• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث بک

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
دونوں اشعار غیر معیاری ہیں اور سطحی زبان اساتذہ شعراء کی نہیں ہونا چاہئیے ۔ واللہ اعلم
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترم جناب @یوسف ثانی صاحب!
آپ کے تعاون کی ضرورت ہے
ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی نے کہا تو یقیناً اپنے بارے میں تھا، لیکن یہ بات مجھ پر بھی سو فیصد صادق آتی ہے کہ:
”اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا، اور اگر کوئی یاد رہ جاتا ہے، تو پھر وہ شعر نہیں رہتا“ ۔ (ابتسامہ)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی نے کہا تو یقیناً اپنے بارے میں تھا، لیکن یہ بات مجھ پر بھی سو فیصد صادق آتی ہے کہ:
”اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا، اور اگر کوئی یاد رہ جاتا ہے، تو پھر وہ شعر نہیں رہتا“ ۔ (ابتسامہ)
تو میری مدد کون کر سکے گا؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس کا چہرہ سیاہ کر دو..........**

حکم ہوا اس کا چہرہ سیاہ کردو....اس کو اونٹ پر بٹھاؤ .... شہر بھر میں پھراو.....
مقصد ؟..... تذلیل اور جی بھر کے تذلیل....من شانت نہ ہوا تھا کہ کتنے ہی روز سے اسے قید میں رکھ تو لیا تھا...صبح شام توھین ..اور تشدد.... دن بھر میں ستر سے زائد کوڑے...اس کی پشت خون سے بھر رہی تھی..لیکن وہ بھی بلا کا ضدی تھا...مان کے ہی نہیں دے رہا تھا...... ستم یہ کہ ہر کوڑے پر پکارتا کہ "جا تجھے معاف کیا".... ستم ظریفی کی حد تھی....
.غصے سے حاکم کا برا حال تھا..."یہ دو ٹکے کا مولوی ، اس کو کاہے کا غرور..." جعفر کا بستر رات بھر انگارے اگلتا رہا... اس کے نسب کا غرور اور مدینہ کا حاکم ہونا اور بے بسی کاعالم...بس صبح اسی عالم میں گھر سے نکلا کہ رات بھر کی بے خوابی آنکھوں سے نظر آ رہی تھی.....
...."بلاؤ اس کو..."... بلایا گیا...."اس کا چہرہ سیاہ کر دو"...."اونٹ پر بٹھاؤ اور شہر بھر میں گھماؤ"....
اونٹ گلیوں گلیوں چل رہا تھا...لوگ لپک رہے تھے...کوئی اس کے پاؤں کو آنکھوں سے لگاتا ...کوئی مسافر کی سواری کی اڑتی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنارہا تھا. ...وہ جو ان کے دیار کی آبرو تھا، ان کے شہر کا جھومر تھا ، دلہا تھا اس کی تذلیل پر ان کے دل کٹ رہے تھے..اور مسافر ان سب سے بے نیاز کہہ رہا تھا..
"جوشخص مجھے جانتا ہے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا ہے وہ جان لے کہ میں مالک بن انس اصبحی ہوں ، اور میرامسلک یہ ہے کہ طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی....."
۔جعفر بن سلیمان تک جب یہ خبر پہونچی تواس نے حکم دیا کہ اونٹ سے اتار لیا جائے....عزت بھلا بندوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے....امام کی کتاب نے آج بھی ان کو زندہ رکھا ہوا ہے.....
....مدت گزری....بغداد کا حاکم منصور مدینہ آیا...اس کو دکھ تھا کہ گورنر نے امام کے ساتھ ظلم کیا....
خلیفہ منصور نے جعفر سے امام مالک کا قصاص لینا چاہا تھا مگر آپ نے روک دیا اور فرمایا :
"واللہ ! جب مجھ پر کوڑا پڑتا تھا میں ا س کو اسی وقت معاف کر دیتا تھا کہ ا سکو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرابت ہے ۔"
...........بھلا ظرف سب کا ایک سا ہوتا ہے..........


.........ابوبکرقدوسی

** آج کچھ یوں ہوا کہ بے تحاشا امام کی یاد آئ.....اور یہ سطور لکھی گئیں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جاءالفقيرعلى باب الغني وطلب منہ خبزا وفلوسا!
قال الغني.يا خالد!قل لعامر،ليقل لبشير،ليقل لنذير ان يعطي خبزا للفقير....

