السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اجی چھوڑیئے اُن بزرگوں کو!!۔۔ کہیں دور نکل گئے ہوں گے چہل قدمی کرتے کرتے۔۔ ابتسامہ!
خیر۔۔ موصوف کے دو واقعات جو دوران چہل قدمی ہی وقوع پذیر ہوئے تھے، پیش خدمت ہیں:
قریب ستائس سال قبل جب آتش جوان بلکہ نوجوان ہوتا تھا، گویا کہ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ:
میں اور میرا دوست کسی کام سے اچھرے (جگہ کا نام) گئے بلکہ یوں سمجھیئے کہ آوارہ گردی کرتے کرتے اچھرہ موڑ پہنچ گئے کہ میں نے دیکھا:
ایک ٹولی آرہی ہے اور اُس ٹولی کے آگے ایک آدمی ڈھول بجا رہا تھا اور کچھ لوگ ایک بڑی سی سبز رنگ کی منقش چادر تھامے سست روی سے بھاٹی (جگہ) کی جانب رواں تھے۔۔
چونکہ وہ ہمارا جاہلیت کا زمانہ تھا اور اپنی جہالت اور کچھ شرارت کے سبب مجھے اُس ٹولی میں ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔۔
بھلا کیا ؟؟
کہ وہ دھمال نہیں ڈال رہے تھے۔۔ ابتسامہ!!!
بلکہ صرف ڈھول بجاتے ہوئے نذرانے سمیٹتے ہوئے ایک پوجی جانے والی قبر کی طرف جا رہے تھے ۔۔
بس پھر ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔۔ بھاگ کر گئے اور ڈھول والے کے سامنے جا کر دھمال ڈالنی شروع کر دی۔۔
میرے دوست نے مجھے دھمال ڈالتے دیکھا تو وہ بھی شامل ہو گیا۔ اور پھر ٹولی والوں کو بھی ان کی شرکیہ غیرت نے للکارا تو ان میں سے بھی کئی لوگ آ کر دھمال ڈالنے لگے۔۔ اور پھر میں چپکے سے، ان سے الگ ہو کر اپنی منزل مقصود کی طرف چل دیا۔۔ابتسامہ!!
اللہ تعالی میرے گذشتہ گناہ معاف کرے. آمین!!
اُس واقعہ کے کچھ سالوں بعد ٹھیک اُسی جگہ سے چہل قدمی کرتے ہوئے دوبارہ گزرنے کا اتفاق ہوا تو ایک باریش بزرگ ہاتھ میں پمفلٹ پکڑے بانٹ رہے تھے اور ساتھ ساتھ کچھ وعظ و نصیحت بھی کر رہے تھے۔۔ کچھ پمفلٹ میں نے بھی ان سے لیے۔۔ ان کے نام تھے "فلاح کا راستہ" اور "یہ مزار یہ میلے" وغیرہ۔
راستے میں ہی دوران چہل قدمی، انہیں پڑھتا ہوا گھر پہنچا تو طبیعت صاف ہو چکی تھی۔۔ ابتسامہ!! اور فطرت میں ودیعت غیرتِ توحید جاگ چکی تھی۔۔ بس پھر رفتہ رفتہ اللہ کے فضل و کرم سے مختلف دینی گروہوں سے ہوتے ہوئے دینِ حق کو پالیا۔۔ اللہ تعالی استقامت دے..آمین!