسے درشتگی سے دیکھا۔وہ خوفزدہ سی بولنے کے لیے پر تولتی ادھر ہی رک گئی۔
"بس۔۔شکر گزاری نہ کیجیے گا کبھی۔لاکھوں کیا کروڑوں سے اچھی ہو اور ایسے لوگوں کو تو درے لگنے چاہئیں جو سمجھتے ہیں کہ بس آپ نے جھولا جھولا اور آسمان پر جا اترے اور اب وہاں مزے سے تارے توڑ توڑ خوش ہوتے ہیں۔کون جانے کہ اس جھولے پر کتنے کانٹے تھے،جس سے پاوں زخم زخم ہوئے،زخم رستے رہے،ابھی تک رس رہے ہیں۔خود دار نہ ہوتے تو خود آ کر دکھاتے۔آسمان پر تارے توڑتے ہوئے کتنی دفعہ لگا کہ بس اب گرے کہ اب۔ہاتھ ان گیسوں کے آلاو کو پکڑتے انگارہ ہو جاتے۔۔مگر آپ کو کیا؟آپ کو تو ان کا جھولا لینا ہی کاٹ گیا۔جانتی بھی ہو کیا کہ وہ جھولا اپنے بدن سے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر بنایا گیا تھا۔۔مفت میں بیٹھے بٹھائے نہیں ملا۔۔شکر گزاری کرنا سیکھو۔طعنے مارنا آسان ہوتے ہیں لیکن سہنا آسان نہیں ہوتا"
وہ ابھی تک سن کھڑی، ہنستی مسکراتی مسز عنبر کو دیکھ رہی تھی۔