فاجاب الفقير.يااللہ!قل لجبرئيل،ليقل لميكائيل،ليقل لاسرافيل،ليقل لعزرائيل ان يقبض روح ھذا البخيل...
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
اس کا چہرہ سیاہ کر دو..........**

حکم ہوا اس کا چہرہ سیاہ کردو....اس کو اونٹ پر بٹھاؤ .... شہر بھر میں پھراو.....
مقصد ؟..... تذلیل اور جی بھر کے تذلیل....من شانت نہ ہوا تھا کہ کتنے ہی روز سے اسے قید میں رکھ تو لیا تھا...صبح شام توھین ..اور تشدد.... دن بھر میں ستر سے زائد کوڑے...اس کی پشت خون سے بھر رہی تھی..لیکن وہ بھی بلا کا ضدی تھا...مان کے ہی نہیں دے رہا تھا...... ستم یہ کہ ہر کوڑے پر پکارتا کہ "جا تجھے معاف کیا".... ستم ظریفی کی حد تھی....
.غصے سے حاکم کا برا حال تھا..."یہ دو ٹکے کا مولوی ، اس کو کاہے کا غرور..." جعفر کا بستر رات بھر انگارے اگلتا رہا... اس کے نسب کا غرور اور مدینہ کا حاکم ہونا اور بے بسی کاعالم...بس صبح اسی عالم میں گھر سے نکلا کہ رات بھر کی بے خوابی آنکھوں سے نظر آ رہی تھی.....
...."بلاؤ اس کو..."... بلایا گیا...."اس کا چہرہ سیاہ کر دو"...."اونٹ پر بٹھاؤ اور شہر بھر میں گھماؤ"....
اونٹ گلیوں گلیوں چل رہا تھا...لوگ لپک رہے تھے...کوئی اس کے پاؤں کو آنکھوں سے لگاتا ...کوئی مسافر کی سواری کی اڑتی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنارہا تھا. ...وہ جو ان کے دیار کی آبرو تھا، ان کے شہر کا جھومر تھا ، دلہا تھا اس کی تذلیل پر ان کے دل کٹ رہے تھے..اور مسافر ان سب سے بے نیاز کہہ رہا تھا..
"جوشخص مجھے جانتا ہے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا ہے وہ جان لے کہ میں مالک بن انس اصبحی ہوں ، اور میرامسلک یہ ہے کہ طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی....."
۔جعفر بن سلیمان تک جب یہ خبر پہونچی تواس نے حکم دیا کہ اونٹ سے اتار لیا جائے....عزت بھلا بندوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے....امام کی کتاب نے آج بھی ان کو زندہ رکھا ہوا ہے.....
....مدت گزری....بغداد کا حاکم منصور مدینہ آیا...اس کو دکھ تھا کہ گورنر نے امام کے ساتھ ظلم کیا....
خلیفہ منصور نے جعفر سے امام مالک کا قصاص لینا چاہا تھا مگر آپ نے روک دیا اور فرمایا :
"واللہ ! جب مجھ پر کوڑا پڑتا تھا میں ا س کو اسی وقت معاف کر دیتا تھا کہ ا سکو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرابت ہے ۔"
...........بھلا ظرف سب کا ایک سا ہوتا ہے..........


.........ابوبکرقدوسی

** آج کچھ یوں ہوا کہ بے تحاشا امام کی یاد آئ.....اور یہ سطور لکھی گئیں
جزاک اللہ خیرا

Sent from my SM-E700H using Tapatalk
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
جاءالفقيرعلى باب الغني وطلب منہ خبزا وفلوسا!
قال الغني.يا خالد!قل لعامر،ليقل لبشير،ليقل لنذير ان يعطي خبزا للفقير....

فاجاب الفقير.يااللہ!قل لجبرئيل،ليقل لميكائيل،ليقل لاسرافيل،ليقل لعزرائيل ان يقبض روح ھذا البخيل...
بارہا پڑھا قصہ ہے لیکن آج پہلی سطر پڑھتے ہوئے خیال گزرا کہ سائل کہہ دے گا کہ اتنے وسیلوں سے مانگ کر لینے سے بہتر اس ایک اکیلے سے مانگ لینا ہے جس کے در سے مانگنے کے لیے کسی وسیلے کی ضرورت نہ وقت کی پابندی۔۔بس اپنا آپ جھکانا ہے!!
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
آج وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ کے معنی بیان ہو رہے تھے۔۔اہم نقطہ ہے۔ان شاء اللہ فائدہ ہو گا کیونکہ ہم عموما اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے۔
عربی میں "نطق" اس ہلکی سی حرکت کو کہتے ہیں جو چڑیا کا بچہ پیدا ہونے کے بعد بھوک کے اظہار کے لیے چونچ ہلا کر کرتا ہے۔۔یعنی انتہائی معمولی جنبش کہ جس سے چڑیا کو بچے کی بھوک کا اظہار سمجھ آتا ہے۔
یعنی نبی کریم ﷺ اپنی خوہش سے اپنے ہونٹوں کو وہ انتہائی معمولی جنبش بھی نہیں دیتے مگرإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
چند دن قبل ایک جاننے والی بہن نے اپنے ف ب صفحے پر لگانے کے لیے پوچھا کہ آپ کی کوئی تحریر خواتین متعلق ہو گی؟؟آپ کے پاس یا محدث فارم پر؟؟اپنے پاس تو یقینا ہیں لیکن فارم پر خواتین کے لیے خصوصا شاید کچھ نہ ہو ،ہوا بھی تو کسی دھاگے کے تبصرہ جات میں۔۔خیر سے اپنا تبصرہ بھی تحریر برابر ہوتا ہے))
پھر کچھ سوچ کر پوچھا کہ میری تحریر ہضم ہو سکے گی؟
حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیوں خیریت؟
میں نےبتایاکہ ان کے گروپ میں میری ایک تحریر تھی آج کل کی بے حیائی سے ڈسی نوجوان نسل پر۔۔تبصرہ نگار نے بات سمجھی تھی پر کہا تھا کہ تلخ بہت ہے۔
مزاحا کہنے لگیں"دیجیے گا۔۔میں کانٹ چھانٹ کر دوں گی۔۔خواتین کو بھگانا مقصود نہیں"
اپنی تحاریر کو کب ،کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے۔۔کم ازکم کچھ نہ کچھ ضرور جانتی ہوں۔۔لہذا خود سے کسی کو کانٹ چھانٹ کی قعطی اجازت نہیں ۔میں ماحول کے مطابق خود کر دوں گی۔
عموما مجھے دو باتین بہت سننے کو ملتی ہیں یا شاید میں ان کہی محسوس کر لیتی ہوں۔۔ان میں سے ایک بات یہ کہ آپ بہت تلخ لکھتی ہیں۔آپ کا اپنا بیان ہے کہ بارش میں بھیگ کر بھی تحاریر کی تلخی کم نہیں ہوتی))سچ ہے!!کچھ شک نہیں۔بسا اوقات مجھے بھی محسوس ہوتا ہے لیکن جو حالات میں دیکھ چکی ہوں ان میں اس قدر تلخ ہونا بالکل غیر معمولی بات نہیں۔پہلی بات یہ کہ میں دوسروں کی نسبت اپنے لیے زیادہ لکھتی ہوں۔۔دوسروں کے لیے لکھنے والے بہت ہوں گے۔۔اپنے لیے لکھنا چاہتی ہوں۔اپنی تذکیر کے لیے۔صرف تعریف کے لیے نہیں،تذکیر کے لیے بھی "سب سے پہلے میری ذات" کا نعرہ لگانا سیکھیں۔دوسری بات کہ شاید بہت حد تک دقیانوس ہوں۔دین کو فی الحال چھوڑیے(پھر تلخ ہو جاؤں گی))، مشرقی روایات کی پامالی دکھ دیتی ہے۔کہاں بنا چادر کے باہر نکلنا عیب تھا اور کہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں نوجوان بچیوں کے ایسے حلیے ہیں کہ اپنا سر شرم سے جھکتا ہے۔گزشتہ دس سال میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں؟؟جہاں اجنبی کو بھائی اور بہن کہہ کر بہن، بھائی والی عزت دی جاتی تھی اور آج کندھے پر ہاتھ مار ،قہقہہ لگا کر بتایا جاتا ہے کہ دوست ہے۔جہاں بزرگوں کے سامنے سر جھکا کر ادب سے بیٹھنے کا رواج تھا،آج ان کے سامنے منہ پھاڑ کر ان کی سوچ پر تین حرف بھیجے جاتے ہیں۔۔کہاں تک لکھوں اور کیا کیا گنواؤں؟؟تلخ ہونا فقط میری عادت نہیں۔جسے روایات سے محبت ہو گی،ضرور تلخ ہو گا۔روایات سے محبت کر کے دیکھیے۔۔تلخ نہ ہوئے تو آپ کی بے حسی مان لوں گی!!
 
Top